تو حکومتی امور کون سنبھالے گا
(Faheem Shakir, Shaikhupura)
جناب اگر آپ بھی تجارت کریں گے
تو حکومتی امور کون سنبھالے گا ، یہ الفاظ تھے ایک صحابی رسول کے، اس وقت
جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے، اور پھر
جب ان کی تنخواہ کا معاملہ اٹھا تو آپ ؓ نے تاریخی الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا
کہـ’’ میں اسی قدر تنخواہ لوں گا جس قدر ایک مزدور لیتا ہے‘‘ تو ایک کہنے
والے نے کہا کہ مزدور کی تنخواہ میں آ پ کا گزارا مشکل سے ہی ہوگا تو آپ ؓ
نے ارشاد فرمایا’’ تو پھر میں مزدور کی تنخواہ بڑھا دوں گا‘‘
یہ وہ سنہری دور تھا جب مسند خلافت کے جانشین کو مزدور طبقہ کی فکر لاحق
تھی اور عامۃ الناس پر کوئی بھی ایسا ٹیکس لاگو نہ تھا جس کو ادا کرنے سے
وہ محروم تھے۔
جبکہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 25ملین لوگ PTCLانٹرنیٹ استعمال کرتے
ہیں جبکہ اس انٹرنیٹ پر ود ہولڈنگ ٹیکس 220روپے فی کس لگایا گیا ہے جو کہ
5ارب50کروڑ بنتا ہے-
بجلی پر حکومت نے دو نئے سرچارج، فنانشل کاسٹ سرچارج اور ٹیرف ریشنلا ئزیشن
سرچارج عائد کئے ہیں جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3روپے کا اضافہ
ہوا ہے آزاد ذرائع کے مطابق اس سرچارجز سے رواں سال 130ارب روپے کی آمدن
ہوگی جبکہ وزارت پانی و بجلی کے مطابق گھریلو صارفین پر اس کا کوئی اثر یا
بوجھ نہیں ہوگا، کیسے نہیں ہوگا یہ تو وزارت ہی بتا سکتی ہے-
اور سننے میں آیا ہے کہ ڈیجیٹل میٹرز پرانے میٹرز کی نسبت 35فیصد تیز چلتے
ہیں ، یعنی کم بجلی کھاتے لیکن یونٹس زیادہ دکھاتے ہیں ، چند طبقے تو دھوکہ
باز تھے ہی، اب میٹرز بھی یہ کام کرنے لگیں گے، حیرت ہے۔
گھریلو صارفین کو پانی کا بل جو کہ پہلے فی گھر 60روپے تین ماہ کے لئے تھا
اب بڑھا کر یکدم سے 300روپے فی مہینہ کر دیا گیا ہے اور یوں100گھروں پر
مشتمل گاوں جو پہلے تین ماہ کا بل6000روپے بل ادا کرتا تھا اب ایک ماہ کا
بل 30000ادا کرے گا ۔چلو پھر بھی شکر ہے پانی تو ملتا ہے نا، احتجاج کرنے
والے رک جائیں ورنہ پانی سے بھی جائیں گے۔
عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت خاطر خواہ کم ہونے کے باوجود ملک میں پٹرول
پر روپیہ دو روپے کم کرکے عوام پر احسان جتانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن
گاڑیوں کے ٹیکس کی مدمیں جو رقم وصول کی جا رہی ہے وہ تین گنا زیادہ ہے ۔
شاید اسے ہی کہتے ہیں دائیں کی دکھا کر بائیں کی مارنا،
بھٹہ خشت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے نام پر 3فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، کون سا
طبقہ ہے جو اس ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ سے محفوظ رہ سکا ہے اوراس قدر ٹیکسز
لگا کر حکومت کون سا خسارا پورا کر رہی ہے، خسارا پورا ہوتا تو نظر نہیں
آتا البتہ حکومتی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ساری عوام دیکھ رہی ہے، وزراء کے پاس
اربوں روپے کی گاڑیاں تو ہیں لیکن غریب کے بچے کے پاس کھانے کو روٹی نہیں
ہے ۔ سیاست جائے بھاڑ میں ،اس کی بلا سے ۔
حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ہمسائیوں سے تجارت کی فکر لاحق اور
شدت سے لاحق ہے
تو ہم بھی حکومتی سے یہی کہیں گے کہ جناب اگر آپ بھی تجارت کریں گے تو
حکومتی امور کون سنبھالے گا؟ |
|