ہفت روزہ’’رضوان‘‘لاہور کا ختم ِ نبوت نمبراگست 1952ء

(ایک تاریخی خاص نمبر)

پس منظر :
تحریک پاکستان کے خلاف قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں اور کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی رحمت اورمجاہدینِ تحریک ِ آزادی کی مخلصانہ کوششوں سے پاکستان معرضِ وجود میں آگیا توقادیانیوں نے اس ملک پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی(1)۔بد قسمتی سے ظفراﷲ خاں قادیانی کے ملک کا وزیر خارجہ بن جانے سے قادیانیوں کواپنا مکروہ خواب جلد از جلد تکمیل کے مراحل طے کرتا ہوانظر آنے لگا ۔ادھرنوزائیدہ مملکت کے فضائی قلعہ ضلع سرگودھا کے بالکل نواح میں ’’ربوہ‘‘کے نام سے خالصتاًقادیانی ہیڈ کوارٹر کے قیام(2) سے قادیانی بزرجمہروں کی باچھیں کھل گئیں۔پولیس ،انتظامیہ اوربیوروکریسی قادیانیت نوازی میں اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ قادیانیت کے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کیبارے میں سخت کاروائیوں کی سفارشات ہوم ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کی جاتی تھیں جبکہ قادیانیوں کے جلسے پولیس اور انتظامیہ کی کڑی نگرانی میں منعقد ہوتے رہے (3)۔کئی مساجد زبردستی مسلمانوں سے چھین کر قادیانیوں کو دے دی گئیں(4)۔ قادیانی وزیر خارجہ ظفراﷲ خاں کی خلاف اسلام سرگرمیاں جب حد سے بڑھ گئیں اور اُس نے قادیانیت کی تبلیغ کھلے عام شروع کردی تومسلمانوں کی طرف سے بھی اس کی مخالفت میں شدت آنے لگی۔مسلمانوں نے اپنے جلسوں اور تقاریرمیں اس کے کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھانا شروع کیا تو 20فروری1950ء کو وزارت قانون نے متعدد علماء اور مذہبی راہنماؤں کو بلا کر تنبیہہ کی کہ ’’چوہدری ظفراﷲ خاں اور جنرل نذیر احمد(5) جیسے معزز و مقتدر ارکان مملکت کو گالی گلوچ کا نشانہ بنانے کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا ‘‘(6)۔ڈی آئی جی سی آئی ڈی مسٹر انور علی نے چیف سیکرٹری پنجاب کی خدمت میں لکھا :’’سرظفراﷲ خاں کے خلاف دشنام ترازی وبد گوئی کسی حالت میں برداشت نہ کی جائے ۔ہر شخص جو کابینہ کے کسی وزیر کی علیٰ الاعلان توہین کرے اس امر کا مستوجب ہونا چاہیے کہ اس کے خلاف زیردفعہ21پنجاب ایکٹ پبلک سیفٹی ایکٹ کاروائی کی جائے‘‘(7)۔جبکہ مسٹر قربان علی انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے 23مئی1951ء کو کھلی دھمکی دی کہ اگراس(قادیانیت کے) موضوع پر کچھ کہا گیا تو اس کے نتائج بہت برے ہونگے۔(8)
تحریکِ ختم نبوت 1953ء جسے حکومتی سطح پر ’’فسادات پنجاب ‘‘کا نام دیا گیا،سے متعلق ’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘ کے ابتدائی سو صفحات کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فوج ،بیورو کریسی ، انتظامیہ اور حکومت کے اہم عہدوں پر قادیانیوں کے براجمان ہونے کی وجہ سے قادیانیوں کے ہر جائزوناجائز فعل کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہرسخت قدم اٹھایا گیا جبکہ قادیانیوں کے خلاف زبان کھولنے اور تقاریر کرنے کی وجہ سے متعدد علماء کرام پر مقدمات قائم کر دئیے گئے۔ظفراﷲ خاں قادیانی کی برطرفی کا مطالبہ دبانے اورقادیانیت کے خلاف تقاریرروکنے کی غرض سے مساجد کے اندر بھی دفعہ 144نافذ کر کے جلسے جلوس منعقد کرنے پرسخت پابندی عائد کردی گئی(9)۔جبکہ قادیانی جلسوں کو پروٹوکول اورحکومتی سرپرستی مہیا کی گئی(10)۔ وفاقی وزیر خارجہ ظفراﷲ خاں قادیانی نے قادیانیوں کے جلسوں میں بنفس نفیس شامل ہونا شروع کردیا۔اسی طرح کے ایک قادیانی جلسہ منعقدہ18,17مئی1952جہانگیر پارک کراچی میں ظفراﷲ خاں قادیانی نے شریک ہو کر خطاب کرناچاہا۔ملک کے کشیدہ حالات کے پیش نظر خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان نے’’ دَبے لفظوں میں‘‘ اُسے منع کیا کہ وہ اس جلسہ میں شریک ہو کر مسلمانوں کے جذبات مزید برانگیختہ نہ کرے۔لیکن ظفراﷲ خاں قادیانی نے کہا کہ وہ ہرصورت جلسہ میں شریک بھی ہوگا اور خطاب بھی کرے گااگرچہ اسے وزارت خارجہ ہی کیوں نہ چھوڑنی پڑے(11)۔ظفراﷲ خاں کا دو ٹوک جواب سن کروزیر اعظم اپنا سا منہ لے کررہ گئے اور ظفراﷲ خاں قادیانی نے اس جلسہ میں شرکت کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک انتہائی اشتعال انگیز تقریرکی۔یہاں تک کہ اُس نے قادیانیت کو زندہ اسلام اور قادیانیت کے علاوہ دیگر اسلام کو مردہ اسلام کہا (12)۔ ان حالات میں قادیانی خود کو اتنا مضبوط وبااثر سمجھنے لگے کہ قادیانی گُرو مسلم قائدین و عمائدین کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے پر اُتر آئے۔قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے 1952ء میں ایک تقریر کے دوران قادیانیوں کو اشتعال دلاتے ہوئے کہا کہ’’ ایسی صورت حال اختیار کرلو کہ تمہارے مخالف 1952ء کے گذرنے سے پہلے پہلے تمہارے قدموں میں گرنے پر مجبور ہو جائیں ۔اب قادیانی مقتولوں کا بدلہ سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری،مولا نا مودودی،مفتی محمد شفیع اورمولانا عبدالحامد بدایونیؒ سے لیا جائے گا ۔(13)۔‘‘
متذکرہ بالاحالات میں قادیانیت کے خلاف کوئی بات کرناخود کو کسی بہت بڑی مصیبت کے حوالے کرنے سے کسی طور کم نہ تھا۔ لیکن قربان جائیں شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضوی ؒپر کہ ان انتہائی نامساعدحالات میں آپؒکی رگِ حمیت پھڑکی اور آپؒ بلا خوف و خطر میدان کارزار میں کود پڑے۔آپ ؒنے اگست 1952ء میں ہفت روزہ ’’رضوان ‘‘لاہور کازیر نظر وقیع’’ختم نبوت نمبر‘‘ شائع کر کے قادیانیت کے تارو پو بکھیر دئیے۔ہفت روزہ رضوان کے ختم نبوت نمبر کا شائع ہونا تھا کہ گُنگ زبانیں بھی قادیانیت کے خلاف گویا ہوگئیں ا ور شکستہ قلم از سرِ نو قادیانیت کے خلاف پُختہ و پرداختہ ہو گئے ۔راقم کی ولادت سے بھی قریبا 17 سال اگست 1952ء میں شائع ہونیوالے مجلہ پراس کی اشاعت کے پورے 63سال بعد اگست 2015ء میں راقم کو تبصرہ تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے ۔ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء۔
کچھ ایڈیٹر کے بارے میں :
ہفت روزہ ’’رضوان‘‘لاہور کے بانی و ایڈیٹر اور برصغیر کی بلند پایہ علمی درسگاہ’’ حزب الاحناف‘‘گنج بخش روڈلاہورکے منتظم و مہتمم محدث لاہوری،شارحِ بخاری علامہ سید محمود احمد رضوی ؒصاحب، خلیفہ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلویؒ سید دیدار علی شاہ الوریؒ کے پوتے،مفتی اعظم ہند ابوالبرکات سید احمد قادریؒ کے بیٹے ،قائد تحریک ختم نبوت 1953ء ابوالحسنات سید محمد احمد قادریؒ کے بھتیجے اورتحریک ختم نبوت1953ء میں سزائے موت سننے والے علامہ خلیل احمد قادریؒ کے تایا زاد بھائی تھے۔آپ1924ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا پورا گھرانہ علمی افق پر درخشندہ ستارہ بن کر چمک رہا تھا ۔7جون1947ء کو آپ نے’’حزب الاحناف(14) ‘‘ اندرون دہلی دروازہ لاہور سے موقرعلمی جریدہ ہفت روزہ ’’رضوان‘‘جاری کیا۔تحریک ختم نبوت1953ء کی قیادت آپ کے تایا سید ابوالحسنات محمد احمد قادری ؒ اور ان کی گرفتاری کے بعد اُن کے صاحبزادے علامہ خلیل احمد قادری ؒ نے کی تو آپؒ نے صفِ اول میں ان کے ساتھ کھڑے ہو کرتحریک کی قیادت کی۔دوران تحریک آپ ؒکو شاہی قلعہ لاہور میں پابند سلاسل کیا گیالیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے مؤقف پر آپؒچٹان کی طرح قائم رہے اور بڑی دلیری کے ساتھ حکومتی مظالم برداشت کئے ۔ تحریک ختم نبوت1974ء جس کے نتیجہ میں مرزائی غیر مسلم اقلیت قرار پائے تھے،اس تحریک میں آپؒ مجلس عمل تحفظِ ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل تھے۔ بطور سیکرٹری جنرل آپؒ نے ملک کے طول وعرض میں تنظیمی اور تحریکی دورے کر کے عوام و خواص کوفتنہ قادیانیت کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا۔ علمی دنیا کایہ درخشندہ ستارہ 14اکتوبر1999ء کو لاہور میں غرب ہوا۔آپؒ کا مرقد مبارک حزب الاحناف داتا گنج بخش روڈلاہور میں ہے(15)۔
ہفت روزہ ’’رضوان‘‘لاہور کا ختم نبوت نمبر:
موقرعلمی جریدہ ہفت روزہ ’’رضوان‘‘کی ابتدائی اشاعت سید محمود احمد رضویؒ کے زیر ادارت7جون1947ء کو’’حزب الاحناف ‘‘ اندرون دہلی دروازہ لاہور سے ہوئی۔اس جریدہ نے کئی خصوصی نمبر شائع کئے۔زیرِ نظرختم نبوت نمبرجریدہ کی جلد نمبر4شمارہ نمبر29تا32پرمشتمل7تا28اگست1952ء کی خصوصی اشاعت ہے۔اس کارجسٹرڈ ایل نمبر5473ہے جو آخری صفحہ پرمندرج ہے ۔اُس زمانے میں کتب و رسائل کے سرورق تیار کرنے میں آج کی طرح بہت زیادہ محنت نہیں کی جاتی تھی۔بلکہ کتاب یا جریدے کا نام جلی قلم کے ساتھ تحریر کیا،مصنف کا نام رقم کیاچند حاشیے لگائے اور سرورق تیار ہو گیا۔لیکن زیرنظر خصوصی نمبر کا سرورق بذات خودعلمیت کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخ اور ایک تحریک اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ سرورق پرآیت ِ قرآنی کے ایک حصہ ’’رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ‘‘ کوبطورِ سلوگن رقم کیا گیا ہے جو سورۃ توبہ کی آیت مبارکہ’’ وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘(16)کا حصہ ہے۔ منبع علوم و فنون قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے مومنین و مومنات کے لئے جنت کے انعامات اورابدی و سرمدی اچھے ٹھکانوں کا وعدہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان سب عمدہ ترین انعامات سے بھی بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی بھی مومنین کو ہی نصیب ہو گی۔علم مومن کی میراث ہے۔ مومن کو اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی نصیب ہوتی ہے جو کہ جنت اور جنت کی نعمتوں سے بھی بڑا انعام ہے۔ مجلہ کی انتظامیہ نے قرآنی آیت کے اس مخصوص حصہ کو مجلہ کا سلوگن بنا کر علم کی اہمیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔جبکہ’’بیاد گار اعلیٰ حضرت مولاناالحاج ابو محمدسید دیدار علی شاہ صاحب محدث الوری قدس سرہ العزیز‘‘ لکھ کر اس فقرہ میں برصغیر کی علمی اور تحریکی تاریخ سمودی ہے۔کیونکہ حضرت مولاناالحاج ابو محمدسید دیدار علی شاہ صاحب محدث الوریؒ برصغیر کے شہرہ آفاق علمی اور تحریکی خاندان کی علامت ہیں (17)۔مجلہ کی سرپرستی کا سہرہ الحاج علامہ ابوالبرکات سید احمد رضویؒ (18)کے سرسجایا گیا ہے۔
مجلہ کے سرورق پر ہی’’اہلسنت و جماعت کا مذہبی ترجمان‘‘ جلی حروف میں لکھ کر مجلہ کی مذہبی پالیسی اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ساتھ ہی ’’مذہبی، اخلاقی، اصلاحی مضامین کا گنجینہ‘‘لکھ کر مجلہ میں طبع شدہ تحریروں کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے کہ گویا کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔مدیر مسؤل کے طور پر سید محموداحمد رضویؒ کا نام رقم ہے ۔ 64صفحات کے مجلہ کی قیمت انتہائی معمولی یعنی فی شمارہ آٹھ آنے،سالانہ چھ روپے اور سہ ماہی تین روپے درج کر کے اسے ہر کس و ناکس اور امیر و غریب کی دسترس میں پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔مجلہ کو ’’ ملت ِاسلامیہ کے ہفتہ وار تبلیغی جریدہ‘‘کے طور پر پیش کرکے ملت ِاسلامیہ کی آواز بنا دیا گیا ہے ۔’’ختم نبوت نمبر‘‘ کے سرورق پر ایک چوکھٹا میں ملتِ اسلامیہ کے مطالبات (1)قرارداد مقاصد (19)کو عملی جامہ پہنایا جائے اور پاکستان کا آئین کتاب وسنت کے مطابق بہت جلد مرتب کیا جائے۔(2) مرزائی مرتد ہیں اس لئے ان پر مرتدوں کے احکام نافذ کئے جائیں(3)ظفراﷲ قادیانی وزیر خارجہ کو فوراً برطرف کیا جائے ، پیش کرکے ملتِ اسلامیہ کی نمائندگی کا حق ادا کردیاہے ۔
مؤقرمجلہ کے صفحہ2پر حمد وصلوٰۃ کے بعد قادیانیت کے ردّ میں آیت قرآنی(20)کاایک حصہ اورصحیح بخاری شریف کی ایک حدیث مبارکہ کا متعلقہ حصہ معہ ترجمہ رقم ہے۔ معاً بعد ہفتہ وار ’’رضوان‘‘کی لوحِ پیشانی کے نیچے مجلہ کی خریداری و رکنیت حاصل کرنے کی تحریک ہے ۔اس کے بعد مجلہ کی اجمالی فہرست بقیدمضامین و مقالات اور صفحات درج ہے۔فہرست کے نیچے ایک بار پھر اس خاص نمبرکی استیصالِ مرزائیت کے بارے میں خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس کی وسیع اشاعت و تقسیم کی مہمیز ہے۔سب سے آخر میں بارڈر سے بھی نیچے لکھا گیا ہے :’’ سیّد محمود احمد رضوی پرنٹر پبلشر نے دین محمدی پریس لاہور میں چھپواکر دفتر’’رضوان‘‘ اندرون دہلی دروازہ لاہور سے شائع کیا‘‘جبکہ مجلہ کے تمام صفحات کے اوپر کے حصہ میں صفحات کے شمار کے دائیں طرف ’’ہفت روزہ رضوان لاہور‘‘اور بائیں طرف’’۷تا۲۸ اگست۱۹۵۲ء ‘‘ اور ہر صفحے کے نچلے حاشیہ کے نیچے ’’ختم نبوت نمبر‘‘درج کیاگیا ہے۔
صفحہ نمبر3،4پر مدیر ’’رضوان‘‘کے قلم سے ادارتی مضمون’’مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا جائے‘‘ تحریر ہے۔اس ادارتی مضمون میں قادیانیوں کو مرتد ثابت کر کے قرآن و سنت اور عمل صحابہ کرام سے مرتد کی شرعی سزا’’قتل‘‘ثابت کر کے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مرزائیوں کی اصل سزاتو مرتد کی سزا کے مطابق ’’قتل‘‘ہے۔لیکننوازئیدہ ریاست پاکستان میں اس مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے سے کئی طرح کی شدیدمشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لہٰذا سر دست ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کو مسلمانوں سے الگ غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آپ ؒرقمطراز ہیں:
(۱) تاکہ ملت پر ظاہر ہو جائے کہ حضورﷺ کے بعد مدعی نبوت خارج از اسلام ہے۔
(۲) تاکہ پاکستان کی سالمیت کو بر قرار رکھا جا سکے۔
(۳) مرزائیوں کو اصولِ اقلیت کے مطابق (تمام شعبہ ہائے زندگی میں)حصہ (نمائندگی)دیا جائے۔
(۴) مرزائیوں کی خلاف ِپاکستان سازشوں کو ختم کیا جاسکے۔
’’خارو گل‘‘ کے عنوان سے مرزا قادیانی کے جھوٹے دعوی نبوت کی قلعی اس کی اپنی تحریروں کی روشنی میں صفحات5تا10پر کھولی گئی ہے۔ مقالہ کے اختتام پر خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مقالہ نگار رقمطراز ہیں:
’’ مرزا قادیانی اپنے متعلق خود فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ:
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار (21)
اب اس کی تفصیل کی ضرورت تو شائد نہ ہوگی کہ بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار کیا چیزہوتی ہے ۔سمجھنے والے سمجھ لیں اور مرزائی حضرات اس پر ایمان لائیں کہ مرزا قادیانی کی حیثیت صرف یہ تھی کہ وہ انسانوں کی عار اور بشر کی جائے نفرت تھا ۔ نبی ،ولی نہ تھا ‘‘۔
مرزا قادیانی کوقادیانی تحریروں کی روشنی میں ہی ’’مراق‘‘ کا مریض ثابت کر کے اس کے جملہ دعاوی کے تارو پو صفحہ10پر’’ مراقی نبی‘‘ میں بکھیرے گئے ہیں۔جبکہ صفحات 11تا16پر ایک چشم کشا اور روح فرسا تحریر ’’ مرزائیوں کے ناپاک عزائم و عقائد ۔حکومت پاکستان اور ملت اسلامیہ کے لئے لمحہ فکریہ‘‘ہے ۔اس مقالہ میں مرزائیوں کے عقائد اور توہین آمیزعبارات کے نمونے پیش کر کے ان کی مذہبی حیثیت اظہر من الشمس کرنے کے بعد اسلام اور پاکستان کے بارے میں ان کے ناپاک عزائم اور مکروہ منصوبے مضبوط حوالہ جات اور قادیانی دستاویزات کی روشنی میں عیاں کر دئیے گئے ہیں ۔تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالفت میں قادیانی بزرجمہروں کے کئی اقوال و افعال تحریر کئے گئے ہیں۔ مثلا صفحہ 12پر قادیانی گُرو گھنٹال مرزا بشیرالدین محمود کا یہ قول درج ہے:
’’میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اﷲ تعالی کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن قوموں کی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر علیحدگی کرنا بھی پڑے تو یہ اور بات ہے ۔ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اورپھریہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائیں‘‘(22)۔
ایک اور مقام پر کہا:
’’ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ہر تقسیم اُصولاً غلط ہے‘‘(23)
نوزائیدہ مملکت پاکستان کو مرزائی اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی مکروہ منصوبہ بندی کا اظہارایک مقام پر ان الفاظ میں کیا :
’’جب تک سارے محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی ۔مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے ،پولیس ہے،ایڈ منسٹریشن ہے،ریلوے ہے،فنانس ہے،اکاؤنٹس ہے،کسٹمزہے،انجینئرنگ ہے۔یہ آٹھ دس موٹے موٹے شعبے ہیں جن کے ذریعے جماعت اپنے حقوق محفوظ کرا سکتی ہے ۔ پیسے بھی اسی طرح کمائے جا سکتے ہیں کہ ہرشعبے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہماری ہر طرح آواز پہنچ سکے‘‘(24)۔
قادیانیوں کی سازشوں سے پردہ اٹھاتے کئی چشم کشا حقائق و واقعات کے حامل اس تاریخی مقالہ کے بعد’’ختم نبوت از قرآن‘‘کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ صفحاتِ مجلہ کی زینت ہے۔اس مقالہ میں قرآن کریم کی آٹھ آیات ِ بینات سے بڑی وضاحت کے ساتھ عقیدۂ ختم نبوت کا اثبات اور اس پر مرزائی اعتراضات کے شافی جوابات رقم کئے گئے ہیں۔مقالہ نگار نے آیات قرآنی کی تشریح کرنے کے بعد بارہ احادیث مبارکہ نقل کی ہیں جن کا نہ صرف ترجمہ تحریر کیا ہے بلکہ اُن احادیث کی مختصراً معنوی تشریحات بھی رقم کی ہیں اوراجماع امت کے متعدد مستند حوالے پیش کئے ہیں۔مزید برآں اپنے مؤقف کی تائید میں چار عقلی دلائل بھی پیش کئے ہیں۔یہ وقیع مقالہ صفحات 17تا30پرپھیلا ہوا ہے ۔
قادیانی عقیدہ ٔختم نبوت کے منکر اور اجرائے نبوت کے معتقد ہیں۔پہلے پہل تو یہ انتہائی منافقت سے کام لیتے ہوئے اجرائے نبوت پر،مرزا قادیانی کی بے شمار تحریروں کے باوجود ان کی تاویلات کرتے ہوئے ظاہری طور پر عقیدہ اجرائے نبوت اور مرزا قادیانی کو اعلانیہ مدعی نبوت مانے سے انکار کرتے رہتے تھے لیکن جب علمائے حق نے مرزا قادیانی کی ان گنت تحریروں کے حوالے دے کر ان کی منافقت کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑ دی تو قادیانیوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ یا تو مرزا قادیانی کے دعاوی سے لاتعلقی کا اعلان کردیں یا اس کو اس کی تحریروں کے مطابق مدعی نبوت تسلیم کر کے اس کا دفاع کریں۔ چنانچہ قادیانیوں نے مرزا قادیانی کے دعویٔ نبوت کا دفاع کرتے ہوئے اجرائے نبوت پر بودے اور تاویل آمیز دلائل دینا شروع کردئیے۔ اسی قسم کا ایک مضمون قادیانی آرگن’’الفضل‘‘ کی اشاعت 27جولائی 1952ء میں شائع ہوا تو اس کا محاکمہ کرتے ہوئے آڈیٹر ’’رضوان‘‘نے صفحات 31تا39پرایک تحقیقی اور علمی مقالہ ’’اجرائے نبوت پر الفضل کے دلائل اور اُن کے جوابات‘‘ قلمبند فرمایا ۔اس مقالہ میں ’’ــالفضل ‘‘ میں شائع ہونے و الے جملہ اعتراضات کا نمبر وار جائزہ لے کر ان کا ردِّ بلیغ کیا ہے ۔’’الفضل ‘‘میں اجرائے نبوت پر بودے دلائل دیتے ہوئے قادیانیوں نے متعدد مقامات احادیث نبوی اور اقوال صحابہ میں دیدہ دانستہ تحریف اور کتر بیونت کی ہے ۔صاحب مقالہ نے اپنے دلائل سے قادیانی یاوہ گوئیوں کا ردّ کرتے ہوئے ایسے متعددمقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں قادیانی تحریفِ لفظی و معنوی کے مرتکب ہوئے ہیں۔’’الفضل‘‘کی اسی اشاعت میں قادیانیوں نے حضرات صوفیائے کرام کے اقوال اور تحریروں کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے شبہات پیداکرنے کی کوشش کی کہ معاذاﷲ حضرات صوفیاء کرام اجرائے نبوت کے قائل تھے اور اجرائے نبوت کے قائل کو مسلمان ہی تصور کرتے تھے۔اس سلسلہ میں قادیانیوں نے شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی،امام شعرانی اور ملا علی قاری کی عبارات کی تاویلات کر کے اپنے مؤقف’’اجرائے نبوت‘‘کے حق میں پیش کی ہیں۔ایڈیٹر رضوان نے ’’رضوان‘‘کے اس خاص نمبر کے صفحات 40تا46پر’’مرزا کی نبوت اور حضرات صوفیائے کرام‘‘کے عنوان سے ’’الفضل‘‘کے اس باب میں بیان کی گئی جملہ خرافات اور ملمع کاریوں پرعلمی و تحقیقی گرفت کی ہے۔آپ تحریر کرتے ہیں:
لاہوری مرزائی عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے مرزا قادیانی کی وہ عبارتیں پیش کر یتے ہیں جس میں نبوت کا انکار معلوم ہوتا ہے۔اور قادیانی مرزائی عوام کو بہکانے کے لئے غیر تشریعی نبوت والی عبارتیں دکھا دیتے ہیں۔مرزائی اگر مرزاقادیانی کو سچا سمجھتے ہیں تو قطعی طور پرانہیں صاحب شریعت نبی مانتے ہوں گے کیونکہ اربعین کی عبارت منقولہ بالا میں مرزا قادیانی نے مبہم طور پر اپنے آپ کو صاحب شریعت قرار دیا ہے۔لیکن ختم نبوت کے دلائل سے تنگ آکر قادیانی مرزائی اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ مرزا قادیانی غیر تشریعی نبی ہے۔صرف تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے غیر تشریعی جاری ہے۔نبوت کی دو قسمیں تشریعی ،غیر تشریعی جن معنی میں مرزائیوں نے بیان کی ہیں وہ قرآن وحدیث اور دلائل شرعیہ کے بالکل خلاف ہیں۔کوئی نبی ایسا نہیں ہواجو صاحب شریعت نہ ہو۔مرزائیوں کو نبوت کی اس تقسیم کے دعویٰ کی دلیل میں نہ کوئی قرآنی آیت ہاتھ آئی نہ کوئی حدیث ۔البتہ حضرات صوفیائے کرام مثلاً شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒاور امام شعرانی ؒ کی بعض عبارات سے انہوں نے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی ۔اول تو مرزائیوں کو شرم وحیاسے کام لینا چائیے کہ جن صوفیائے کرام کو مرزاقادیانی نے ملحد اور زندیق قرار دیا، ان ہی کے اقوال و عبارت کو وہ مرزاقادیانی کی نبوت کی دلیل میں پیش کر رہے ہیں۔جیسا کہ مرزا قادیانی نے ابن العربیؒ کو وحدت الوجود کا حامی بتایااور وحدت الوجود کے قاعلین کو ملحد اور زندیق کہا۔قبل اس کے کہ ہم ان حضرات صوفیا کی عبارات پیش کر کے اس مسئلہ کو واضح کریں اور مرزائیوں کی افترا پردازی کا جواب لکھیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر صوفیاء کرام کے مسلک اور ان کے مقصد کو باوضاحت بیان کر دیں‘‘
اس کے بعد صاحبِ مقالہ نے حضرات صوفیاء کرام کے متعدداقوال نقل کرکے ثابت کیا ہے کہ حضرات صوفیا کرام عقیدۂ ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی بھی رنگ میں دعویٔ نبوت کرنے والے کو کافر و زندیق جانتے تھے اور حضرات صوفیاء کرام کے اقوال اور عقائد کی رشنی میں مرزا قادیانی کا جائزہ لیا جائے تووہ جھوٹا،مفتری اور دھوکہ بازہی قرار پاتا ہے ۔
قادیانی آرگن ’’الفضل‘‘کا27جولائی1952ء میں نام نہاد’’خاتم النبیین نمبر‘‘ شائع کیا گیا ۔مدیرِ ’’رضوان‘‘صفحہ47,46پر’’الفضل کے خاتم النبیین نمبر کا جواب ‘‘ کے تحت رقمطراز ہیں:
’’رضوان‘‘کا ختم نبوت کی کتابت جاری تھی کہ مرزائیوں کے آرگن ’’الفضل‘‘یعنی الْدَجل۔یا اَلْفَ ضَلْ (ہزارگمراہی)نے مورخہ27جولائی کوخاتم النبیین نمبر شائع کیا جس میں آیات و احادیث واقوال بزرگان دین کی غلط تفسیر وتاویل کر کے مسلمانوں کو گمراہ اور دین سے بے خبر عوام کو دھوکہ اور فریب دینے کی کوشش کی گئی ۔بفضلہٖ تعالیٰ ہم نے ’’رضوان ‘‘کے ختم نبوت نمبر میں’’الفضل‘‘کے استدلالات و شبہات کانہایت متانت سے مدلل و مکمل جواب دیا ہے ۔اور اس کی مکاری و کیادی کا پردہ چاک کیا ہے ۔اور بوقت تردید احمدیہ پاکٹ بک کو بھی سامنے رکھا ہے ۔جن مسلمانوں نے ’’الفضل ‘‘کایہ نمبر پڑھا ہے اگر وہ انصاف و دیانت اور مرزائی تعصب و ہٹ دھرمی سے علیحدہ ہو کر ہمارے مدلل و مسکت جواب پڑھ لیں گے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ’’الفضل‘‘کے فریب سے بچ جائیں گے اور حقیقت ان پر منکشف ہو جائے گی ۔الفضل کا یہ نمبرچوبیس صفحات کا ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔‘‘
پھر آپؒ نے دوکالم بنا کر ایک کالم میں ’’الفضل ‘‘کے خاتم النبیین نمبر میں شائع شدہ خرافات اور اس کے بالمقابل دوسرے کالم میں ’’رضوان‘‘کے ختم نبوت نمبر میں اس کے رد ّ پر مشتمل مقالات و مضامین کااجمالاً ذکر کر کے ’’الفضل‘‘کے پورے نمبرکا پوٹ مارٹم کردیا ہے ۔
صفحہ48پر’’مرزا چوں چوں کا مربہ‘‘صفحہ51,52پر’’ مرزاکا فیصلہ،بدتر ہر ایک بد سے ہے جو بد زبان ہے‘‘ صفحہ53پر ’’ مرزا کی عیسائیت،لم یلد ولم یو لد‘‘ صفحہ54 پر’’مداری کی پٹاری‘‘صفحہ55تا 60پر’’ عجائباتِ مرزا‘‘ان سب مضامین میں مرزا قادیانی کے اپنے اقوال کی روشنی میں ہی اس کا خوب سے خوب تر رد ّکیا ہے ۔
مولانا عبدالعزیز صاحب خطیب مزنگ لاہور کی دو صفحاتی تحریر ’’خاتم المرسلین ‘‘صفحات 49تا50پر ہے ۔اس مختصر مگر جامع ترین تحریر میں آپ نے نبی اکرم ﷺ کا خاتم النبیین ہوناواضح کرکے مرزا قادیانی کااپنے دعاوی میں دجّال و کذاب ہونادلائل و براہین کے ساتھ اظہر من الشمس کر دیا ہے۔ایک مقام پرآپؒ فرماتے ہیں:
’’آدم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و والسلام تا نبی آخر الزماں ﷺ (روحی فداہ)جتنے انبیا و مرسلین علیہم السلام گذرے ہیں،ان کے نام کا پہلے کوئی شخص نہ تھا۔آیت قرآنی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(25)اس پر شاہد ہے ۔مگر مزرا قادیانی سے پہلے بیسیوں’’ غلام احمد‘‘گذرے ہیں۔لہذا اس کا نام جھوٹوں کی فہرست میں شامل ہے ۔
مرزا قادیانی کی موت کو بھی اس کے جھوٹے ہونے پر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے آپ رقمطراز ہیں:
’’نبی ﷺکا جہاں انتقال ہوا وہیں مدفون ہیں مگر مرزا قادیانی نے لاہور براندڑتھ روڈ کے قرب و جوار میں دنیا سے کوچ کیا ۔مگر اُس کو خردجال(26) پر سوار کر کے ایسے ڈبہ میں جہاں عموماً آدمی سوار نہیں کئے جاتے، قادیان لے جایا گیا ۔بوقت روانگی(ریلوے )اسٹیشن لاہور پر ان پر ’’پھولوں‘‘ کی وہ بارش ہوئی(27) کہ الامان ،الامان۔کسی معمر لاہوری شخص سے اس کی تشریح پوچھ لو،لہذا ایسا شخص نبی نہیں ہو سکتا۔
کُجا مہدی کُجا دجال ناپاک
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک
احادیث مبارکہ میں بیان شدہ پیش آمدہ واقعات میں سے چند ایک واقعات بیان کر کے ان کی روشنی میں مرزاقادیانی کی شخصیت و دعاوی کا تجزیہ ’’ مرزا غلام احمد احادیث اور واقعات کی نظر میں‘‘صفحات 60تا62پر کیا گیا ہے ۔اس مختصر مضمون میں مخصوص علمی اندازمیں مرزا قادیانی کا مضبوط ردّ کیا گیا ہے ۔ مولانا ابو داؤد محمد صادق ،خطیب زینت المساجد گوجرانوالہ کے قلم حقیقت رقم سے مرقوم ’’مسئلہ ختم نبوت کی نزاکت‘‘مجلہ کا آخری مقالہ،آخری سے پہلے دوصفحات کی زینت ہے ۔قرآن وسنت اور اقوال آئمہ سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور قادیانی فتنہ کی ہولناکیاں بیا ن کرنے کے بعد آپ رقمطراز ہیں :
’’اب خود ہی خیال فرمائیے کہ مسئلہ ختم نبوت کس قدر نازک ہے ۔اور مرزا قادیانی کے متعلق یاد رکھئے کہوہ صرف ختم نبوت کے انکار ہی کی وجہ سے مرتد نہیں بلکہ اس ڈبل کفر کے علاوہ بھی اس کے بیسیوں کفریات ہیں ۔لہذا مرزا قادیانی یا اور کسی مدعی نبوت کو نبی یا رسول ماننایا اپنا امام و پیشوا جاننا تو درکنار ایسوں کو ادنیٰ مومن سمجھنا اور اُن کے کفر میں شک کرنا بھی اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔‘‘
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے
خصوصاً آج کل کے انبیاء سے
اس اختتامی مضمون کے اختتام پر ادارہ کی طرف سے ایک خوشخبری اطلاعاًدرج کی گئی ہے کہ:’’چکڑالویوں کی سرکوبی کے لئے ’’رضوان ‘‘کا ادارہ ’’حدیث نمبر‘‘ کی تیاری میں مصروف ہے ۔تاریخ کا بے چینی سے انتظار کیجئے ۔آخری صفحہ پر’’مفید کتابیں‘‘ کے عنوان سے اہلسنت کی مفید عام علمی سترہ کتب کا مختصراً تعارف اور قیمت مندرج ہے۔ برائے حصول دفتر ہفتہ وار’’ رضوان ‘‘لاہور کا پتہ تحریرکیا گیا ہے ۔کتب کے تجارتی اشتہار کے ساتھ ہی مجلہ کا اختتام ہوا ہے ۔
مجلہ میں بعض ایسی چیزیں بھی آگئی ہیں جن کی وجہ سے مجلہ کی اہمیت قدرے کم ہوئی ہے جیسا کہ مقالہ نگاران کے نام لکھنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں دو تین مقالات کے علاوہ کسی مقالہ کے پر صاحب مقالہ کا نام درج نہیں ۔اگر صاحب مقالہ کا نام بھی درج کردیا جاتا تو مقالات کی اہمیت دوچند ہو جاتی ۔علاوہ ازیں مرزا قادیانی گستاخ ِ رسول تھا اورگستاخ ِ رسول کے لئے عزت والے الفاظ والقاب نہیں بولے جاتے جبکہ مجلہ ہذا کی تحریروں میں مرزا قادیانی کے لئے ’’ مرزا صاحب‘‘اور’’ مرزا جی‘‘کے الفاظ اور جمع کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں ۔جو مناسب نہیں۔اس گستاخ رسول اور گستاخ اسلام کا نام’’ غلام احمد‘‘ بھی عام طور لکھنا مناسب نہیں کیونکہ اس نے اسلام سے بغاوت کر کے حضرت احمدﷺ کی غلامی سے بغاوت کردی ہوئی ہے لہذا اس کے لئے صرف ’’ مرزا قادیانی‘‘اور واحد کے صیغے استعمال کئے جانے چاہیے ۔مجلہ کی تحریروں میں حوالہ جات کے سنینِ تاریخ درج کرتے وقت بھی مناسب احتیاط نہیں کی گئی اور کئی مقامات پر کاتب کی غلطی سے بھی سنینِ تاریخ اور کتب کے صفحات کے حوالہ جات میں تفاوت آگیا ہے ۔اگر اس سلسلہ میں مجلہ انتظامیہ قدرے احتیاط کر لیتی تو مجلہ کو مزید چار چاند لگ جاتے ۔تاہم ان معمولی ’’لغزشوں‘‘کے باوجود مجلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔اگر مجلہ ’’رضوان ‘‘ کی موجودہ انتظامیہ اس کی ایڈیٹنگ کر کے اور احتیاط کے ساتھ حوالہ جات لگا کر اسے دوبارہ شائع کر دے توتشنگان علم کی علمی پیاس بجھانے کے لئے یہ علمی خوان پھر سے میسر آسکتا ہے ۔تاہم مختلف علمی ویب سائیٹس پر اس مجلہ کا سقین شدہ مواد موجود ہے ،جب تک مجلہ کی دوبارہ اشاعت نہیں کی جاتی شائقین اسے ویب سائٹس سے ڈاؤن لوڈ کر کے اس کے مندرجات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ میری دلی دعا ہے کہ اﷲ تعالی اس مجلہ کی ترتیب و تدوین اور اشاعت وترسیل میں کسی بھی طور پر حصہ ڈالنے والے جملہ احباب کوسعادتِ دارین سے نوازے۔آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ
حواشی و حوالہ جات
(1) قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے نوزائیدہ مملکت پاکستان کو مرزائی اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی مکروہ منصوبہ بندی کا اظہارایک مقام پر ان الفاظ میں کیا :
’’جب تک سارے محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی ۔مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے ،پولیس ہے،ایڈ منسٹریشن،ریلوے ہے،فنانس ہے،اکاؤنٹس ہے،کسٹمزہے،انجینئرنگ ہے۔یہ آٹھ دس موٹے موٹے شعبے ہیں جن کے ذریعے جماعت اپنے حقوق محفوظ کرا سکتی ہے ۔ پیسے بھی اسی طرح کمائے جا سکتے ہیں کہ ہرشعبے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہماری ہر طرح آواز پہنچ سکے‘‘(اخبار الفضل ،11جنوری1952ء،ربوہ)۔
(2) ربوہ (چناب نگر) فیصل آباد سرگودھا روڈ پر چنیوٹ سے دوسری جانب دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقع ہے ۔ربوہ (چناب نگر)کی 1033ایکڑ 7کنال8مرلے سرکاری اراضی11جون 1948ء کو قواعدوضوابط سے ہٹ کراُس وقت کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سرگودھا عزیز احمد باجوہ قادیانی اورظفراﷲ خاں قادیانی (وزیر خارجہ پاکستان) کی ذاتی کوششوں سے دس روپے فی ایکڑ کے حساب سے’’ انجمن احمدیہ‘‘کے نام رجسٹری ہوئی۔جبکہ انجمن احمدیہ نے 2000ایکڑ سے بھی زائد اراضی پر قبضہ کر کے 14ستمبر1948ء کواس مقام پر ’’ربوہ ‘‘کے نام سے شہر آبادکرنا شروع کیا ۔ قادیانیوں نے اس شہر کو ریاست کے اندر ریاست کی شکل دے رکھی ہے ۔ربوہ میں ملکی قانون نہیں بلکہ ’’قادیانی قانون‘‘چلتا ہے ۔پہلے تو کسی شخص بلکہ سرکاری اہلکاروں کو بھی قادیانیوں کی اجازت کے بغیر ربوہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ تحریک ختم نبوت 1974ء کے نتیجہ میں22جون1974ء کو حکومت پاکستان نے اس شہر کو کھلا شہر قرار دے کر تمام پاکستانی شہریوں کی اس شہر میں آمد ورفت کو عام کردیا۔ تاہم اب بھی قادیانی سکیورٹی کے نام پر ربوہ میں داخل ہونے والے پاکستانی شہریوں خصوصاً مسلمانوں کوسخت پوچھ گچھ کے بعد ہی شہر میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں ۔ربوہ میں قادیانیوں نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشوں کی منصوبہ بندی میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ جاری رکھا ہے ۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جب پورے ملک میں رات کو لاروشنیاں بندرکھی جاتی تھیں حکومت اور فوج کے باربار انتباہ کے باجود ربوہ کی روشنیاں بند نہ کرکے بھارتی جنگی طیاروں کو سرگودھاکی نشاندہی کی جاتی رہی۔ مجبوراًحکومت کو ربوہ کی بجلی کاٹ کر اس کی روشنیاں بند کرنا پڑیں۔4فروری 1999ء کو پنجاب حکومت نے ربوہ کا نام تبدیل کر کے ’’چناب نگر‘‘ کردیا ۔(عقیدہ ٔ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت حقائق کی روشنی میں، صادق علی زاہد ،ص158-166،2014ء)
(3 ) منیر انکوائری رپورٹ ،انکوائری کمیشن برائے تحقیقات فسادات پنجاب،ص 70،37نیا زمانہ پبلی کیشنز،لاہور،2010ء
(4) منیر انکوائری رپورٹ ،انکوائری کمیشن برائے تحقیقات فسادات پنجاب،ص 35تا38،نیا زمانہ پبلی کیشنز،لاہور،2010ء
(5) میجر جنرل نذیر قادیانی’’ راولپنڈی سازش کیس‘‘ میں ملوث تھا۔اس نے دیگر جرنیلوں کے ساتھ مل کر مارچ1951ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی گھناؤنی سازش کی تھی۔(ایضاً ص53)
(6) منیر انکوائری رپورٹ ،انکوائری کمیشن برائے تحقیقات فسادات پنجاب،ص 38،نیا زمانہ پبلی کیشنز،لاہور،2010ء
(7) ایضاً،ص44
(8) ایضاًص55
(9) ایضاًص103
(10) منیر انکوائری رپورٹ ،انکوائری کمیشن برائے تحقیقات فسادات پنجاب،ص 70،37نیا زمانہ پبلی کیشنز،لاہور،2010ء
(11) ایضاً،ص 121
(12) روز نامہ الفضل ،ص 5کالم 2،ربوہ،21مئی1952ء
(13) تحریک ختم نبوت 1953ء،مولا نا اﷲ وسایا ،ص 104،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۔ملتان ۔1991ء
(14) جب ابو محمد سید دیدار علی شاہ ؒ آگرہ سے لاہور تشریف لائے تو اہلسنت والجماعت کے اعتقادی تحفظ کے لییایک فعّال ادارہ کی ضرورت کے پیشِ نظرآپؒ کی زیر سرپرستی قاضی حبیب اﷲ،مولوی محمد دینؒ ،حاجی شمس الدینؒ اور مولانا محرم علی چشتیؒ نے’’ انجمن حزب الاحناف ہند‘‘کی بنیاد رکھی ۔یہ انجمن ۱۹۲۴ء میں قائم کی گئی۔اور اس انجمن کے زیرِ اہتمام مسجد وزیر خاں میں ’’دارالعلوم حزب الاحناف ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی ۔دارالعلوم حزب الاحناف نے تھوڑے ہی عرصے میں مرکزی علمی حیثیت اختیار کر لی۔ پہلے یہ دارالعلوم مسجد وزیر خاں میں قائم ہوا جس میں مولانا دیدار علیؒ شاہ اور اُن کے صاحبزادے علّامہ سیّد ابوالبرکات سید احمد قادری دامت برکاتہ، مولانا عبدالرحمن ہزارویؒ، مولانا عبدالواحد ملتانی اعزازی مدرس مقرر ہوئے ۔مسجد وزیر خاں کے متولی طالبعلموں کے رَش کی وجہ سے گھبرانے لگے تو ’’دارلعلوم حزب الاحناف ‘‘ مسجدلنڈا بازاروہاں یکی دروازہ ،پھر مسجد دائی انگہ،بعد ازاں مسجد مائی لاڈومیں تدریس جاری ہوئی۔آخر کار 15مارچ 1926ء کو دہلی دروازے کے اندرتین گنبدوں والی مسجددارالعلوم کے لئے منتخب کی گئی ۔ بعدا زاں یہ دار لعلوم داتا گنج بخش روڈ پر منتقل کردیا گیا۔جہاں آج بھی یہ دارلعلوم اپنی عظمتِ رفتہ کی یادیں دل میں سموئے موجود ہے ۔ اپنے زریں عہد میں اس دارالعلوم نے اپنی عملی کارکردگی سے بداعتقاد تحریکوں کے سیلاب کے سامنے ایک مضبوط بند کھڑا کر دیا ۔ پنجاب میں بلند کردار واعظ، پُر اثر خطیب، جیّد مناظر اور قابل مدرس پیدا کئے۔ ہزاروں طلبائے علم اس چشمۂ فیض سے سیراب ہو کر پنجاب کے ہر شہر میں پھیل گئے اور جہالت کی ظلمتیں انہی لوگوں کی شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں سے کافور ہونے لگیں۔ ماضی قریب کے مشہور خطیب، واعظ، مفتی، مدرس اور فقیہہ جو مشربِ اہل سنت کی خدمت کر تے رہے ہیں، اکثر اسی گلستان’’ حزب الاحناف‘‘ کی بہار ہیں۔
(15) تذکرہ مجاہدین ختم نبوت،صادق علی زاہد،ص304,305،مکتبہ جمال کرم دربار مارکیٹ ،لاہور،2009ء
(16) قرآن کریم،کلام اﷲ،سورت توبہ،آیت72
(17) سیّد دیدار علی شاہؒکے اَسلاف مشہد (ایران) سے واردِ ہند ہوئے ۔سیّدخلیل شاہؒ (آپ ؒکے پرداداد)پہلے شخص ہیں جن کا نام تاریخی صفحات پر جلوہ گر ہوا ۔سید خلیل شاہ ؒ ہی مشہد سے بلگرام اور وہاں سے فرخ آباد آئے۔کچھ عرصہ کے بعد فرخ آباد کو خیر آباد کہہ کر ریاست الور میں قیام پذیر ہوئے ۔آپ ؒ کا سلسلہ نسب امام موسیٰ رضا ؓسے ملتا ہے۔سیّد خلیل شاہؒ کی نسل سے برصغیر کی کئی علمی شخصیات نے جنم لیا جن میں سید نثار علی شاہ ؒ،ابو محمد سید دیدار علی شاہؒ،ابوالحسنات سید محمد احمد قادریؒاور ابوالبرکات سید احمد قادری ؒشارح بخاری سیّد محمود احمد رضویؒ کے اسمائے گرامی آج بھی برصغیر کے علمی اور تحریکی افق پر سورج بن کر چمک رہے ہیں۔سیددیدار علی شاہؒ کی حیات خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے کئی دفتر بھی ناکافی ہیں۔شدھی،سنگھٹن، قادیانیت اور دیگر باطل مذاہب کے ردّ میں آپ ؒ کی علمی،عملی،تحریکی اور تحریری خدمات آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔آپؒ کے ورود ِلاہور کے بارے میں جناب پیرزادہ اقبال احمد فاروقی ؒ رقمطراز ہیں ’’1922ء میں لاہور میں وہابی،نیچری اور مرزائی قوتوں نے بڑی سرعت سے سر اٹھایا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ ان تحریکوں کے سرکوب مولانا غلام قادری بھیرویؒ اور مولانا غلام دستگیر قصوریؒ وفات پاچکے تھے۔اور لاہور کسی جواں ہمت اور مستعد عالمِ دین کا شدت سے منتظر تھا۔مولانا دیدار علی شاہؒ نے لاہور کے مغموم سنیوں کی آواز پر لبیک کہا اور آگرہ چھوڑ کر لاہور پہنچے۔مسجد وزیر خاں کے خطیب مقرر ہوئے،اور لاہور کے کوچہ و بازاراس شیر کی گرج سے بیدار ہوگئے۔آپؒ کی آمد سے اس مسجد کے ویران درو دیوار صلوٰۃ وسلام کی ضیا بار آوازوں سے زندہ ہو گئے اور سنیوں کے لئے یہ مرکزمرکزِ خیر بن گیا۔نہ صرف لاہور بلکہ سارا پنجاب مسجد وزیر خاں کی طرف کھینچا آنے لگا………………لاہور کی معروف علمی درسگاہ’’حزب الاحناف‘‘کی بنیاد آپ ؒنے1926ء میں رکھی۔…………آپؒ کے تبحرِ علمی کا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور میں آپؒ نے سورۃ الحمد(سورت فاتحہ)کا درس شروع کیا تو طبع رَسا نے وہ جولانیاں دکھائیں کہ پورا ایک سال صرف ہو گیا ۔آپؒ نے متعددتاریخی علمی تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں۔(بحوالہ تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت لاہور از پیر زادہ اقبال احمد فاروقیؒ ص272تا274)
(18) الحاج علامہ ابوالبرکات سید احمد رضویؒ سید دیدار علی شاہؒ کے فرزند ارجمند،قائد تحریک ختم نبوت و تحریک کشمیر مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادریؒ کے برادر اصغر اور استاذ الاساتذہ تھے۔آپؒ کی ذاتی علمی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوپاک کے نامور علماء و خطباء اور دینی مدارس کے اساتذہ فن میں سے اکثر آپؒ کے شاگرد ہیں۔
(19) پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خاںؒ کی تحریک پر12مارچ1948؁ء کو آئین ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد منظور کی۔ قرار دادِ مقاصد نے پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں نہایت اہم مقام حاصل کیا۔ اس قرارداد کے ذریعے تخلیقِ پاکستان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں ایک اسلامی معاشرے کے قیام کو ملک کا نصب العین قرار دیا گیا۔اس قرار داد کی اہمیت کے پیش نظر اس کو پاکستان کے تینوں دساتیر1956؁ء ،1962؁ء ،1973؁ء میں افتتاحیہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
(20) مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (سورت الاحزاب آیت40)
(21) براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ97مندرجہ روحانی خزائن جلد21صفحہ127ازمرزا قادیانی۔
(22) اخبار الفضل،16مئی1947ء،قادیان
(23) اخبار الفضل ،12اپریل1949ء،قادیان
(24) اخبار الفضل ،11جنوری1952ء،ربوہ
(25) القرآن العظیم ،کلام اﷲ ،سورۃ مریم ،آیۃ 7
(26) مرزا قادیانی ریل گاڑی کو ’’خرِ دجال‘‘ کہتا تھا (بحوالہ شہادت القرآن ص21مندرجہ روحانی خزائن جلد 6صفحہ317از مرزا قادیانی)۔مگرقدر ت کا انتقام دیکھئے کہ لاہور میں جہنم واصل ہونے کے بعد لاہور سے بٹالہ تک اس کانامراد آخری سفر بھی اسی ’’دجال کے گدھے ‘‘ پر ہی ہوا۔جس ثابت ہوگیا کہ مرزا قادیانی مامور من اﷲ نہیں بلکہ دجّال و کذّاب ہی تھا ۔
(27) 26مئی 1908ء کومرزا قادیانی کی نامراد متعفن نعش جب برانڈرتھ روڈلاہور سے قادیان لے جانے کے لئے ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئی تو زندہ دلانِ لاہور نے سارا رستہ اس گستاخِ اسلام پرڈھیروں گندگی اور غلاظت پھینک کر اس سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کر کے اس کو انجامِ بد کی طرف روانہ کیا ۔صاحب مقالہ نے’’بوقت روانگی اسٹیشن لاہور پر اس پر ’’پھولوں‘‘ کی وہ بارش ہوئی کہ الامان ،الامان‘‘میں اسی ’’غلاظت پاشی ‘‘کی طرف طنزاً اشارہ ہے ۔
 
Sadiq Ali
About the Author: Sadiq Ali Read More Articles by Sadiq Ali: 3 Articles with 5642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.