پاکستان اﷲ جل شانہ کا تحفہ اور محمد رسول اﷲ ﷺ کی جاگیر

پاکستان اﷲ جل شانہ کا تحفہ اور محمد رسول اﷲ ﷺ کی جاگیر
تحریر: ابو الہاشم ربانی
مسؤل جماعۃ الدعوۃ لاہور

برائے اشاعت خاص،14اگست،یوم آزادی پاکستان
1885؁ء میں انگریزوں نے ہندوؤں پر نوازشات اور محبت بکھیر کر انہیں اس قدر بیدار کر دیا کہ باہمی گٹھ جوڑ کرکے انڈین کانگریس قائم کر لی۔ وائسرائے دفرن نے مسلمانوں کو تنہا کرنے کے لیے اونچ نیچ اور ذات پات کے فرق مٹا کر ہندوؤں، سکھوں اور اچھوتوں سب کو انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم پر اسلام دشمنی کے لیے اکٹھا کر دیا۔ اس دور میں مسلمان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں تھے جن کے لیے نہ تو کوئی سیاسی پلیٹ فارم موجود تھااور نہ ہی فرنگی و ہندو استبداد کے لیے کوئی آواز اُٹھانے والی شخصیت۔ فرنگی اور ہندو انڈین کانگریس کے ذریعے ایک ایسا جال پھینک چکے تھے جس سے مسلمان بھی سکھ اور اچھوتوں کی طرح اپنی شناخت مٹا کر کانگریس میں مٹی ہوجائیں اور اس طرح انگریزوں کے لائے ہوئے ایجنڈے پورے ہوجائیں۔ 1886؁ء میں سرسید احمد خان کی شکل میں ایک ستارہ نمودار ہوا جنہوں نے ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور سیاسی شعور کو پیدا کرنے کا اہم ترین کام شروع ہوا ۔ بالآخر کانفرنس کی محنت رنگ لائی اور مسلمانوں کی ایک جماعت کھڑی ہوگئی جنہوں نے 1906؁ء میں وائسرائے ہند منٹو کو یاداشت پیش کی کہ آئندہ مسلمانان ہند کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ اسی سال اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم زعماء نے ڈھاکہ میں 6 دسمبر 1906؁ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھ کر ہندوستان میں تہلکہ برپا کردیا۔ 1914؁ء کی جنگ کے اختتام پر مسٹر موہن داس اور چند گاندھی ہندوستان کی سیاست میں وارد ہوئے۔ اس دور میں محمد علی جناح نے مسلمانوں کی ملی وحدت اور جداگانہ حق کے لیے حمایت کا بھر پور اعلان کیا ۔ دہلی میں 1929؁ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات بھی پیش کر دیے۔ دسمبر 1930؁ء میں الٰہ آباد میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنے خطبہ صدارت میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ 1933؁ء میں چوہدری رحمت علی نے ایک پمفلٹ ’’Now or Never‘‘میں لفظ ’’پاکستان‘‘ پیش کردیا۔ 23مارچ 1940؁ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لاہور میں حصول پاکستان کو نصب العین بنایاگیا۔ اس کے بعد ’’پاکستان‘‘ آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی عقیدہ بن گیا۔ 1940؁ء تک برصغیر کے کونے کونے قریہ قریہ نعرے بلند ہوئے ’’بن کر رہے گا پاکستان ، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ ’’پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ مسلم لیگ کی پرخلوص اور پرعزم قیادت کے سامنے نہ کوئی فرنگی سازش ٹھہر سکی اور نہ ہی ہندو ؤں کی ریشہ دوانیاں ۔ ایک ہی جوش ، ایک ہی ولولہ، ایک ہی نعرہ، ایک ہی ارمان ’’بن کے رہے گا پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘۔ فرنگی اور ہندو قیادت مسلمانوں کے ارمانوں اور عزم بے کراں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئے اور نتیجتاً 14اگست 1947؁ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا الحمد ﷲ علی ذالک۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے لیے بڑے بڑے اور اہم ترین مسائل میں ایک انتہائی اہم مسئلہ مسلم ریاستوں کا الحاق پاکستان تھا۔ ہندوفرنگی نام نہاد گٹھ جوڑ پوری طاقت کے ساتھ اس سازش کے لیے میدان میں اترا کہ کوئی مسلم ریاست کسی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کسی قسم کے سیاسی معاہدات کی پاسداری نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت تھی۔ صرف اور صرف دہشت گردی اور سینہ زوری کرتے ہوئے اسلام دشمنی میں غرق یہ لوگ مسلم ریاستوں پر ٹوٹ پڑے۔

برصغیر میں تقسیم کے وقت ریاستوں کی تعداد 562 تھی جن میں 18 ریاستیں مکمل اسلامی تھیں جبکہ 14 ریاستیں تو پاکستان کے ساتھ متصل تھیں۔ریاست جوناگڑھ جو زراعت اور تجارت کے وسائل سے مالا مال ریاست تھی اس پر ہندو اور فرنگی رال ٹپکا رہے تھے اور وہ ہر صورت اس پر قبضہ چاہتے تھے۔ نواب آف جوناگڑھ پاکستان کے پہلے روز یعنی 15 اگست 1947؁ء کو نہ صرف پاکستا ن کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے تھے بلکہ دستاویزات پر دستخط کر کے حکومت پاکستان کو ارسال بھی کردیں جس پر قائد اعظم محمد علی جناح نے بحیثیت گورنر جنرل دستخط کر کے منظورکرلیا۔ پھر کیا تھاکہ ریاست کو بھارتی افواج نے تین اطراف سے گھیر لیا اور سمندر میں بحری بیٹرے پہنچ گئے ۔ طیاروں کے اسکواڈرن ، خطرناک ٹینک ، سامان حرب و ضرب کی بارش کے ساتھ ساتھ انڈین انجینئر اور میڈیکل کور کے دستے بھی پہنچادئیے گئے ۔ خوف و ہراس اور دہشت پھیلادی گئی۔ جونا گڑھ ہاؤس پر قبضہ کر کے عملہ گرفتار کر لیا گیا ۔ فوجی ظلم و جبر اور اسلحہ کے زور پر کٹھ پتلی ریاستی حکومت کا شامڑداس گاندھی کو حاکم اعلیٰ بنا دیا ۔ ساری ریاست پر فوجی قبضہ کر کے ہندو ریاست بنادیا ۔

13ستمبر 1948؁ء میں ساڑے 4 بجے 22 اطراف سے ہندوستانی فوج ریاست حیدر آباد دکن میں داخل ہوئی اس حملے کو آپریشن ’’پولو‘‘ کا نام دیا گیا۔ چار دن مسلسل لاکھوں انسانوں کا قتل عام اور املاک کی لوٹ کھسوٹ کی گئی جبکہ باقی ماندہ کو نذر آتش کیا ۔ 17 اور 18ستمبر 1948؁ء کی درمیانی رات کو اس عظیم مسلم ریاست حیدر آباد دکن پر انڈین دہشت گرد فوج نے قبضے کا اعلان کردیا۔

ریاست جموں کشمیر کی سرحد 900 میل پاکستان کیساتھ ملتی ہے۔جس کی 85فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بہنے والے ندی نالے اور دریاؤں کے پانیوں کے قدرتی راستے پاکستان کی طرف ہیں۔1947؁ء میں ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تو انہوں نے ہجرت کے لیے پاکستان کا رخ کیااور پانچ لاکھ کشمیری پاکستان پہنچے۔ 27 اکتوبر 1948؁ء کو بھارتی فوج ،سکھ جتھے ، RSS کے غنڈے ، مہاراجہ کی فوج نے رائل انڈین فضائیہ کے طیاروں، ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کردیا ۔ اس سب کچھ کے باجود مجاہدین استقامت سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اتنی فوجی قوت اور اسلحہ کی بھرمار کے باوجود مجاہدین کا مقابلہ کرنا انڈیا کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجاہدین نے پٹن بارہمولہ سرنگری جرنیلی شاہراہ پرشدید حملہ کرکے کرنل رائے کو نہ صرف پسپا کردیابلکہ مجاہدین کے ہاتھوں بے شمار انڈین فوجیوں سمیت کرنل بھی ہلاک ہوگیا ۔ ہر محاذ سے پسپائی اور کشمیر انڈیا کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھ کر جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ جاپہنچا اور پاکستانی قیادت پر دباؤل ڈلوا کر مجاہدین کے بڑھتے قدموں کو رکوا لیا۔آج اس جرم کی سزاء معصوم کشمیری قوم اپنے خون کے نذرانے دے کر بھگت رہی ہے۔مگر آفرین اور سلامِ عقیدت ہے اس قوم کو کہ وہ آج بھی تحریک آزادی کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اقوام عالم لاکھ آنکھیں بند کر لیں کشمیریوں کا نعرہ حریت آج بھی زندہ ہے۔ ہندو فرنگی ریشہ دوانیوں سے تمام اسلامی ریاستیں انڈیا ہڑپ کر گیا حتیٰ کہ 1965؁ء میں پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی ۔ لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے اسے ذلت آمیز شکست و ریخت کا سامنا کرنا۔ لیکن اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور1971؁ء میں مشرقی پاکستان پر حسب عادت فوجی دہشت گردی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنا دیا جس کا اقبالی مجرم نریندر مودی آج یہ کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش انڈیا نے بنایاہے ۔ یہ تو ہندو فرنگی سازشیں مسلم ریاستوں کے الحاق پاکستان کی ہیں ۔ آج تک اسلام اور پاکستان دشمنی اور عداوت ہندو کے سینے میں بسی ہوئی ہے۔ ایک بار پھر قیام پاکستان کے وقت جغرافیائی اور اثاثوں وغیرہ کی تقسیم کی طرف چلتے ہوئے ہندو اور فرنگی جیسی بد عہد اور سازشی قوموں کا ’’ نظارہ ‘‘ کرتے ہیں۔ وائسرائے ماؤنٹ بیٹن اندر سے ہندو مفادات کا مکمل حامی تھا اور ساتھ ساتھ نہایت بدنیت بھی ۔ تقسیم کے بعد بھی دونوں ملکوں کا مشترکہ گورنر جنرل بننے کا خواب بھی اس کی آنکھوں میں سمایا ہوا تھا۔ مگر دوسری جانب مسلمان تو اس بات کو سننابھی گوار نہیں کرتے تھے ۔ سرحدی تقسیم ، اثاثوں کی تقسیم، زرعی و صنعتی ، ذرائع مواصلات ، معدنی وسائل ماہرین کی کمی ،نہری پانی ، تعلیم صحت سرکار ی ملازمین وغیرہ کی تقسیم میں انصاف کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں گئیں۔ ماؤنٹ بیٹن اور گاندھی جی نے سازش سے سینئر وکیل سر سائڈل ریڈ کلف کو ثالث بنایا اور اسی کے نام پر ہی ریڈ کلف ایوارڈ بنایا گیا ۔ آئیے ذرا دیکھئے انصافِ تقسیم اور ریڈ کلف ایوارڈکی کارستانیاں!

ریڈ کلف ایوارڈ انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے اس کی مثال تاریخ میں ڈھونے سے نہیں ملتی ۔ یہ ایوارڈ غیر اخلاقی ، غیرقانونی اور انتہائی بدنیتی پر مبنی تھا۔ اس نے برعظیم میں مسلم ہندو دشمنی کا مستقل بیج بویا۔ ماؤنٹ بیٹن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑی تیزی سے اقدامات کر رہا تھا۔ دوسری جانب کانگریس تقسیم ہند کو مسلم لیگ کی فتح اور اپنی شکست سمجھتی تھی۔ اس نے ہندوستان کی تقسیم کو بھارت ماتا اور گاؤ ماتا کی تقسیم قراردیا ۔ ہندو قوم نے تقسیم سے دل برداشتہ ہوکر مسلمانوں کو سزاء دینے کے لیے وسیع پیمانے پر لوٹ کھسوٹ ، گھیراؤ جلاؤ اور قتل و غارت کا بازار گرم کردیا اس لیے ریڈ کلف ایوارڈ ہندوؤں کے مصنوعی سخت دباؤ میں تھا۔ پنجاب میں مسلم اکثریتی علاقے انڈیا میں شامل کرکے نہ صرف بدنیتی کی بلکہ پاکستان اور انصاف پر کاری ضرب لگائی ۔ گورداس پور اور بٹالہ کی دو مسلم اکثیریتی تحاصیل انبالہ ، فیروز پور کی تحصیل زہرا ہندوستان کے حوالے کر کے انڈیا کی کشمیر تک رسائی ممکن بنادی اور یہی علاقے ہندوستان میں شامل کرنے سے پاکستان کے لیے پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ جالندھر اور نکودر پنجاب کی آٹھ تحاصیل ریڈکلف نے بلا جواز ہندوستان کے حوالے کر کے ’’انصاف‘‘ کی کالک اپنے منہ پر مل لی۔ ایک طرف مذکورہ بالا مسائل کے حل کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ تیار کیا گیاتو دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن سکھوں سے دل لگی کررہا تھا کہ مشرقی پنجاب سے دہلی تک سکھوں کی حکومت ہوگی۔ ادھر یہ سکھ اور مسلم آبادی والے علاقوں میں بٹوارے کرنے لگے تو سکھ اور ہندو اکھٹے ہوکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنا شروع کردی۔ ریاستوں کے ہندو اور سکھ راجاؤں نے نہایت کمینہ اور ذلیل کردار ادا کیا اور ریاستی فوجوں نے ہندؤوں اور سکھوں سے ملکر مسلمانوں کو تہہ و تیغ کیا پولیس بھی غیرمسلم ہندو اور سکھوں کی پشت پناہی کرتی رہی جو مسلمانوں کا قتل عام کر رہے تھے ۔ہر روز سینکڑوں افراد کو قتل کرتے اور ہزاروں کو بہ نوک شمشیر پاکستان کی طرف بھگا دیتے۔مسلمانوں کے دیہات اور گھر مکمل طور پر نذر آتش کردیئے جاتے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت مشرقی پنجاب میں5لاکھ مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ جبکہ 10لاکھ مسلمانوں کو جبری طور پر ہندو اور سکھ بنایا۔50ہزار مسلم عورتیں مشرقی پنجاب میں اغوا کر لی گئیں۔1970؁ء تک70لاکھ مہاجرین پاکستان پہنچ چکے تھے۔ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ ماؤنٹ بیٹن کانگریس کا ہم نوا تھااور پاکستانی معیشت کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔نام نہاد کمیٹی نے چار ارب روپے محفوظ سرمائے سے20کروڑ روپے دیکر باقی ماندہ ادائیگی یہ الزام لگاکر روک دی کہ پاکستان کی فوج کشمیر کی جنگ میں ملوث ہے۔فوج کی تقسیم میں64فیصد انڈیا اور36فیصد پاکستان کو ملنا تھا مگر33فیصد پر ہی ٹرخا دیا کیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت متحدہ ہندوستان کے921بڑے کارخانے تھے جن میں سے صرف34پاکستان کے حصے میں آئے۔کپڑے کے394کارخانے کام کررہے تھے۔جن میں سے380ہندوستان اور صرف14 پاکستان کو دیئے گئے۔ ذرائع مواصلات سڑکوں کی کل لمبائی2لاکھ95ہزار میل تھی۔95ہزار پختہ تھیں جن میں سے پاکستان کے حصے میں14ہزار8سو میل سڑکیں آئیں،ریلوے لائن کی کل لمبائی41ہزار141میل تھی جس میں سے پاکستان کے حصے میں صرف7ہزار میل آئی تھی۔فرنگی ہندوکا بٹوارہ سازش کامیاب ہوگئی اور پاکستان دیکھتا رہ گیا۔
معزز قارئین ! ہندو ایک کمینی ، متعصب اور عداوت پالنے والی قوم ہے۔ بیسیوں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہیں ، جو باقاعدہ بھارتی حکومتی ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ ان تحریکوں میں دن بدن شدت بڑھ رہی ہے جو بھارت سرکار کو کھائے جارہی ہیں۔لیکن ہندوؤں کو ہندوستان میں ’’ہندو مت‘‘ کے علاوہ کوئی مذہب قبول ہی نہیں۔ یہاں نہ تو کسی کی جان، مال ، عزت و آبرو محفوظ ہے اور نہ ہی ان کے عبادت خانے ۔ آئے روز ددسروں کو خون میں نہلانا ہندو قوم کا وطیرہ اور مشغلہ بن چکا ہے ۔ نام نہاد عدالتی کاروائی کرواکر بے گناہ مسلمانوں کا عدالتی قتل صرف عوام کے جذبات کا خیال رکھنے کی عدالتی بے بسی اور سرکار طرح طرح کی شرارتیں اور سازشیں کرنے میں مصرف عمل۔ کبھی LOC ، ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزفائرنگ، کبھی عام شہریوں کا قتل ، کبھی کبوتر کا ڈرامہ ، کبھی کشتی کی چیخ و پکار، کبھی گورداس پور تھانہ کی سازش ۔ اصل میں نریندرمودی سرکار انتخابی منہ شگافیوں اور عوام سے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ کشمیر کے ریاستی الیکشن میں جوتے اور وہاں آئے روز پاکستانی نعروں ، نغموں اور پرچموں کی بہار ، BJP سرکار پر ہی نہیں مودی پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ۔ یہ سب وجوہات ہیں جن کے سبب انہیں انڈیا کے اندر منہ چھپانے کو کوئی جگہ نہیں مل رہی تو یہ پاکستان کی طرف منہ کر کے بکواس کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس عادت کو وہ پکا کر چکے ہیں۔ انڈیا سے نہ کبھی پہلے اور نہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کو تسلیم کرے۔ یہ بات عبس ہے کہ وہ اچھے ہمسائیوں کی طرح اچھا رویہ اور اچھے تعلقات اپنائیں۔ میرے خیال میں جتنی حکمت ، دانائی اور قربانی پاکستان کے قائدین نے دی آئندہ کوئی پاکستانی سیاستدان عوام سمیت نہیں دے سکتے۔تو جب ہندو ہمارے آباء و اجداد کے ساتھ امن و آشی کے تعلقات نہیں رکھ سکاتو ہماری سوچ کہ ہم ہندو کو تبدیل کرلیں گے کیا ممکن ہے ؟ نہیں۔

میرے عظیم پاکستانی بھائیوں! برصغیر میں فرنگی اور ہندوؤں کی ثقافت اور وی آئی پی کلچر ان کی مذہبی حیثیت رکھتا تھا۔ اونچ نیچ ، گورے کالے اور برصغیر میں باقاعدہ ولائتی یا فرنگی اور دیسی اصلاحات انہوں نے ہی شروع کیں۔ برصغیر میں ایک ہزار سال مسلسل مسلمانوں نے حکومت کی جس وجہ سے عوام میں مسلم روایات کافی حد تک مقبول تھیں۔ مسلم بادشاہ، وزراء ، حکام اور نواب ایک باقاعدہ تشخص رکھتے تھے۔ شاہی درباروں، نوابوں کے ڈیروں اور دیگر عوامی مقامات پر یہ ثقافتی مناظر بھرپور نظر آتے تھے۔ نہ صرف یہ ایک ثقافت تھی بلکہ مسلم راہنماؤں، افسروں، قاضی کے احترام و اکرام اور وقار کی علامت بھی سمجھے جانتے تھے۔ فرنگی اور ہندؤں سے آزادی حاصل کرنے کے باجود آج بھی ہم ان کی غلامی میں جکڑے نظر آرہے ہیں۔ تعلیمی اداروں ، عدالتوں، حکومتی ایوانوں، ہوٹلز وغیرہ میں، ٹیچرز، جج صاحبان ، سرکاری حکام، بیورو کریٹس اور وی آئی پی مہمانوں کی آمد پر پہلے سے گیٹ پر جناح کیپ اور مسلم زعماء اور نوابوں کی پگڑی پہنے کچھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو اس بات پر خوش ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو اس نے اپنا ٹھکانا جہنم بنا لیا۔ جج صاحبان چوبوتروں پر موجود وکلاء گردنیں جھکا کرآداب پیش کرتے ہیں اور گفتگو میں My Lord کی التجائیں کرتے ہیں۔ بادشاہوں، وزراء نواب اور ملت کے دیگر زعماء جو پگڑی پہنتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابائے قوم قائداعظم اور قوم کے بڑے لوگ جس ٹوپی کا استعمال کرتے تھے آج اردلی اور نائب قاصد کی یونیفارم ہے۔ پاکستانیوں ! الحمد ﷲ ہمارا ملک ایٹمی اور میزائل پروگرام کا حامل ملک ہے۔ اس کے باشندوں کے سینے نور ایمان سے مزین ، توحید و رسالت کے پروانے اور اسلام پر مر مٹنے کو سعادت اور شہادت سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جذبہ جہاد سے سرشاراور ہر خطرے کا مقابلہ کرنے والی پر عزم چاک و چوبند افواج موجود ہیں جو افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر امریکہ اور نیٹو کے اتحاد کو شکست سے دوچار کر چکی ہیں۔ اور وطن عزیز کے اندر دشمن کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کو کچلنے کا اعزاز رکھتی ہے ۔ میری گذارش ہے محترم سیاستدان اور حکام اس طرف توجہ کریں یہ فرسودہ بھگوڑی اور شکست خوردہ اقوام کے پلید کلچر ترک کرکے مسلم تشخص اور اسلامی تہذیب اپنا کر آباؤ اجداد اور قوم کا وقار بلند کریں۔ امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید یہ نعرے دے چکے ہیں ’’نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے‘‘، ’’نظریہ پاکستان ہی تکمیل پاکستان ہے‘‘ ۔ ’’پاکستان اﷲ جل شانہ کا تحفہ اور محمد رسول ﷺ کی جاگیر ہے‘‘۔ پاکستانی قوم ، سیاسی سماجی اور مذہبی افکار اور نظریات، زبانیں حتیٰ کہ برادی اور خاندان جدا جدا رکھنے کے باوجود اگر اتحاد کر سکتی ہے تو یہ صرف اور صرف نظریہ پاکستان ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو عالم اسلام کی اُمیدوں کا مرکز بنا رہا ہے۔ مسلم ممالک آپ سے اخلاقی اور عسکری مدد کے طلب گار ہیں تو یہ بھی اس کلمہ حق کی عظمت ہے۔ حکمران، افواج اور عوام آگے پڑھیں اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین تحریک پاکستان کے نعرہ کو ایک بار پھر اسی جوش و لولہ اور جذبہ ایمانی سے لگائیں ، ایک منظم مربوط زندہ بیدار قوم بنیں علاقائی حدود و قیود سے نکل کر اس عالمی نعرہ کو بلند کریں دنیا آپ کو سلامی دینے کے لیے اپنا رخ تبدیل کررہی ہے۔ مغرب کے غرور خاک میں مل رہے ہیں اور وہ طاقت کے توازن تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ ایک مرتبہ پھر ہمارے آباو اجداد کے نظریاتی اور سیاسی حرارت کو تبدیلی دے رہی ہے۔ بقول مصور پاکستان ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال
؂
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تونے؟
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا؟
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج و سردارا

 
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 63758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.