ربّ تعالٰی کا پیغام

ربّ تعالٰی کا پیغام، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا فرمان، دین کا نام فقط " الاسلام"، ایمان والے سب صرف "مسلمان" ایک نبی ﷺکی امّۃ ہیں سب ، راہِ ہدایت اک قرآن !

ہم سب مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو (آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام "الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من اللہ اور کامل و اکمل ھے۔

اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود اپنی آخری الھامی کتاب ھدایت، کلام اللہ یعنی) قرآن مجید میں فرما دیا جب کہ اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان فرمایا دیا۔

اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے اپنے آخری رسول رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نبوت و رسالت اوراپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ مجید پر مبنی (دین "الاسلام") کو قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے اخلاص قلب و صدق نیت کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام خود ھی قرآن مجید میں "مسلمان" رکھ دیا اورعالم انسانیت با لخصوص اھل ایمان (مسلمانوں) کو اس کا مکلف قرار دے دیا گیا۔

قرآن و سنة پر مبنی اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ الوھی دین "الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی) صرف قرآن وسنة ہی ہیں، ان دو کے ما سوا (کسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کسی بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ھدایت پر مشتمل، قرآن و سنة پر مبنی، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین "الاسلام" میں کسی کمی و بیشی، ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان یا جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و تعالى انبياء ورسل عليهم الصلواة والسلام کے سوا کسی بھی انسان کو براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ باقی تمام انسانوں کو اپنے انبياء و رسل علیہم الصلواة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت دیتا ھے- لہذا حیات رسول اللہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) میں مکمل ھو جانی والے دین "الاسلام" پرقائم وکاربند رھنے کی اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی جسے چاھتا ھے توفیق عطا فرماتا ھے۔

اب جو کوئی بھی شخص، افراد، طبقہ یا گروہ، کتاب اللہ اورسنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے منافی و ما سواء کسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کسی بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو منزل من اللہ الوھی دین "الاسلام" میں اتھارتی (حجیت) مانتا ھے، محض"مسلمان" کے علاوہ اپنی کوئی بھی اوردینی ومذھبی شناخت یا نام (جیسے بریلوی، دیوبندی، مماتی، حیاتی اھل حدیث، سلفی، جماعتی، تبلیغی، عطاری، طاھری وغیرھم) اپناتا، کہلواتا، رکھتا ھے تو قرآ ن و سنة کی رو سے اس کے گمراہ ھونے میں کسی بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ھے۔

مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) توصرف اخلاص قلب اور صدق نیت کے ساتھ امربالمعروف و نہی عن المنکر (یعنی قرآن وسنة) پر خود عمل کرنا اور دوسروں سے اس پر عمل کروانا ھے۔ قرآن وسنة کو اس کے مقصود اصلی اور حقیقی روح کے عین مطابق صحیح طور پر سمجھنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے اسوة الحسنة کے مطابق پہلے خود، قرآن وسنة کی پیروی اورکامل اطاعت و اتباع کرنا، پھرنبوی منہاج کے مطابق اور کسی بھی کمی و بیشی، ملاوٹ اور ردوبدل کے بغیر، قرآن وسنة کی اصل تعلیمات و مقاصد دین اسلام کو ان کی اصل روح کے عین مطابق دوسرے لوگوں تک پہنچاناھے۔

اپنے ذاتی نظریات و خیالات کو بالائے طاق رکھ کر، فقط قرآن وسنة کی تدریس وتعلیم، ترویج و تبلیغ کرنا، مسلم معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن وسنة کی اطاعت و اتباع اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے اسوة الحسنة کی مکمل پیروی کرنے پر مائل و آمادہ اور قائل و راغب کرنا، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر سطح پر اصلاح کرنا، ان کو ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن وسنة کے احکامات کی نافرمانی سے روکنا اورممنوعات، فحشاء و منکرات سے باز رکھنا، عام مسلمانوں کو باعمل و صالح مسلمان اورمعاشرے کا مفید فرد بنانا، قول و فعل کے تضادات، حرص، حوص، طمع و لالچ، بغض، عناد، کینہ پروری و عداوت،علاقائی، لسانی، گروھی، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور تعصبات و فسادات، سود خوری و حرام کاری، فسق و فجور، بدعات، مذھبی منافرت، جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ دہی ،وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری، غیر اسلامی رسومات روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناھوں سے بچتے رھنے کی تلقین و تاکید کرنا بھی مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی قائدین و راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) میں شامل ھے۔

ھر ایک سطح پر قرآن وسنة کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ھر ممکن کوشش کرنا، امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد رکھنے اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنی، عدم استحکام سے بچانے کی حتی المقدور اور مخلصانہ جدوجہد کرتے رھنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر کے احسن طریقوں سے ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا بھی مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی قائدین و راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اھم ذمہ داری اور فریضہ ھے۔

مگر افسوس کہ مشاھداتی طور پر درپیش اصل صورتحال، زمینی حقائق کو دیکھیں تو برصغیر کے اکثر و بیشتر مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی قائدین و مسلمان سیاسی راھنماؤں اور حکمرانوں کا کردار مایوس کن، اصل ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کے تقاضوں کے بالکل منافی و برعکس نظرآتا ہے اور ان سب کی مجرمانہ غفلت صاف عیاں ہے۔
 
Pervaiz Iqbal Arain
About the Author: Pervaiz Iqbal Arain Read More Articles by Pervaiz Iqbal Arain: 21 Articles with 27257 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.