کراچی آپریشن ٗ سیاسی بلیک میلنگ اور بے رحم فیصلے

پاکستانی جمہوریت کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ یہاں اگر کسی بھتہ خور کو گرفتار کرو تو اسمبلی میں بیٹھے ہوئے سرپرستوں کے ذریعے بلیک میلنگ پر اتر آ تا ہے۔ اگر کسی رشوت خور کو پکڑو تو پریس میڈیا کے ذریعے آسمان سر پر اٹھالیتا ہے۔ اگر کسی قرضہ ہڑپ کرنے والے کو گرفت میں لاؤ تو پورے سسٹم کو ہی ہلا کے رکھ دیتا ہے ۔ چیرمین نیب کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے لیکن پکڑا کوئی نہیں جاتا۔اینٹی کرپشن کا ادارہ آنٹی کرپشن بن کے کرپشن کو پروان چڑھاتاہے۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جرائم پیشہ ٗ کرپٹ ٗ بھتہ خور ٗ اغوا کار ٗ چور ٗ ڈاکو اپنے اپنے سرپرستوں کے ایما پر کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔ دوسری جانب پولیس اور ماتحت عدلیہ کا عالم اس سے بھی بدتر ہے جہاں نہ صرف قدم قدم پر رشوت دی اور لی جاتی ہے بلکہ پولیس اپنی سرپرستی میں جرائم کی افزائش کرتی ۔ماتحت عدالتیں مقدمات کو طول دے کر جرائم کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہیں ۔یہ سب کچھ اسی ملک میں ہورہا ہے جس کو بنانے کے لیے 9 لاکھ انسانوں نے جانی و مالی قربانی دی تھی ۔ایک جرائم پیشہ گروپ ختم ہوتا ہے تو دوسرا اس سے زیادہ ظالم اور بے رحم ثابت ہوتاہے۔ کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں ۔گزشتہ دو تین دہائیوں سے یہ بین الاقوامی شہر ایم کیو ایم کی بھتہ خوری ٗ اغوا کاری اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار چلا آرہا ہے ۔ ان وارداتوں سے نہ وہاں کی بزنس کیمونٹی محفوظ تھی اور نہ ہی سرکاری ادارے ۔ پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں میں ایم کیو ایم نے بھاری تنخواہیں پراپنے کارکن بھرتی کروا رکھے تھے حتی کہ بنک بھی ایم کیو ایم کی بھتہ خوری اور بلیک میلنگ سے محفوظ نہیں تھے ۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی نے پوری کردی۔ سندھ میں شاید ہی کوئی ایسا حکومتی عہدہ ہوگا جس پر ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی کے کرپٹ اور راشی افسر تعینات نہ ہوں۔ بھتے اور کرپشن کی صورت میں حاصل ہونے والی رقم اپنے آقا کو نہ پہنچاتے ہوں۔الطاف حسین کا نام تو پہلے سے ہی مشہور تھا۔بلاول ہاؤس کا نام بھی بھتہ خوروں میں شامل ہوچکاہے۔ اب جبکہ رینجر نے کراچی کو پرامن شہر بنانے میں جس حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور جرائم پیشہ گروپوں کا خوف کسی حد تک کم ہوا ہے تو ایک جانب وزیر اعلی سندھ نیب اور ایف آئی اے کے چھاپوں کو غیر آئینی قرار دے کر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری جانب الطاف حسین کے کہنے پر ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ نے استعفی دے کر حسب روایت اپنی بلیک میلنگ کا آغاز کردیاہے۔ایم کیو ایم کی اب تک سیاست اس بات کی شاہدہے کہ یہ لوگ مہاجروں کے نام پر جرائم پیشہ گروپوں کی سرپرستی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جس کی باز گشت اب تک سنی جا رہی ہے ۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ یہ کیسی جمہوریت ہے ۔ اگر ایک سیاسی جماعت مستعفی ہوتی ہے تو منتیں کرنے اور اس سے بلیک میل ہونے کی بجائے خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کروا دیئے جائیں ۔لیکن نواز شریف پہلے عمران سے ڈرتے رہے اب الطاف حسن کی بلیک میلنگ کے آگے بھی سرجھکائے کھڑے ہیں ۔یہ درست ہے کہ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے لیکن یہ ضرورت کسی بھی طرح سیاسی بلیک میلنگ کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اب آپریشن کو ادھورا چھوڑ دیا گیا تو ایم کیو ایم کی صفوں میں موجود دہشت گرد اور بھتہ خور پہلے سے زیادہ خونخوار ہوکر کراچی کو لہولہان کردیں گے شاید پھر کوئی بھی آپریشن کراچی کاامن بحال نہیں کرسکے گا بطور خاص اس آپریشن کو تو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی دہشت گردوں کے خلاف ایک اہم قدم قرار دیاہے جبکہ الطاف حسین نیٹو کی فوج کراچی میں بلانے کا مطالبہ کرکے اپنی وطن دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ نواز شریف اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو کراچی میں قیادت کا خلا پر کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہئے اور اردو بولنے والوں کے حقیقی مسائل کو حل کرناچاہیے ۔صرف آپریشن سے کام نہیں چلتا جہاں آپریشن ہوتا ہے وہاں مرہم پٹی اور علاج بھی ضرور ی ہوتا ہے ۔صرف آپریشن کرکے زخموں کو کھلانہیں چھوڑاجاتا۔ اگر ایسا نہ کیاگیا تو خدشہ ہے کہ اردو بولنے والے ایک بار پھر الطاف حسین کی جھولی میں گر کر کہیں الگ صوبے کامطالبہ ہی نہ کرنے لگیں جس کانام پہلے ہی جناح پور رکھاجاچکاہے۔ اس لمحے ہماری قومی قیادت قومی مسائل کاادراک کرنے کی بجائے مفادات کی بندر بانٹ میں لگی ہوئی ہے ۔ایک جانب پارلیمنٹ میں سیاسی طوفان برپا ہے تو دوسری جانب قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم اور ان کے ویڈیوز کے چرچے عام ہیں ۔ بے شک یہ ناقابل معافی جرم ہے اور اسلام میں اس کی بہت سخت سزا مقرر ہے۔ لیکن ہم نے کبھی اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کردیکھا ہے کہ جنسی جرائم اور ہم جنسی پرستی کا یہ زہر کیوں اور کیسے موجودہ نسل میں پوری شدت سے سرایت کرچکا ہے ۔معاشرے کو اس بدترین مقام تک لانے میں میڈیا ٗ انٹرنیٹ اور فیس بک کا بہت بڑا ہاتھ ہے جہاں ایسے جرائم کو فیشن کا روپ دے کر اپنانے کا راستہ دکھایاجاتا ہے۔اداکاری اورماڈلنگ کی آڑ میں کیا کچھ نہیں ہورہا ۔اب اس بری عادت سے دینی مدرسے ٗتعلیمی ادارے ٗ جیلیں ٗ تفریح گاہیں حتی کہ کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں ہے ۔ بیوٹی پارلر ٗ مساج سنٹر ٗ جوس کارنر ٗ ریسٹ ہاؤسز ٗ ہوسٹلز اور ہوٹل بھی اسی وبا کی زد میں ہیں۔ کسی بھی دفتر ٗ ہسپتال ٗ ٹرانسپورٹ اڈے ٗتعلیمی ادارے یا مسجد کے واش روم میں چلے جائیں۔ ہر جگہ بیہودہ تحریریں لکھی صاف دکھائی دیتی ہیں بلکہ بے حیائی کرنے والوں کے موبائل نمبر لکھے نظر آتے ہیں۔ بے حیائی کے فروغ میں پاکستانی قوم اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ باقاعدہ ڈائریکٹریاں بھی شائع ہوچکی ہیں اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں جنسی کلب وجود میں آچکے ہیں ۔ کیا حکومت اور معاشرے کے سرکردہ افراد کی آنکھیں بند ہیں ٗ قانون بنانے اور نافذ کرنے والے ادارے خود اس میں ملوث ہیں۔قصور کا واقعہ تو ایک مثال ہے۔ اگر یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ ہم غیروں کی تقلید میں اپنا دین اور دنیا دونوں بھول چکے ہیں اور ایک ایسے اندھے راستے پر چل پڑے ہیں جس کا دوسرا کنارہ نہیں ہے۔افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس قوم کی نوجوان نسل ہی بیہودگی ٗلچر پن اور بے حیائی کا شکار ہوجائے اس ملک کو تباہی سے کون بچا سکتا ہے ۔سیاست دان اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں اور بدقماش لوگ غیروں کی تقلید میں عزت اور غیرت کی تمام حدیں پھلانگ جانا چاہتے ہیں۔اگر کوئی اس مکروہ فعل سے نجات حاصل کرنا بھی چاہے تو کوئی اس کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ دہشت گردی ٗ سیاسی بلیک میلنگ اور بڑھتے ہوئے جنسی جرائم دور حاضر میں پاکستانی قوم کے سب سے مسئلے بن چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں نواز حکومت کیسے ان سے عہدہ برآ ہوتی ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.