قصور، غیرت کا جنازہ

دنیا میں جہاں بن بیاہی مائیں عام ہوں اور ہم جنس پرستی کا پرچار ہو تو ایسے میں پاکستان بھی اس بے حیائی کی لپیٹ میں مکمل طور پر آیا ہوا ہے۔اس بے حیائی کو پھیلانے میں جہاں غیر ملکی امداد اور این جی اوز سمیت گورنمنٹ کا کردار ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارا اپنا کردار ہے۔ ہر بات کا الزام صرف حکومت یا انتظامیہ کوٹھہرانا اچھا نہیں ہوتا ۔ اس وقت شہرسے دیہاتوں تک کیبل نیٹ ورک کا بول بالا ہے۔ جب سے یہ نیٹ ورک دیہاتوں میں پہنچا ہے اس نے تو ہرطرف بے حیائی کی اندھیر مچا رکھی ہے۔ ہر وقت کیبل پر فحش ڈرامے ، بے ہودہ فلمیں اور مجرے کے نام پر سر عام گند پھیلایا جارہا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اب تو ہر چینل نے مارننگ شو کے نام سے ایسا پروگرا م شروع کیاہے کہ جس کی گفتگو سن کرانسان کا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ یہ شو فیملی کے ساتھ بیٹھ کرنہیں دیکھا جاسکتا۔ اور تو اور رمضان میں یہی لوگ دین سمجھانے آ جاتے ہیں۔ شائد کچھ لوگوں کو ایسی گفتگو اچھی لگتی ہو مگر معاشرے اور بالخصوص مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہمیں زیب نہیں دیتی۔

اس میں ایک اہم رول ہمارے سیلولر نیٹ ورک کا بھی ہے جس نے مختلف پیکج شروع کر کے پوری قوم کو غلط ڈگر پر ڈال دیا۔نو عمر بچے بچیوں سے لے کر بڑے لوگ تک پیکج لگا کے گھنٹوں مصروف رہتے ہیں ۔غیر سرکاری تنظمیوں کی جانب سے جاری اعدودشمار کے مطابق پاکستان میں پولیس کی مایوس کن کاردگی جہاں دوسرے جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہے وہاں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ملک بھر میں روزانہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سب سے زیادہ جنسی تشدد کے واقعات پنجاب اور سندھ میں ہوئے۔

مجھے قلم اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج کل پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ضلع قصور کا نام گردش کررہا ہے۔ اگر یہ نام کسی اچھائی کی وجہ سے ہوتا تو میرا بھی سر فخر سے بلند ہوتا کیونکہ میرا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے مگر افسو س ، دلی دکھ اور شرمندگی کا باعث میرے لیے بھی اتنا ہے جتنا ضلع کے دوسرے لوگوں کے لیے ۔جس وقت یہ نیوز بریک ہوئی اس واقعے کو روزمرہ معمول کے مطابق سمجھ کر اگنور کردیا گیا مگر کسی کو کیا پتہ تھا کہ یہ واقع مسلمان ہونے کے ناطے تمام پاکستانیوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام پیدا کردے گا۔ سانحہ پشاور پر تو ہم سب خون کے آنسورو رہے تھے مگر اس واقعے کے بعدقصور کے لوگوں کی زبانوں پر تالے لگانے کی کوشش کی گئی ۔

واقع کچھ یوں ہے کہ قصور کے نواحی گاؤں حسین خاں والا میں بچوں سے زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آنے پرمتاثرہ بچوں کے لواحقین اور اہل علاقہ میں شدید اشتعال پیدا ہوگیا۔ چار اگست کو بچوں کے لواحقین کی جانب سے بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ متاثرین ٹولیوں کے صورت میں پل دولے والا کے قریب جمع ہو گئے جہاں پولیس اور مظاہرین کا آمنا سامنا ہوگیا۔جھڑپ کے دوران پولیس کے دو ڈی ایس پی، تین ایس ایچ اوز اور سترہ اہلکاروں سمیت اکتیس افراد زخمی ہوگئے ۔متاثرین کا کہنا تھا کہ پولیس ملزمان کے ساتھ ملی بھگت کر کے کیس کو کمزورکررہی ہے۔ڈی سی او ، ڈی پی او اور دیگر نے مظاہرین کے نمائندوں سے مذاکرات کئے جس میں ایس ایچ او گنڈا سنگھ کو فوری طور پر معطل کرنے اور مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف موثر کارروائی اور میرٹ پر تفتیش کرنے کے معاہدہ پر مظاہرین پْرامن منتشر ہوگئے۔

میڈیا نے جب اس واقع کو عوام کے سامنے رکھا تو پھر پتہ چلا کہ بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات پچھلے کئی سال سے ہورہے ہیں مگر والدین اپنی بدنامی کے ڈر سے زبان نہیں کھول رہے تھے۔ حسین خانوالہ میں سکول جانیوالی لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ گینگ بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے بھتہ بھی وصول کرتا رہا۔ متاثرین میں سے ایک والد نے بتایاکہ اپنے چودہ سالہ بیٹے کی ویڈیو کو ختم کرانے کی لئے زیور بیچ کر بلیک میلرز کو ساٹھ ہزار روپے ادا کئے۔ ایک خاتون کے مطابق ملزمان نے دوہزار گیارہ میں اس کے بیٹے کی ویڈیو بنائی وہ چار سال سے ملزمان کو رقم اداکررہی ہے۔ایک اور متاثرہ بچے کی ماں نے ایک سال قبل گنڈا سنگھ والا پولیس سے رابطہ کیا مگر اسے خاموش کرا دیا گیا۔ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر بیس سے پچیس افراد کے گروپ نے گذشتہ برس کے دوران جنسی ہراساں کئے جانے کے معاملے میں بچوں کی چارسو کے قریب نازیبا ویڈیوز بھی بنا لی تھیں۔ متاثرہ بچوں کے لواحقین نے الزام عائد کیا کہ ملزمان گھناؤنے عمل کی ویڈیو بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ مقامی ایم پی اے کے دباو ٔپر پولیس نے پچاس لاکھ روپے رشوت کے عوض مرکزی مشتبہ شخص کو رہا کر دیا ہے اور مقامی سیاستدان متاثرہ افراد پر مقدمات واپس لینے کا دباؤ بھی ڈال رہے ہیں۔

مسلمان ہونے کے ناطے ایسے واقعات سے سب مسلمانوں کا سرشرم سے جھک گیا۔ کیا ہمارا مذہب ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہم مسلمان اتنے بے غیرت اور گھٹیا ہوگئے کہ ہم اپنے پھولوں کو اپنے ہاتھوں سے مسل رہے ہیں؟ کوئی اور ہمارے یا اسلام کے خلاف حرکت کرے تو وہ توہین اسلام کا مرتکب ہوتا ہے اور ہم خود یہ کام کریں تو باعث فخر سمجھیں۔ میں دودن سے میڈیا پر اپنے ضلع میں ہونے والے سیاسی ڈرامے بھی دیکھ رہا ہوں۔ کوئی متاثرین کے گھر جا کر سیاسی سکورنگ کررہا ہے تو کوئی میڈیا پر ہوائی فائرکہ ہم اسمبلیوں میں آواز اٹھائیں گے، تو کوئی سر عام ملزمان کو پھانسی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اگر ہم سب لوگ اس واقعے پر واقعی دل سے شرمندہ ہیں تو پھر دیر کس چیز کی ؟متاثرین نے آپ کو سارے ثبوت دے دیے۔ ویڈیو آپ لوگوں نے دیکھ لی پھر اب اس کیس کو طول دینے کی ضرورت کیا ہے؟ ایسے ملزمان کو تو آناً فاناً سزادیکر باعث عبرت بنائیں مگر کچھ تو راز ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے ۔

متاثرہ لوگوں نے شائد اسی لیے حکومت سے نہیں بلکہ آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنسی تشدد میں شامل افراد کوسخت سے سخت سزا دیں۔ متاثرین جنسی تشدد کے ساتھ ہر مکتب فکر کے لوگوں نے آواز بلند کی ۔کالم نگاروں کی طرف سے جب ہم نے آوازاٹھائی تو اس آواز میں تمام قلمکاروں نے بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ملک بھر سے کالم نگاروں نے ہمیں فون کرکے اپنا ساتھ دینا کا کہا۔ سینئر کالم نگارمجیب الرحمن شامی ،نئی بات کے ایڈیٹوریل انچارج حافظ شفیق الرحمن نے بھی اس مہم میں ہمارا ہر طرح سے ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

کالم نگاروں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ اس واقعے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے بلکہ جنسی تشدد میں ملوث تمام افراد کوفی الفور سزا ئیں دی جائے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے اس لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کا جھنڈا فخر سے بلند ہوسکے ۔ ان کو سزا ملنے سے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جنسی تشدد میں کمی نہیں بلکہ خاتمہ ہوجائے گا ۔ اس کے علاوہ کیبل نیٹ ورک پر بھی سختی سے پابندی لگائی جائے کہ وہ فحش فلمیں اور گانے نہ چلائیں ۔ بازاروں اور سڑکوں پر سر عام فحش فلمیں اور گانے چلانے والوں کو بھی سزا دینے کا اعلان کیا جائے۔

یہ سب کچھ شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ اسلامی پاکستان میں اسلامی سزائیں نافذ نہیں بلکہ اسلام کو صرف ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

یہ تمام دل سوز گفتگو اپنی جگہ لیکن میرا دل خوف زدہ ہے کہ پاکستان میں ایان علی کی باعزت جیل سے واپسی کی طرح یہ معاملہ بھی ٹھپ ہو جائے گاکیونکہ یہ بد کردار لوگ خواہ کسی بھی لبادے میں ہوں ہم جیسے سادہ لوح کلکاور بے وقوف عوامی ریلے کو راہ میں ملنے والے ان کتوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے جو بھونکتے ہیں اور یہ ’’ گداگر‘‘ شاہانہ انداز میں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
 
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234565 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.