دین اسلام میں فرقے نہیں ہیں اور فرقوں میں دین اسلام نہیں ہے
(Pervaiz Iqbal Arain, Karachi)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ربّ تعالٰی کا پیغام، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا فرمان، دین
کا نام فقط " الاسلام"، ایمان والے سب صرف "مسلمان" ایک نبی ﷺکی امّۃ ہیں
سب ، نورِ ہدایت بس اک قرآن ! فرقوں کا باقی نہ رہے نام و نشان، اخوّۃِ
اسلامی و امّۃِ واحدہ کاتاکہ ہوسکے کچھ امکان!
اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے،
اپنے آخری رسول امامُ الانبیاء رَحْمةُ لِّلعالمین (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ
وسلّم) پر نازل کردہ وحی متلوّ، آخری الہامی کتابِِ ہدایت یعنی قرآن مجید
اور وحی غیرمتلوّ ، سنۃ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم)یعنی
اُسوۃُالْحسنۃ پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اس کا نام "الاسلام"رکھا۔ اللہ
ربُّ العالمین سبحانہ وتعالٰی کاپسندیدہ یہ دین پورے کا پورا مُنزَّل مِنَ
اللہ اور ہر لحاظ و اعتبار سے مکمل ہے۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ
اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا
بَيْنَھُمْ۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيْعُ
الْحِسَابِ۱۹- (سورۃ آل عمران، آیۃ -19)
بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، ف ۳ اور جن لوگوں کو کتاب دی
گئی انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس (حق اور حقیقت کے
بارے میں صیحح) علم پہنچ گیا، محض آپس کی ضد (اور حسد) کی بنا پر، اور جو
کوئی کفر کرے گا اللہ کی آیتوں کے ساتھ تو (وہ یقینا اپنا ہی نقصان کرے گا
کہ) بیشک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے،
٣ ف سو دین حق صرف اسلام ہے۔ اور نجات و سرخروئی اسی سے وابستہ ہے اس کے
سوا اور کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور ایسے لوگ آخرت
میں یقینا اور قطعی طور پر محروم اور خسارے میں ہیں ۔ جیسا کہ دوسرے مقام
پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ
الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ
مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 003:085) پس جو لوگ لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے کہہ
دیا کرتے ہیں کہ سب دین ٹھیک ہیں سب نیکی کی دعوت دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ وہ
سراسر غلط، جھوٹ اور ناحق بات کہتے ہیں دین حق صرف اسلام ہے۔ اسکے بغیر
نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، اسلام ہی دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین
ہے، والحمدللہ جل وعلا
عناد و ہٹ دھرمی باعث محرومی : سو ضد اور حسد کی آفت اتنی بڑی اور اس قدر
ہولناک آفت ہے کہ انسان کو نورِحق وہدایت تک سے محروم کرکے اس کو اندھا
بہرا بنا دیتی ہے۔ والعیاذ باللہ - اسی حسد و عناد کے جرم کا ارتکاب سب سے
پہلے کیا گیا۔ اور اسی کی بنا پر اولاد ِآدم میں سب سے پہلے جرم قتل کا
ارتکاب کیا گیا۔ قابیل نے ہابیل کو مارا۔ اور اسی کی بنا پر ابلیس لعین نے
اولاد آدم سے دشمنی اور ان کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی تھی - والعیاذ باللہ
- جسکے نتیجے میں وہ ہمیشہ کیلئے مردود اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ سو عناد و
ہٹ دھرمی محرومی کا باعث ہے - وَالْعِیَاذُ باللّٰہ لْعَظِیْم - بہرحال
اللہ کا دین صرف دین اسلام ہے، اور یہ دین عدل و قسط کی میزان ہے ۔ اور یہی
دین آسمان و زمین کی اس پوری کائنات میں تکوینی نظام کے طور پر نافذ ہے
جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی
السَّمٰوٰت وَالْاَرضَ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہ یُرْجَعُوْنَ} (اٰل
عمران : 83) اور اسی دین حنیف کی دعوت تمام انبیائے کرام اپنے اپنے ادوار
میں اپنی اپنی امتوں کو دی - علیہم الصلاۃ والسلام -
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ
اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى
وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ
كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ
يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ
يُّنِيْبُ۱۳- (سورۃ الشوریٰ، آیۃ -13).
اسی نے مقرر فرمایا تمہارے لئے (سعادت دارین سے سرفرازی کے لئے) دین کا وہی
طریقہ جس کا حکم وہ (اس سے پہلے حضرت) نوح کو دے چکا ہے اور جس کی وحی اب
ہم آپ کی طرف کر رہے ہیں اور جس کا حکم ہم (اس سے پہلے) ابراہیم موسیٰ اور
عیسیٰ کو دے چکے ہیں (اس تاکید کے ساتھ) کہ قائم کرو تم اس دین کو اور اس
میں پھوٹ نہیں ڈالنا ف ۲ بڑی بھاری ہے مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف آپ ان کو
بلا رہے ہیں اللہ چن لیتا اپنی طرف جس کو چاہتا ہے اور وہ راہ دیتا ہے اپنی
طرف اس کو جو رجوع کرتا ہے (اس وحدہ لاشریک کی طرف). سو اس سے اس دین کا
بھی ذکر و بیان فرما دیا گیا جس کی تعلیم وتلقین ان انبیاءِ کرام کو فرمائی
گئی تھی اور اس ہدایت کا بھی جو اس دین کے متعلق ان ابنیاءِ کرام کے پیروؤں
کو فرمائی گئی، پس دین سے مراد ہے اللہ کا دین اور اللہ تعالیٰ کا دین
ہمیشہ سے اسلام ہی رہا، جو کہ دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین ہے اور
جو کہ شروع سے ایک ہی دین رہا ہے، اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول و
معتبر اور پسندیدہ دین ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ( اِنَّ
الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ) 3۔ آل عمران:19) یعنی دین تو اللہ
تعالیٰ کے یہاں اسلام ہی ہے۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت
نوح بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت آدم کو دیا، اور یہی خاتم الانبیاء حضرت محمد
(صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیا گیا، اسکے مبادی اور اساسات شروع سے لے کر آخر
تک سب ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں ۔ اور اس کی اصل الاصول اور اہم بنیاد توحید
خداوندی ہے، فرق اگر ہوا ہے تو جزئیات اور فروع میں ہوا ہے جس کو قرآن حکیم
نے شرعۃ اور منہاج کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اور اس دین سے متعلق امتوں
کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اس کو قائم رکھنا اور اس میں اختلاف اور تفرق نہ
برپا کرنا، اسی اصولی اور بنیادی ہدایت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان
فرمایا گیا ہے (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا
تَفَرَّقُوْا) 3۔ آل عمران:103) یعنی تم لوگ سب مل کر اللہ کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑنا، اور باہم متفرق نہ ہونا۔ اور قائم رکھنے سے مراد ہے کہ اس
کی تعلیمات کو سچائی سے مانا اور اپنایا جائے اور ان پر دیانتداری اور راست
بازی سے عمل کیا جائے۔ یہاں پر حضرات انبیاءِ کرام کا حوالہ اس طرح دیا گیا
کہ سب سے پہلے اس سلسلہ مطہرہ کی ابتدائی اور آخری کڑی کا ذکر فرمایا گیا،
یعنی حضرت نوح اور خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ، اور پھر
بیج کے انبیاءِ کرام میں سے تین جلیل القدر نبیوں کا ذکر فرمایا گیا، یعنی
حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی، اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام، کیونکہ
ان تینوں کی پیروی کے دعویدار اس وقت بھی دنیا میں موجود تھے، اور آج بھی
ہیں، اس طرح حضرات انبیاءِ کرام کی پوری تاریخ کی طرف بھی ارشاد فرما دیا
گیا اور ان کی امتوں کی طرف بھی۔ والحمدللہ جل وعلا. اللہ ربّ العالمین
سبحانہ وتعالٰی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت
یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود
اپنی آخری الہامی کتاب ہدایت "قرآن مجید میں فرما دیا ہوا ہے، اَلْيَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ
وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (سورۃ المائدہ آیۃ-3) ترجمہ "آج
میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا (ف ۱۵) اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی (ف
۱٦) اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔
جب کہ اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی کےآخری رسول ، امام الانبیاء،
رحمةّ لِّلعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے
خطبہء حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر
مبہم اعلان فرمادیا۔
خُطْبَۃ اَلوَدَاع اصطلاحاً حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان ارشادات جو
کہا جاتا ھے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ۱۰ھ کے حج کے موقع پر
فرمائے- واضح رھے کہ سن ۱۰ھ میں جو حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا،
یہ ہجرت کے بعد آپ کا واحد اور آخری حج تھا۔ کیونکہ ۱۱ھ میں حضور کا وصال
ہوگیا تھا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے حضور کا یہ حج ’حجۃ الوداع‘ کہلاتا ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشادات
فرمائے انہیں ’خطبۃ الوداع‘ یا پھر ’خطبۃ حجۃ الوداع‘ کہا جاتا ہے۔
خطبہ حجة الوداع حضور کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں جن میں دو بڑے خطبے بھی
شامل ہیں۔ ایک خطبہ حضور نے عرفات میں ارشاد فرمایا۔ یہی خطبہ سنت رسول کے
طور پر اب بھی ٩ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔
جبکہ دوسرا خطبہ وہ ہے جو حضور نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ اس کے علاوہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے، حضور نے ان کے
جوابات دیے۔ حضور نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔ عرفات
اور منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا، صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے جو جو بات یاد رکھی اور وہ آگے منتقل کی، اس کو
محدثین کرام رحمہم اللہ نے محفوظ کیا۔ ان سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح
میں حجة الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے۔خطبۃ حجۃالوداع کواسلام میں بڑی اہمیت
حاصل ہے۔خطبۃ حجۃالوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم
ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے پہلامنشورانسانی حقوق
ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی
مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔یہ ابلاغ اسلام
کی بنیادپر’حجۃالاسلام‘،’حجۃ التمام‘اور’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی موسوم ہے
اس حج کے موقع پرآقاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوخطبہ ارشادفرمایااسے’’
حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔آپ ﷺ کے حکم سے قصوء اونٹنی پرکجاواکساگیااورآپ ﷺ
قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت اآپ ﷺکے گردایک
لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزارانسانوں (صحابہءکرام) کاسمندرٹھاٹھیں
ماررہاتھاآپ ﷺنے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبہ کی اہمیت کے
پیش نظر اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے تاکہ ہم سب مصطفی کریمﷺکے ان ارشادات
کا بنظرغائر مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی
ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کاجوتذکرہ کیاگیاہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی
ابتداء یوں فرمائی۔ "اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا
باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی
کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس
طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں
اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام
کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر
عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس
طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے
شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے
گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس
پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے
لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس
ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب
کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام
خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے
بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل
قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین
میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے
گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے
ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا
کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی
قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں (بیویوں)کے ساتھ بھلائی
کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی
اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور
اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران
کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو
برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ
کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں
اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا
تم مار پیٹ سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم
پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام
تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر
تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی
کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمھیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے
کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی
بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا
مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان
تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔ہرکسی عمل کوصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے
لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے
ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے
علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواﷲ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں
کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں
حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی
نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے
اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس حال
میں کہ وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری
بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا
جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو
بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان
سے ان کو کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی
غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اﷲ
کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ
جملہ سرکار دوعالمﷺنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ
حضورﷺپڑوسی کو وارث نہ بنادیں)۔ اے لوگو!اﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا
حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے
وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکارکے لیے پتھر۔جو
شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اﷲ
تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اﷲ تعالیٰ اس سے
کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور
واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو
اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد)۔
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت
کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آٓپ ﷺ نے اﷲ
کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضورﷺ نے اپنی انگشت
شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:اے اﷲ!توبھی
گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا‘‘۔(بحوالہ:ضیاء
النبی،ج۴،ص۳۵۷تا۸۵۷،سیرت مصطفی۹۹۳،سیرت رسول اکرم۷۷۲)
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے خود ھی اپنے آخری رسول رحمة للعالمین
(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نبوت و رسالت اوراپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ
مجید پر مبنی (دین "الاسلام") کو قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے اخلاص
قلب و صدق نیت کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام قرآن مجید میں "مسلمان" رکھ
دیا اورعالم انسانیت با لخصوص اھل ایمان (مسلمانوں)کو اپنے اس دین اسلام کا
مکلف قرار دے دیا ۔
قرآن و سنۃ پر مبنی اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ الوھی دین
"الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی)صرف قرآن وسنۃ ہی ہیں، ان دو کے ما سوا (کسی
بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء، مجتہد
یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کوئی سے بھی
انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت
حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ھدایت پر مشتمل، قرآن و سنۃ پر مبنی، اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین "الاسلام" میں کسی کمی و بیشی،
ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان یا جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و
تعالى ، انبياء و رسل عليهم الصلواة والسلام کے سوا کسی بھی عام انسان کو
براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ انبياء و رسل عليهم
الصلواة والسلام کے سوا باقی تمام انسانوں کو اپنے انبياء و رسل علیہم
الصلواة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت دیتا ھے- لہذا اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی جسے چاھتا ھے ، حیات رسول اللہ حضرت محمد مصطفی
(صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) میں مکمل ھو جانے والے اپنے دین "الاسلام"
پرقائم رہنے کی توفیق عطا فرماتا ھے۔
اب جو کوئی بھی مسلمان ، فرد یاافراد، طبقہ یا گروہ، کتاب اللہ اورسنۃ رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے سواء بھی کسی اور شخص یا اشخاص، جماعت
یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی
تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کوئی سےبھی انسانی خیالات و بشری
افکارکو منزل من اللہ الوھی دین "الاسلام" میں اتھارتی (حجیت) مانتا ھے، یا
قرآن وسنۃ پر اولیّت، ترجیح ، فوقیّت یا برابر کی حیثیّت دیتا ھے تو اسے
اپنے رویّے پر غور کرنا ضروری ھے۔ ھر ایک صاحبِ ایمان کے لئے لازم ھے کہ وہ
اپنے آپ کو دینی اعتبار سے محض"مسلمان" سمجھے اور کہلوائے مسلمان کے علاوہ
اپنی کوئی بھی دیگر دینی ومذھبی شناخت، پہچان یا نام (جیسے بریلوی،
دیوبندی، مماتی، حیاتی اھل حدیث، سلفی، جماعتی، تبلیغی، عطاری، طاھری،
مسعودی وغیرھم) سمجھنے، اپنانے، کہلوانے، اور اختیار کرنے سے گریز کرے،
کیوں کہ یہ عمل قرآ ن و سنۃ کے صریحاً خلاف ، ناجائز ، ناپسندیدہ اور دین
اسلام سےہٹ کر گمراہہی میں مبتلا ہونے کی دلیل و علامت ہے اس کا کوئی بھی
جواز سمجھ سے بالا تر ہے۔ آؤ ! اللہ ونبی ﷺ کے دین پہ واپس لوٹ آئیں۔ قرآن
و سنّۃ ، اسوۃ الحسنہ کو اپنی ہم اوّلین ترجیح بنائیں، صحابہء کرام رضوان
اللہ تعالٰی عنہم کے راستے، طور وطریقے کو اپنائیں اک بار پھر سے اپنے دین
کا نام اسلام بتائیں اورصرف مسلمان (جی ہاں فقط مسلمان)کے نام سے اپنی
پہنچان کروائیں باقی سب سے جان چھڑائیں ، صراطِ مستقیم پر واپس آ جائیں ،
آپس میں بھائی، بھائی بن جائیں ، جسدِ واحد کی طرح ایک امّۃ ہو جائیں، حق
کے غلبے کو یقینی بنائیں، عزم و ھمّت کا پیکر بن جائیں، خالق و مالک سے
اپنا عہد نبھائیں، رسول اللہ ﷺ کی وفاداری کا حلف اٹھائیں، آؤ مل کر اللہ و
نبی ﷺکی جانب رجوع ہو جائیں، حکمِ ربّی کے آگے سر کو جھکائیں اور اللہ و
نبی کی بات مان جائیں اورفرقہ پرستی سے باز آ جائیں، آؤ ملکر حبل اللہ کو
مضبوطی سے تھامیں اور آپس میں یکجاں ہو جائیں، فلک شگاف نعرہء تکبیر
لگائیں، دشمنِ امّۃِ مصطفوی کو ڈرائیں، حق کی اک للکار سنائیں، سبسارے
مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچائیں، اتحاد ِ امّۃ کے داعی بن جائیں، اسی کو
اپنی پکار بنائیں ، سب کو اپنے ساتھ ملائیں، امن و محبْٹ کا بیج بو جائیں،
نئی نسل بھی سمجھائیں، بے جا نفرتوں کو جڑ سے مکائیں، اپنے بیچ سے ابلیسوں
کو مار بھگائیں، نبی کا جھنڈا اونچا کر دکھائیں، شفاعت کے حقدار بن جائیں
دنیا کو امن کا گہوارا بنائیں رب کے دین کو نافذ کروائیں تاکہ نارِ جہنّم
سے بچ پائیں فوز و فلاح کا ثمرہ پائیں۔ بعید نہیں پھر کہ اللہ و نبیﷺ ہم سے
راضی ہو جائیں ، آؤ ملکر دعا کریں کہ رب ّ تعالٰی ہم سب پہ رحم کریں اور ہم
سب کو نارِ جہنّم سے بچائیں، اپنی جنّت میں داخل فرمائیں۔ آمین!
|
|