گلگت بلتستان اور آئینی صوبہ

گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی نے حال ہی میں ایک قراردادمنظور کر لی ہے جس میں وفاق سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے۔اخباری بیان میں دیگر تفصیلات پڑھ کرذہن میں ایک مصرعہ ۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے؟ اے خدا!کے ساتھ اقبال کا یہ شعر بھی ابھرنے لگا۔۔۔
اُڑائی قمریوں نے طوطیوں نے ،عندلیبوں نے
چمن میں بکھری ہوئی ہے داستان میری

اور اس داستان کو سمیٹنے کے لئے ماضی کے اور چلا اور ماضی کے دردستان اور حال کے گلگت بلتستان کی بکھری ہوئی داستان قرون وسطیٰ کی تومعلوم نہ ہو سکی البتہ سلاطین کی تاریخ کے اوراق دیکھے تو اس میں بھی بڑے سقم پائے۔ان تاریخی حوالہ جات کا ذکر کیا جائے تو اس سے قرطاس کے قرطاس بھرے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت میرا موضوع تاریخ نہیں بلکہ ایک کالم لکھنے کی حد تک ہے اس لئے ان واقعات میں سے چند ایک پر اکتفا کرتے ہوئے مذکورہ الفاظ۔ چمن میں بکھری ہوئی ہے داستان میری۔ کو سیاسی نقطہ نگاہ سے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی کرونگا تاکہ گلگت بلتستان کے آئینی مسلہ کی حقیقت اور بات واضح ہو سکے ۔ہلکے پھلکے انداز میں اس کی تمہید یوں باندھی جا سکتی ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنی اس داستان سے یا تو دلچسپی نہیں رکھتے یا جان بوجھ کر حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔ یا وہ بلکل ہی اپنی تاریخ سے نا بلد ہیں ۔ان عوامی نمائندوں کے اخباری بیانات اور بے اختیار صوبائی اسمبلی میں حرکات کا جائزہ لیا جائے تو انسان سر پیٹ کے رہ جاتا ہے۔آئے روز ایک نیا اور من گھڑت بیان داغ دیتے ہیں جس کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ پیر شائد ان کا مقصد یہی ہے کہ ماضی میں یہاں کے عوام کو الجھا کے رکھ دیا گیا تھا وہی پالیسی برقرار رکھتے ہوئے عوام کوسچ بات نہ بتائی جائے اور عوام کو الجھا کر اپنے مفادات کا تحفظ برقرار رکھا جائے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ سیاستدان عوام کو خوش فہمی میں رکھنا چاہتے ہیں اور عوام بھی اسی خوش فہمی میں ہی اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ماضی کا دردستان کس حال میں تھا اور حال کا گلگت بلتستان کس حال میں ہے یہ لوگ اس سے بے خبر ہیں ۔۔۔۔۔ماضی کا گلگت بلتستان سات حصوں میں تقسیم تھا جس کو ست مقسہ کہا جاتا تھا جس کی سرحدیں چترال ہنزہ نگر منتکہ کی پہاڑیوں تک، کوہستان داریل تانگیر تک ،کبھی یہ سرحدیں پھیل کر پنجکوڑ سوات تک اور کبھی کشمیر کے شمال مغربی حصہ بلتستان اور لداخ تک پھیلی ہوئی تھیں تو کبھی یہ سکڑ کر شمال میں چترال یار خون تک اور کبھی دیر کوہستان تک محدود رہی ۔تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ کوہستان کے بیشتر علاقے ماضی کے دردستان اور حال کے گلگت بلتستان کے نا قابل تنسیخ حصہ رہے ہیں ۔۔۔۔ہماری تاریخ مختلف کارناموں سے بھری پڑی تھی جو ہمارے لئے مشعل راہ کا کام دے سکتی تھی اس پر تاریکی چھائی ہوئی ہے جس میں تلاش اور کھنگالنے کے باوجود بھی ہمیں اپنے اسلاف کے حالات زندگی کے بارے کچھ پتہ نہیں چل پاتا۔۔۔اس کی وجہ کم علمی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ موجودہ حالات میں جس تاریخ کی بات ہم کرتے ہیں وہ بھی غیر ملکی اور غیر مقامی افراد ہی کہ مرہون منت ہے۔۔اس وقت کے علمی حال کا تذکرہ کیا جائے تو یاسین کے راجہ میر ولی کا نام کہیں پایا جاتا ہے لیکن اس کی کوئی لکھی ہوئی تحریر کا تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ۔۔اس کے بعد پاکستان بننے کے بعد ایک مقامی شخص ماسٹر عجب خان کا نام آتا ہے جس نے ایک چھوٹی سی کتاب گلگت کا جغرافیہ لکھا تھا جس کو بعد میں مقامی لکھاریوں نے سرکہ کر کےاپنے نام سے چھپوایا اور کافی نام کمایا۔۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی مقامی لکھاری کی کوئی ایسی تحقیق یا کتاب سامنے نہیں آئی ہے جس کو مستند جانا جا سکے ۔۔جن لوگوں نے تاریخ کے نام پر کتابیں لکھی ہیں اس میں تاریخ کم اور اپنے خاندانی پس منظر پر زیادہ بحث کی گئی ہے ۔۔دور نہ جائیں ماضی قریب میں آزادی کے حوالے سے لڑی جانے والی انیس سو سینتالیس کے ڈوگرہ راج کے انخلا کے بارے جو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ان کے اندر بھی بڑا تضاد یا یاجاتا ہے جس سے قاری الجھ کر رہ جاتا ہےکہ کس کی بات کو سچ مانا جائے۔۔حالانکہ ان کتابوں کے سارے مصنفین ایک ہی کشتی کے سوار یعنی جنگ آزادی کے ہیروز کہلاتے ہیں ۔۔۔ اسی سے ہماری کم مائیگی اور کم علمی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔۔موجودہ اسمبلی کی قرارداد کو بھی اگر ہم کم علمی سے جوڑ دیں یا تشبیہ دیں تو کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوگا۔ اسمبلی کی قرارداد کے فوراً بعد گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الر حما ن کا بیان تائید کے لئے کافی ہے ۔ جس میں وزیر اعلیٰ نے ببانگ دہل کہا کہ اسمبلی ایسی قراردادیں پاس نہ کرے جن پر عمل درآمد ممکن نہیں ۔ ہمارے معزز ممبران کو اپنے قائد ایوان کی بات پلے باندھنی چاہئے۔اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اور اس کے کچھ رفیق کاروں کو زمینی حقائق کا پورا پورا ادراک ہے۔موجودہ اسمبلی میں اس وقت بڑے سیانے اور تجربہ کار افراد اور ایک زیرک اور منجھا ہوا وزیر اعلیٰ کا ساتھ ہے ان سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ گذشتہ اسمبلی نے بھی ایسی بہت ساری قراردادیں پیش کی جو ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں ۔موجودہ قرارداد کا حشربھی ان سے مختلف نہیں ہوگا اسے ستم ظریفی کہیں یا بد قسمتی کہ ابھی تک سیاستدان یا عوامی نمائیندے عوام کے سامنے اصل حقائق بتانے سے یا تو ہچکچا رہے ہیں یا تعصبات کے چنگل میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں ۔۔کبھی کبھار ایک ادھ سچ سامنے آتا بھی ہے تو وہ بھی اپنے مفادات کے لئے۔۔دوسری طرف دانشور اور پڑھے لکھے لوگوں کا حال بھی سیاستدانوں سے مختلف نہیں یہ دانشور شخصیات پرستی کا شکار ہیں اور ابھی تک درباری قصیدہ گوئی سے آگے نہیں بڑھے ہیں بس یوں سمجھیں کہ ۔من تورا حاجی بگوئم تو مورا حاجی بگو۔ والا قصہ چل رہا ہے۔۔۔کتابیں بہت ساری منظر عام پر آئی ہیں لیکن تاریخی حوالے سے کوئی خاص کتاب دیکھنے کو نہیں ملی اور جو ہیں ایک دوسرے کی نقل اور الفاظ کا ہیر پھیر کے سوا کچھ نہیں ۔۔ممکن ہے کہ میری باتیں کئی لوگوں کو تلخ لگیں اور سچ ہمیشہ کڑوا ہی لگتا ہے ۔ یہی سچ ہے۔۔۔۔الغرض لوگوں کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔۔۔۔بات ہو رہی تھی سیاستدانوں کی تو گلگت بلتستان کے ایک معزز ممبر کا یہ بیان کہ معاہدہ کراچی جعلی اور گلگت بلتستان کے عوام کی مرضی اس میں شامل نہیں تھی اس کو مفاداتی بیان سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا یہ بیان دیتے وقت اس کا دھیان شائد ۱نیس سو پینتیس میں مہارجہ کشمیر اور سرکار انگلشیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف نہیں گیا ہوگا جس میں چار سے زیادہ دفعات شامل ہیں اور سب کی سب گلگت کے بارے ہی ہیں ۔۔اس معاہدے کی شق اول کا ذکر کئے دیتا ہوں ۔۔ جس کے الفاظ یوں بیان کئے گئے ہیں ۔نواب وائسرائے گورنر جنرل بہادر کشور ہند کو اختیار ہے کہ اس معاہدے کو استحکام دیئے جانے کے بعد کسی بھی وقت وزارت صوبہ گلگت ریاست جموں و کشمیر کے اس حصے کا فوجی و ملکی نظام اپنے ہاتھ لے لیویں جو دریائے سندھ کے پار اس کے داہنے کنارے پر واقع ہیں لیکن باوجود شرائط معاہدہ ہذا ملک متذکرہ محروسیہ ہیز ہائنس مہارجہ کشمیر کے حدود میں شامل رہیگا۔۔اور غالباً یہی معاہدہ جموں جو مہارجہ کشمیر اور سرکار انگلشیہ کے درمیان طے پایا تھا کراچی معاہدے کا باعث ہے ورنہ حکومت پاکستان کو اس وقت کسی بھی ایسے معاہدے کی ضرورت ہی باقی نہیں تھی کہ وہ طشتری میں سجے سجائے ایک خوبصورت علاقے کومتنازعہ بنا کے رکھے۔۔۔دوسری اس کی وجہ مہارجہ ہری سنگھ کا کشمیر کے ساتھ عبوری الحاق تھا جس کے فوری بعد تحریک آزادی کشمیر کے لئے حکومت پاکستان کی طرف سے ایک آزاد حکومت آزاد کشمیر کے نام سے قائم کرنے کا اعلان ہوا اور چونکہ گلگت بلتستان اس وقت ریاست جموں و کشمیر کا ایک صوبہ تھا اور یہاں موجود تمام انگلش کارندے اور کشمیر انفنٹری ریاست جموں و کشمیر کےتنخواہ دار تھے۔۔۔ اور تحریک آزادی کشمیر کو تقویت دینے کے لئے حکومت پاکستان کے لئے ایسا کرنا ناگزیر تھا۔۔۔ چھبیس اکتوبر انیس سو سینتالیس مہارجہ ہری سنگھ کا ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے عبوری الحاق نے کشمیر کے طول و عرض میں ایک ہلچل مچا دی جس کے اثرات گلگت بلتستان میں بھی پڑنے لازم تھے اس الحاق کے بعد کشمیر میں شورش اٹھی جس کا الزام ہندوستان نے پاکستان کو ٹھرایا اور پاکستان نے ہندوستان کو کون غلطی پر تھا یا ہے اس بارے کتابیں بھری پڑی ہیں اس کو یاں دہرانے کی چنداں ضرورنہیں ۔ایک بات پر دونوں ممالک کا اتفاق ہوا کہ جموں و کشمیر ایک خود مختار ریاست ہے اور الحاق کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیا گیا جسے حق خود ارادیت یا رائے شماری کا نام دیا گیا۔۔گلگت بلتستان بھی اس وقت ریاست کشمیر کاحصہ ہی تھا۔ اس لئے اس خطے کوپاکستان کا صوبہ نہ بنانے کی ایک اور سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے۔۔ایک کراچی معاہدہ نہیں جس سے گلگت بلتستان متنازعہ بنا ہوا ہے یہاں تو معاہدوں کی بھر مار ہے اور یہ معاہدے زمانہ قدیم سے چلے آرہے ہیں فرق اتنا ہے کہ اٹھارہ سو سے پہلے کے معاہدے زبانی ہیں جن کی کوئی دسا تیر مہیا نہیں بلکل اسی طرح جس طرح اس خطے کو پاکستان سے الحاق کرنے کا زبانی دعویٰ تو ہے لیکن دستاویزی ثبوت کوئی نہیں۔ برٹش حکومت کے ایک ملازم میجر برون کی ایک ٹیلیگرافک مسیج پر پاکستانی پولیٹیکل ایجنٹ یہاں پہنچا۔۔۔اب وہ کون سے حالات تھے جن کے باعث یہاں کے ہیروز نے معمولی ملازمتوں پر اکتفا کیا۔سوالیہ نشان ہے۔ معاہدوں کی فہرست کو دیکھا جائے تو ہمارے سامنے ۱ٹھارہ سو چھیالیس کا معاہدہ امرتسر، انیس سو پینتیس کا مہارجہ کشمیر اور سرکار انگلشیہ کا معاہدہ، انیس سو انچاس کا معاہدہ کراچی اور پھر اقوام متحدہ کی پانچ قراردادیں اکیس اپریل انیس سو اٹھتالیس، دس مارچ انیس سو اکیاون، چوبیس جنوری انیس سو ستاون، تیرہ اگست انس اٹھتالیس اور پانچ جنوری انیس سو انچاس ، شامل ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی کے معزز ارکان ان سب باتوں سے لا علم ہیں یا واقعی وہ ان سے نا بلد ہیں امید واثق ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود پھر وہی من گھڑت بیانات اور بنا سوچے سمجھے اسمبلی میں اپنی بے اختیاری کے باوجود فضول قسم کی قرار دادیں منظور کرنا کس بات کی نشاندہی کرتی ہے۔۔اگر ان کو علم نہیں اور نا بلد ہیں تو اس پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی حوالہ جات سے دیکھا جائے تو دردستان گلگت بلتستان میں مقامی طور پر جو دو بڑے معاہدے ہوئے اس طرف بھی ہمارا دھیان ہے اور نہ کبھی گیا ہے۔۔ان میں ایک معاہدہ انیس سو پانچ ہے جس کے تحت چترال کو گلگت بلتستان سے جدا کیا گیا اور دوسرا معاہدہ خیبر پختون خواہ حکومت کے ساتھ جس کے تحت انیس سو پچاس میں کوہستان سارا گلگت بلتستان سے چھینا گیا۔۔کیا کسی نے ان معاہدوں اور زبردستی سے چھینے ہوئے علاقوں کے لئے کوئی جنگ لڑی یا جہد و جہد کی تاریخ اس بارے خاموش ہے اور ہر سال شندور کے موقعے پر ایک ادھ آواز کہیں سے گونجتی ہے جو صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔۔۔میں اس کالم کے ذریعے اپنے معزز ارکان اسمبلی گلگت بلتستان سے ایک معصومانہ سوال کرتا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد جو معاہدے ہوئے ان میں کیا یہاں کے عوام کی رائے شامل ہے جو کراچی معاہدے کے بارے ہم الانپتے ہیں ۔۔ان معاہدوں میں دو بڑے معاہدے ایک شملہ معاہدہ جس کے تحت پاکستانی اور کشمیری جنگی قیدی بھارت سے چھڑائے گئے اور دوسرا پاک چین معاہدہ جو انیس سو ترینسٹھ میں طے ہوا جس کے تحت گلگت بلتستان کا ایک حصہ چین کے حوالہ کیا گیا تا وقتیکہ مسلہ کشمیر کے حل ہونے تک۔۔۔ان سب باتوں کی موجودگی میں اور زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر پاکستانی صوبے کی رٹ لگانا اور عوام کو دھوکے میں رکھنا کون سی عقلمندی ہے۔۔۔۔ سب ہی اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ مسلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسلہ ہے جس کے اندر گلگت بلتستان بھی شامل ہے ان کی موجودگی میں کیا پاکستان اس خطے کو اپنا صوبہ بنا سکتا ہے؟ یقینا ہر ذی شعور یہی کہےگا کہ نہیں ۔گلگت بلتستان کا آئنی مسلے کا حل کشمیر کے اندر پوشیدہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے دوسرے لفظوں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کے آئنی مسلے کا راستہ کشمیر سے ہوکے ہی گزرتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں ۔۔۔اس کے علاوہ باقی جو راستے اختیار کئے جائینگے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائینگے اور مرمت کے قابل بھی نہیں رہئنگے۔۔۔۔اب اگر کوئی ان سب باتوں کو جانتے ہوئے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے تو اس سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہم جانا چاتے ہیں اسلام آباد اور ٹکٹ لیا ہے چترال کا۔ اور لازمی بات ہے کہ اس کا نتیجہ الٹا ہی ہوگا اور ہم منزل سے اور بہت دور چلے جائینگے اور ماضی کے حکمرانوں کی طرح ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لئے بیرونی امداد کے منتظر ہی رہئنگے ۔ ۔۔ کالم کو مزید طوالت سے بچانے کے لئے مزید تاریخی حوالوں کو یہی چھوڑ دیتے ہیں اور موجودہ صورت حال میں گلگت بلتستان کے آئنی مسلے سے کیسے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے اور اس کے ممکنہ حل کی طرف نگاہ کرتے ہیں۔ان زمینی حقائق پر بات چیت اور بحث مباحثہ ہو سکتا ہے اور کسی ایسے حل تک جو سب سے زیادہ آسان اور قانونی پیچیدگیوں سے خالی ہو اختیار کیا جا سکتا ہے ۔۔درج بالا واقعات اور حالات کو دیکھتے ہوئے اس کا سب اچھا اور آسان حل تو یہی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک مشترکہ اسمبلی بنائی جائے اور اس اسمبلی کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مختلف صوبائی حکومتیں قائم ہوں ایسا کرنے یا ہونے سے مسلہ کشمیر کا ایشو بھی سبوتاز نہیں ہوگا۔۔اور گلگت بلتستان کی پرانی آئینی حثیت بھی بحال ہو جائیگی جو یکم نومبر انیس سو سینتالیس سے پہلے تھی۔ اور اگر پاکستان کا ہی صوبے کا مطالبہ ہے تو گلگت بلتستان کے ماضی کے علاقے چترال اور کوہستان کو ملا کر اسے خیبر پختون خواہ کا دوسرا صوبہ بنایا جا سکتا ہے جو پاکستان کے لئے شائد اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا پہلے والا۔۔۔۔

اور آخر میں سیاستدانوں اور عوام سے اتنی گزارش ہے کہ خدا را سرابوں کے پیچھے نہ بھاگیں اصل صورت حال کو جانئے ۔ میں نہ مانوں کی رٹ والا کردار ختم کر کے اور ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہوکر۔ اقوام متحدہ کی قرارداد وں کے مطابق زمینی حقائق کی روشنی میں حقیقت والی راہ اپنائی جائے نہیں تو مزید ستر سالوں میں بھی کوئی آئینی صوبہ بننے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔اور اس تجربہ گاہ میں مزید تجربے ہوتے رہئنگے
ختم شدہ
 
Hidayatullah Akhtar
About the Author: Hidayatullah Akhtar Read More Articles by Hidayatullah Akhtar: 46 Articles with 51802 views
Introduction:
Hidayatullah Akhtar (Urduہدایت اللہ آختر‎) is a columnist, writer, poet, social worker and Ex Govt servant from Gilgit Pakistan. He
.. View More