پاکستان کیوں حاصل کیا گیا!
(عابد محمود عزام, karachi)
پاکستان میں ہر سال 14اگست کو
بڑی دھوم دھام کے ساتھ یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پورے ملک
میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے
بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے اور ملک بھر میں ہرسال خوشی کا یہی سماں
ہوتا ہے۔ قیام پاکستان بلاشبہ ایک عظیم نعمت اور آزادی ایسی انمول شے ہے،
جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ آزادی کی قدر وقیمت وہی جان سکتا ہے، جس سے یہ
نعمت چھین لی جائے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ یہی ہوا۔ ایک ہزار سال
حکومت کرنے کے بعد ان کی آزادی چھن گئی اور وہ برصغیر میں غلاموں کی سی
زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ مسلمانوں پر زمین اس قدر تنگ کرنے کی کوشش کی
گئی کہ پورے ہندوستان کے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ ہندو انہیں ہر ممکن طریقے
سے غلام بنانے اور دین اسلام کو خیرباد کرنے پر مصر ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف
شروع کی گئی پرتشدد ”آریہ سماج“ کی تحریک میں کھل کر کہا گیا :”ہندوستان
صرف ہندوؤں کا ہے، یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مسلمان یا تو
ہندو بن جائیں یا پھر ہجرت کرکے چلے جائیں۔“ان حالات میں مسلمانوں کے لیے
ایک ریاست کا قیام ناگزیر تھا، جہاں اسلامی روایات کے سائے میں آزادی سے
زندگی گزاری جاسکے۔ لہٰذا مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کی اور
اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔
بلاشبہ پاکستان کا قیام نہ صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے ایک
نایاب تحفہ تھا، بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے ایک معجزہ بھی تھا۔ یہ ایک
ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔
قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران مسلمانوں میں جس نعرے نے جوش وخروش پیدا
کیا، وہ یہی تھا : ”پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اللہ“، جو یہ واضح
کرتا ہے کہ پاکستان ”لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ“ کا قانون و نظام
نافذ کر کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کا مقصد صرف ایک ریاست کا
قیام ہی نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا، جہاں اسلام کے
اصولوں کے مطابق معاملات طے کیے جائیں اور اسلام کو ہی ضابطہ حیات بنایا
جائے، اسی مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے، لیکن
قیام پاکستان کے بعد سب نے مل کر اپنی جانیں قربان کرنے والوں کے خواب کو
پورا نہ کیا اور اسلام کے قوانین کو صرف کتابوں تک محدود رکھا، عملی طور پر
اس کو یہاں نافذ نہیں کیا گیا۔ آج کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس
ملک میں اسلامی نظام لانے کی بات خوامخوا کی جاتی ہے، کیونکہ قائد اعظم اور
علامہ اقبال کوئی مذہبی رہنما تو نہیں تھے، جو اسلامی ملک کی بات کرتے۔
حالانکہ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرنے کے لیے مذہبی رہنما ہونا
ضروری نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے اصول و ضوابط تو اس قدر فلاحی اور کامیاب
ہیں کہ ان سے متاثر ہوکر کئی غیر مسلم لیڈر بھی اپنے ممالک میں اسلام کو
ضانبطہ ریاست بنانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
بانیان پاکستان اگرچہ کوئی مذہبی لیڈر نہ تھے، لیکن ان کے کہے گئے الفاظ آج
بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو ان کے علیحدہ وطن کے قیام کے تصور کو نہایت
واضح کرتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:”میں ہندوستان اور اسلام کے
بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اسلام کے
لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے، ان
سے چھٹکارا حاصل کرسکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح
کے ساتھ روح عصر سے ہم آہنگ کرسکے“ اور اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کی
اساس کچھ یوں بیان کی: ”ایک سبق جوکہ میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھاہے
کہ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین مواقع پر یہ اسلام ہی ہے جوکہ مسلمانوں کو
نجات عطاکرے گا، نہ کہ اس کے برعکس کچھ اور…لہٰذا آپ اپنی نظر کو اسلام
پرمرکوز رکھیں۔“ اسی طرح علامہ اقبال نے 28مئی1937ءکو ایک خط میں قائداعظم
کولکھا: ”اسلامی شریعت کانفاذ اور ترویج مسلمان ریاست یاریاستوں کے قیام کے
بغیرناممکن ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ پاکستان کے معاشی اور معاشرتی مسائل
کاحل اسی میں ہے۔“
قائد اعظم محمد علی جناح بھی قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی
متعدد مواقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد کو نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ
میں بیان کرتے رہے ہیں۔ قائداعظم نے31 جنوری 1948ءکواسلامیہ کالج پشاور کے
جلسہ میں حصولِ پاکستان کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: "ہم نے پاکستان کا
مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی
تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“
25/جنوری1948ءکو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا : ”میں ان لوگوں کی بات نہیں
سمجھ سکتا، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ
پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام
زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔
میں ا یسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا
چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو، بلکہ یہاں غیر مسلمانوں کو بھی کوئی خوف
نہیں ہونا چاہیے۔“ 4/ فروری 1948ءکو سبی میں خطاب کے دوران فرمایا: "میرا
ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر
ہے، جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے
لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور
تصورات پر رکھنی چاہئیں۔“بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:” اگر کوئی چیز اچھی
ہے تو عین اسلام ہے۔ اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو یہ اسلام نہیں ہے، کیوں
کہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔“ کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:” وہ کونسا
رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی
چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس
امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب
قرآن کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں
زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم، ایک کتاب، ایک امت۔“
اگر غیر جانبداری کی عینک اتار کر تحریک پاکستان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ
حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد صرف ایک
زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کے ساتھ آزاد ہونے والی
ریاست کو اسلامی اصولوں پر چلانا بھی تحریک آزادی کا مقصد تھا۔ اسی مقصد کے
لیے مذہبی رہنماﺅں نے طویل جدوجہد کی ہے، جس کے بعد پاکستان کو آزادی حاصل
ہوئی۔ ماضی بتاتا ہے کہ 1757ءکی جنگ پلاسی میں مسلمانوں کو شکست کے بعدچلنے
والی قریباً دو سوسال پہ محیط مسلمانوں کی یہ تحریک شاہ عبدالعزیز اور پھر
ان کے جانشین سیداحمدشہید اورسیداسماعیل شہید کی تحریک المجاہدین کی شکل
میں چلتی رہی اور پھر1831ءمیں سیدین کی شہادت کے بعد1857ءکی جنگ آزادی
اورپھربنگال سے فرائضی تحریک کے نام سے چلی۔ یہی تحریک 1886ءمیں سرسیدکی آل
انڈیا محمڈن کانفرنس اور 1919ءمیں مولانا محمد علی جوہر اورمولانا شوکت علی
کی زبردست تحریک خلافت کے پلیٹ فارم میں تبدیل ہوگئی اور پھراس کے بعد
اقبال اورقائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی تحریک تقسیم ہند کے نتیجہ میں
قیام پاکستان کے بالآخر اغراض ومقاصد کیاتھے۔ تاریخی تناظرمیں اس عظیم
الشان تحریک کے اصل محرکات ،اغرا ض ومقاصد اورمدعا کا مختصر اور جامع جواب
”دوقومی نظریہ” اور ہندومسلم تہذیب کاٹکراؤتھا۔مسلمان اپنی تہذیب کو نافذ
کرنا چاہتے تھے، جبکہ ہندو اس کی راہ میں رکاوٹ تھے۔اسی رکاوٹ کو دور کرنے
کے لیے مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا، تاکہ آزاد ریاست میں اپنی اسلامی
تہذیب کا نفاذ کرسکیں۔
|
|