اے پی جے عبدالکلام کوحقیقی خراج عقیدت

سابق صدرجمہوریہ ،میزائیل مین اوربھارت کے رتن اے پی جے عبدالکلام کے انتقال پرپورے ملک کی آنکھیں نم ہوئیں،ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پربہت کچھ لکھاگیااورکہاگیا۔ہرایک نے اپنے اپنے اندازسے اس انمول رتن کوخراج عقیدت پیش کیایہاں تک کہ حکومت نے بھی ان کے اعزازمیں ظاہرکوئی کمی نہیں آنے دینے کی کوشش کی،خواہ ان کی تدفین کے دن یعقوب کوسابق صدرکے اصولوں کے خلاف سزائے موت دے کرہو۔آرایس ایس سرکارسے اس سے زیادہ اورامیدہی کیاہوسکتی تھی،ممکن ہے کہ تدفین کے دن پھانسی پراصرارصرف اس لئے ہوکہ میڈیااورعوام کی ساری توجہ اس جم غفیرپرنہیں،بلکہ سابق صدرکی آخری رسومات پرہو،شایدمودی جی کوتیسری مرتبہ اسی لئے خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جاناپڑا۔دوسری طرف دہلی میں بی جے پی کی شکست کی ذمہ دار کرن بیدی نے کہاکہ اے پی جے عبدالکلام کوشہرت اٹل بہاری واجپئی جی نے دلائی ہے،شکرہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہاکہ میزائیل بنانابھی انہیں کسی بی جے پی لیڈرنے ہی سکھایاہے،خیریہ موضوع بحث نہیں ہے ،کہناتوصرف یہ تھاکہ اپنے اپنے اندازسے جس سے جتنااورجس طرح ہوسکا،اس نے خراج عقیدت پیش کیا۔

اے پی جے عبدالکلام کی شخصیت صرف اس لئے ملک کے ہرایک طبقہ کے نزدیک مقبول نہیں تھی کہ وہ ملک کے صدررہے ہیں،آپ سے قبل بھی صدرجمہوریہ ریٹائرمنٹ کے بعدکافی عرصہ تک زندہ رہے ہیں اورہیں بھی،لیکن پس منظرمیں ہیں لیکن جوہردلعزیزی آپ کونصیب ہوئی ،وہ دوسرے صدورکے حصہ میں نہ آسکی ،یہ مقبولیت صرف اس لئے تھی کہ آپ کی پوری زندگی علم کی خدمت میں گذری ،آپ کوعلم سے عشق تھا،یہاں تک کہ عمر کے آخری لمحات بھی اسی مشن میں گذررہے تھے ،وہ نوجوانوں کے آئیڈیل ،طلبہ میں عزم وہمت کی روح پھونکنے والے ،مسلمانوں کے لئے وجہ افتخار اوراتحادویکجہتی کے علمبردارتھے، آپ کے انتقال سے ملک نے ایک حقیقی بھارت رتن کھودیا،آپ شہرت وعظمت کی بلندی پرپہونچنے کے باوجودنہایت سادہ زندگی کے ساتھ زمین سے جڑے رہے۔اپنے بس میں جتناممکن ہوسکاملک کودیا،اور ثابت کردیاکہ اس ملک کومسلمان دینے کی پوزیشن میں ہے۔31مئی 2003کوخانقاہ رحمانی دورہ کے دوران پوری محنت کے ساتھ طلبہ کوحصول علم اورمقصدمیں لگے رہنے کی ترغیب دیتے ہو ئے انہوں نے کہاتھاکہ میری بھی تعلیم مدرسہ میں ہوئی ہے،آپ بھی محنت سے پڑھیئے، اس دوران انہوں نے سورۂ فاتحہ کی تلاوت اورصراط مستقیم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ اسلام ہی کامیابی کاضامن ہے،قرآن مقدس نے ہی میری زندگی میں حیرت انگیزاثرڈالاہے۔اس کے بعددہلی میں2اگست2004کوکرشن کانت میموریل لکچرکے دوران انہوں نے کہاکہ بہارکے دورہ کے دوران وہاں سے مربوط روحانی قدروں کومحسوس کرکے میں حیران رہ گیا۔

چنانچہ ملک مسلمانوں کی طرف سے اے پی جے عبدالکلام کوحقیقی خراج عقیدت یہی ہے کہ مسلمان ان کے تعلیمی مشن کولے کرآگے بڑھیں۔مسلمانوں کی جوتعلیمی پسماندگی ہے وہ پوشیدہ نہیں ہے ۔گذشتہ ماہ یوپی ایس سی کارزلٹ آیا،صورتحال ہرسال کی طرح افسوسناک ہی رہی۔1236کامیاب طلبہ میں صرف اڑتیس مسلمان؟،ان میں صرف چارطلبہ سورینک کے اندرآسکے،اس سے قبل 2014میں34,،2013میں30طلبہ کامیاب ہوئے ان دوبرسوں میں بھی صرف چارطلبہ ٹاپ 100میں شامل رہے ،اس کے علاوہ 2012میں30،2011میں31،2010میں21اور2009میں31طلبہ کوکامیابی ملی۔ہاں اس موقعہ پرہم یہ عذربیان کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پلہ ضرورجھاڑدیں گے کہ ہمارے ساتھ تعصب ہوتاہے،ہمیں آگے بڑھنے سے روکاجاتاہے۔اس بات میں بہت کم صداقت ہے،یہ ذمہ داریوں سے فرارکی کوشش ہے،گذشتہ سال بھی جب یوپی ایس سی کارزلٹ آیاتوبعض ملی جماعتوں کے ذمہ داروں کی طرف سے بھی یہی عذرلنگ بیان کیاگیا۔سوال یہ ہے کہ ان بزرگوں نے کتنے طلبہ کی تعلیمی کفالت کی،کتنے مسلم طلبہ کی اچھی کوچنگ کاانتظام فرمایا،شایدایک بھی نہیں۔معاف فرمائیں وہ بڑی بڑی رقمیں جوحکومتی توجہ حاصل کرنے کے لئے رام لیلاکے میدان میں اجلاس پرخرچ کی جاتی ہیں،اگریہی پیسے اچھے کوچنگ سنٹرزقائم کرنے یامختلف علاقوں میں موجودانسٹی ٹیوٹ میں باصلاحیت طلبہ کومنتخب کرکے ان کے تعلیمی انتظام پرخرچ کئے جاتے تویہ ملت ملک کی سب سے پسماندہ قوم نہیں کہلاتی ۔اگرمسلمانوں نے تعلیمی راہ سے آگے بڑھنے کی کوشش کی توان میں سے بہت سے مسائل ازخودحل ہوجائیں گے۔ماناکہ ملک کی باگ ڈورسیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے،لیکن اصل انتظامی اموربیوکریٹس دیکھتے ہیں اوران میں ان کااہم کردارہوتاہے ۔حکومتیں توبدلتی رہتی ہیں،چونکہ انتظامیہ میں موجودبیشترافسران کی ذہنی تربیت آرایس ایس کے تعلیمی اداروں میں بھی ہوتی ہے،اس لئے اس کااثردفاترمیں ظاہرہوتاہے۔ اگرمسلمان اسی راستہ سے مقابلہ میں آئیں،توآگے بڑھنے سے کون روک رہاہے ۔ افسوس ہے کہ ہم کام توکریں گے نہیں،اورصرف الزام لگاکراپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑادیں گے۔اگراعلیٰ تعلیمی سسٹم میں اس قدرتعصب موجودہوجسے بنیادبناکر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے توذراغورکریں کہ رواں برس کے 38طلبہ میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن اورجامعہ ملیہ اسلامیہ کی کوچنگ سے مجموعی طورپرپندرہ طلبہ کامیاب ہوئے(تعدادپندرہ اس لئے بتائی گئی ہے کہ جامعہ اورزکوٰۃ فاؤنڈیشن کے طلبہ میں چارنام زینب سعید،آفاق احمدگیری،محمدیٰسین اوررونق جمیل مکررہیں)ملک کی دوسری تنظیموں نے اگرپیش رفت اورتعلیم کی سمت میں اوراداروں نے کوشش کی ہوتی توتعدادمناسب ہوتی ۔زکوٰۃ فاؤنڈیشن سے اس کے قیام سے لے اب تک63طلبہ یوپی ایس سی کے لئے کوالیفائی کرچکے ہیں۔ اگراعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان میں اتناتعصب ہوتاجتناکہ شورمچایاجارہاہے توزکوٰۃ فاؤنڈیشن ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،جامعہ ہمدردکی کوششیں اس قدرکامیاب نہیں ہوتیں۔اس کے علاوہ رحمانی تھرٹی نے بھی آئی آئی ٹی کی اہم مفت کوچنگ کے ذریعہ خودکفیل تعلیمی ادارہ کی راہ دکھائی ہے،اس کے علاوہ رحمانی تھرٹی کے تحت میڈیکل،چارٹرڈاکاؤننٹنٹ جیسے اہم شعبہ جات کے لئے بھی کوچنگ جاری ہے۔اخلاص کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کرنے والے ان اداروں کی کوششوں کوصدآفریں،اورہزارہاسلام ۔یہ ادارے تمام مسلم تنظیموں اوراداروں کے لئے مشعل راہ ہیں۔

پہلی بات تویہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کارجحان ویسے بھی کم ہے۔اورجوبچے اسکول جاتے ہیں توان کی بڑی تعداددسویں اورحدسے حدبارہویں جماعت کے بعدتعلیم چھوڑدیتی ہے اورپھریہ طلبہ معمولی سامعمولی کوئی ہنرسیکھ کراپنے گھرکی اقتصادی حالت سد ھارنے میں لگ جاتے ہیں۔ایسے میں ضرورت ہے کہ گاؤں دیہاتوں اورمسلم علاقوں میں ورکشاپ کااہتمام کیاجائے،’قوم کے مستقبل‘ کی تعمیرکی حوصلہ افزائی کی جائے ،صرف زبان سے نہیں اقتصادی مددبھی ہو،ان کے گھروالوں سے بات کی جائے ۔ملت کے پاس سرمایہ کی کمی نہیں ہے،وہ خدمت کے لئے تیاررہتی ہے۔ضرورت ہے کہ ان سرمایوں کارخ تعلیم کی طر ف موڑدیاجائے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ملی تنظیمیں کچھ کام کی نہیں،یقینابعض تنظیمیں اہم کام کررہی ہیں،جیل میں بندمسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی اورقدرتی آفات یافسادات کے موقعہ پربازآبادکاری جیسی اہم خدمات سے انکارکیسے کیاجاسکتاہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کام بھی کچھ لوگ ہی کررہے ہیں ،اس امت کاالمیہ یہی ہے کہ یہاں افرادسے زیادہ تنظیمیں ہیں،مسلم اکثریتی شہری علاقوں میں ہرگلی کوچہ میں ایک تنظیم کابورڈلگاملے گا،لیکن یہ کسی کام کے لئے نہیں ہیں،ان تنظیموں کی اکثریت صرف اپنے مستقبل بنانے کی فکرمیں ہے۔ضرورت ہے کہ جوجماعتیں کام کررہی ہیں وہ تعلیمی جہت کی طرف توجہ دیں اوردوسری تنظیمیں بھی آخرت کے حساب پریقین رکھتے ہوئے ملت کے سرمایہ کوملت کے مفادمیں خرچ کرنے کی عادی بنیں،اورتعلیمی جہتوں سے خدمت میں لگیں۔خودکفیل کوچنگ سنٹرزکاقیام ازحدضروری ہے جن میں اسلامی ماحول میں یوپی ایس سی ،آئی آئی ٹی ،میڈیکل جیسے اہم شعبہ جات کی کوچنگ کرائی جائے،ان میں سب سے اہم سول سروسز اوروکلاء کی تیاری کے مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے کوچنگ کاقیام ہے ۔ملک کے اہل ثروت طبقہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے تئیں جس قدربھی ہوان کی حوصلہ افزائی کریں،اے پی جے عبدالکلام کوحقیقی خراج عقیدت یہی ہے ،ہمیں تعلیمی راہوں سے آگے بڑھ کرملک کے انتظام وانصرام میں شراکت کرنی ہوگی،اس سے معاشی،سیاسی اورسماجی سبھی مسائل ہوں گے۔ہمیں دوسروں سے ہرگزشکایت کاحق نہیں ،گلہ ہے تواپنوں سے ہے ،اے پی جے عبدالکلام کوحقیقی خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کے تعلیمی مشن کوآگے بڑھایاجائے اورملک کودے کریہ ثابت کیاجائے کہ ہم اس ملک کی ضرورت ہیں۔ملک میں مسلمان جن چیلنجزسے نبردآزماہیں،ان سے مقابلہ کے لئے ملک کے نظام اورسسٹم کاحصہ بنناوقت کااہم تقاضہ ہے۔ہمارایہ عزم ہوناچاہئے کہ جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلادیا۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36995 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.