12 اگست سانحہ بابڑہ، یہ خوں خاک نشیناں تھا... ؟

کبھی کھبار تاریخ میں ایسے واقعات رقم ہوجاتے ہیں جن کی تکلیف صدیوں تک یاد رہتی ہے۔بلاشبہ پاکستان ایک دو قومی نظریئے کے تحت وجود میں آیا اوردو قومی نظریئے کی بنیاد پر مسلم اور غیر مسلم قوم کے نام پر برصغیر کی تقسیم ہوئی ۔انگریزوں کے نمایاں دشمن مسلمان تھے کیونکہ انگریزوں نے برصغیر پر مسلمانوں کو شکست دیکر حکومت قائم کی تھی۔جنگ آزادی کی تاریخ میں کئی کردار تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن یہ تاریخ کی بد قسمتی ہے کہ نوجوان نسل اپنی تاریخ سے صرف اس وجہ سے بے خبر رہیں کیونکہ اس کے سامنے اصل تاریخ مسخ کردی جاتی ہو۔ایک ایسا ہی کردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور ان کی تحریک ، خدائی خدمت گار تھی ۔ خدائی خدمت گارتحریک عدم تشدد کی انفرادیت کی وجہ سے جنگ آزادی میں اہم مقام رکھتی ہے۔ باچا خان بابا کی سربراہی میں اس تحریک نے عدم تشدد کے فلسفے پر گامزن رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سماجی خرابیوں کے خلاف اور پختون حقوق کیلئے آواز اٹھائی۔ْاس تحریک کے کارکنان پر کئی مواقعوں پر ہندوؤں ، سکھوں اور برطانوی تشدد کا سامناکیا ۔باچا خان بابا کا ماننا تھا کہ نبی پاک ﷺ نے اس دنیا میں آکر ہمیں یہ سکھایا ہے کہ " مسلمان وہ شخص ہے جس کسی کو بھی زبان یا اپنے فعل سے نقصان نہ پہنچائے اور وہ خدا کی بنائی مخلوقات کیلئے فائدہ اور خوشی کا پیغام لائے ، خدا کی ذات پر ایمان دراصل اس کے پیدا کئے ہوئے انسانوں سے محبت کا دوسرا نام ہے۔"یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کرلینا چاہیے کہ باچا خان بابا نے گاندھی کا نظریہ اپنایاتھا ۔ یہ قطعی طور پر تاریخ سے نابلدی پر مشتمل ہے ۔ باچا خان بابا کے اپنے الفاظ میں کہ آپ نے فرمایا "مسلمان یا پختون کو عدم تشدد کا حامی سمجھتے ہوئے مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتے ۔یہ کوئی نیا فلسفہ نہیں ہے بکہ یہ تو چودہ سو سال پہلے نبی پاک ﷺ نے فتح مکہ میں ثابت کردیا تھا ، ہم دراصل نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کر رہے ہیں۔"

آگے بڑھنے سے پہلے تاریخ کی اس غلط فہمی کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ خدائی خدمت گار تحریک پاکستان کے خلاف تھی۔قیامِ پاکستان کے بعد ستمبر1947ء میں’ سرور یاب‘ کے مقام پر خدائی خدمت گار تحریک کے مرکزی قائدین نے ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں پاکستان کو تسلیم کرلیا گیا تھا، مزید یہ کہ اس سے پہلے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرکے صوبہ خیبر پختونخوا کی پاکستان میں شمولیت کے ساتھ ہی پاکستان کی وفاداری کا عہد کیا گیا تھا ۔ خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ باچا خان بابا نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور پاکستان کو ہی اپنا وطن قرار دیا۔ خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنان نے انگریزوں سے آزادی کیلئے قربانیاں دیں تھیں وہ نہیں چاہتے تھے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد کالے انگریز ان پر حکومت کریں ۔تاہم بین السطور تحریر کا مقصد خدائی خدمت گار تحریک کی برصغیر کی آزادی کیلئے قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے کیونکہ برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں غیر مسلح جدوجہد کا تصور ناقابل یقین سے لگتا ہے لیکن اسے خدائی خدمت گار تحریک نے ممکن بنایا۔بینر جی مکولیکا جوکہ "غیر مسلح پٹھان "کے مصنف ہیں ان کے مطابق " خدائی خدمت گار تحریک مقامی طور پر چلائی جانے والی نہایت اثر انگیز تحریک تھی اس تحریک کے دو بنیادی اجزا ء تھے ، اسلام اور پشتونولی۔عدم تشدد کا فلسفہ دراصل اسلام اور پشتونولی کی اصل روح سے ملاپ کھاتا تھا اور یہی اس تحریک کی برطانوی راج کے دوران کامیابی کی ضمانت بھی بن گیا"۔ کہا جاتا ہے کہ خدائی خدمت گار تحریک اپنے جوبن میں ایک لاکھ سے زائد غیر مسلح سرخ پوشوں کی حمایت کے ساتھ برصغیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہی تھی۔ خدائی خدمت گار وں کے جلوسوں پر گاڑیاں اور گھوڑوں کے ذریعے چڑھائی کی جاتی تھی 1930ء میں ایک موقع پر گھر وال رائفل کے سپاہیوں نے غیر مسلح خدائی خدمت گار وں پر گولی چلانے سے انکار کردیا تھا۔1931ء میں 5000خدائی خدمت گار وں کو گرفتار کیا گیا ۔ 1932ء میں خواتین کو مرکزی کردار دیا گیا،خواتین رضا کاروں پر تشدد کیا جاتا رہا ۔برطانوی افواج نے1932ء میں باجوڑ کے گاؤں پر بمباری کرکے باچا خان بابا کو 4000خدائی خدمت گار وں کے ہمراہ گرفتار کرلیا ۔ باجوڑ پر یہ بمباری1936ء تک جاری رہی۔ برطانوی افواج کے اس ظالمانہ اقدام کو ایک برطانوی افسر نے 1933ء کی تجزیاتی رپورٹ میں تحریر کیا کہ"ہندوستان مشقوں کیلئے بہترین جگہ ہے ، برطانوی سلطنت میں شائد ایسا کوئی مقام نہ ہوگا جہاں افواج برطانیہ کو اپنی صلاحیتوں کو ہر طرح سے آزمانے کا موقع نہ ملتا ہو، حالیہ بمباری اس کی بہترین مثال ہے۔"خدائی خدمت گار وں اور عام پختونوں کے درمیان غلطفہمیاں اور نا اتفاقی پیدا کرنے کی برطانوی سازشیں اب راز نہیں رہی ہیں، تاریخ ان کا پردہ چاک کرچکی ہے ۔ گورنر جارج کنگھم نے اپنے تجزیاتی پرچے میں حکومت برطانیہ کو مراسلہ 1943ء ستمبر میں ارسال کیا جس میں لکھا تھا کہ"حکومت برطانیہ کی یہ حکمت اب تک نہایت کامیاب ثابت پو رہی ہے ، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ دراصل اسلام کے گرد گھومتی ہے۔"

خدائی خدمت گار وں کی اس تحریک اور مسلم لیگ کی مقامی قیادت کے درمیان کچھ عناصر نے ایسی غلط فہمیاں پیدا کیں جیسے آج تک تسلیم کرنے سے تامل برتا جاتا ہے۔چونکہ خدائی خدمت گار تحریک تقسیم ہندوستان کی مخالف اس لئے تھی کیونکہ وہ ایسے مسلمانوں کے درمیان تقسیم گرادنتے تھے اور مسلم اقلیت ہونے کے سبب مشکلات کا شکار ہوجائے گی اس نظریئے کو اپنایا تھا ، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح دو قومی نظریئے کے تحت ایک ایسی ریاست کا حصول چاہتے تھے جس میں مسلمانوں کو تحفظ حاصل ہو اور انھیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔ درست کہا جاتا ہے کہ تاریخ ماضی کے ہر فیصلے کو میزان میں رکھ کر پیش کرتی ہے۔ آج کل بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسند حکومت جس طرح پابندیاں اور مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری بنا رہی اس نے قائد اعظم کے پاکستان کے حصول کو درست ثابت کردیا۔تاہم خدائی خدمت گار تحریک نے برصغیر کی آزادی کیلئے برطانوی سامراج کے تمام ظلم و ستم برداشت کئے۔ خدائی خدمت گار تحریک کو کچلنے کیلئے برطانوی حکومت نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور قصہ خوانی بازار پشاور میں خدائی خدمت گار تحریک کے سرخپوش سینکڑوں غیر مسلح کارکنان پر برطانوی فوجیوں نے کھلے عام گولیاں چلائی ۔ جس میں ناقابل تلافی جانی نقصان ہوا۔بد قسمتی سے 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد خدائی خدمت گار تحریک باقاعدہ خاتمے کا نشان بن گئی ، گو کہ خیبر پختونخوا میں خدائی خدمت گار تحریک کی کانگریسی حمایت یافتہ حکومت قائم تھی لیکن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر گورنر خیبر پختونخوا نے اس حکومت کو برطرف کردیا۔ ڈاکٹر خانصاحب کی جگہ عبدالقیوم خان نے وزرات اعلی کا منصب سنبھال لیا۔تلخ حقیقت ہے کہ عبدالقیوم خان پہلے خود بھی کانگریس میں شامل تھے اور بعد میں مسلم لیگ کا حصہ بنے ۔ عبد القیوم خان نے خان عبدالغفار خان باچا خان بابا کے درمیان روابط کو ایک سازش کے تحت منسوخ کرادیا، کاش ایسا نہ ہوتا۔باچا خان بابا کی گرفتاری کے خلاف خدائی خدمت گار تحریک نے رہائی کیلئے پر امن احتجاج کیا جس کو کچلنے کیلئے 12اگست1948ء کو پشاور میں بابڑہ کے مقام پر قتل عام کا سانحہ رونما ہوا جیسے پختونوں کا کربلا قرار دیا جاتا ہے۔مسلم لیگ کی مقامی قیادت نے مرکزی قیادت کو اندھیرے میں رکھا ۔ بابڑہ کے اس سانحے میں 600سے زائد شہید اور1000 سے زائد غیر مسلح خدائی خدمت گار زخمی ہوئے۔خواتین نے قرآن پاک سروں پر رکھ کر فائرنگ رکوانے کی کوشش کی لیکن بابڑہ کے اس سانحے میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئیں۔بابڑہ کا سانحہ انگریز دور کے قصہ خوانی بازار سے بھی زیادہ خونی و ہولناک تھا لیکن ان دونوں واقعات میں ایک نمایاں فرق تھا کہ قصہ خوانی بازار میں جب خدائی خدمت گار شہید و زخمی ہو رہے تھے تو انگریزوں ہندستان چھوڑ دو کے نعرے ببانگ دہل لگائے جاتے تھے لیکن جب بابڑہ کا سانحہ ہوا تو اس میں پاکستان سے علیحدگی کے نعرے یا کوئی تحریک شروع نہیں ہوئی۔تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستانی پختونوں نے تمام تر مصائب اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو ترجیح دی اور کبھی پاکستان سے علیحدگی کی مسلح یا غیر مسلح تحریک نہیں چلائی۔سیاسی طور پر ہر حکمران نے باچا خان بابا کو پابند سلال رکھا لیکن باچا خان بابا نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا۔پاکستان کے قیام کے بعد ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان کو اپنا وطن قبول کرلیا اور ان کی جدوجہد شمالی مغربی سرحدی صوبے کے نام کی اصولی تبدیلی اور صوبائی خود مختاری کے حصول تک محدود ہوگئی۔ ون یونٹ کے خلاف اصولی سیاست کی تو سقوط پاکستان کے سانحے کو بچانے کیلئے ایک پاکستانی کا کردار ادا کیا۔پاکستان سے محبت اور سچے پاکستانی کے تصور کو خیبر پختونخوا کی عوام سے بہتر کون جانتا ہے ، لیکن جب تاریخ کو مسخ کرکے کسی کی شخصیت کو بد نام کرنا ہو تو تاریخ میں ردو بدل کردی جاتی ہے خدائی خدمت گار تحریک پر کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ انھوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے کبھی بھی تشدد کا سہارا لیا ہو اور گولیوں کا جواب گولیوں سے دیا ہو ۔ قیا م پاکستان کے بعد سانحہ بابڑہ کا رونما ہونا پختون قوم کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل فراموش ہے۔ 12اگست1948ء کا دن پختونوں کیلئے یوم کربلا سمجھا جاتا ہے لیکن پختون کل بھی پاکستان سے وفادار تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ سانحہ بابڑہ ناقابل فراموش حقیقت ہے ایسے ہم فراموش نہیں کرسکتے کیونکہ یہ پر امن اور حقوق کیلئے غیر مسلح جدوجہد تھی جیسے طاقت سے روندا گیا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661986 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.