ایک اورجنگ آزادی کی ضرورت

15اگست 1947کو ہندوستانیوں کی جہدمسلسل اور برسوں کے خونی معرکوں کے نتیجے میں فرنگی بھیڑیوں کے چنگل سے ملک عزیز آزاد ہوا، جنگ آزادی کے لیے لاکھوں جانیں تلف ہوئیں، لا تعداد بچے یتیم ہوئے اور بے شمار سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، لیکن آزادی کے متوالے وطن عزیز کی آزادی کے لیے ملک کی محبت میں تمام چیزوں کو خیرباد کہہ برطانوی سامراج کے خلاف نبرد آزما رہے۔ بکسر، بریلی، پانی پت، شاملی، میرٹھ غرضیکہ پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف خونریز لڑائی لڑی گئی۔ آزادی ہند کے متوالوں نے اپنے خون سے کبھی پانی پت کو سیراب کیا تو کبھی بالا کوٹ کی پہاڑی پر چڑھ کرانگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ نواب سراج الدولہ سے لے کر شیر میسور ٹیپو سلطان تک وطن عزیز پر قربان ہوتے رہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فتوی جہاد اور حسین احمد مدنی کے فتوی’ انگریزوں کی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے ‘تک مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے وطن عزیزکوسیراب کیا لیکن ان سب سے پڑے بے شمار قربانیاں دینے والے ان اسلاف کو اگر یہ معلوم ہوجاتا کہ آزادی کے بعد اس گنگا جمنی تہذیب کے چمن کواجاڑ دیاجائے گا، صوفی سنت کے اس دیش میں فرقہ واریت جنم لے گی، تو ہمارے اسلاف شاید کبھی جنگ آزادی نہیں لڑتے بلکہ انگریزوں کی غلامی کو ہی پسند کرتے جہاں چمن کے سارے پھول وطن عزیز پر قربان ہوئے کیوں کہ جنگ آزادی مذہب کی بنیاد پر نہیں لڑی گئی تھی بلکہ قومیت کی بنیاد پر لڑی گئی تھی، جس میں ہندو ،مسلم ،سکھ ، عیسائی، نے قربانیاں دیں جس کا ثمرہ آزادی ہند کی شکل میں ہمیں ملا اور ہم اس ملک میں آزاد پیداہوئے…!

لیکن افسوس صدافسوس ! سرزمین ہند انگریزوں کے ناپاک وجود سے تو پاک ہوگیا لیکن جاتے جاتے یہ فرنگی ہندوستانیوں کو دو بہت بڑے صدمے دے گیا،(۱)تقسیم ہند (۲) فرقہ پرستی۔ تقسیم ہند یہ محض مسلم لیگیوں اور مسلم قیادت کے احتجاج کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ کوئی اور طاقت اس امر کے پیچھے کار فرما تھی جس نے ہندوستانیوں میں اس لاشعوری جذبہ کو بیدار کیا، اور اسے اتنی شدت سے اٹھایا کہ برسوں سے ایک ساتھ رہنے والے پڑوسی ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن بن گئے، جنہوں نے ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر انگریزوں سے لڑائی لڑی تھی وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے، پنجاب اور دہلی میں خون کی ندیاں بہائی گئیں ،مائوں بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوئیں، بچے تلواروں کی نوک پر اچھالے گئے، ٹرینیں لاشوں سے پُر ہوکر آنے لگیں۔ الغرض سرحد کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ہمارے دل بھی منقسم ہوگئے۔

صدیوں سے ایک ساتھ رہنے اور زندگی گزارنے والے ہندوستانی ہندو مسلم کے درمیان مذہب کی لڑائی فرنگیوں کی بنائی گئی ذہنیت کے بعد وجود میںفرنگیوں کا یہ بویا ہوا بیج آج آزادی ہند کے68سال بعد تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا ہے، ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی اپیل تو آزادی ہند کے بعد سے ہی گوڈسے کی اولاودوں کی طرف سے آنے لگی تھی، لیکن وطن عزیز کے سیکولر مزاج ذہن والے برادران وطن نے اسے پورا نہیں ہونے دیا، اب جبکہ اس ذہنیت کے لوگ موجودہ حکومت کی باگ وڈور سنبھالے ہوئے ہیں، علاوہ ازیں مختلف قسم کے نفرت آمیز بیانات، مجرموں کی پشت پناہی، وکلاء کو دھمکی آمیز خطوط ، ایماندار افسر کا تبادلہ، نااہلوں کے کے سپرد اہم ذمہ داریاں اور آر ایس ایس چیف کا یہ بیان کہ 800سال بعد ہم نے آزادی حاصل کی ہے، یہ تمام باتیں اس امر کی طرف مشیر ہیں کہ اب جمہوریت کے درخشندہ ستارے کو فرقہ پرستی کے ناگ ڈس لیا ہے اور اب یہ ملک مکمل طور پر برہمن واد کے چنگل میں آگیا ہے، دلتوں کے ساتھ چھوت چھات کا مسئلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے، محمود وگاندھی کے اس دیش میں مہاتماگاندھی کے قاتلوں کے قبیلہ کابول بالاہے،جہاں باپوکے قتل کے مجرم کے اسمارک بنانے کی پیشکش کی جاتی ہے، جہاں ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندوستان کو بہترین نظام جمہوریت سونپا تھا اب وہاں صرف برہمنی تہذیب کی شنوائی ہے۔ قاتلوں کو ضمانتیں مل رہی ہیں، عمر قید کی سزا پانے والے رہا ہورہے ہیں، تعلیمی اداروں میں رشوت خوری کا بازار گرم ہے، حکومت کے اہم شعبوں کے وزیر کرپشن کی لعنت گلے میں لٹکائے معزز بنے ہوئے ہیں، قانون کی سرعام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، مستحقین کا حق چھین کردوسروں کو دیاجارہا ہے، مجرموں کو انعامات واکرام سے نواز کر مظلومین کی بے بسی کا مذاق اڑایا جارہا ہے، رشوت خور افسروں کو ترقیات سے نواز کر اونچے عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں او رایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے…؟ جس طرح سے ہم مسلمانوں کا استحصال کیاجارہاہے کیا ہم اسی حال پر رہیں یا اس کے سد باب کے لیے کوئی حتمی فیصلہ کریں، یا پھر موجودہ صورتحال سے سمجھوتہ کرکے اپنے دین وایمان اور اپنی قومیت تمام چیزوں کاسودا کرلیں۔ مذکورہ صورتوں میں سرزمین ہند سے ہمارے وجود کو ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی، اندلس کی تاریخ ہند میں دوہرانے کے درپے برہمن واد کے عزائم کافی بلند ہیں ایسی صورتحال میں ہمیں نیشنلسٹ او رکمیونسٹ کی صف سے الگ ہوکر خدائی قانون کو اپنا کر اپنی زندگی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر ہی بقا ممکن ہے۔

فی الحال وطن عزیز میں صرف مسلمانوں کی ہی سالمیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہزاروں سالوں سے دبے کچلے دلت ہماری ہی صف میں ہیں، لہذا ہم ہند ی مسلمانوں کو ایک مرد مومن کی طرح کھڑے ہوکر ان دبے کچلے افراد کے لیے اپنی قوم کے لیے سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے، دوسرے سے مدد کی امید کرنے کے بجائے دوسروں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ حق سے محروم کیے گئے افراد کی خاطر میدان عمل میں متحد ہوکر اپنا حق چھیننے کی ضرور ت ہے۔ ذات پات،بھید بھائو، دیوبندی بریلوی، سنی شیعہ، اہل حدیث جماعت اسلامی کے حصار سے آگے بڑھ کر مظلومین کی حمایت میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اس عطاء اللہ شاہ بخاری کے وارث ہیں جنہوں نے مہتر کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا، ہم ان اسلاف کی یادگار ہیں جنہوں نے غیروں کو گلے لگاکرسکون بخشا، ہم شاہ جہاں ، اورنگ زیب عالمگیر کے سپوت ہیں جنہوں نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنایا۔ جنہوں نے گنگا جمنی تہذیب کو تقویت بخشی۔ہم اس ٹیپو کی اولاد ہیں جو اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہمیں امر کرگئے، پھر کیا بات ہے کہ آج ہم میں حالات سے ٹکرانے کی جرأت نہیں رہی۔ ہم دوسروں کے ہادی کیا بنتے آج خود ہمارا وجود ختم ہونے کے قریب ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم خدائی قانون کو چھوڑ کر خود ساختہ بنائے گئے قانون واصول پرعمل پیرا ہیں، حالانکہ حالات حاضرہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ اب ہمیں اپنے حقوق کے لیے نئے سرے سے اُٹھنے کی ضرورت ہے خود ساختہ اور مذہب مخالف قانون کو توڑ کر حکم الہی کے مطابق جنگ کرنے کی ضرورت ہے او ریہ جنگ صرف نظریاتی جنگ ہوگی جس کا مقصد ہم ہندوستانیوں میں اخوت وبھائی چارگی پیدا کرنا ہندومسلم کے درمیان نفرت کی جو خلیج بنائی گئی ہے اسے ختم کرنا، ہماری نئی نسل کو شریعت اسلامیہ کاپاسدار بنانا ، تاریخ ہند اور تاریخ اسلام سے انہیں پوری واقفیت کرانے کے لیے یہ جنگ کی جائے۔ ہم ان نوجوانوں میں اسلاف کی قربانیوں کو اجاگر کریں اور یہ بتائیں کہ ہم ہندوستان میں حق دار ہیں کرائے دار نہیں اور فرقہ پرستوں کے ذریعے کیے جارہے پروپیگنڈوں کے خلاف ہمیں متحد ہوکر انصاف پسند برادران وطن سے مل کر متحدہ قومیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اگرہم انصاف پسند جمہوریت مواقف برادران وطن کا دل جیتنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر گوڈسے کی اولاد لاکھ جتن کریں ان کو منہ کی کھانی پڑے گی اور ان کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا۔ اور وطن پرستوں ہندومسلم ایکتا کی جیت ہوگی اور پھر وہی گنگا جمنی تہذیب ہمارے سامنے ہمارااستقبال کرنے کوکھڑی ہوگی جو آزادی کے بعد سے تزلزل کا شکار ہوگئی ہے۔ پھر کوئی اقبال ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘گائیں اور ان اقبال کے شاہین ہندومسلم ایکتا کی مثال بن کر جنت نظیر ہندوستان میں محض ہندوستانی بن کر اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ہندوستان کو دیگر ملکوں سے ممتاز بنادیں گے۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.