موجودہ دور میں مادیت نے جس طرح اپنے پنجے ہر طرف گاڑ
رکھے ہیں اور رشتوں کی محبت جاتی رہی ہے۔ نظریات کی باتیں کتابوں تک محدود
ہیں۔عمل ناپید ہے وعظ کی شعلہ بیانیاں ہر سُو ہیں۔ایسے میں شاعرِ مشرق کے
نظریات اور موجودہ پاکستانی عوام کے حالات کو ایک خاص تناظر میں دیکھنے کی
اشد ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قوم کو کچھ پتہ ہی نہیں بلکہ اسل بات یہ ہے
کہ احساس زیاں جاتا رہا ہے قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی وال سانحہ
ہمارئے سماج کے مُنہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید ہے۔یہ المیہ ہے کہ اشرافیہ کو
ایسا معاشرہ ہی حکومت کرنے کے لیے چاہیے۔ من کی غلاضت کا اظہار اِس بات کا
مظہر ہے کہ مملکت پاکستان میں کھیلے جانے والے اِس شیطانی کھیل میں وہاں کے
سیاستدان شامل ہیں۔ کاش ہماری حکومت میں کچھ غیرت ہو اور وہ سماج کی
اخلاقیات کی ڈوبتی ناؤ کو بچائے۔کہاں گئے مذہبی ٹھیکیدار،نام نہاد سماجی
رہنماء جو ایک چھوٹے سے شہر میں برسوں سے جاری ظلم کا ادراک نہ کر سکے۔زما
نے میں اپنا نام بنانے کے لئے سب سے اہم عامل جو کارفر ما ہوتا ہے وہ ہے
اپنے اﷲ پاک پر مکمل بھروسہ ،منزل کے حصول کے لئے سخت محنت ،دیا نت داری
اِسی طرح والدین اور اِسا تذہ کا احترام جو شخص بھی اِس کسوٹی پر پورا ُتر
تا ہے وہ معاشرے میں نا م پیدا کرتا ہے اور اُسے عزت واحترام بھی میسر آتا
ہے ۔ صرف دولت کا حصول کا میابی نہیں ۔ اﷲ پاک کے بے پا ں رحم وکرم کے حصول
کیلئے اچھا انسان بننا ضروری ہے ایما نداری ، باہمی عزت واحترام ، خلوص
،وفا ،حیا ء کسی بھی معاشرے کو ہمہ جت خصوصیا ت کا حامل بنا دیتے ہیں۔ نبی
پاکﷺؒ کی محبت نے جناب اقبالؒ کو راست بینی عطا فرمادی تھی اور وہ سمجھتے
تھے رب پاک کا عطا کرد ہ قانون تما م دُکھوں کا علاج ہے۔ اِس لیے حضرت
اقبالؒ نے مرد مومن کی شان اِس طرح بیان کی ہے کہ مرد مومن کو شاہین قرار
دئے دیا۔ چونکہ شاہین نہ تو کسی کا کیا ہوا شکار کھاتا ہے اور نہ اپنا
گھونسلہ بناتا ہے۔موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمان عمل کے لحاظ سے شاہین
کی مماثلت سے عاری نظر آتے ہیں کیونکہ جب علم و عمل کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو
پھر رسوائی مقدر بن جاتی ہے۔حضرت ِاقبالؒ جاوید نامہ میں فرماتے ہیں کہ کیا
تو لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ کہتا ہے ؟ اگر کہتا ہے تو پھر روح میں ڈوب کر
کہ تاکہ تیرے جسم سے جان (روح) کی خوشبو آئے۔سورج اور چاند کی گردش لا الا
کے سوز سے ہے میں نے یہ سوز پہاڑ اور تنکے میں ہر چھوٹی بڑی شے میں دیکھا
ہے۔لاالا کے سوز میں جینا قہاری ہے لاالا ایک ضرب ہے اور کاری ضرب ہے ۔جناب
اقبالؒ فرماتے ہیں کہ آج کے مسلمان نے دین وملت کو ایک کوڑی کے بدلے بیچ
ڈالا ہے اس نے اپنے گھر کا سامان اور اپنا گھر بھی جلادیا ہے۔ کبھی اس کی
نماز میں پہلے توحید کا رنگ تھا اب نہیں رہا اس کی نیاز میں کبھی ناز تھا
اب نہیں رہا۔اقبا ل فرماتے ہیں کہ وہ مسلمان جس کی زندگی کا سازوسامان خدا
پاک تھا اب اس کا فتنہ مال کی محبت اور موت کا خوف ہے۔اور اس میں ذوق و
سرور کی وہ مستی نہیں رہی اس کا دین بس کتاب یعنی قران پاک میں ہے اور خود
وہ قبر میں ہے۔اقبال فرماتے ہیں کہ جب نماز اور روزے سے روح جاتی رہی تو
فرد بے لگام ہوگیا اور ملت میں کوئی تنظیم نہ رہی۔آج کے مسلمان کے سینے
قران کی حرارت سے خالی ہو گئے ایسے لوگوں سے بہتری یا بھلائی کی کیا امید
کی جاسکتی ہے۔آج کا مسلمان خودی کو بھول گیا ہے ۔ اقبال کے خیالات کے تنا
ظر میں اگر ہم موجودہ حالات کو دیکھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے تعلیمی ادارروں
کی موجودہ صورتحال کا جا ئز ہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں
ہے ڈیو ڈ کیمبل کی کتا ب بزنس فارنان بزنس سٹوڈ نٹس کو ایم بی اے کوپڑھا نے
کا راقم کو موقع ملا ۔اُس کتاب میں سب سے زیا دہ زور کا روبا ری شخص کی جس
خصو یت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہے دیانت داری یعنی کا روبا ر کی وسعت ،کا میا
بی دیا نت داری کی مرہو ن منت ہے ۔انسانی تمدن میں زما نے کے ساتھ جو بھی
تبدیلیا ں آئیں اور انسانی معاشرے جس طرح جہالت کے اندھیروں سے کا میابیو ں
کی طرف گامزن ہوئے ۔ یہ سب کچھ نبی پا ک ﷺنے جو سبق انسانوں کو دیا اُس سے
ہی انسا ن کی سوچ کا ارتقائی عمل مکمل ہوا ۔ ارتقائی عمل کے مکمل ہونے کی
سب سے بڑی وجہ یا دلیل آج سے تقریبا سواچودہ سو سال پہلے نبی پا ک ﷺکا دینِ
الہی کو مکمل فرما دینا اور اپنی سُنت کے ساتھ ضا بطہ حیا ت قرآن مجید
فرقان ِمجید کا انسانوں کی راہنما ئی کا ذریعہ قرار دینا ایک ایسی روشن
دلیل ہے کہ نبی پا کﷺ نے معاشرے کے تما م پسے ہو ئے طبقوں کو عزت سے جینا
مرنا سکھا یا اورگورے کو کا لے اور عربی کو عجمی پر کسی قسم کے تفاخر سے
منع فرمایاکہ تما م مسلما ن بھا ئی بھا ئی ہیں ۔ اِ س کے مثال مہاجرین کے
ساتھ انصار کا لازوال محبت بھرا سلوک ہے ۔زند گی اچھے انداز میں بسر کرنے
کے حوالے سے نبی پاک ﷺکاا ُسوہ حسنہ اور نبی پا کﷺ ُپر نا زل کردہ قرآن ِ
پا ک انسانیت کے لئے قیا مت تک مستقل راہ ہدایت ہے ،خا نگی معا ملا ت کا
روباری معاملا ت، سیا سی معا ملا ت ،دینی ،دُنیا وی معاملا ت، ریا ست اور
حکومت کے نظم ونسق کے حوالے سے مکمل رہنما ئی ۔جنگ اور امن میں مسلما ن کا
کردار لین دین ، اُٹھنے ، بیٹھنے ،سونے ،جاگنے ،عمرانی ، نفسیاتی حوالوں سے
غرض یہ کہ دُ نیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق قرآن پا ک نے راہنما
ئی نہ فرما ئی ہو ، اگر معا شرے میں اِ س وقت قتل وغارت ، بے ایما نی ، لو
ٹ ما ر عروج پر ہے تو اِ سکی وجہ اﷲ پا ک ، نبی پا کﷺاور قرآن مجید کے احکا
ما ت پر انفرادی اور اجتمائی طو ر پر عمل نہ کرنا ہے ۔قانون ، قاعدہ ،انداز
،سلیقہ ، ترتیب سب کچھ فطری تقاضے اگر پورئے کردیئے ہوں تو کوئی وجہ نہیں
کہ دنیا اور آخرت کے تما م معا ملا ت احسن طریقے سے انجا م نہ پاسکیں
۔میڈیا کی تیزی مو با ئل فون اور انٹر نیٹ کے غلط ا ستعما ل نے معا شرے کی
بنیا دیں ہلا دیں ہیں ۔ قنا عت ،عزت واحترام بھائی چا رہ کا جنا زہ نکل چکا
ہے ۔میڈیا نے عوام النا س کو CONSUMER ORIENTED بنادیا ہے ۔ اب جب کہ ہر
وقت مہنگا ئی کا رونا بھی رویا جا رہا ہے اور بازار میں پہنچنے وا لی ہر شے
کی طلب بھی برقرار ہے اور ہر شے جو مارکیٹ میں آتی ہے وہ سے لاء آف ما رکیٹ
کے مطا بق کہsuply createn it own demands ہے کہ مطا بق فروخت ہو جا تی ہے
سڑ کو ں پر رش اتنا کہ گا ڑ یو ں کی بھر ما ر اور مو ٹر سا ئیکل سوار تو
چینٹیو ں کی ما نند ہیں ۔ دولت کی اتنی زیا دہ ریل پیل بنکو ں کی جانب سے
لیزکی سہولت کریڈ ٹ کا رڈ ،پو ری قوم کو سُو د خو د بنا ڈلا گیا ہے ۔ اِ س
لئے پھر اﷲ پا ک کا کرم بھی نہیں ہے ۔افراتفری اور نفسا نقسی کا عا لم ہے
امیر ، غریب دو نو ں طبقا ت کھا تے پیتے رو رہے ہیں ۔مڈل کلا س طبقہ بہت کم
رہ گیا ہے دولت کی منحوس تقسیم نے اپر کلا ساور لوئر کلا س تقسیم کردی ہے
مڈل کلا س سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے ذہنی ، نفسیا تی جسما نی بیما ریو
ں کا شکا رہوتی چلی جا رہی ہے ٹی وی چینلزپر چلنے والے ڈرامو ں نے سما ج کو
ایک ایسی راہ پر گا مز ن کر دیا ہے جہا ں اب have not اور have کے درمیا ن
چو مکھی لڑ ائی ہو رہی ہے بردا شت نا پید ہے ۔ ازدو اجی زند گی تبا ہ ہو
رہی ہے ۔ امراء کے ہا ں طلا ق کی شرح انتہا ئی کم ہے ۔ جبکہ لو ئر کلا س
طبقہ اس حوالے سے بہت آگے ہے ۔ نہ پو ری ہو نے والی خو اہشا ت کی بد ولت خو
اتین کے ہا ں خُلہ لینے کی شرح خطر نا ک حد تک بڑ ھ چکی ہے اس طرح با پ اور
ما ں کے لا لچ اور بے حسی کی سزا اولاد کو بھگتنا پڑ رہی ہے ۔جو معا شرے
خوف خدا اور عشق رسول ﷺ سے عا ری ہو ں جہا ں ما دیت اتنی سرا یت کر گئی ہو
کہ رشتے دا ریا ں کا غذ ی پھو ل بن کر رہ گئی ہو ں ۔ ایسے معا شروں میں پھر
حسرت ،یا سیت ، بے سکو نی ڈیڑ ے ڈ ال دیتی ہے روحا نی سکو ن جو کہ اسلا م
کا طُرہ امتیا ز ہے جس کی وجہ سے اسلا م پھیلا اور اسلا م میں داخل ہو نے
کی بنیا دی وجہ امن وآ شتی ، سکو ن اور رو حا نی اقرا ر تھا ۔جس طرح کا رو
پ ایک قوم کی حثیت سے پیش کیا جا رہا ہے یہ کسی طو ربھی مصطفا ئی معا شرہ
نہیں ہے ۔دہشت گردی ،مسا جد ،اما م با رگاہوں مزارو ں سکو لو ں میں بم دھما
کے کیا اِ س واسطے یہ وطن بنا تھا ۔اقبا لؒ وقا ئد ؒ کی رو حیں تڑپ رہی ہوں
گی ۔ اِ س میں قصور قائد ؒ و اقبا ل ؒ کا نہیں اُن کا ہے جن کے حصے میں اِ
س ملک کی حکمر انی آتی رہی اور ملک دن بدن پستی کی جا نب گرتا چلا گیا ۔
اخلا قی گڑ اوٹ عدم برداشت ، شرم وحیا ، ایمانداری سکو ن نا م کی کو ئی قدر
بھی تو نہیں بچی ہما رے معا شرے میں، بلو چستا ن میں قتل عام ،خیبر پختوں
میں لگی آگ نے ملک کو ایک دوراہے پر لا کھڑ ا کیا ہے ۔شراب ،جو اء عام ہے
یہا ں کالبرل فا شٹ طبقہ یہ ہی کچھ چا ہتا ہے کہ کو ئی روک ٹوک نہ ہو ۔اُن
کے من کی مرادیں پو رے معاشرے کو کھوکھلا اور بربا دکر رہی ہیں ۔پس جو جو
بھی اﷲ پاک کے دیے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر معاشرئے کا نظام
درہم برہم کردیتا ہے جس سے اُس کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ بھی مشکلات کا سامنا
کرتے ہیں۔زندگی کو اِس طرح گزارناکہ جس طرح شاہین ہوتا ہے حضرت اقبالؒ کا
محبوب پرندہ شاہین ہے اِس میں مردِ مومن کی بعض خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
اپنے ایک خط میں جو اقبالؒ نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو لکھا تھا اِس میں
اس بات کی وضاحت فرمائی تھی کہ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے
اس میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں(1) خود دار اور غیرت مند
ہے کہ اور کسی کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا (2) بے تعلق ہے کہ
آشیانہ نہیں بناتا (3) بلند پرواز ہے ) (4 خلوت پسند ہے اور تیز نگا ہ ہے۔
کیا ہمارئے معاشرئے میں ان خصوصیات کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں۔ اتنی محبت
خواہشات کے ساتھ کہ بد سے بد تر جانور بھی مقابلے کی تاب نہیں لا سکتا۔
اقبالؒ تو شاہیں کو کہتے ہیں کہ تو ایسا بن کہ اپنا نوالا کسی کے ہاتھ سے
نہ لے نیک بن اور اچھوں کی نصعیت سن۔اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اے مسلمان تو نیک
اطوار بن اور پختہ تدبر والابن۔درحقیقت اقبالؒ کا شاہین کا جو تصور ہے وہ
اپنا کر مسلمان رب پاک کے قوانین پر عمل کرسکتا ہے ا ور فلاح و کامیابی
اُسکا مقدر بن سکتی ہے پاکستانی معاشرئے میں عام انسانی رویات ناپید ہونے
کی وجہ اشرافیہ ہے جو کہ اپنی مرضی سے جو چاہتی ہے وہ کرتی ہے۔۔ |