جشن آزادی کی آمد آمد ہے ۔ یہ ایسا دن ہے جو احساس دلاتا
ہے کہ ہم ایک آزاد خود مختار قوم ہیں مگر دوستو آزادی خود مختاری کبھی بھی
بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہوتی ۔پاکستان بھی ہمیں کسی نے یونہی تحفے میں
نہیں دے دیا بلکہ ہمارے آباء و اجدادکی انتھک محنت اور بیش بہا قربانیوں کے
بعد ہمیں آزادی ملی اور سکھ کا سانس نصیب ہوا ۔ اس کے حصول کی خاطر ہمارے
بزرگوں نے اپنے سر کٹوائے ۔انتہائی اذیتیں ،تکلیفیں اور سختیاں برداشت کیں
اور آئے روز ہندو مسلم فسادات برپا کر کے مسلمانوں کو سرعام قتل کردیا جاتا
اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کو بہت زیادہ تنگ کیا
جانے لگا۔ایسے میں مخلص قیادت سامنے آئی جس نے جان لیا کہ اب برصغیر میں
ہندو مسلم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔انہی قابل اور بصیرت رکھنے والے افراد میں
ایک نام قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا جنہوں نے مسلمانوں کے بکھرے ہوئے
ہجوم کو ایک قوم بنایا اور ان کے جذبات کو بیدار کیا انہیں غیرت اور
خودمختاری کا سبق دیا۔ انہیں ایک جگہ جمع کیا اور مسلمانوں کے الگ وجود و
تشخص کے لیے دن رات ایک کردی۔یوں قائد اعظم نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر دن
رات جہد مسلسل کی اور یوں 1947کو دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے نام سے ایک نیا اسلامی ملک وجود میں آیا۔ پاکستان کو بنے 68سال گزر جانے
کے بعد بھی جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا وہ مقصد آج تک پورا نہیں
ہوا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امن اور سکون ہو تو پاکستان میں
اسلامی قانون نافذ کر دیا جائے جب پاکستان میں اسلامی قانون ہوگا تو ان شاء
اﷲ ہم اپنی نوجوان نسل کو ایک ایسا پاکستان دیں گے جس میں دہشت گردی ، غنڈہ
گردی اور فحاشی نہیں ہو گی بلکہ ایسا پاکستان ہوگا جس کو خواب ڈاکٹر علامہ
محمد اقبال اور قائد اعظم محمدعلی جناح نے دیکھا تھا۔ کچھ لوگ پاکستان کو
اندھیروں کی طرف لے جارہے ہیں۔قدم سے قدملاکر ملکی خوشحالی ترقی ،استحکام
اور روشن مستقبل کیلئے ہمارا عہد ہے کہ آؤ دیا جلائے رکھنا ہے ۔ جب ہم دیا
سے دیا جلائیں گے ان شاء اﷲ پاکستان روشن ہوگا اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں
پاکستان کا مقدر اندھیرے ہیں۔ میں ان کو کہتا ہوں پاکستان کا مقدر اندھیرے
نہیں بلکہ روشنی ہے کیونکہ پاکستان ایسے ہی نہیں بنا بلکہ ہمارے بزرگوں نے
اسے اپنے لہو سے روشن کیا ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنابھی ہے اور کتابوں
میں پڑھا بھی ہے تحریک پاکستان کی تمام تر جدوجہد کامرکزی نکتہ یہ تھا کہ
پاکستان کا مطلب کیالا الٰہ الا اﷲ ۔یہ صرف نعرہ ہی نہیں تھا بلکہ اپنے رب
سے وعدہ تھا کہ تو نے اگر ہمیں پاکستان جیسی نعمت ہم کو عطا فرمائی ہے تو
ہم اس ملک میں تیری حاکمیت قائم کریں گے۔ ایک مقدس وعدے کے نتیجے میں اﷲ
تعالیٰ نے ہمیں ایک موقع عطا فرمایا اور انعام کی حد کردی کہ 27رمضان اور
جمعہ کے دن عطا فرمائی۔ یہ وہی پاکستان ہے جس کی آزادی کی خاطر ہمارے
بزرگوں نے تن من دھن سب کچھ لٹا دیا تھا تب کہیں جاکے ہمیں آزادی کی نعمت
ملی۔میں نے اپنے ملک کے نامور شاعر اور ادیب ریاض الرحمن آغا سے پوچھا تو
ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں اور مجھ سے کہا کہ بھٹی صاحب یہ لوگ آزادی
کوکیا سمجھیں ۔آزادی کا مطلب کوئی ہم سے پوچھے ۔جب ہم امرتسر سے نکلے میرے
والدین ،ایک میرا بھائی اور میں تھا اور جب ہندوؤں نے ہم پر حملہ کیا تو
میرے والد شہید ہوگئے ۔ہم والد کی لاش وہاں چھوڑ کر پاکستان کی طرف چلے
آئے۔اس لیے میں کہتا ہوں پاکستان ہمارے بزرگوں کے لہو سے بنا ہے ۔مجھے احمد
فراز کا ایک شعر یاد آرہا ہے
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
کہ اپنے حصے کی شمع جائے جاتے
آج قوم 69واں جشن آزادی منانے کی تیاریاں کر رہی ہے اگرچہ وطن عزیز میں ایک
طرف پاک فوج امن کے لیے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے تو
دوسری طرف ملک بھر میں ہونے والی شدید بارشوں کے علاوہ سیلاب نے تباہی
مچائی ہوئی ہے۔پور ے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے لاکھوں افراد بے گھر
ہو چکے ہیں۔ اہل وطن ایک بڑی تعداد شدید مشکلات کا شکار ہے اس لیے ہمارا
فرض ہے کہ ہم ان دکھی اور مصیبت زدہ ہم وطنوں کی دل کھو ل کر مدد کریں تاکہ
آزادی کا دن اخوت و بھائی چارے کی انمول مثال بن جائے۔یوم آزادی منانا زندہ
قوموں کی علامت ہے لیکن اس موقع پربد مزگی بھی ہوتی ہے جس کے باعث ہر پر
مسرت اور مقدس موقع پر خوشیوں کو بے مزہ کردیتاہے ۔منچلے آزادی کے موقع پر
بہت زیادہ آزاد ہو کر اخلاق و آداب سے منہ موڑتے ہیں موٹر سائیکلوں کے
سلنسر نکال کر فضا کو آلودہ اور بے ہنگم کر دیا جاتا ہے اور جس کے نتیجے
میں کئی حادثات ہوتے ہیں کئی ماؤں کے بیٹے دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔ میں اپنی
نوجوان نسل کو یہ پیغام ہے کہ انہیں کاموں سے نہ صرف اپنی جان کو خطرہ ہے
بلکہ دوسروں کی جان بھی بچائی جاسکتی ہے۔ اﷲ پاک ہم کو جشن آزادی کی صحیح
معنوں میں خوشی منانی نصیب فرمائے۔ آمین
آخر میں پاکستان کے لیے دعا،احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو |