پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کے نام خط

محترم عمران خان صاحب!

میں خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والا ایک معمولی شہری ہوں ' گذشتہ انتخابات میں آپ کی تبدیلی کے نعرے پر میں نے آپ کا ساتھ دیا اور" بیٹ " کو ووٹ دیا مجھے امید تھی کہ آپ صوبے کی حالات بہتر کرینگے اور ہماری سختی بھی کم ہو جائیگی مجھے آپ کے نعروں پر یقین تھا اس لئے میں نے اپنے سارے ساتھیوں کو بھی اس بات پر قائل کیا تھا کہ آپ کے امیدواروں کو ووٹ دوں ' آپ نے جس تبدیلی کی امید دلائی تھی اس میں ہماری امیدیں آپ سے وابستہ ہوگئی تھی اور یقین تھا کہ دو سالوں میں آپ اور آپ کے ساتھی بہت کچھ کرپائینگے لیکن جس کی طرح توقع تھی اس طرح کی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی - یہ بھی غلط ہوگا کہ تبدیلی نہیں آئی لیکن یہ تبدیلی اتنی نہیں تھی جتنی کہ ہم توقع کررہے تھے-اور ہمیں یقین ہے کہ اگلے پانچ سال ہم آپ کی تبدیلی کے منتظر رہے تو جس بیٹ کو ہم نے ووٹ دیا تھا اسی بیٹ سے ہم سب لوگوں کی دھلائی ہوگی-

پشاور میں اپنے آپ کو خان اور کراچی میں مہاجر کہلوانے والے خان صاحب !سابق دور میں ہم لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی ابتر صورتحال ' بھتہ خوری ' پولیس کی زیادتی ' ہسپتالوں میں مریضوں کیساتھ پیش آنیوالے غیر انسانی سلوک ' ٹرانسپورٹ کی ابتر صورتحال اور روزگار کے مواقع نہ ہونا تھے جو تبدیلی والی سرکار کے دو سال میں بھی ویسے کے ویسے ہی رہے-سیاسی تعصب پسندوں اور ایزی لوڈ کے دور میں بھتہ خوری کھلے عام تھی اور اب یہ بھتہ خوری چوری چھپے ہورہی ہیں اگر آپ کو اندازہ نہیں تو جا کر قصہ خوانی ' دلہ زاک روڈ' کوہاٹ روڈ ' حیات آباد اور پشاور صدر کے تاجر تنظیموں کیساتھ مل بیٹھ کر بات کریں وہ آپ کو دل کی بات بتائینگے- محترم ! آپ یہ نہ کہیں کہ امن و امان کی صورتحال آپ کی وجہ سے بہتر ہوئی ہیں اس میں کچھ معروضی حالات اور کچھ ہمارے پڑوسی ممالک میں نیٹو افواج کی موجودگی تھی جو اب نہیں رہی اس لئے صورتحال امن وامان کی بہتر ہوگئی ہیں-رہی پولیس کی زیادتی کی بات تو یہ سلسلہ پہلے زیادہ تھا اب کچھ کم ہوگیا ہے لیکن اس میں پہلے لوگ جب پھنس جاتے تھے تو بات ہزاروں تک تھی اب اگر پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو پھر لاکھوں کی بات ہوتی ہیں-کبھی آپ نے سٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی تعداد کا پتہ کیا ہے کہ آج جس صورتحال سے پشاور اور دیگر شہروں کے لوگ سامنا کررہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہیں- انٹرنیٹ پر آن لائن ایف آئی آر کے اندراج سے کچھ نہیں ہوتا ' ہمارے صوبے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے اور جنہیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر بھی ہیں ان کی انٹرنیٹ سے وابستگی اور معلومات کتنی ہیں کہ وہ ایف آئی آر آن لائن اندراج کرسکیں گے-

محترم عمران خان صاحب!
آپ کے دعوے اپنی جگہ پر لیکن آج بھی مختلف تھانوں میں تعینات اہلکار ایسے ہیں جو پیسے لیکر کسی بھی شہری کو تحفظ پاکستان کے نام پر تھانے میں ڈال دیتے ہیں اور پھر شریف آدمی " منت سماجت" اور پیسے خرچ کرکے نکل آتا ہے یہ بات ٹھیک ہے کہ کرپٹ اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور احتساب کا سلسلہ بھی اسی حکومت نے شروع کیا ہے لیکن کیا کسی پولیس اہلکار کو برطرف کرنے سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں کبھی آپ نے ان پولیس اہلکاروں کو جو برطرف ہوئے ہیں ان کی سرگرمیوں کو چیک کیا ہے کہ وہ اب بھی کن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں- صرف برطرفی سے کچھ نہیں ہوتا ایسے اہلکار جو بھتہ خوری ' کرپشن اور مختلف غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہوتے ہیں ان کے خلاف عملی اقدامات اور سزا دینے کی ضرورت ہے تبھی یہ ٹھیک ہوسکیں گے- صرف برطرفی سے کچھ نہیں ہوتا- پولیس اہلکاروں کی وردیاں تبدیل کرنے سے تبدیلی نہیں آتی ان کا کردار ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے - ایزی لوڈ والوں کے دور میں ان کا جیب خرچہ سو سے دو سو روپے ہوتا تھا اور اب تبدیلی والی سرکار کے دور حکومت میں یہ خرچہ پانچ سے چھ سو روپے تک پہنچ گیا ہے - بس اتنی سی تبدیلی آگئی ہیں-

نئے خیبر پختونخواہ کے دعوے کرنے والے عمران خان اور ان کے ٹیم سے میری یہ بھی گزارش ہے کہ ہسپتال کی نجکاری سے غریب آدمی کو کچھ نہیں ملے گا ' ہاں اس سے خان صاحب آپ کے 78سالہ کزن جو امریکی نیشنلٹی ہولڈر ہیں انہیں پشاور کے ایک بہت بڑے ہسپتال کے بورڈ آف گورنر کی چیئرمین شپ تو مل گئی ہیں جبکہ کچھ ایسے لوگ جو آپ ہی کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے بڑے لوگوں کے کاروباری پارٹنر بھی ہیں ان کا نام بھی بورڈ آف گورنر میں شامل کیا گیا ہے ان سب کے اخراجات ' آنے جانے ' رہائش اور کھانے پینے کے یہی ہسپتال برداشت کرے گا ٹھیک ہے کہ آپ کے بورڈ آف گورنر کے ممبران اور چیئرمین پیسے نہیں لیتے لیکن لاکھوں روپے ان کے ایک وزٹ پر ہسپتال کے ضائع ہوتے ہیں جو کہ غریب شہریوں کے جیب پر ڈاکہ ہے کیا یہ آپ کو نظر نہیں آتا-یا آپ یہی تبدیلی لانے کے خواہشمند تھے- نواز شریف ' زرداری پر رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازنے کے الزامات لگانے والے عمران خان صاحب ! خود آپ اور آپ کے ساتھی کیا کررہے ہیں کیا یہ آپ کو نظر نہیں آتا-رمضان میں مریضوں کو افطار ڈنر کے نام پر کروڑوں روپے اڑا ئے گئے اور وہ بھی آپ کے تبدیلی کے نعرے والی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی کے بھائی کو ٹھیکہ بھی غیر قانونی طور پر دیا گیا -کبھی آپ نے چیک کیا کہ کب ٹینڈر ہوا اور کب سپلائی شروع کی گئی - کون ہے اس بات کو چیک کرنے والا-

خان صاحب! آپ نے رائٹ ٹو انفارمیشن کا اقدام اچھا کیا لیکن آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ جب سے آپ کے پارٹی کے ایک رہنما اور وزیر پر کرپشن کے الزام لگے ہیں اور وہ اپنے موجودہ وزیراعلی کے بارے میں بیان دیتے ہیں اس دن احتساب کمیشن میں صحافیوں کا داخلہ بند کیا جاتا ہے کیونکہ آپ کے ساتھیوں کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ایسے باتیں باہر نہ نکلے کہ جس کے چھینٹے آپ کے "صاف دامن" ساتھیوں پر لگے- کیونکہ جس وزیر کو گرفتار کیا گیا ہے اس نے بہت سارے خرچے کئے تھے اور اپنے خرچوں کو پورا کرنے کیلئے بہت کچھ کیا -کبھی آپ نے احتساب کمیشن میں بھرتیوں کا ریکارڈ چیک کیا ہے کس طرح سے من پسند افراد کو لیا گیا ہے کیا اسی کو شفافیت کہتے ہیں-اور کیا یہی لوگ احتساب کرسکیں گے جو خود احتساب کے قابل ہوں ر کیا یہی وہ تبدیلی ہے جس کے بارے میں آپ اور آپ کے ساتھیوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے-
نئے خیبر پختونخواہ کا دعوی کرنے والے خان صاحب ! آپ کی ٹیم نے پشاور میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت دینے کا دعوی کیا جدید سہولت تو آئی لیکن اس کا زور شہریوں سے ہی نکالا جانے لگا- مخصوص لوگوں کی نئی گاڑیاں سڑکوں پر پھرنے لگی اور جو سٹاف پہلے دس روپے میں ہوتا تھا اب بیس روپے میں تبدیلی والی سرکار کے پسندیدہ ٹرانسپورٹر کروا رہے ہیںیعنی دس روپے "بائیومیٹرک" طریقے سے لوگوں سے نکالے جارہے ہیں -جس طرح آپ کے کزن صرف ای میل پر احکامات جاری کرکے ہسپتال انتظامیہ کو وختے میں ڈال دیتے ہیں اسی طرح تبدیلی والی سرکار کے ٹرانسپورٹ بھی بغیر کوئی سرکاری احکامات کے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں-

محترم نئے خیبر پختونخواہ کی اصطلاح ایجاد کرنے والے عمران خان صاحب!

آپ کو لکھنے والے بہت کچھ لکھ کر بھیج دیتے ہیں جس میں سرکار کی مدح سرائی کرنے والے اور "ہر دور حکومت میں" واہ واہ کرنے والے صحافی بھی شامل ہیں جن کے اپنے مخصوص نظریات اور مفادات ہیں جس کیلئے یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن خدارا آپ کو اللہ تعالی نے عقل دی ہیں جس کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے -کیونکہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد بہت سارے لوگوں کی آنکھیں اور اوقات بدل جاتی ہیں-اور یہ آنکھیں تب کھلتی ہیں جب پانچ سال پورے ہو جائیںابھی بھی آپ کے حکومت خیبر پختونخواہ میں تین سال مزید چل سکتی ہیں اور یہ ایک لمبا عرصہ ہے اگر کچھ کرنا ہے اور اگر کچھ نہیں کرنا تو پھر وہ وقت دور نہیںکہ جس طرح لوگ ایزی لوڈ والوں اور روٹی کپڑ ا اور مکان والوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں کو مسترد کر چکے اسی خیبر پختونخواہ کے عوام آپ اور آپ کے ساتھیوں کو بھی لات مار کر نکا لدینگے اور پھرکچھ نہیں ہوگا سوائے ہاتھ مسلنے کے ! سو سوچ لیئجیے اور عمل کیجئے

شکریہ

ایک مخلص شہری
 
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499799 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More