قائدین تحریک آزادی قسط ۳
(Ata Ur Rehman Noori, India)
علامہ صدرالدین آزردہ ؔدہلوی :جنگ
آزادی کے عظیم قائد وجرنل
سرمایۂ نازشِ ہندوستان مفتی صدرالدین آزردہؔدہلوی (متولد۱۲۰۴ھ/۱۷۸۹ء۔متوفی
۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء) کے آباواجداد کشمیر کے تھے مگرآپ کی ولادت دہلی میں ہوئی۔مفتی
صدرالدین آزردہؔتمام علوم نحو ،صرف ،منطق ،حکمت ،ریاضی ،معانی ،بیان ،ادب ،انشا،
فقہ ،حدیث ،تفسیر وغیرہ میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے اور درس دیتے تھے۔آپ ۱۸۲۷ء
سے ۱۸۵۷ء تک دہلی کے صدر امین اور صدرالصدور رہے۔آپ کا دولت کدہ اس وقت کے
اکابر علما وفضلا وادباو شعرا کا مرکز تھا۔مفتی صاحب کے حلقے میں علامہ فضل
حق خیرآبادی ، مولوی امام بخش صہبائیؔ، علامہ عبداﷲ خان علوی، حکیم مومن
خان مومنؔ، مرزااسداﷲ خاں غالبؔ، نواب ضیاء الدین خاں نیرؔ، شاہ نصیرالدین
نصیرؔ، شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ، حکیم آغاجان عیشؔ، حافظ عبدالرحمن خاں
احسانؔاورمیر حسن تسکین ؔ جیسے سخنوران باکمال ، کہنہ مشق شاعرا ورادیب
تھے۔گل ِرعنا میں حکیم عبدالحئی رائے بریلوی لکھتے ہیں کہ ’’جب یہ لوگ ایک
جگہ جمع ہوتے ہوں گے تو آسمان کو بھی زمین پر رشک آتا ہوگا۔‘‘آپ کی
جامعیت،قوت حافظہ،حسن ِتحریر،متانت ِتقریر،فصاحت ِبیان ،بلاغت ِمعانی
اورفنون ِادبیہ میں کامل دسترس کا اعتراف کرتے ہوئے حکیم عبدالحئی لکھتے
ہیں کہ ’’سرزمین ہند میں اس جامعیت کے دوچار ہی ایسے اشخاص ہوئے ہوں گے۔‘‘(گل
رعنا)مفتی صدرالدین آزردہؔ صاحب ایک طرف جلیل القدر عالم دین تھے تو دوسری
طرف آبروئے شہر تھے۔آپ کی بصیرت وقیادت اور علمی استعداد کا سکّہ پورے ملک
میں قائم تھا۔ منشی ذکاء اﷲ دہلوی لکھتے ہیں کہ’’ دہلی کی جامع مسجد جو شہر
کی تمام مسجدوں کی ناک تھی انگریزوں نے ایسے نکٹا بنادیا کہ سپاہ کی بیرک
اس کو بنایا۔ اس میں پیشاب پاخانہ سے پرہیز نہ کیا۔سکھوں نے سُور ذبح کرکے
پکائے۔کتے جو انگریزوں کے ساتھ تھے وہ درگاہ شریف میں پڑے پھرتے تھے۔‘‘(تاریخ
عروج انگلشیہ)عہد مغلیہ کی اس اہم تاریخی یادگار کو مفتی صدرالدین
آزردہؔصاحب نے انگریزوں کے دو سالہ قبضے سے نومبر ۱۸۶۳ء میں واگذار کرایا۔
عبدالرحمن پرواز اصلاحی لکھتے ہیں:’’مفتی صاحب انگریزی صدرالصدور ہوتے ہوئے
بھی انگریزوں کے حامیوں کی صف میں شامل ہونے کے بجائے ۱۹؍رمضان ۱۲۷۳ھ/مطابق
۱۲؍ مئی ۱۸۵۷ء کو بہادر شاہ ظفر کے دربار میں شامل ہوئے۔‘‘(۱۸۵۷ء کی جنگ
آزادی میں حصہ) بہادر شاہ ظفر کو بھی اس بات کا اعتراف تھاکہ جو کام دوسرے
نہیں کراسکتے ،مفتی صاحب کراسکتے ہیں۔مفتی صاحب میں معاملات سلجھانے کی
خداداد صلاحیت تھی۔ انقلاب ۱۸۵۷ء کے وقت بعض مواقع بڑے نازک آئے لیکن مفتی
صاحب کی دانش مندی نے ان موقعوں پر معاملہ بگڑ نے نہ دیا۔ایسے نازک حالات
میں ایک مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا تھا کہ ایک گروہ نے قربانی کے متعلق یہ منادی
کردی تھی کہ گائے کی قربانی ہرگز نہ ہونے پائے۔شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اﷲ
علیہ کے جانشین مولانا شاہ احمد سعید نقش بندی مجددی دہلوی نے اس گروہ کے
خلاف عَلم ِجہاد بلند کیا۔مفتی صاحب ہی کی کاوش سے یہ مسئلہ حل ہوااور
مسلمان متحد ہوکر انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ان واقعات اور دیگر
تاریخی روایات سے مغل حکومت کے ساتھ مفتی صاحب کی ہم دردانہ وابستگی کا
اندازہ لگایاجاسکتا ہے اور اچھی طرح یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ انگریزوں
کوکس نظر سے دیکھتے تھے۔انقلاب ۱۸۵۷ء کے دوران جنرل بخت خاں روہیلہ جب چودہ
ہزار انقلابیوں کی فوج لے کر بریلی سے آغاز جولائی کو دہلی پہنچا تو علمائے
دہلی کی طرف سے انگریزوں کے خلاف ایک فتویٰ جاری ہوا،اس فتویٔ جہاد پر ۳۸؍مفتیان
کرام کے دستخط تھے ، جن میں مفتی صاحب بھی شامل تھے۔یہ فتویٰ اخبارالظفر
دہلی میں شائع ہواتھا۔وہاں سے اس کی نقل انھیں دنوں صادق الاخبار دہلی میں
مورخہ ۲۶؍جولائی ۱۸۵۷ء میں چھپی تھی۔یہ اخبار نیشنل آرکائیوز میں محفوظ
ہے۔اس فتویٰ کو عکس ’’سوتنتر دہلی‘‘ ہندی اور ’’نوائے آزادی ‘‘ میں بھی
شائع ہوچکا ہے۔
مفتی صدرالدین آزردہؔصاحب کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے مجاہد
اعظم مولانا سید احمداﷲ شاہ مدراسی کو یہ مشورہ دیا کہ آپ دہلی کی بجائے
آگرہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔پھر آپ ہی نے اپنے خط کے ذریعے شاہ
صاحب کا تعارف آگرہ کے ان زعما وعلماسے کرایاجو ایک طرف سرکاری حلقوں میں
باوقار تھے تو دوسری جانب قومی وملی کارکنوں کا اعتماد ان کوحاصل تھا۔حضرت
مفتی صاحب کے تعارفی خط نے اساس وبنیادکاکام کیا۔دارالحکومت آگرہ کے اعلیٰ
سیاسی طبقہ میں ایک غیر معروف شخص کے لیے رسوخ اور اعتماد حاصل کرنے کی
کٹھن منزل جو سالہاسال میں طے ہوتی مفتی صاحب کا مکتوب گرامی اور سیاسی
حلقوں میں مفتی صاحب کا گہرا تعلق ہی تھا جس نے اس کو نہایت آسانی سے چند
لمحوں میں طے کرادیا۔آ پ کا درِ دولت جس طرح سے عام حالات میں مرجع رہاکرتا
تھا اس وقت بھی انقلابی عناصر کا پناہ گاہ بنارہا۔انگریزوں کے سب سے خطرناک
دشمن جن کو مجاہدین کہا جاتا تھا جن کی انگریز دشمنی کسی وقتی اور ہنگامی
ناگواری کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ان کی حریت پسند فطرت نے اس کو عقیدہ کی
حیثیت دے رکھی تھی۔ان سربکف مجاہدین کا ہجوم جس کے درِ دولت پر رہتا تھا وہ
مفتی صدرالدین صدرالصدور ہی تھے۔مفتی صاحب کو ۱۸۵۷ء میں انگریزی فوج کے
ہنگامۂ فساد میں بہت سخت صدمہ اٹھانا پڑا۔تعلق روزگار بھی ہاتھ سے گیااور
تمام جائداد واملاک بھی جو آپ نے تیس سالہ ملازمت کے دوران جمع کی تھی ضبط
ہوگئی بلکہ جہاد کے فتویٰ کے الزام میں چند ماہ تک جیل خانہ میں بھی بند
رہے۔چوں کہ آپ کا قصور ثابت نہ ہوسکا اس لیے رہاکردیئے گئے۔اکیاسی سال کی
عمر میں بمرض فالج ۱۶؍جولائی ۱۸۶۸ء کو مفتی صاحب کا انتقال ہوااور چراغ
دہلی میں احاطۂ حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلوی میں تدفین عمل میں
آئی۔(ماخوذ:چند ممتاز علمائے انقلاب ۱۸۵۷،از:علامہ یاسین اختر مصباحی ) |
|