میرے استاد گرامی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب سے پہلی شناسائی نقوش اردوکی وساطت سے ہوئی۔نقوش اردو انٹر میڈیٹ کے طلبہ کے لیے اردو کی رہ نما کتا ب تھی۔ ہر لحاظ سے منفرد یہ کتاب اپنے دور میں طلبہ اور اساتذہ میں یکساں مقبول تھی۔پھر ایک طویل عرصے کے بعد 2001ء میں جب میں ماہ نامہ ترجمان القرآ ن کاباقاعدہ خریدار بنا ،اس وقت ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے تبصرہ کتب نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کی۔حقیقت یہ ہے کہ انھی تبصروں نے میری زندگی کو ایک نیا رُخ دیا۔یہ مختصر تبصرے نہ صرف پڑھنے میں دل چسپ اور معلومات افزا تھے بلکہ مطالعے پر اُکسانے کا سبب بھی تھے۔انھی تبصروں نے ایک وقت میں میرے لیے مہمیز کا کام دیا جس کی بدولت میں نے مختصر وقت میں اسلامی لٹریچر اور اردو ادب کے بڑے حصے کا ازسر نومطالعہ کیا۔

2003ء میں میری زندگی نے اس وقت ایک اور پلٹا کھایا جب میں نے اپنے آپ کو ادارہ معارف اسلامی لاہور کے ایک چھوٹے سے کمرے میں تصنیفی تربیت کلاس کے انٹرویو کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے رو برو پایا۔ ادارہ معارف اسلامی لاہور کے زیر اہتمام پہلے تصنیفی تربیت کلاس کے لیے کل آٹھ افراد کا انتخاب ہو ا۔میں بھی ان آٹھ افراد میں شامل تھا۔چار مہینوں کی اس کلاس کا دورانیہ صبح 9بجے تا ایک بجے تھا۔باقی رات گئے تک مطالعہ کتب ،اخباربینی اور دیگر سرگرمیاں جاری رہتیں۔ کلاس کا مقصد نئے افراد میں تصنیف و تالیف کا ذوق پیدا کر نا اور اس ضمن میں ان کی مناسب رہ نمائی کرنا تھا۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب اس وقت ادارہ معارف اسلامی لاہور کے ڈائریکٹرریسرچ اور اس کلاس کے انچارج تھے۔ان چار مہینوں میں ہمیں سیاست ،معیشت ،صحافت ،سماجیات اورتعلیم کے نامور علما،ماہرین اورمحققین کے بصیرت افروز گفتگو سننے کا موقع ملاجن سے بلا شبہ ذہن کے دریچے وا ہوئے اور ہمیں نئے افق دیکھنے کو ملے۔ لیکن ہمارا سب سے زیادہ وقت ہاشمی صاحب کے ساتھ ہی گزرا ۔ہاشمی صاحب کا انداز تربیت خالصتاً عملی تھا۔وہ لکھنے کے بنیادی اصول سمجھاتے مثلاً اچھی تحریر کے عناصر کیا ہیں؟کسی موضوع پر لکھنے کے لیے کن مآخذ سے کس طرح استفادہ کرنا چاہیے اور لکھنے کے مراحل کیا ہیں ؟آغاز اور اختتام کو کس طرح پرُ اثربنایا جاتا ہے؟کتاب پر تبصرہ کس طرح لکھا جاتا ہے؟روداد کس طرح لکھی جاتی ہے؟مضمون اور کالم میں کیا فرق ہے؟یہ سب کچھ وہ انتہائی شفقت کے ساتھ دل نشین انداز میں سمجھاتے ۔ وہ ہمیں صبح سویرے ایسی ہدایات دیتے۔لیکچر اور نشست کے بعد فرداًفرداً تبصرہ سنتے۔کسی موضوع پر لکھنے کے لیے کام دیتے،پھر جائزہ بھی لیتے۔اصلاح کرتے وقت سمجھاتے بھی کہ اس لفظ کی جگہ یہ لفظ استعمال ہونا چاہیے۔اور یہ جملہ یوں نہیں یوں ہونا چاہیے۔اس طرح لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ادارت اور پروف خوانی کافن بھی سکھاتے۔ہاشمی صاحب چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں مثلاً دن بھر کے کاموں کی فہرست کاغذ کے ایک پرزے پر لکھتے ہیں،اسی طرح وہ اپنے پاس ایک تھیلا رکھتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی مسودہ ،پانی کی بوتل ،کھانے پینے کا پرہیزی سامان ، مختلف رنگوں کے قلم ،کچی پنسلیں ، پنسل تراش،سٹیپلر، گوندوغیرہ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ لکھنے والوں کی کِٹ ہے جس کے بغیر کماحقہ کام ممکن نہیں۔انھوں نے ہم سے جزوی طور پراس کِٹ کااہتمام بھی کرایا۔(اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ابھی بھی جب میں اُن سے ملنے جاتا ہوں توکئی قسم کے بال پوائنٹ اپنے ساتھ اہتمام سے لے کر جاتا ہوں ۔)اس کلاس کے شرکا میں لکھنے کا ذوق اورپوشیدہ صلاحیت تو یقیناتھی لیکن لکھنے کا تجربہ نہ تھا۔یہ اس مکتب کی کرامت تھی کہ انھی چار مہینوں کے دوران میں کئی شرکائے کلاس کی تحریریں مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئیں ۔علاوہ ازایں شرکا سے کلاس کے آخر میں مقالے لکھوائے گئے ۔

کلاس کے ابتدا میں ہمیں محسوس ہو ا کہ ہاشمی صاحب ایک سخت گیر استاد ہیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد ہم ان کے مزاج آشنا ہوئے پھر ان سے بے تکلفی ہو گئی ۔ہمارا خیال تھا کہ مثالی استاد ماضی کاایک ایسا دل آویزکردار ہے جو صرف تاریخ کی کتابوں میں پایا جاتاہے لیکن اب ایک جیتا جاگتامثالی استادہمارے سامنے تھا اور ہمیں ان کی شاگردی نصیب ہوئی تھی۔میں 2004ء میں تصنیفی تربیت کلاس کے ان چار مہینوں اپنی زندگی کا سنہرا دور سمجھتا ہوں ۔

ا س کورس کے اختتام پر ہاشمی صاحب نے مجھے ادارہ معارف اسلامی لاہور کی جانب سے شعبہ تحقیق کا حصہ بننے کی دعوت دی جس کے نتیجے میں مئی 2005ء میں میں ادارے سے بحیثیت رفیق علمی وابستہ ہوا۔میں معروف معنوں میں تو ان کا ماتحت تھا لیکن ہمارا حقیقی تعلق استاد اور شاگرد کابلکہ مرشد اور مریدکاتھا۔ میں دفتری اوقات کے بعد بھی رات گئے تک ان کے گھر میں ان کے ساتھ بیٹھا رہتا اور مختلف منصوبوں میں ان کے ساتھ معاونت کے بہانے سیکھتا رہتا ۔پہلا منصوبہ جس میں میں نے اُن کے ساتھ کام شروع کیا تھا وہ ابو لاعلیٰ مودودی علمی و فکری مطالعہ تھا۔میں نے دیکھا کہ ہاشمی صاحب محض کام نمٹانے کے قائل نہیں ،وہ دستیاب وسائل کا بخوبی استعمال کرتے ہیں ،پوری دیانت داری کے ساتھ کام کو درجہ کمال پر پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کتاب کو اشاعت کے لیے تیار کرتے وقت اُن کا جوش وجذبہ اورلگن دیدنی ہوتا ہے ۔وہ بار بار پڑھتے ہیں،جملوں کی ساخت، روانی،تسلسل قائم کرتے ہیں۔املا درست کرتے ہیں۔سرخیاں ،ذیلی سرخیاں نکالتے ہیں ،چھوٹے چھوٹے پیراگراف بناتے ہیں، اشاریہ سازی کا اہتمام کرتے ہیں۔کتاب کے کاغذ اور سر ورق کے انتخاب تک سارے مراحل وہ خود دیکھتے ہیں۔

وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور اپنے شاگردوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔کام کے معاملے میں تساہل ،بے توجہی ،غفلت اور کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔

ان کے مشاغل کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ عوامی آدمی تو نہیں بن سکتے اس لیے دور سے دیکھنے والے بعض اوقات یہ سمجھتے ہیں کہ شایدوہ لوگوں سے بے نیازہیں،حالانکہ ایسانہیں ہے ۔ادارہ معارف اسلامی لاہور سے وابستگی کے دوران میں بالخصوص اور اس کے بعد بالعموم مجھے ہاشمی صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔میں نے ان کی تحریریں پڑھیں،گفتگو بھی سنیں، ان کی انفرادی زندگی بھی دیکھی اورمجھے ان کے بعض معاملات کو دیکھنے کا بھی موقع ملا۔میں نے انھیں ہمیشہ سچا،کھرا ،اوردل ہم درد رکھنے والا انسان پایا۔جہاں ان کا جملہ ان کے جسم کی طرح مختصر ہوتا ہے وہاں ان کی شخصیت ان کی تحریر سے زیادہ دل آویز اور جامع الصفات ہیں۔ان کی شخصیت کا غالب عنصر خلوص و محبت ہے۔

ہاشمی صاحب کے عجزوانکساراور خلوص و محبت کے بہت سے واقعات مجھے معلوم ہیں لیکن مضمون کی تنگ دامنی کی وجہ سے چند ایک پر اکتفا کرنا پڑرہاہے۔05 20ء میں ادارہ معارف اسلامی لاہور آتے ہی مجھے شدید کھانسی کا عارضہ لاحق ہوا۔میں مختلف ہسپتالوں سے ایکسرے اور ٹیسٹ کراتے کراتے گلاب دیوی ہسپتال پہنچا۔اور وہاں سے علاج شروع ہوا۔کئی دن تک انٹی بائیوٹک کے استعمال کے باوجود کوئی افاقہ نہیں ہوا۔مجھے دو تین دفعہ ہاشمی صاحب نے ہو میو پیتھی علاج کا مشورہ دیا تھا لیکن اس طریقہ علاج پر مجھے کوئی بھروسا نہ تھا۔اس کی کئی وجوہات تھیں۔ مثلاً مجھے کئی دفعہ ہو میو ڈاکٹروں سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔علاوہ ازیں میرے سامنے رد ہومیو پیتھی میں ایسے اقوال تھے جن کو تجربات کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے ۔مثلاََمیرے ایک بھائی کا یہ کہنا کہ ہومیو پیتھی خالصتاً حالت امن کا علاج ہے حالت جنگ کا نہیں۔اسی طرح ہومیو پیتھی طریقہ علاج پر میرے ایک دوست کا تبصرہ دل چسپی سے خالی نہیں اُن کا کہنا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہومیو پیتھی کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے میں کہتا ہوں جس دوا کا کوئی فرنٹ ایفیکٹ ہی نہ ہو،اس کی سائیڈ ایفیکٹ کے کیا کہنے۔انھی تصورات اور وجوہات کی بنا پر میں ایلوپیتھی ترک کر کے ہومیوپیتھی اختیار کرنے کا خطرہ ،مول نہیں سکتا تھا۔بالآخر اس وقت میرے پاس کوئی چارہ کار نہ رہا جب ہاشمی صاحب نے بحیثیت استاد اپنی صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے خود ایک ہومیو ڈاکٹر سے فون پر بات کر کے میرے لیے وقت لیا ،مجھے ان کا کارڈ دیا اور کلینک تک کا راستہ سمجھایا۔مجھے یاد ہے کہ اس ڈاکٹر کی دی ہوئی دو ا کی تین خوراکوں سے مجھے افاقہ ہوا۔دس پندرہ دن تک دوا استعمال کرنے کے بعد کھانسی اس طرح ٹھیک ہوئی کہ اس کے بعد چار سال تک مجھے کبھی کھانسی کی شکایت نہیں ہوئی۔البتہ پیٹ اور معدے کے مسائل وقتاًفوقتاً سر ا ُٹھاتے رہے۔پھر ہاشمی صاحب نے ایک حکیم ڈھونڈلیا۔واضح رہے کہ جسمانی ساخت کی طرح میرے اور ہاشمی صاحب کے پیٹ اور معدے کے مسائل بھی تقریباََ مشترک ہیں۔لہٰذا ہم دونوں رکشے پر بیٹھ کر حکیم ارشد اقبال کے پاس اقبا ل ٹاون جاتے رہیں۔وہاں پہنچ کر ہاشمی صاحب اپنے چھوٹے سے تھیلے سے کسی مسودے کے پروف نکال کر پڑھنا شروع کردیتے،انتظار میں جتنا بھی وقت لگتا وہ اس طرح کام کرتے ،وہ دوران سفر گاڑی میں بیٹھ کر بھی اپنا یہ شغل جاری رکھتے ہیں۔صرف یہی نہیں ہاشمی صاحب اپنی زندگی کے تمام معاملات میں وقت کی خوب قدر کرتے ہیں۔ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے ان کی عملی سرگرمیاں اور علمی و تصنیفی کام اس کا نتیجہ ہے اوریہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔

ادارہ معارف اسلامی لاہور کے بالائی منزل پرایک کمرا میرے رہنے کے لیے مخصوص تھا۔ایک دفعہ مجھے بخار ہو گیا۔ہاشمی صاحب کو پتا چلا تو وہ گھر سے کھانا تیار کر وا کر اپنے بچوں کے ہاتھ بھیجتے رہے۔ایک دن صبح سویرے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو ہاشمی صاحب ہاتھ میں ڈونگا تھامے کھڑے ہیں۔میں نے کہا سر آپ کو زحمت دینے پر مجھے افسوس ہے ۔کہنے لگے :کوئی بات نہیں،آج بچے کسی کام پر نکل گئے تھے میں نے سوچا ناشتا خود ہی دے آؤں۔جب تک میں لاہور میں بچوں کے بغیر رہا وہ مختلف بہانوں سے مجھے اپنا مہمان بناتے رہے۔ان کے ہاں دوست احباب کے لیے کھانے کا پروگرام ہوتا، یا اپنے رشتہ داروں کے لیے ،مجھے شرکت کی دعوت ضرور ہوتی۔

2006ء میں میری اہلیہ گردے کے اپریشن کے سلسلے میں پشار خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں داخل تھی میں تیماداری کے لیے ساتھ تھا۔ہاشمی صاحب فون پرگاہے گاہے مجھ سے رابطہ کر کے عیادت کرتے رہے۔ایک دن پشاور یونی ورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ صابر کلوروی مرحوم کا فون آیا، کہنے لگے: میں گیٹ کے باہر کھڑا ہوں۔میری گاڑی کا رنگ سفید اور نمبر (……)یہ ہے۔مجھے ملیں ،میں باہر نکلا، ملاقات ہوئی۔انھوں نے مختصراََ حال احوال پوچھا،عیادت کی، پھر مجھے اپنے دفتر میں ساتھ لے گئے۔کہنے لگے: مجھے ہاشمی صاحب نے آپ کافون نمبر دیا تھا۔ آپ کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہو یاکسی چیز کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔یہ صابر کلوری صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی۔

ہاشمی صاحب نے رقم کی ایک خاص مقدار قرض حسنہ کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔وہ قرض دیتے وقت خالصتاً شرعی طریقے کے مطابق لکھت پڑھت کا کہتے ہیں۔رقم کی مقدار اور واپسی کی معینہ تاریخ قرض لینے والے کو خود لکھ کر دینا ہوتاہے ۔مقررہ تاریخ پر واپس نہ کر سکے تو زبانی بتاکرحسب منشا توسیع لے سکتے ہیں۔ میں نے خود کئی دفعہ اس سکیم سے استفادہ کیا ہے۔

بعض لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ ہاشمی صاحب مزاج کے تیز اور زود رنج ہیں۔یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہاشمی صاحب اصولوں کی خلاف ورزی برادشت نہیں کرتے جب کہ بعض لوگ اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔اسی طرح وہ سیدھی ،صاف کھری اور دو ٹوک بات کرنے کے عادی ہے جب کہ لوگ اس کو ’’حکمت‘‘ کے خلاف سمجھتے ہیں۔

ہاشمی صاحب کا زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزرتا ہے ۔وہ کتابیں پڑھتے ،سوچتے ،لکھتے ہیں اور کتابوں ہی کے بیچ میں رہتے ہیں۔ادارہ معارف میں ان کے کمرے میں کتابوں کے لیے الماریاں بھی تھیں لیکن کتابوں کے ڈھیر الماریوں سے باہر بھی تھے۔جہاں تک گھر میں ان کے مطالعے کا کمرا ہے وہاں تو صورت حال ہی اور ہے۔دیواروں کے ساتھ کتابوں کی متوازی دیواریں ہیں،میزوں کے اوپر نیچے اور کرسیوں کے اوپر کتابیں ہی کتابیں ہیں خود ان کی چارپائی پرصرف ان کے بیٹھنے کے لیے تھوڑی سی جگہ بچی ہوتی ہے ۔جن لوگوں نے ہاشمی صاحب کو دیکھا ہے ان کو تو معلوم ہے کہ ان کے بیٹھنے کے لیے کتنی جگہ درکار ہوتی ہے۔جب ہم ان کے کمرے میں جاتے ہیں اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہیں :ٹھہریئے!پھر ایک کرسی سے کتابیں اٹھا کر بیٹھنے کے لیے جگہ بناتے ہیں،پھر کہتے ہیں:اب یہاں تشریف رکھیے۔

ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ سر!اس طرح کے ڈھیر میں آپ سے چیزیں غائب نہیں ہوتیں۔کہنے لگے: ہوتی ہیں لیکن بعد میں یہیں کہیں سے مل بھی جاتی ہیں۔تصویر کادوسرا رُخ میں نے اُس وقت دیکھا جب مجھے پہلی دفعہ ظہور مخدومی کے ساتھ ان کے گھر کے بالائی منزل پر واقع ان کی لائبریری میں جانا ہوا۔(ظہور مخدومی سری نگر یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی سکالرتھے جو ’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی اقبالیاتی خدمات ‘پر تحقیق کرنے کے لیے اُن دنوں لاہور آئے تھے )میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ زمانہ طالب علمی سے لے کر اب تک ان کی تمام تحریریں محفوظ ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ اخبارات میں مدیر کے نام شائع شدہ ان کے دوسطری خطوط تک کے تراشے بھی موجود ہیں۔

ہاشمی صاحب موقع محل کے مطابق ہلکی پھلکی مزاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ایک دفعہ چہل قدمی کے دوران میں مجھے کہنے لگے:مشاورت کے لیے آنے والے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طلبہ میرازیادہ وقت لے لیتے ہیں۔ہمارے ساتھ اُس وقت ہاشمی صاحب کے ایک شاگرد اور بے تکلف دوست بھی موجود تھے۔ان صاحب نے نئی نئی پی ایچ ڈی مکمل کی تھی۔بڑی سر خوشی کے عالم میں کہنے لگے:سر!آپ کچھ لوگوں کو میرے پاس مشاورت کے لیے بھیج دیا کریں ۔ہاشمی صاحب نے مسکرا کر کہا لیکن اس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ اتنا ہی وقت میرا پھر بھی لیں گے۔

میں نے نظر کی عینک لگائی ۔ کئی دنوں بعد ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوگئی ۔کہنے لگے:نظر کمزور ہو گئی ؟میں نے کہا:جی۔خوش گوار موڈمیں کہنے لگے:عینک بہت فیشن ایبل ہے۔میں نے کہا یہ انتہائی نرم و نازک ہے ،اس کے ساتھ مسائل بھی ہیں کبھی شیشہ خراب ہو جاتا ہے اور کبھی فریم ۔مسکرا کر کہنے لگے:بالکل آپ کی طرح، آپ بھی تو ایسے ہیں ۔

ایک دفعہ وہ اپنے گھر کے مطالعے کے کمرے میں کسی اشاریے پر کام کر رہے تھے،میں ان کے ساتھ معاونت کر رہاتھا۔اس دوران میں عبداﷲ شاہ ہاشمی صاحب آئے۔عبداﷲ شاہ صاحب ان کے رشتہ دار اور بے تکلف دوست ہیں، وہ گپ شپ کے موڈ میں تھے۔ہاشمی صاحب کہنے لگے:ہم کام کر رہے ہیں آپ دوسرے کمرے میں چلے جائیں ۔ان کا کہنا تھا کہ میں صرف 10منٹ بیٹھوں گا پھر چلا جاؤں گا۔ہاشمی صاحب نے کہا:بھئی ہمیں کام کرنے دیں۔بالآخر وہ جانے کے لیے تیار ہوئے جب اٹھ کر جانے لگے تو میز پر پڑے قلم دان میں سے ایک قلم اٹھا کر یہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے کہ مجھے اس وقت قلم کی ضرورت ہے۔ہاشمی صاحب خاموشی سے دیکھتے رہے۔جب عبداﷲ شاہ صاحب دروازے سے باہر نکلے تو مجھے کہنے لگے:دیکھیں عجیب لوگ ہیں اپنا قلم پاس نہیں رکھتے۔کئی دفعہ ان کو سمجھایا لیکن ان کی عادت نہیں بنتی۔پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے :مزے کی بات آپ کو بتاؤں اب جو چیز عبداﷲ شاہ صاحب اٹھا کر لے گئے ہیں وہ قلم نہیں ،بلکہ ٹارچ ہے۔

ہاشمی صاحب بنیادی طور پر اردو کے استاد اور اقبالیات میں متخصص ہیں۔انھوں نے اقبالیات پر درجنوں کتابیں لکھ کر اقبالیاتی تحقیق میں، گراں قدر اضافہ کیا۔بلاشبہ وہ اقبالیات میں ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ان کے اقبالیاتی خدمات پرآج سے کئی سال قبل پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا۔لیکن ہاشمی صاحب صرف اقبالیات تک محدود نہیں ہیں۔زمانہ طالب علمی میں مولانا مودودی کے عصری مجالس میں شرکت کرتے تھے اور نوٹس لیتے تھے بعدمیں’’۵۔اے ذیل دارپارک‘‘کے نام سے ان مجالس کی رودادیں کتابی شکل میں مرتّب کیں۔سلیم منصور خالد کے اشتراک سے مولانا مودودی کے خطوط کو حواشی کے ساتھمکاتیب مودودی کے نام سے مرتب کیا۔وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی علمی و فکری مطالعہ،اور سیرت سرور عالم جلد سوم جیسی وقیع کتابوں کے شریک مرتب ہیں۔

ہاشمی صاحب اگرچہ عملی سیاست اور صحافت سے دور مکمل یک سوئی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں تاہم اخبارات اور رسائل جرائد کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں ۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات سے اپنے آپ کو باخبر رکھتے ہیں ۔پاکستان،نظریہ پاکستان اور علامہ اقبال کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اسی سلسلے میں ضرورت ہو تو وضاحتی اور جوابی کالم بھی لکھتے ہیں۔اقبال کے اشعار یا ان کے متعلق خلاف حقیقت بات لکھنے والوں کو کسی قیمت پر نہیں بخشتے۔

ہاشمی صاحب نے مختلف اوقات میں دنیا کے مختلف ممالک کے سفر کیے ہیں اور الحمدﷲ یہ سلسلہ جاری ہے۔اب تک ان کے دو سفر نامے(اندلس اور جاپان) شائع ہو چکے ہیں۔برطانیہ کا سفر نامہ ہفت روزہ ایشیا میں قسط وار شائع ہو رہا ہے اب آخری مراحل میں ہے۔

سفر نامہ آج کے دور میں ناول اور افسانوں کے بعد شاید سب سے مقبول صنف ہیں۔کئی لوگوں نے سفر نامے لکھے ہیں ۔ بعض ادیبوں نے توسفرناموں کی بدولت بڑا نام کمایا اوریہی ان کی وجہ شہرت بنی۔ ان میں سے بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ محض سفر نامہ لکھنے کے لیے ہی سفر کرتے ہیں۔ایسے سفر ناموں میں دل کشی اور چاشنی پیدا کرنے کے لیے منظر کشی میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے اور واقعات اور مکالمے گھڑے جاتے ہیں جس سے سفر نامے کا مقصد ( وہاں کی حقیقی زندگی اور معاشرے کے عکاسی) فوت ہوجاتا ہے۔

ہاشمی صاحب کے سفر نامے گہر ے مشاہدے پر مبنی،دل چسپ اور بامقصد ہوتے ہیں۔وہ جہاں جاتے ہیں باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں۔خوبصورت مناظر،تاریخی مقامات کی تفصیلات قلم بند کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی معاشرت اور معیشت کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔مثلاً جاپان میں خود کشی کے روز افزوں رجحان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جاپانی اوائل عمری ہی سے اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کرتے ہیں۔دیانت محنت،صفائی،وقت کی پابندی ،قانون کی پاس داری،فرائض کی بجا آوری وغیرہ لیکن کیا خود کشی سے بچنے کے لیے وہ ان کو تعلیم نہیں دے سکتے۔پھر لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اگر جاپانیوں کو یہ باور کرایا جائے کہ زندگی خدا کی (یا کسی ایسی بالاتر ہستی کی،جسے وہ مانتے ہوں)امانت ہے اور اسے ضائع کرنا خیانت کے مترادف ہے تو شاید وہ باز آجائیں کیونکہ وہ بددیانت نہیں ۔(سورج کو ذرا دیکھ،ص۲۴۵)ہاشمی صاحب چونکہ بنیادی طور پر محقق ہیں شاید اس لیے ان کے سفر ناموں میں تحقیق کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔مثلاً کہاں کتنی سیڑھیاں چڑھیں یا کس چیز کی کتنی قیمت ادا کی اور کس وقت کہاں سے روانہ ہوئے وغیرہ۔ ان کا اسلوب سادہ،فطری،رواں دواں ہے ۔وہ سفر نامے میں قاری کو اپنے ذوق و شوق ،دل چسپی اور تجسس میں برابر کے شریک رکھنے کا فن جانتے ہیں۔

میں نے ہاشمی صاحب کو دور سے بھی دیکھا اور قریب سے بھی۔میں نے ان کو ان کے شاگردوں اور چاہنے والوں کے درمیان میں بھی دیکھا اور ہم عصروں اور عمر اوردرجے میں بڑے لوگوں کے ساتھ بھی۔میں نے ان کو احساس برتری اور کمتری سے ماورا اور شہرت،دولت،لالچ جیسی عوارض سے پاک خودی اور خودداری کا کامل نمونہ پایا ۔بلاشبہ جاں گسل تحقیق،رواں دواں اور اختصار و جامعیت کے حامل شان دار تحریریں ہی ہاشمی صاحب کی پہچان ہے تاہم ان کی شخصیت کی دل آویز ی ان سب چیزوں پرغالب ہے، کوئی قریب آکر تو دیکھے!
 
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 17872 views Editor,urdu at AFAQ.. View More