مودی سرکار پاکستان کو کبھی
گجرات سمجھ لیتے ہیں تو کبھی میانمیار سمجھ کر سفارتی آداب بھول جاتے
ہیں۔بھارت کی اصل حقیقت کو تو افغانستان سے آنے والے صرف چند بہادر افغانوں
نے تخت دہلی پر بیٹھ کر ثابت کردیا تھا ہندوستانی طاقت کتنی ہے۔ پاکستان کے
پاس ہتھیار، میزائیل اور بم بھی انہی غیور افغانوں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں
جنھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔گورداس پور واقعہ میں بھارتی میڈیا
نے غیر مبہم تصاویر اور پھر عثمان خان نامی کسی نوجوان کو فیصل آباد کا
رہائشی قرار دیکر سرینگر میں بھارتی فورسز پر حملے کی الزام کی بنیاد پر
بنا تصدیق و ٹھوس شواہد کے ایک بار پھر پاکستان پر الزام عائد کردیا اور
مودی حکومت نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ
سرائی کو برقرار رکھا، حالاں کہ بھارت کی ایک علیحدگی پسند تنظیم نے گورداس
پور واقعہ کی ذمے دار قبول کرلی اور عثمان خان کا تعلق پاکستان سے ثابت نہ
ہوسکالیکن جہاں بھارت کی اپنی زبان ان کے منہ میں نہیں سنبھالی نہیں جاتی
تو دوسری جانب مشرقی سرحدوں پر بنا اشتعال فائرنگ اور مارٹر گولوں سے
پاکستانی علاقوں میں بے گناہ افراد کو شہید اور ان کے گھر تباہ کردیتے
ہیں۔اس بات سے دنیا آگاہ ہے کہ بھارت صرف لفاظی جنگ اور سازش کرنیکی حد تک
ہی محدود رہ سکتا ہے ، بھارتی کے اعلی فوجی افسران میڈیا خود اس بات کا
اقرار کرتے ہیں کہ ہندوستانی فوج صرف بیس دن سے زائد کی جنگ کا متحمل نہیں
ہوسکتا۔ بھارتی سازشوں کا یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک چل رہا ۔
بھارت نے بار بار یہ تسلیم کیاہے کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں
اسکا ہاتھ اور خون ( بہانے میں) شامل تھا اب بنگالی عوام کو یہ سوچنا چاہیے
کہ مشرقی پاکستان جب قائد اعظم بنا رہے تھے تو ان کا دو قومی نظریہ کیا تھا
؟ کیا نسل یا زبان کی بنیاد پر مشرقی پاکستان جیسے وہ اب بنگلہ دیش کہتے
ہیں حاصل کیا گیا تھا ، اب بنگلہ دیش ہی سہی ، لیکن بنگالی مسلمان بھائی
اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو توزندہ رکھیں جس کے تحت انگریزوں سے آزادی ملی
تھی،بھارت ایک ہندو انتہا پسند دہشت گرد ریاست ہے ۔ بھارتی مرکزی وزیر
داخلہ شنڈے نے تسلیم کرچکے تھے کہ ہندوستان میں دہشتگردی کے سازشی عمل میں
درپردہ ہاتھ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہے۔وزیر داخلہ کا یہ بیان خفیہ
رپورٹس کی بنیاد پر ہے۔اس سازشی اورسیاسی کھیل میں دہشتگردی کے حوالے سے
باقاعدہ سرکاری سطح پر پہلی بار اعتراف کیا گیا کہ بھارت میں دہشت گردی کی
تربیت کے کیمپ ہیں جس میں فرقہ پرستانہ فروغ کیلئے مذموم تربیت فراہم کی
جاتی ہے ۔انھوں نے اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد اور مالیگاؤں
میں جو دہشت گردانہ دھماکے میں بے شمار افراد ہلاک ہوئے ان کاروائیوں میں
بی جے پی اور آر ایس ایس ملوث ہیں۔سرکاری سطح تو پہلی بار یہ اعتراف سامنے
آچکا ہے لیکن ، اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ
بی جے پی اور آر ایس ایس بھگوا دہشت گردی (ہندو دہشتگردی) پھیلا رہی ہیں
اور انھوں نے اپنی سازشی سیاست اور عمل سے بد امنی پھیلائی ہوئی ہے۔بھارتی
لیڈر آنجہانی بال ٹھاکرے کا بیان قابل غور رہا ہے کہ"جب تک ہندو بم
ہندوستان میں مسلمانوں کیخلاف استعمال نہیں کئے جائیں گے اسوقت ہندوستان
میں ہندوؤں کیخلاف مسلم بم بنتے رہیں گے اور استعمال ہوتے رہیں گے۔"بال
ٹھاکرے کے اس بیان کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کیجانب سے متشدد
کاروائیاں بڑھتی چلی گئیں اور دہشت گردی کے تربیت کیمپوں میں اضافہ ہوا ۔
بھارت میں گوکہ سنجیدہ طبقہ بی جے پی اور آرایس ایس کی اس قسم کی کاروائیوں
پر متفکر نظر آتا ہے اسی لئے پی جے پی اور آر ایس ایس کے مسلم نمائندوں
عباس نقوی اور شاہنواز حسین کیجانب سے صفائی پیش کرنے پر عدم اطمینان کا
اظہار کرتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔بھارت کے مرکزی معتمد ِ داخلہ آر
کے سنگھ نے بھی بھارت کے مختلف علاقوں میں دہشت پسندانہ حملوں میں ایسے
10دہشتگردوں کی نشاندہی کی جو آر ایس ایس اور اُس سے ملحقہ تنظیموں سے
راوبط رکھتے ہیں۔انھوں نے سمجھوتہ ایکسپریس ، مکہ مسجد (حیدرآباد) اور
اجمیر درگاہ شریف میں دھماکوں کی تحقیقات میں انکشاف کیا کہ انکے پاس ثبوت
موجود ہیں کہ آر ایس ایس ان واقعات میں ملوث ہے۔آر کے سنگھ کے مطابق سنیل
جوشی دیواس(متوفی) اور مہو میں 1990 ء سے3 200ٰٗ ء تک کارکن رہنے والا
سمجھوتہ ایکسپریس واقعے میں ملوث تھا۔سندیپ ڈانگے(مفرور)، رام جی کلنسگر
(مفرور) سمجھوتہ ایکسپریس ،مکہ مسجد اور درگاہ اجمیر شریف کے دہماکوں میں
ملوث ہیں۔ یہ 1990ء سے 2006ء تک مہو ،اندور ،اترکاشی اورساجھا پور میں آر
ایس ایس کے کارکن ہیں۔معتمدداخلہ نے آر ایس ایس کے گرفتار شدہ کارکنان
لوکیش شرما ، سوامی اسیمانند،و مکیش باشانی دیویندر گپتا، شندر سیکھر لیوے
اور کمل چوہان کا بھی ذکر کیا جو ا دہشتگردی کے واقعات میں ملوث اور حکومتی
تحویل میں ہیں۔
قابل ذ کر بات یہ ہے کہ جب معتمدداخلہ آر کے سنگھ نے پہلی بار سرکاری سطح
پر ہندو دہشت گردی کے حوالے سے انکشافات کئے تو آر ایس ایس نے اپنے دس
کارکنان کے تعلق جڑے جانے پر آر کے سنگھ پرشدیدتنقید کی ۔ آر ایس ایس کے
ترجمان رام مادھو کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی کے افسر نے اپنے آقاؤں کی
خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بڑی عجلت پسندی سے مشتبہ افراد کے نام ظاہر کئے
ہیں ۔ آرایس ایس نے آر کے سنگھ کیخلاف قانونی چارہ جوئی کی دہمکی بھی دی
ہے۔دوسری جانب "ہندو دہشت گردی"کی اصطلاح استعمال کرنے پر وزیرداخلہ سشل
کمار شنڈے کے خلاف ایک گرم محاذ کھل گیاتھا اور عوامی دباؤ سے مجبورر ہوکر
کانگریس نے شنڈے کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "دہشت گردی
کا کوئی مذہب نہیں ہوتا"۔بھارتی جنتا پارٹی نے بھی حکومت کو دہمکی دی تھی
کہ اگر سشیل کمار شنڈے اپنا الزام ثابت نہیں کریں گے یا معافی نہیں مانگیں
تو ان کیخلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔جس سے کانگریس قیادت
خائف ہوگئی اور کانگریس کے جنرل سیکرٹری جناردھن وریدی کو وضاحت پیش کرنا
پڑی کہ"کانگریس نے کبھی بھی "ہندو دہشت گردی "یا "زعفرانی دہشتگردی"کے
الفاظ استعمال نہیں۔جناردھن وریدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ وضاحت پیش
کی کہ اُن کے نزدیک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ کیجانب سے شائدزبانی
لغزش ہوئی ہے" اس لئے کہ مالیگاؤں اور مکہ مسجد دھماکوں میں جو لوگ ملوث
پائے گئے ہیں ،وہ آر ایس ایس سے جڑے ہیں۔جنار دھن وریدی کے اس بیان کے بعد
، وزیرداخلہ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ اپنے بیان سے منحرف ہوجائیں لہذا
انھوں نے بھی اپنے جنرل سیکرٹری کے بیان کو درست قرار دیا کہ" یہ ان کی
زبان کی لغزش تھی۔اے آئی سی سی نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست ہے"۔کانگریس
اوروزیر داخلہ کے بیانات کی یہ تبدیلی ایسے وقت سامنے آئی جب بھارتی وزیر
خارجہ سلمان خورشید بھی سشیل کمار شنڈے کے انکشاف کے حوالے سے تصدیق کرچکے
تھے ۔
جناردھن وریدی سے جب یہ پوچھاگیا کہ وزیرداخلہ نے "ہندو دہشتگردی "کالفظ
کیوں استعمال کیا ؟ تو ان کہنا تھا کہ "اُن کا یہ مطلب نہیں تھا ،کوئی بھی
کانگریسی لیڈر اس طرح کا بیان نہیں دے سکتا ،بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی
اظہار ِخیال کیلئے مناسب الفاظ نہ ملنے پر زبانی لغزش ہوجاتی ہے۔اب یہ
تنازعہ یہیں پر ختم ہونا چاہیے"۔یہ کہتے ہوئے کانگریس کے جنرل سیکرٹری اس
بات کو بھی نظر انداز کرگئے کہ دہلی صوبہ کے کانگریس صدر اور شمالی مشرقی
دہلی سے ممبر پارلیمنٹ جے پی اگروال بھی وزیرداخلہ کے بیان کی تصدیق و
حمایت کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ "ملک کا وزیرداخلہ کوئی بھی بات بنا ثبوت
کے نہیں بولتا اور ان کے پاس مکمل ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر انھوں نے ہندو
دہشتگردی کی بات کہی ہے"۔اب چاہے بھارتی حکومت اپنے اقرار اور اعتراف پر
مکر جائے لیکن دنیا پر واضح طور پر یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بھارت میں
انتہا پسندی کے تربیت کیمپ موجود ہیں۔جو ہندو انتہا پسندی کو فروغ دے رہے
ہیں جس سے خطے میں امن کو خطرات لاحق ہیں۔بھارت کو ہر وقت پاکستان پر
الزامات لگانے سے قبل اپنے سر زمین میں موجود اُن علیحدگی پسندوں کی جانب
توجہ مبذول کرنی چاہیے جو بھارتی حکومت کی جانبدارنہ پالسیوں کے سبب ہتھیار
اٹھانے پر مجبور ہوئے ۔ پاکستان میں ایک پولیس اہلکار سے لیکر جی ایچ کیو ،
مہران بیس ، ائیرپورٹ حملے سمیت دہشت گردی کی ان گنت واقعات ہوئے لیکن کبھی
بھی بھارت کی طرح غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا کہ اگلے ہی لمحے
بھارت پر الزام عائد کردیا ہو۔ حالاں کہ یہ بارہا ثابت ہوچکا ہے کہ بھارت
بلوچستان ، خیبر پختونخوا ، سندھ ، پنجاب اور افغانستان میں پاکستان کے
خلاف سازشیں کرتا رہا ہے اور ان کے آلہ کار گرفتار ہوتے رہے ہیں ۔ حال ہی
میں ایک جاسوسی ڈرون طیارے کو پاکستانی سرحد کے اندر مار گرایا گیا اور
ناقابل تردید ثبوت دنیاکے سامنے لائے گئے مشرقی پاکستان کو لسانی بنیادوں
پر علیحدہ کرنے کی سازشوں اور انتہا پسند کاروائیوں کے ساتھ پاکستان میں
جاری پراکسی وار میں بھارتی مودی سرکار کے اعترافات کے بعد خطے میں امن
کیلئے پاکستان کی برداشت کو کمزوری سمجھنے کی بھول مودی سرکار کے دماغ میں
پاکستان فوبیا کی صورت میں جاگزیں ہوچکی ہے۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں
ہوتا ، وہ کسی بھی شکل میں کہیں بھی کی جا سکتی ہے ، لیکن بھارت کی ہندو
انتہا پسند حکومت جس طرح انتہا پسندی کو فروغ دیکر خطے کے امن کے درپے ہے
اور بھارتی میڈیا انتہائی منفی کردار ادا کر رہا ہے وہ یقینی قابل مذمت ہے۔ |