مومنو! اسلام مںَ پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو
(Pervaiz Iqbal Arain, Karachi)
دینداری کےلیبل کا آسان ترین
نسخہ اور اس پرتحفّظات: بعض نام نہاد مذہبی عناصر کا بتایا اور دیا ہوا
دیندار بننے کا آسان ترین نسخہ جو آج کل بہت عام ہے، داڑھی، پگڑی، اونچی
شلوار سمیت صرف چند ایک ظاہری اور نمایاں نظر آنے والی سنّتوں کو اختیار کر
کے آپ بآسانی مسلم معاشرے میں دین داری کا لیبل لگا سکتے ہو اور اس کے
ٹھیکے دار بن سکتے ہو، چاہے بیشتر فرائض اور سینکڑوں، ظاہری طور پر نمایاں
نظر نہ آنے والی یعنی باطنی سنتوں کے تارک بنے رہو، بھلے سے باقی کے سارے
ہی حقوق اللہ و حقوق العباد سے روگردانی کرتے رہو۔ اس کے برعکس آپ بیشتر
فرائض اور سیکڑوں ظاہری طور پر نمایاں نظر نہ آنے والی یعنی باطنی سنتوں پر
سختی کے ساتھ عمل پیرا راور کابند ہتے ہوئے اور اکثروبیشتر حقوق اللہ اور
حقوق العباد پورے کر کے بھی دیندار نہیں کہلاسکتے اگر آپ نے داڑھی، پگڑی،
اونچی شلوار سمیت صرف چند ایک ظاہری اور نمایاں نظر آنے والی سنّتوں کو
اختیار نہ کیا۔
اس طرح کے نام نہاد مذہبی عناصر کے اس آسان ترین نسخے کے کارگر اور مؤثر
ثابت ہونے کا سارا انحصار اس شرط اوّل کی تکمیل پر ہے جو کہ آپ کو بہر حال
میں ضرور پوری کرنی ہی پڑتی ہے ورنہ باقی سب کچھ بے سود، دیندار تو کجا آپ
ان فرقہ پرست مذہبی عناصر کی نظر میں مسلمان بھی نہیں رہتے اور وہ لازمی
شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ ان کے فرقے کے انتہائی متشدّد اور سخت پیروکار اور
راسخ العقیدہ ہوں اپس مخصوص فرقے کے علاوہ کسی دوسرے کومسلمان نہ سمجھتے
ہوں، اپنے فرقے کے افکار و نظریات اور تعلیمات کو، قرآن و سنۃ اور رسول
اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کےاسوۃ الحسنۃ پر بھی، اوّلیّت و فوقیت اور
ترجیح دیتے ہوں (معاذ اللہ) ۔ نہ جانے یہ عناصر اللہ سبحانہ و تعالٰی، رسول
اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے اسوۃ الحسنہ، قرآن مجید کی تعلیمات کو
کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ آخر اللہ تعالٰی سے
کیوں نہیں ڈرتے؟
بلا شبہ داڑھی رکھنا شعائرِ اسلام میں سے اور ایک نہایت اہم ترین سنّۃ ہے
جس کا حکم وجوب کے قریب تر اور بعض کے نزدیک واجب ہے لیکن اس کا یہ مطلب
نکالنا ( جو کہ رائج الوقت ہے) کہ بس یہی ایک ایسی سنّت ہے جوس کو اپنا
کرباقی کی ساری سنّتوں کی اتباع سے بے نیازی بھی قابلِ قبول ہے کسی طور بھی
درست نہیں، بجا ہے کہ داڑہی سمیت تمام تر سنّتوں پر مومن و مسلمان کو ضرور
عمل کرنا چاہئے مگر کسی ایک یا دو تین سنّوں کو باقی کی سنّتوں پر مقدّم
سمجھنا یا باقی سنّتوں کو کم تر اہمیّت دینے کا کوئی جواز اس ناچیز کی سمجھ
میں نہیں آتا۔ علماء اسلام، فقہاء عظام، مجتہدینِ کرام، محدثین و اصولیّین
رحمۃ اللہ علیہم نے جو بتایا ہے اس کے خلاصہ میںسب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں
کہ حدیث اور سنّت میں کیا فرق ہے حدیث اور سنت دونوں ہی دو مشھور اصطلاحات
ہیں ۔ لہذا قرآن پاک میں لفظ سنت بھی استعمال ہوا ہے اور حدیث بھی اور اسی
طرح خود حدیث پاک میں ان دونوں الفاظ کا مستعمل ہونا ملتا ہے حدیث اور سنت
کے بارے میں علماء کے ایک گروہ کی رائے تو یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک
دوسرے کے مترادف ہیں سو اس لحاظ سے ایک ہی معنٰی اور مفھوم میں لیئے جاتے
ہیں اور ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ حدیث ایک عام چیز ہے جبکہ سنت اس سے
خاص یعنی حدیث تو ہر وہ چیز ہے کہ جسکی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی طرف کی جائے کہ جس میں صحیح ،حسن ،ضعیف ،منکر اور موضوع روایات بھی شامل
ہیں اور سنت سے مراد وہ طریقہ ہے کہ جو فقط احادیث صحیحہ کی بنیاد پر ثابت
ہوتا ہو اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طے کیا ہوا طریقہ ہو جسکو
کہ آپ نے اپنی امت کو سکھایا اور جو قرآن پاک کے منشاء و معنٰی کی تفسیر و
تشریح کرتا ہے اور جو اپنی عملی صورت میں اسی قرآنی منشاء کی تکمیل کرتے
ہوئے عملی تشکیل بھی کرتا ہے اسی خاص طریقہ کا نام سنت ہے ۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں اصطلاحات یعنی حدیث اور سنت الگ الگ
معنٰی و مفھوم رکھتی ہیں علم حدیث کا ایک الگ موضوع ہے اور علم سنت کا
بالکل ایک الگ مفھوم اس لحاظ سے وہ سنت کی حدیث سے الگ تعریف بیان کرتے
ہوئے رقم طراز ہیں کہ سنت فقط طریقہ متبعہ کو کہا جائے گا یعنی وہ طریقہ کہ
جسے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو فقط وہی سنت کہلائے گا ۔
درج زیل میں ہم لفظ حدیث اور سنت دونوں کے لغوی معٰنی قارئین کی سہولت کے
لیے واضح کردیتے ہیں ۔۔
لفظ حدیث لغوی معنٰی :- لفظ حدیث کہ جسکو ایک خاص فن کی اصطلاح کے طور پر
استعمال کیا گیا ہے عربی زبان میں اس کے متعدد معنٰی ہیں مثلا عربی زبان
میں حدیث کے معنی گفتگو کے بھی ہیں اور نئی چیز، نئی بات کو بھی عربی میں
حدیث کہتے ہیـں اس کے علاوہ کوئی قابل زکر واقعہ کوئی گفتگو یا کوئی کلام
اسکو بھی عربی میں حدیث کہتے ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
مشھور فرمان ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ "خیر الحدیث کتاب اللہ یا ایک جگہ فرمایا کہ
احسن الحدیث کتاب اللہ " یعنی سب سے بہتر بات یا سب سے اچھا کلام اللہ کا
کلام ہے
لفظ سنت کے لغوی معنٰی :- لفظ سنت کے لغوی معنٰی روش، دستور، رواج، طریقہ،
عادت، راہ، یا قانون کے ہیں جیسا کہ خود حدیث پاک میں یہی لفظ انہی معنوں
میں استعمال ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب
لہ مثل اجر من عمل بھا ولا ینقص من اجورھم شئی ۔ ۔ ۔ یہاں سنۃ حسنۃسے مراد
طریقہ یا رواج کہ ہیں اور یہاں لفظ سنت اپنے فقہی یا اصولی یا اصطلاحی
معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنوں میں ہے ۔ ۔ ۔
اسلامی شریعت کی رو سے سنت کے معروف معنٰی تو وہ طرز عمل ہے کہ جس کی دعوت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا
میں بھیجے گئے اور جو صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا
بعد نسلا آگے منتقل کیا اس طریقہ کو عربی زبان میں سنت کہا جاتا ہے اور جب
ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن و سنت دونوں شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں تو اس وقت
ہماری مراد اسی مفھوم میں سنت ہوتی ہے ۔
سو اس لحاظ سے لفظ سنت اصطلاحا متعدد معنٰی میں استعمالہوتا ہے ۔
سب سے پہلے لغوی معنی میں کہ جیسے ہم اوپر بیان کرچکے ۔ ۔
لفظ سنت علماء اصول کی اصطلاح میں :- علماء اصول کی اصطلاح میں سنت سے مراد
وہ معروف طریقہ رسول ہے کہ جسکو نافذ کرنے کے لیے پیغمبر دنیا میں آئے اور
جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں اور جو شریعت کے احکام کا ماخذ و مصدر ہے اور جو
ہم تک تین طریقوں سے پہنچا ہے کہ جن کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے ۔
محدثین کی اصطلاح میں لفظ سنت کا مفھوم :- محدثین کے ہاں لفظ سنت کی اصطلاح
سنت کے معروف معنٰی یعنی اس طرز عمل پر بولی جاتی ہے کہ جس کی دعوت رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جسکو قائم کرنے کے لیے رسول دنیا میں
آئے اور جو صحابہ کرام نے آپ سے سیکھ کر اختیار کیا اور پھر نسلا بعد نسلا
آگے منتقل کیا اسی طریقہ کو عربی زبان اسلامی شریعت کی رو سے سنت کہا جاتا
ہے اور یہ ہم تک تین واسطوں یا طریقوں سے پہنچتا ہے اور انھی تین طریقوں کو
بنیاد بناتے ہوئے محدثین کرام سنت کو تین اقسام میں تقسیم فرماتے ہیں یعنی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل یا تقریر کو محدثین کے ہاں سنت
(حدیث) کہا جاتا ہے
محدثین کے ہاں سنت تک رسائی کے اعتبار سے فقط تین طریقے معروف ملتے ہیـں کہ
جن کو بنیاد بناتے ہوئے محدثین نے سنت کی تین اقسام بیان کی ہیں ۔
نمبر ایک سنت قولی یا حدیث قولی
نمبر دو سنت فعلی یا حدیث فعلی
نمبر تین سنت تقریری یا حدیث تقریری
اس کے علاوہ تمام اصولیین ، محدثین اور فقہاء کی کتابوں کو کھنگال لیا جائے
آپ کو کہیں بھی ان تین طریقوں کے سوا سنت تک رسائی کا کوئی چوتھا طریقہ
نہیں ملے گا اور اگر کہیں ملے گا بھی وہ شاذ کہلائے گا ۔
نوٹ :- جیسا کہ یہاں سنت فعلیہ اور سنت ترکیہ کی ایک غیر معروف، شاذ تقسیم
کو بیان کیا گیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کے ترک کو
سنت سے تعبیر کرنا دین میں کئی مفاسد کا ملتزم ہے کہ جسکو ہم آخر میں بیان
کریں گے ۔ ۔ ۔
خیر ہم درج زیل میں محدثین کے ہاں جو سنت کی تین معروف اقسام بطور سنت تک
رسائی کا طریقہ ہیں انکو ترتیب وار وضاحت سے بیان کریں گے ۔ ۔
سنت قولی :- سنت کی تین قسموں میں سے سب سے پہلی ہے سنت قولی، یعنی نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسیے ارشادات مبارکہ کہ جن میں نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک قول سے کسی امر کی وضاحت کی ہو یا کسی امر کا
حکم دیا ہو اور صحابہ کرام نے اسے بعینہ سن کر ہم تک پہنچا دیا ہو جیسے
مشھور حدیث " انما الاعمال بالنیات " یہ سنت قولی کی ایک مثال ہے ۔ ۔
سنت فعلی :- سنت کی ایک قسم سنت فعلی ہے اور اس سے مراد صحابہ کرام کا نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی مبارک عمل کو روایت کرنا یا نقل کرنا ہے ۔
یعنی سنت قولی یہ ہے کہ کسی صحابی نے نبی کریم کا کوئی مبارک فرمان سن کر
اسے بعینہ ہم تک پہنچا دیا اور سنت فعلی یہ ہے کہ کوئی صحابی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا کوئی مبارک عمل دیکھے اور اسے اپنی زبان یا اپنے الفاظ
میں اپنے بعد والوں کے لیے بیان کردے تو وہ سنت فعلی کہلائے گا ۔
سنت تقریری :- سنت کی تیسری قسم سنت تقریری ہے کہ جس میں نہ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا کوئی فعل نقل کیا جائے اور نہ ہی عمل نقل کیا جائے بلکہ کسی
اور کا کوئی عمل اور فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا ہو اور
آپ نے اس پر خاموشی فرمائی ہو یعنی آپ نے اسکی ممانعت نہ فرمائی اور نہ ہی
اسے ناجائز کہا ہو اسے سنت تقریری کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو عربوں میں بہت سے
طور و طریقے مختلف امور میں رواج پاچکے تھے لہذا ان طور طریقوں میں سے جس
چیز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف شریعت پایا اسکی ممانعت
فرمادی اور جس طریقے کو خلاف نہیں پایا ہاں البتہ اسکے کسی جز میں کسی
اصلاح کی گنجائش ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جز کی اصلاح
فرمادی اور باقی طریقے کو جوں کا توں روا رکھا اور جن امور میں کسی اصلاح
کی گنجائش نہ تھی ان امور کو ویسے ہی چلتے رہنے دیا اور صحابہ کرام ان امور
کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و اطلاع کے اندر اندر رہتے ہوئے
کرتے رہے ان سب امور کو بھی سنت تقریری کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
فقہاء کی نظر میں سنت کی اصطلاح کا مفھوم :- فقہاء کے نزدیک لفظ سنت کا
مفھوم وہی ہے جو کہ آپ نے عام بول چال میں بھی سنا ہوگا کہ دو رکعت سنت ہیں
یا چار رکعت سنت ہیں اور تین رکعت واجب ہیں اور دو رکعت فرض ہیں یہاں پر
فرض اور واجب کے مقابل جو لفظ سنت بولا جاتا ہے اسے فقہی اعتبار سے سنت کہا
جاتا ہے اور اس کا مفھوم مندرجہ بالا تمام مفھومات سے جدا ہے اور اسکی
ضرورت کسی بھی شرعی امر کی حیثیت کا تعین ہے ۔ اور آگے پھر اسکی متعدد
اقسام اور جہات ہیں یعنی سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ وغیرہ ۔۔۔
اب آخر میں ہم تھوڑی روشنی اس امر پر ڈالیں گے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا کسی فعل کو ترک کرنا بھی شریعت کی کوئی دلیل بن سکتا ہے اور
اگر بن سکتا ہے تو اس سے کیا کیا مفاسد آسکتے ہیں ۔ ۔ ۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اللہ کے دین کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ
واٰلہ وسلم کی ذات ہے۔
لہزا اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جو احکام آپ دیں انہیں
قبول کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے اور دوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ
وسلم نے جن کاموں سے منع فرمایا، ان سے رکنا ضروری ہے۔ کہ ارشاد باری
تعالٰی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا
نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۔ ۔ ۔ ۔ Oالحشرہ 7ترجمہ :-اور جو کچھ رسول
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے
تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، ۔ ۔
پس ثابت ہوا کہ شریعت کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی امر کا حکم
کرنا اور کسی امر سے منع فرمانا ہے نہ کہ آپ کا کسی امر کو ترک فرمانا کبھی
بھی شریعت کی دلیل بن سکتا ہے ۔ کیونکہ اوپر آیت میں صاف صاف وضاحت ہے کہ
نبی جس چیز کا حکم دیں وہ کرو اور جس سے منع کریں اس سے بعض رہو یہ نہیں
کہا گیا کہ نبی جو کام خود بھی نہ کرئے وہ تم بھی نہ کرو یعنی ترک فعل ۔ ۔
اور اگر اس طرح ہو تو پھر کئی قرآنی آیات اور احادیث کا آپس میں ٹکراؤ پیدا
ہوجائے اور اسلام کے سب سے بڑے اصول اباحت کا قلع قمع ہوجائے کہ مباح تو
کہتے ہی اس امر کو ہیں کہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ خود کیا
ہو اور نہ کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ جس پر سکوت فرمایا جیسا کہ " وما سکت
عنہ فھو مما عفا عنہ " کی حدیث سے بھی ظاہر ہے اور یہ حدیث دلیل ہے کہ
اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔۔ علامہ ابن حجر اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے
فتح الباری میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ عدم النقل لا یدل علی عدم الوقوع ثم لو
سلم لایلزم منہ عدم الجواز ۔ ۔ یعنی عدم نقل عدم وقع پر دلالت نہیں کرتا
اور اگر یہ مان بھی لیا جائے تو تب بھی اس سے عدم جواز کو ثابت نہیں کیا
جاسکتا اسی طرح مواہب لدنیہ میں آیا ہے کہ الفعل یدل علی الجواز وعدم الفعل
لا یدل علی المنع ۔ ۔
یعنی کسی کام کا کرنا اسکے جواز کی دلیل ہے اور کسی کام کا نہ کرنا ہرگز اس
کے منع کی دلیل نہیں اور اسی طرح فتح القدیر جلد اول میں ہے کہ کسی شئے سے
سکوت اس کے ترک کا تقاضا نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو ترک کرنے سے اس کا سنت نہ ہونے
پر عقلی دلائل :-
سب سے پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک سے
کوئی عمل ترک کی سنت قرار پاتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ ادلہ اربعہ کا اول
ماخذ ہے اس کے ترک سے بدرجہ اولٰی کسی فعل کا ترک کرنا ضروری ہوگا
حکمِ رَبّی ہے کہ : يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي
السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ
اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۲۰۸ ایمان والو اسلام مں پورے پورے داخل
ہو جاؤ اور شطاّن کے قدموں کی تابعداری نہ کرو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
|
|