اتحاد جمعیۃ دل سے یا پھر…!
(nazish huma qasmi , mumbai)
عید ملن تقریب کے موقع پر جمعیۃ
علماء ہند کے دونوں دھڑوں کے راہنما کی باہم ملاقات سے آٹھ سالہ تعطل
وانتشار کے بادل چھٹتے ہوئے نظر آنے لگے تھے،عوام الناس میں خوشی کی لہر
دوڑ گئی تھی۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا بھی سلسلہ جاری ہوگیا تھا،
اور اس خوشی فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب ہماری پریشانیوں کا حل جمعیۃ
علماء ہند کے متحدہ پلیٹ فارم سے ہوگا۔ راقم بھی خوشی سے سرشار تھا اور
جناب فاروق انصاری صاحب کو جب اس خوشی کی اطلاع دی توانہوں نے فوراً سے
پیشتر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے ایک اہم ذمہ دار کے حوالے سے گفتگوکی اور
بتایاکہ یہ سب ویسے ہی ہے حقیقت کچھ اور ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جمعیۃ علماء
کا اتحاد صرف اخباری بیان بازیوں اور عوام الناس کو خوش فہمی میں مبتلا
کرنے والی بات ہے۔ اور میرے محترم دوست شاہنواز بدر قاسمی صاحب نے بھی اسی
بات کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی طرف فاروق انصاری نے جمعیۃ علماء کے ذمہ
داران کی طرف سے بات کہی تھی ۔مصالحت کی حقیقت یہ ہے
’’بات فیصلے کی نہیں ہے دہلی ہائی کورٹ کی ایک رکنی بینچ مولانا ارشد صاحب
کی حق میں فیصلہ سنانے والی تھی تو محمودی گروپ نے پٹیشن داخل داخل کی کہ
ہمیں اک رکنی بینچ کا فیصلہ قبول نہیں، دو رکنی بینچ فیصلہ کرے تو کورٹ نے
دو رکنی بینچ بنا دی ہے اس میں ایک شاید سابق صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد
کے رشتہ دار جج ہیں جنہوں نے کہاکہ بہتر ہے کہ آپ لوگ 29جولائی سے پہلے
مصالحت کرلیں ورنہ عدالت اپنا حتمی فیصلہ سنا دے گی۔ تو محمود مدنی گروپ نے
اپنی عاملہ کی طرف سے تجویزپیش کی کہ صدر مولانا ارشد مدنی صاحب اور جنرل
سیکریٹری مولانا محمود صاحب اور جس وقت اختلاف ہوا تھا اس وقت عاملہ میں جو
لوگ تھے وہ فیصلہ کریں گے تو مولانا اسجد مدنی صاحب نے جواب بھیجا کہ
مولانا ارشد صاحب کی طرف کے دستور کے مطابق مصالحت ہوگی اگر آپ کو منظور
ہے تو ٹھیک ہے۔اور ایک بات ارشد مدنی صاحب گروپ کی طرف سے کہی گئی کہ جب
آپ نے کہا کہ دستور کے مطابق فیصلہ قبول ہے تو پھر پہلے صدر سیکریٹری
بناناکربھیجنے کی کیا ضرورت تھی ؟۔ بہرحال29 جولائی کو عدالت میں شنوائی
تھی تھی جج محترم نے پوچھا کیا مصالحت ہوگئی تو محمودمدنی صاحب کے گروپ کے
وکیل نے کہا کہ بات جاری ہے تو وکیل نے ارشدی گروپ کے وکیل سے پوچھا بات
چالو ہے تو ارشدمدنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ صرف ایک لیٹرآیاتھاجس کا جواب
بھیج دیا گیا تھاباقی کوئی بات چالو نہیں ہے تو محمودی گروپ کے وکیل نے6
ہفتے کی مزید مہلت مانگی تو جج نے 4 ہفتے کا وقت دے دیاہے۔مولانا اسجد مدنی
صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ نے جو تجویز بھیجی ہے اسکو واپس لینا ہوگا
اور دستور کے مطابق ہی مصا لحت ہوگی۔‘‘
اتحاد جمعیۃ پر کئی دانشوران نے اور اہل قلم نے مضامین لکھے اور مفید مشورے
پیش کیے، اور اسلامی مصالحت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ خصوصاً روزنامہ
اردوٹائمزکے فیچر ایڈیٹر محترم جناب شکیل رشید صاحب مضمون نہایت ہی پرمغز
اور فکر انگیز تھا لیکن افسوس وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، آٹھ سال سے تعطل کے
شکار اس قضیے کے تصفیہ کا انتظار مزید دراز ہوگیا، جولوگ اس ملاقات کے بعد
خوشیوں کے ترانے گانے لگے تھے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور عدالتی
نظام میں چارہفتے سے آٹھ ہفتے چھ ماہ ایک سال ہونے میں کوئی دیر نہیں
لگتی۔
جمعیۃ علماء ہند یقینا ایک ناقابل یقین حقیقت ہے جس کا اعتراف صرف اپنوں نے
نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا ہے، جمعیۃ نے اپنی 94سالہ تاریخ میں وہ کارہائے
نمایاں انجام دئیے جو دیگر تنظیموں کا مقدر نہیں ۔ ملک وملت کے مفاد کی
خاطر اراکین جمعیۃ ہمیشہ کمر بستہ رہے ہیں، مگر جس طرح چند سالوں سے جمعیۃ
علماء ہند داخلی وخارجی خلفشار کا شکار ہوئی ہے اور جس طرح چند مفاد پرستوں
کی وجہ سے پوری قوم تذبذب کا شکار ہوگئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جمعیۃ
علماء ہند کے دونوں دھڑوں کی جانب سے جمعیۃ کے اصولوں کی دہائی دی جارہی ہے
یقینا جمعیۃ کے اصول قابل تقلید اور قابل احترام ہیں، اصول بنانے والوں نے
قرآن وحدیث کی روشنی میں اصول وضع کیے ہوں گے، لیکن پھر بھی وہ انسان کے
مرتب کردہ اصول ہیں، ان میں تحریف کی گنجائش ہے، بوقت ضرورت اس میں از سر
نو ترمیم کیاجاسکتا ہے۔ یہ خدائی قانون نہیں ہے جس میں تحریف کی گنجائش
بالکل ہی نہیں، جس میں رد وبدل کرنے سے ایمان والا خارج ازاسلام ہوجائے،
ہمارے اسلاف نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اصول فقہ کو مرتب کیا تھا، پیچیدہ
پیچیدہ مسائل کا استنباط کرکے عوام الناس کے لیے دین اسلام کو آسان سے
آسان تر بنایا تھا لیکن مرور زمانہ اورنئے نئے مسائل نئی ٹکنالوجی نے
علماء امت کو اس بات پر مجبور کیا کہ نئے مسائل کے لیے نئے حل تلاش کیے
جائیں چنانچہ آج علماء ایک بڑا طبقہ نئے مسائل کے استنباط میں مصروف ہے۔
جب ہماری فقہ اور دیگر اسلامی چیزوں میں حالات کی وجہ سے تبدیلی کی گنجائش
ہے تو جمعیۃ علماء ہند کے دستور اس سے ماورا کیوں سمجھے جاتے ہیں۔ اصول
ہمیشہ جوڑ کے لیے مرتب کیے جاتے ہیں تاکہ عوام خلفشار کا شکار نہ ہو لیکن
جب جمعیۃ ہی دو حصوں میں منقسم ہوچکی ہے اور جانبین سے دستور کی دہائی دی
جارہی ہے ا یسی صورت میں کیا دستور پر نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں
ہے؟۔یقینادستور قابل احترام ہیں لیکن عوام الناس کے مفاد کو دستور کی بناء
پر قربان نہیں کیاجاسکتا؟۔ علماء امت اور راہبران قوم وملت میں اختلاف کوئی
نئی چیز نہیں ہے ابتداء اسلام سے ہی یہ چیزیں عام رہی ہیں لیکن ان تمام
حضرات نے ہمیشہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلے کا حل تلاش کیا ، باہمی
اختلافات کوباعث مضرت نہیںبننے دیا او رنہ ہی دشمنان اسلام ان کے آپسی
رنجش کا فائدہ اٹھاسکے۔ تاریخ نے بڑے سنہرے حروف میں اس واقعہ کو نقل کیا
ہے’’ جنگ صفین کے موقع پر جب رومیوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے کہا تھا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پیچھے سے حملہ کرتے
ہیں آپ سامنے سے حملہ کیجئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جو
جواب دیا وہ ہے کہ اگر علیؓ پر حملہ ہوا تو علیؓ کے جھنڈے کے نیچے لڑنے
والا پہلا سپاہی معاویہ ہوگا۔‘‘ دور حاضر میں اراکین جمعیۃ ملک کی موجودہ
صورتحال سے ناواقف نہیں ہیں، ملک کے بگڑتے مسائل ، فرقہ پرستوں کی شہ
زوریاں، اس بات کے متقاضی ہیں کہ اب ہمارے راہنما ماضی کی تلخیوں کو بھلا
کر از سر نو مسلمانان ہند کی متحدہ رہنمائی کریں۔ مبادا…! ایسا نہ ہوکہ
ہمارے یہ رہنما باہمی خلفشارکاشکاررہیں اور قوم مسلم بے یارو مددگار دو
حصوں میں بٹ کر تاریخ ہند کا سیاہ ماضی بن جائے۔
|
|