قومی سیاست میں اس غیر معمولی
اہمیت کے حامل سال کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس کا پہلا دور
گزشتہ یوم آزادی سے لے کراس سال یوم جمہوریہ تک ہے اور دوسرا یوم جمہوریہ
سے لے کر تو یوم آزادی تک کا دورانیہ ہے۔اس دوران قوم نے وزیراعظم کا عروج
اور زوال دونوں دیکھ لیا ہےاور لوگوں کو پتہ چل گیا جو جس قدر تیزی کے ساتھ
اوپر جاتا ہے اسی سرعت کے ساتھ نیچے بھی آجاتا ہے۔ عروج کے زمانے کی
ابتداء انتخابی نتائج کے اعلان سے ہوئی۔ خود بی جے پی کو اس بات کی توقع
نہیں تھی کہ اسے اپنے بل پر اکثریت حاصل ہو جائیگی ۔ پہلی بار کسی ایسی
جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہوا جو اس کے خواب و خیال میں نہیں تھا ۔ زوال کی
ابتداء دہلی کے انتخابی نتائج سے ہوئی ۔ہندوستان کی تاریخ میں ایک نوزائیدہ
جماعت کو ایسی فتح حاصل ہوئی جس کا تصور محال تھا لیکن سچ یہی ہے کہ حقائق
کی پرواز تصورات کے آگے نکل جاتی ہے۔ ایوانِ پارلیمان میں گزشتہ ہفتہ سشما
سوراج نے تو اعتراف کرلیا کہ فی الحال وہ اپیش پرو(ناکامیوں کے دور ) سے
گذر رہی ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ یوم آزادی کی تقریر میں وزیرا عظم بھی
اعلان فرمادیں کہ فی الحال دیش کے یعنی ان کے اپنے ستارے گردش میں ہیں ۔
انتخاب سے قبل مودی جی کے ہمنوا جن اوصاف کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کررہے
تھے ،مناسب معلوم ہوتا کہ انہیں کی روشنی میں وزیرا اعظم کی سالانہکارکردگی
کا جائزہ لیا جائے۔ وہ اوصاف و خصوصیات مندرجہ ذیل تھیں:
• ترقی کا نشان ،
• تاجروں اور صنعتکاروں کا دوست ،
• بدعنوانی سے پاک صاف ،
• ہندو قوم پرست اور
• کام کروانےمیں ماہر ۔
کام کی مہارت: یوم آزادی کے موقع پر گزشتہ سال مودی جی نے کیا کہا تھا اگر
یہ تو شاید ہی کسی کو یاد ہو اس لئے کہ خود مودی جی نے بھی کہنے کے بعد ان
باتوں کو فراموش کردیا تھا مگر ’’ سوچھّ بھارت ‘‘ کا نعرہ بھلا کون بھول
سکتا ہے؟ مودی جی نے کھلے میں فراغت کی مجبوری کو اس قدر کھول کر بیان کیا
تھا ساری قوم شرمسارہوگئی اوردنیا بھر کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوگئی اور
اقوام متحدہ کے اعدادو شمار بھی سامنے آگئے کہ اس مصیبت میں گرفتار نصف
آبادی ہندوستان میں بستی ہے۔ ڈھائی ماہ بعد گاندھی جینتی کے موقع پر بڑے
طمطراق کے ساتھ ’’سوچھ بھارت‘‘ نامی مہم کا آغاز ہوا۔ ٹی وی پر خوشنما نظر
آنے والےرنگ برنگے کچرے کوصاف کرکے پھیلایا گیا تاکہ وزیرمحترم کو بو نہ
آئے اور پھر ذرائع ابلاغ کے سامنے اس کو صاف کرنے کا ڈرامہ کیا گیا ۔ اس
مہم کی تشہیر پر ۹۴ کروڈ روپئے خرچ بھی ہوئے لیکن اس کے دس ماہ بعد بی جے
پی کی ہی مرکزی حکومت کےوزارتِ شہری ترقینے ۴۷۶ شہروں کا جائزہ لے کر جو
ہوشربا انکشافات کئے اسے پڑھ کرمودی سرکار کو استعفیٰ دے دینا چاہئے ۔
صفائی ستھرائی میں سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والے ۱۰۰ شہروں میں سے ۳۹
کا تعلق جنوب ہند سے ہے جہاں کسی ریاست میں بی جے پی برسرِ اقتدار نہیں ہے۔
دوسرا مقام مشرقی ریاستوں کا ہے وہ بھی ہنوز کمل کا سایہ سے محفوظ ہیں۔
مغرب اور شمال جہاں بی جے پی کی ریاستی حکومتیں بالترتیب تیسرے اور چوتھے
درجے میں ہیں۔ دس بہترین شہروں کی اگر بات کی جائےنوی ممبئی کے علاوہ ایک
بھی شہر کسی ایسی ریاست میں نہیں ہے جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہو۔ سب سے
خراب کارکردگی دکھانے والے دس شہروں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے ۸ بی جے
پی کی سرکار والی ریاستوں میں ہیں ۔ وارانسی جو مودی جی کا اپنا حلقۂ
انتخاب ہے ۴۱۸ ویں مقام پر ہے ۔ یہ کام کروانے کا فن ہے یا چراغ تلے
اندھیرا کی کیفیت ہے۔
ہندو قوم پرستی:ہمارے ملک میں دانشوروں کی ایک بہت بڑی فوج ایسی بھی ہے جس
کے نزدیک کسی رہنما کا ہندو قوم پرست ہونا معیوب نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔
مودی جی کے اقتدار میں آتے ہی ہندو قوم پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔
زبانیں بے لگام ہو گئیں ۔ کسی نے کہا سارے ہندوستانی ہندو ہیں ۔ کسی نے رام
زادے اور حرام زادے کا فرق بتانا شروع کردیا۔ کوئی لو جہاد کے خلاف کمربستہ
ہو گیا تو کسی نے گھر واپسی کی مہم چھیڑ دی۔ فرقہ وارانہ فسادات اور مساجد
کے ساتھ گرجا گھروں پر بھی ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوگیا لیکن جب عالمی
سطح پر تنقید ہوئی تو مودی جی نے ساکشی مہاراج کو بلا کر کچھ اس طرح ڈانٹا
کہ وہ روپڑے ۔ سارے مہارتھیوں کو پیغام زباں بندی مل گیا اور پھر کیا تھا۔
آرایس ایس نے اپنی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کیلئے افطار پارٹی کا
اہتمام شروع کردیا اور اب تو علماء کے اجلاس بھی ہونے لگے ہیں ۔ اس سے قطع
نظر کہ اس کا فائدہ کیا ہوگا کم ازکم لوجہاد اور گھرواپسی کے سبب جو فضا
خراب ہورہی تھی اس پر روک لگ گئی ۔ اب تو حال یہ ہے کہ جنتر منتر پر علی
الاعلان دلت اسلام قبول کرتے ہیں مگر سنگھ پریوار علامتی مخالفت سے آگے
نہیں جاتا ۔ سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر بھی کسی زبان نہیں
کھلتی۔
بدعنوانی کا قلع قمع:مودی جی اپنے سرکار کی پہلی سالگرہ کے موقع پر چھتیس
گڑھ میں عوام سے سوال کیا تھا۔ اس سال کے دوران کیا آپ لوگوں نے کوئی
گھوٹالہ سنا؟ وزیراعظم کو نہیں پتہ تھا کہ خود چھتیس گڈھ میں ڈیڑھ لاکھ
کروڈ کا چاول گھوٹالہ ابل رہا ہے۔ اس کے بعد تو بدعنوانی کا آتش فشاں پھٹ
پڑا مہاراشٹر میں چکی کا گھوٹالہ ، ہریانہ میں زمین کا گھپلا اور مدھیہ
پردیش کی ویاپم بدعنوانی سامنے آتی چلی گئی ۔ ویاپم گھوٹالے کو دبانے
کیلئے شیوراج سنگھ چوہان نےجو رویہ اختیار اس پر سوشیل میڈیا میں لطیفہ
مشہور ہوگیا کہ ’’ہمارے یہاں یم راج نہیں شیوراج آتا ہے‘‘۔ جس کسی نے زبان
کھولنے کی جرأت کی اس کا گلا گھونٹ دیا گیا اور اب ۷۰ سے زیادہ طلباء صدر
مملکت سے خودسوزی کی اجازت مانگ رہے ہیں ۔ اس طرح ’’نہ کھاؤں گا اور نہ
کھانے دوں گا‘‘ والے نعرے کی دھجیاں اڑ گئیں ۔
اس ایک سال میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ’’نامو سے لامو‘‘ تک کا سفر ہے
۔ ایک سال قبل چہار جانب نامو (یعنی نریندر مودی) کا بول بالا تھا ۔ ہر
کوئی یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کس مسئلے پر کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی ہر
اوٹ پٹانگ بات ذرائع ابلاغ پر چھا جاتی تھی لیکن وہ مون دھارن کئے ہوئے ہیں
۔ انتخابی جلسوں میں رٹی رٹائی تقریر یا بیرونِ ملک لکھے ہوئے بیان کے
علاوہ وہ زبان نہیں کھولتے ۔ انتخابی جلسوں کی تقاریر کا بھی یہ حال ہے کہ
بہار کے گیا شہر میں ان کی حالیہ تقریر کا منٹوں میں نتیش کمار نے ایسا
پوسٹ مارٹم کیا کہ ذرائع ابلاغ میں مودی کے بجائے نتیش کا بول بالا ہو گیا
۔ اس کے برخلاف للت مودی کا یہ حال ہے کہ اگر وہ کوئی معمولی سا ٹویٹ بھی
کرے تو ذرائع ابلاغ پر چھا جاتا ہے اور لوگ اس کی بات کو وزیراعظم کے من کی
بات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ سشما کے طفیل اپنے خلاف وارنٹ کے باوجود وہ
آسٹریلیا میں آئی سی سی کے مدمقابل ایک نیا نظام قائم کرنے کا اعلان
کررہا ہےاور ساری دنیا اس کی جانب متوجہ ہے۔
للت مودی کے تنازع نے مودی سرکار کی بے مثال رسوائی کی ہے ۔ وزیر خارجہ
سشما سوراج اس کے چکرویوہ میں آئے دن پھنستی جارہی ہیں ۔ وہ جب بھی کچھ
بولتی ہیں ان کی مصیبت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ابھی حال میں انہوں نے ایوانِ
پارلیمان میں کہا کہ کسی کینسر زدہ خاتون کی مدد کرنا اگر جرم ہے تو وہ اس
کی مجرم ہیں۔ اس کے بعد وہ بولیں کہ میں نے یہ تعاون زبانی کیا ہے اگر کسی
کے پاس میرے خلاف ثبوت ہو تو پیش کرے۔ راہل نے سشما کے بیان کو انہیں پر
الٹ دیااور کہا کہ اگر سشما انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی مدد کرنا چاہتی
تھیں تو ایسا چوری چھپے کیوں کیا گیا ؟ علی الاعلان اپنے دفتر سے انہوں نے
خط کیوں نہیں لکھوایا؟ یہ پردہ داری ہی ان کے خلاف شاہد ہے اور انہیں قوم
کو یہ بتانا پڑے گا اس معاملے میں انہوں نے للت مودی سے کتنی رقم رشوت کے
طور پر لی ہے ؟ سونیا نے تو اسے ڈرامہ بازی قرار دے کر خارج کردیا لیکن
مودی جی کی چونچ ابھی تک اس سنگین معاملے میں نہیں کھلی اس لئے کپل سبل
جیسے لوگوں نے مودی جی کو’’بدعنوانوں کا چوکیدار‘‘ کے لقب سے نواز دیا ۔
بہار کے اندر انہوں نے سندھیا اور چوہان کی تعریف و توصیف بھی کرڈالی جن کے
خلاف بے شمار ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں۔
’’نامو اور لامو‘‘ کے باہمی تعلق کے حوالے سے بہت زیادہ حقائق ابھی پسِ
پردہ ہیں لیکن کانگریس کا الزام ہے مودی جی کے منظورِ نظر گوتم اڈانی کے
للت مودی سے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ اس وقت استوار ہوئے جب وہ وزیراعلیٰ کی
حیثیت سے گجرات کرکٹ ایسو سی ایشن کے صدر تھے ۔ مودی نے بعد میں یہ عہدہ
اپنے دستِ راست امیت شاہ کے حوالے کیا اور ان کے زمانے میں للت مودی کے
ساتھ تعلقات خوب پھلے پھولے ۔ للت مودی کے معاملے مودی جی خاموشی کا ایک
سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس دن وہ زبان کھولیں گے چہار جانب سے الزامات کا
ایک آتش فشاں پھٹ پڑے گا جو ان کے بظاہر صاف ستھرےدامن کو داغدار کردے گا۔
بدعنوانی کے خلاف مودی جی کے دھرم یدھ کی قلعی بی جے پی سابق نائب صدر رام
جیٹھ ملانی نے کھول دی ۔ بدعنوانی پر لگام لگانے کی خاطر چیف ویجلنس کمشنر
کے طور جناب کے وی چودھری کی سفارش کے خلاف جیٹھ ملانی نے صدرِ مملکت پرنب
مکرجی کو خط لکھ کرگزارش کی کہ وہ اس سے گریز فرمائیں اس لئے کہ یہ نامزدگی
قوم کیلئے ایک بہت بڑی تباہی بنے گی۔ رام جیٹھ ملانی نے کے وی چودھری پر یہ
الزامات لگائے کہ وہ نہ صرف بہت بدعنوان ہیں بلکہ جرائم پیشہ سرگرمیوں میں
ملوث ہیں ۔قوم دشمن عناصر کے ساتھ اپنے تعلقات کی بناء پر وہ بچ نکلتے ہیں۔
مودی جی اگر اس طرح کے آدمی کی مدد سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں
تو ان کی نیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ رام جیٹھ ملانی نے وزیراعظم کو خط لکھ کر
بتایا کہ’’ ان کے نزدیک وزیراعظم کے روبہ زوال احترام کا مکمل خاتمہ ہو گیا
اور اب وہ عدالت عالیہ اور عوام کی عدالت میں برسرِ پیکار ہوں گے‘‘۔ یہ وہی
رام جیٹھ ملانی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر
نریندر مودی کی حمایت کی تھی۔
ٍٍصنعت و حرفت:مودی جی نےاپنے پہلے ۶ ماہ کے اندر گوتم اڈانی اور مکیش
امبانی کے وارے نیارے کردئیے اور ’’میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ بلند کرکے ساری
دنیا کے صنعتکاروں کو ہندوستان میں آکر سرمایہ کاری کی دعوت دی لیکن لوگ
اس کاغذی شیر کے جھانسے میں نہیں آئے ۔ اس دوران انہوں تحویل اراضی کا نیا
قانون وضع کرکے کسانوں کی زمینوں پر شب خون مارنے کی ناکام کوشش کی مگر
راہل کے الزام ’’سوٹ بوٹ والی سرکار‘‘ نے وزیراعظم کی چولیں ہلادیں ۔ جب
انہیں دہلی اور بنگال کے انتخابی نتائج سے یہ احساس ہوا کہ غریب عوام کے
اندر ان شبیہ خاصی بگڑ چکی ہے تو انہوں نے ہڑبڑاہٹ میں جو اقدامات کئے اس
سے ملک کے سرمایہ دار بھی ناراض ہوگئے اور ان کی حالت نہ خدا ہی ملا نہ
وصال صنم کی سی ہو گئی ۔ مودی جی کی صلاحیتوں کے معترف راہل بجاج نے اپنے
حالیہ بیان میں ان کا جس طرح سےباجا بجایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
راہل بجاج کا والد بہت بڑے کانگریسی تھے لیکن ان کے خیال میں حالیہ کانگریس
پارٹی گاندھی جی تو کجا نہرو جی والی بھی نہیں ہے ۔ راہل بجاج نے بدعنوانی
سے بچنے کی خاطر کبھی بھی سرکار کے ساتھ کاروبار نہیں کیا اس لئے وہ
بلاتکلف اظہار خیال کیلئے مشہور ہیں ۔ راہل بجاج نے گجرات فساد کے بعد مودی
جی پر تنقید ضرور کی تھی لیکن بعد میں وہ مودی جی کے مداحوں کی فہرست میں
شامل ہو گئے تھے ۔ ابھی حال میں این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے
کہا کہ ۳۰ سال کے بعد ہندوستان کی عوام نے کسی جماعت واضح اکثریت سے نواز
دیا اور ۲۷ مئی کے دن قوم کو ایک شہنشاہ میسر آ گیا ۔یہ ایک تاریخی
کامیابی تھی۔ میں حکومت کے خلاف نہیں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے اس حکومت کی چمک
دمک ماند پڑتی جارہی ہے۔ راہل نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’یہ نریندر مودی کی
حکومت نہیں ہے‘‘ یہ جملہ دراصل صنعت و حرفت کے شعبے میں مودی سرکار کے تئیں
پائی جانے والی شدید مایوسی کی غماز ہے ۔ ملک کے تاجرو صنعتکار طبقہ نے نئی
حکومت کے ساتھ جو توقعات وابستہ کررکھی تھیں وہ سارے خواب چکنا چور ہوچکے
ہیں۔ عروج و ترقی کی علامت سمجھے جانے والے نریندر مودی پر زوال و پستی کا
گرہن لگ چکا ہے ۔ ویسے یہ تو ہونا ہی تھا مگر یہ سب اس قدر جلدی ہو جائیگا
اس کی امید مودی جی کے بڑے بڑے سے دشمن کو بھی نہیں تھی ۔ ویسے بقول محسن
بھوپالی ؎
عروجِ بخت مبارک، مگر یہ دھیان رہےٍٍ
انہی دنوں کے تعاقب میں ہیں زوال کے دن
یہ کیوں ہورہا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن یوم ِ آزادی کے پرمسرت موقع
پر ایک دلچسپ مثال دیکھیں ۔ نریندر مودی کی ان تمام خوبیوں کے علاوہ جن کا
اوپر ذکر کیا گیا بہت ساری خامیاں بھی ہیں مثلاً اگر آپ دنیا کے سب سے بڑے
مجرم کی تلاش کرنے کیلئے گوگل بابا کی مدد لیں تو مودی جی کی تصویر دکھلا
دیتے ہیں اسی طرح اگر اس سائٹ پراحمق ترین وزیراعظم ٹائپ کریں تب بھی گوگل
بابا مودی جی کی جانب اشارہ کردیتے ہیں ۔نہ جانے ان کو ہمارے وزیراعظم سے
کون سا بیر ہے۔ خیر ان تمام خوبیوں اور خامیوں کے علی الرغم کبھی کسی نے یہ
نہیں سنا کہ مودی جی کتابیں بھی لکھتے ہیں بلکہ ان کو کتابیں پڑھنے کا شوق
ہے یہ بات بھی اخبارات کی زینت نہیں بنی لیکن اب اچانک یہ انکشاف بھی ہوگیا
ہے کہ امیت شاہ صاحب دہلی میں مودی جی کی تین کتابوں کا اجراء فرمانے والے
ہیں ۔ اس تقریب کی صدارت راجناتھ سنگھ کریں گے ۔
کتاب کا عنوان بھی کم دلچسپ نہیں ہے ۔ سوشیل ہارمنی یعنی سماجی خیر سگالی ۔
مودی جی کو چاہئے تھا کہ اگر وہ کسی کو اپنے نام سے کتاب لکھنے کیلئے کہتے
تو کم از کم اس کا موضوع تو ان کی شخصیت کے مطابق ہوتا ۔ اب کہاں خیر سگالی
اور کہا نریندر مودی ، یہ تو گویا چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہوگئی۔
دوسری کتاب کا نام جیوتی پنج ہے جس میں انہوں ایسے افراد کی سیرت بیان کی
ہے جن سے انہیں زندگی میں حوصلہ اور رہنمائی ملی۔ کتابیں لکھوا کر خراجِ
عقیدت پیش کرنا تو بہت آسان ہے مگر اپنے اڈوانی اور جوشی جیسےبزرگوں کو
’مارگ درشک‘ بناکر انہوں نے جس طرح ’’باہر کا راستہ دکھلا دیا ‘‘وہ جگ ظاہر
ہے۔ان کے اس اقدام سےمارگ درشک کے اصلی معنی ٰ ’’ راہ دیکھنا‘‘ یا ’’راستہ
ناپنا‘‘واضح ہوگیا۔ تیسری کتاب شعری مجموعہ ہے ۔کل یگ کی اس سے بڑی نشانی
اور کیا ہوگی کہ جو شخص لکھی ہوئی تقریر پڑھنے میں بھی غلطیاں کرتا ہو وہ
کتابیں لکھ رہا ہے ۔ ویسے مودی جی اگر اس یوم ِ آزادی کی تقریر میں اعلان
فرمادیں کہ اب وہ سیاست کو خیرباد کہہ کر تصنیف وتالیف کیلئے اپنے آپ کو
وقف کردیں گے تو یہ ان کے اپنے اور قوم کے حق میں ایک نہایت مبارک فیصلہ
ہوگا ۔یوم آزادی کو دراصل یوم احتساب کے طور پر منایا جانا چاہئے مگراپنے
انجام سے بے خبر شتر بے مہار کی مانند منہ اٹھائے چلنے والی عصر حاضر کی
سرکاروں پر یہ نظم(ترمیم کے ساتھ) صادق آتی ہے کہ ؎
یقین کیسا؟ گمان کیسا؟
عروج کیسا ؟زوال کیسا؟
سوال کیسا ؟ جواب کیسا؟
حکومتیں تو حکومتیں ہیں
حکومتوں کا حساب کیسا؟ |