قیام پاکستان....کیا کھویا کیا پایا؟
(عابد محمود عزام, karachi)
قیامِ پاکستان کا مقصد صرف
زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کر لینا ہی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سوچ، فکر، نظریے
اور اصول و قانون کی ترویج کے لیے ایک فلاحی و مثالی مملکت بنانے کا خواب
تھا، جس کو مسلمانانِ برصغیر نے برسوں اپنی آنکھوں میں سجایا تھا۔ ارسطو کا
قول ہے:” انسانیت پر مبنی معاشرہ اپنے باشندوں کی آزادی کے تحفظ اور اس کی
پرورش کے لیے پرعزم رہتا ہے۔“ اسی خیال نے ہماری تحریک آزادی کو جلا بخشی
اور مسلمانان برصغیر کے دلوں میں یہ بات جاگزیں کردی کہ آزاد انسانوں کی
حیثیت سے سانس لینے کے لیے ایک آزاد ریاست کا قیام از حد ضروری ہے۔ یہی وہ
یقین تھا جس نے قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے تخلیق پاکستان کی جدوجہد کی
راہ ہموار کی۔ قوم کے لیے ڈٹ جانا اور آزادی کی خاطر مصائب برداشت کرنا
آسان ہوا اور طویل تگ و دو کے بعد آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ آزادی قدرت کا
انمول خزانہ ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اس قیمتی خزانے کو پانے کے
لیے ہمارے بڑوں نے اپنا کل قربان کر کے ہمارا آج آزاد بنایا۔ قیام پاکستان
کے وقت برصغیر میں مسلم قوم کا ہر سپوت ایک نئے جذبے و ولولے سے سرشار تھا۔
سرحد پار سے لاکھوں لوگ دیوانہ وار مصائب کے دریا عبور کر کے ہجرت کر آئے،
جن میں سے آدھے بھی پاکستان نہ پہنچ سکے اور راستے میں ہی اپنی جان جان
آفریں کے حوالے کر گئے۔ بس آزادی اور الگ ملک کا اِک جنون تھا، عشق تھا،
دیوانگی تھی۔ لوگ موت کو سامنے دیکھ کر بھی آزادی کی خاطر ہر ستم جھیلنے کو
تیار تھے۔ انڈیا سے ایک ٹرین نکلتی اور پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی پوری کی
پوری کاٹ دی جاتی اور یہاں صرف لاشے پہنچتے، لیکن آزادی کے متوالے بار بار
ان ٹرینوں میں سوار ہو کر مرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔
قیامِ پاکستان کو انہتر سال ہوچکے ہیں۔ آزادی کا ہر سال گزرنے پر ہم ”یومِ
آزادی“ کو بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ پرچم کشائی کی جاتی ہے۔ بینڈ بجتا
ہے۔ پریڈ ہوتی ہے۔ خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں۔
چراغاں ہوتا ہے اور ایک دن کے لیے پورا ملک سبزل ہلالی پرچموں میں لپٹا ہوا
نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ ہر سال ہوتا ہے۔ اگر نہیں ہوتا تو خود کا احتساب
نہیں ہوتا۔ اگر دل کے کانوں کو کھولا جائے تو ہر سال یوم آزادی ہم سے یہ
سوال کرتا سنائی دے گا کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ان 69 سالوں میں ہم
نے کیا کھویا کیا پایا؟ اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو حقائق بہت تلخ اور
افسوسناک نظر آتے ہیں، کیونکہ 1947ءمیں انگریز سے آزادی کے چند سال بعد ہی
ہمارے ملک میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی، جو آج تک جاری ہے۔ خود ہماری
کوتاہیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش
اندرونی اور بیرونی چیلنجز بڑھتے گئے۔ رفتہ رفتہ صورتحال خراب ہوتے ہوئے
قائد اعظم کے تین رہنما اصول ایمان، اتحاد اور نظم، پیسہ ،برادری اور ہیرا
پھیری میں تبدیل ہو گئے اور پاکستان سیاسی عدم استحکام، اداروں کے باہمی
ٹکراؤ، بد عنوانی، توانائی بحران،صوبوں اور وفاق کے درمیان دوریاں، عسکریت
پسندی جیسے سنگین مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور اس کے ساتھ غربت ،
مہنگائی اور بے روزگاری نے پاکستانی عوام کا جینا محال کر دیا، اس کی وجہ
بھی خود ہم اور ہمارے حکمران بنے۔
قیام پاکستان کے لیے لاکھوں لوگوں نے عظیم مقصد کی خاطر اپنی جانوں کے
نذرانے دیے، لیکن ہم بہت جلد ہی قیام پاکستان کے مقصد کو بھول کر باہم
سرپھٹول میں مشغول ہوگئے۔ اِس کا گریبان اس کے ہاتھ میں اور اس کا دامن اِس
کی گرفت میں۔ پارٹی بازی، لسانی منافرت، فرقہ ورانہ لڑائیاں، دہشت گردی،
سیاست دانوں کی خرمستیاں، اوپرسے نیچے تک کرپشن، میرٹ کا قتل عام، عدالتوں
کی بے وقعتی، انصاف کاخون، تعمیر کی جگہ تخریبی ذہن کی پرورش، مثبت کی جگہ
منفی سوچ کافروغ، امن و امان اور تحفظ کی بجائے خوف و دہشت اور خون ریزی و
سفاکی کے جراثیم کی پرورش، غرض ہم نے مل جل کر قوم و ملک کی تباہی کا ہر
سامان کیا۔ ہم نے کرپشن میں ساری قوموں کو پیچھے چھوڑدیا۔ دھاندلی کے تمام
ریکارڈ توڑ دیے۔ ہم نے ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی جیسی اصطلاحات رائج کر
کے ملک کو بدنام کیا۔ ہمارے حکام اور وزرا کی عیش سامانیاں دیکھ کر امریکا
اور روس جیسے متمول ممالک کے حکمران انگشت بدنداں رہ رہ گئے۔ امیر و غریب
کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔ قانون صرف غریب کے لیے اور امیر نے خود کو ہر
قسم کے قانون سے آزاد سمجھا۔ ہم اور ہمارے حکمرانوں نے قیام پاکستان کے
مقاصد کے منافی ہر کام کیا۔ حکمرانوں نے ملک کی دولت دل کھول کر لوٹی اور
عوام نے جہاں جس کا بس چلا قانون شکنی کی اورغیرقانونی کام کیا۔ یہ ہے وہ
نقشہ جو آزادی کے69 سال گزرنے کے بعد آج ہمارے سامنے ہے۔
ہم نے ان انہتر سالوں میں بہت کچھ کھویا اور شاید ہی کچھ پایا ہو۔ انہتر
سال بعد بھی ہم ایک قوم نہیں بن پائے۔ ہم ایک ملت نہیں بن پائے۔ متحد ہونے
سے قاصر رہے۔ ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کو مسلمان تسلیم کرنے کو
تیار نہیں۔ ہم نے الگ ملک تو حاصل کر لیا لیکن حقیقی پاکستانی اور حقیقی
مسلمان نہیں بن پائے۔ اگرہم ان انہتر سالوں میں کچھ بن پائے ہیں تو وہ سنی،
شیعہ، وہابی، دیوبندی، بریلوی اور نجانے کون کونسے فرقے بن پائے ہیں۔ ہم
متحد ہونے کے بجائے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹنا پسند یدیدہ فعل سمجھ بیٹھے۔
حالانکہ 14 اگست 1947ءکو جب آزادی کی دولت نصیب ہوئی، اس وقت ہم ذات پات،
علاقے اور لسانی گروہوں کے بجائے ایک ملت تھے، جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر
اکٹھے تھے اور قیام پاکستان سے پہلے ہم نے خود سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں
ایک الگ خطہ زمین مل جائے تو ہم اس میں عدل و انصاف اور اسلام و امن کا
قانون نافذ کریں گے، لیکن آج ہم خود اپنے تمام وعدوں کو فراموش کرچکے ہیں
اور ہم نے قیام پاکستان کے وقت اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے لاکھوں
افراد کے ساتھ دغا کیا، انہتر سال بعد بھی ملک میں وہ نظام نافذ نہیں کر
پائے، جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔
انہتر سال گزرنے کے باوجود بھی ہم آزادی کے ثمرات سے فیض یاب نہیں ہوسکے
ہیں۔ پاکستان میں بڑے لوگوں کے ناجائز کاروبار ترقی کے تمام ریکارڈ قائم
کرچکے ہیں۔ یہ کاروبار پاکستان سے نکل کردنیا بھر کے ملکوں میں پھیل چکے
ہیں۔ غریب ملک کے حکمران اور سیاست دان بلا روک ٹوک اربوں روپے غیر ملکی
بینکوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ حکمرانی اس ملک میں کرتے ہیں، جبکہ ان
کی اولادوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے رہائشی منصوبوں کی پلاننگ
بیرونِ ملک میں کی جاتی ہے۔ یہ لوگ چند لاکھ کا فائدہ اٹھانے کے لیے کروڑوں
روپے کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔ ملک میں پچھلی
چند دہائیوں میں کمائی جانے والی دولت میں سے تقریباً 80 فیصد سیاسی اثر و
رسوخ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی ہے۔
اس ملک کا سفید پوش اور غریب طبقہ سیاسی، معاشی، سماجی، قانونی اور تعلیمی
طور پر پسماندہ ہے۔ ملک کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برت رہی ہے۔
کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے سوچیں کہ کیا ہمارے بڑوں نے اپنی جانوں کے
نذرانے دے کر یہ ملک یہ کام کرنے کے لیے حاصل کیاتھا؟ ہر گز نہیں۔ پاکستان
اس لیے حاصل نہیں کیا تھا۔ |
|