آج ہم پاکستان کا 69واں یوم
آزادی منا رہے ہیں۔ ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے
اس کو منا رہا ہے۔ ان خوشیوں میں ہم سب شریک ہیں لیکن وہ لوگ نہیں جنہوں نے
اپنی قربانیوں، جدوجہد مسلسل اور جوش و خروش و جذبے سے ہمارے لیے آزاد وطن
کی آزاد فضاؤں کو یقینی بنایا۔ ہاں، ان کی یادیں رہ گئیں۔ شاید ہم انہیں
ایک سطح پر یاد بھی رکھیں تاہم ہماری نئی نسل ایسی خوشیوں کو اپنے انداز سے
مناتی ہے۔ وہ آزادی کا مفہوم، تقاضوں، جدوجہد اور مقاصد کو فراموش کردیتی
ہے۔ وہ تاریخ میں جھانکنے کی بجائے فیس بک اور ٹویٹر کی شیئر اور لائیک کی
چابی گھما کرآگے بڑھ جاتی ہے۔ ہم اس جدوجہد کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ
کرنے کے قائل نہیں رہے۔ لائبریریاں ویران نظر آتی ہیں۔ ہم میں ایک یا دوسطر
سے زیادہ پڑھنے کی ’’طاقت‘‘ ہی نہیں رہی۔ کتابوں کی بجائے سوشل میڈیا کے
دوسطری پیغامات ہی ہمیں دوقومی نظریہ، آزادی کے مقاصد، جدوجہد اور نظریات
کے لیے کافی ہیں۔ یاد رکھیں زندہ قومیں، اپنے اسلاف کی قربانیوں اور اوصاف
سے روشناس ہوکر آگے بڑھتی اور اپنی آزادی کا تحفظ کرتی ہیں۔ ہمیں کبھی سوشل
میڈیا سے ہٹ کر جدوجہد آزادی کے ان لمحات کا تفصیل سے بھی مطالعہ اور آگاہی
حاصل کرنی چاہئے ۔
آزادی کا مظہر فرد واحد سے قوموں تک پھیلا ہوا ہے ۔سچی اور صحیح آزادی کے
حصول کے لئے کسی بھی فرد اور قوم کو جسمانی اور ذہنی غلامی سے نجات حاصل
کرنا ضروری ہے۔ جسمانی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے باوجود جو اقوام ذہنی
غلامی میں مبتلا رہتی ہیں ان کی اپنی سوچ، اپنے خیالات اور پانے نظریات دم
توڑ جاتے ہیں۔ پھر ان کی قسمت کے فیصلے دوسرے کرتے ہیں اور غلام اقوام کی
خودداری حاکمینِ وقت اپنے پاس رہن رکھ لیتے ہیں۔ ان کی سوچ پر پہرے بٹھا
دیئے جاتے ہیں۔ ان کے لئے ترقی کے تمام تر دوازے بند کردیئے جاتے ہیں۔اس
طرح غلام اقوام پچھتاوے کی آگ میں تو جلتی رہتی ہیں، پنی قسمت کا رونا روتی
ہیں لیکن غلامی کی لعنت سے نکلنے کا کوئی حربہ استعمال نہیں کرتیں۔ 1857ء
کی جنگ آزادی کے بعدبرصغیرکے مسلمان قوم کے ساتھ یہی کچھ ہوا اور وہ انگریز
سامراج کے قریباََ ایک صدی تک غلام بنے رہے۔ پوری کی پوری مسلمان قوم معاشی،
سیاسی، اور اقتصادی اعتبار سے زبوں حالی کا شکار ہوگئی۔ جنگ آزادی کی
ناکامی کے بعد مسلمانوں کا شیرازشہ بکھر گیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی
سرزمین پر اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے۔ مسلمانوں پر غلامی و مایوسی کے گہرے
اور سیاہ بادل چھا گئے۔ غلامی یہ دور بدترین تھا۔ جس نے مسلمانوں کو سیاسی
، معاشرتی، مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے ہندؤں اور انگریزوں کا دستِ نگر بنا
دیا۔ مایوسی اور بددلی کے اس نازک دور میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایسے
رہنما پیدا کئے جنہوں نے ان کے د ل میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ ان میں سر
سید احمد خان، مولی نذیر احمد، مولانا شبلی نعمانی، مولانا حالی، مولانا
ظفر علی خان، علی برادران، قائد اعظم محمد علی جناح او رعلامہ محمد اقبال
خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی فکر سے سوچ کی رہنمائی کی
اور اپنی شعری صلاحیتوں سے سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑا۔
یومِ آزادی ہمارے ملی عزم و استقلال کا مظہر، قومی وجود سے ہماری گہری
وابستگی کا اظہار اور ہمارے ملی شعور و احساس خود آگہی کا انعکاس ہے۔ یہی
وہ دن تھا جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے ملی وجود کے اثبات اور اپنی منفرد
قومیت کی بقاء کے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا۔ ہماری اس داستان آزادی میں
نہ تو اتفاقات زمانہ نے کوئی رنگ بھرا ہے، نہ غیروں اور اپنوں کی ملی بھگت
اور سازش نے اسے حسنِ تعبیر بخشا ہے۔ ہماری داستانِ آزادی کو تو شہدائے
آزادی نے اپنے لہو سے عبارت کیا ہے۔ یہ جہد مسلسل اور دشت شوق کے سفر کی
طویل کہانی ہے۔ یہ سفرِ آزادی پھولوں کی سیج پر نہیں کانٹوں بھری راہ پر
آبلہ پائی کے دلدوز مظاہروں کے ساتھ طے ہوا۔ اس رہِ آزادی کے مسافر اس بات
سے بے خبرت نہیں تھے کہ ان کی منزل کس قدر کٹھن، مشکل اور صبر آزما ہے۔
لیکن یہ پر عزم لوگ دھن کے پکے، دولتِ ایمان و یقین سے مالال اور اعتماد و
تنظیم کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔
آزادی کے بعد 69سالوں کی تہوں میں سمٹے ہوئے شب و روز ہماری جہدِ بقا،
کامیابی و کامرانی کی آرزو مندی اور وقت و حالات کی نامساعد توں سے ہماری
نبرد آزمائی کی داستانوں سے عبارت ہے۔ آج دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے
مضبوط حصار میں بیٹھ کر اور سلامتی و بقا کی ٹھوس ضمانت رکھتے ہوئے ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کا مطالبہ کس کشیدہ ماحول اور
فضا میں اٹھایا تھا۔ ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہئے کہ آزادی اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے انسان کے لئے ایک بیش قیت اور انمول تحفہ ہے جس کی قدر و منزلت کا
تعین نہیں کیا جاسکتا۔ زندہ اور غریت مند اقوام اپنی آزادی ک بھرپور دفاع
کرتی ہیں اور اپنی سرزمین کی حفاطت کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان
کردیتی ہیں۔ وہ اپنی آزادی کا دن بڑے جوش خروش سے مناتی ہیں۔ آزادی کا یہ
دن درحقیقت تجدید عہد کا دن ہوتا ہے۔ اس دن محبان وطن یہ عہد کرتے ہیں کہ
وہ ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے
اور اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو ہرگز فراموش نہیں کریں گے۔ اور وقت آنے
پر اپنی جان تک وطن کے لئے قربان کردیں گے۔
یوم آزادی منانے کا مقصد محض خراجِ تحسین کے ڈونگرے برسانا نہیں بلکہ سجدہ
شکر بجا لانا ہے۔ اس بنجر زمین میں جہاں قحط الرجال کا غم تھا اﷲ کی رحمت
اتنا کھل کر برسی کہ ہمیں وہ قیادت میسر آگئی جس نے صرف سات سال کے قلیل
عرصے میں پاکستان کی منزل حاصل کرلی تھی۔ یہ دن ان کو نہ صرف یاد رکھنے
بلکہ ان کے نقش قدم پر چلنے کا عہد کرنا بھی ہے۔ یوم آزادی یوم احتساب بھی
ہے۔ اس دن یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق لینا
ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنا ہے ۔ ہم نے جس یگانگت اور اعتماد کا دامن
تھام کر آزادی کو حاصل کیا تھا وہ ہم سے روٹھنے لگا ہے۔ ہمارا اتحاد پارہ
پارہ ہوچکا ہے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا احساس باہمی
اختلافات کی نذر ہوگیا ۔جس کا فائدہ دہشت گردوں اور پاکستان دشمنوں نے
اٹھایا۔ گزشتہ یوم آزادی پر اسلام آباد میں دھرنوں کے نام پرملک میں مزید
تفریق کو جنم دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس تناظر میں یہ یوم آزادی یوم
احتساب بھی ہونا چاہئے۔ اگر ہم اپنی آزادی کو عزیز سمجھتے ہیں تو ہمیں اس
کے تحفظ کے لئے اپنی تمام تر قوتوں کو وقف کرنا ہوگا۔اپنی صفوں میں اتحاد
اور قومی امور کر تمام سیاسی مفادات سے بالاتر رکھنا ہوگا۔ آزادی کا تحفظ
اور ملک کا استحکام بحیثیت قوم ہم سب کا مشترکہ نصب العین ہونا چاہئے۔ اس
دن کو مناتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اب تک ہم نے اپنے ملک کے لئے کیا
قربانی دی ہے اور اس کی ترقی ، خوشحالی اور بقا میں کتنا حصہ ڈالا ہے۔ |