لوگ بڑے پرجوش تھے ، جذبے ان کی حرکات و سکنات سے عیاں
تھے ،ولولہ ان کے انگ انگ سے جھلک رہا تھاان میں ہرقسم ہر عمر اور ہرطبقہ
کے لوگ موجود تھے بچے بوڑھے نوجوان اڈھیر عمر مرد و خواتین ہر کسی کے چہرے
سے حقیقی خوشی نمایاں تھی ہر دوسرے شخص کے ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم تھابچوں
نے اپنے چہروں پر سبز و سفید رنگ سے پرچم پینٹ کروائے ہوئے تھے۔جی ہاں یہ
14 اگست 2015 کے مناظر تھے اور ملک بھر کے تمام بڑے چھوٹے شہروں قصبوں
دیہاتوں میں ہر سال کی نسبت لوگوں میں وطن سے محبت کا جذبہ بہت زیادہ موجزن
تھا آدم بیزار قسم کے لوگ بھی ان میں شامل تھے اور انکے چہروں سے بھی خوشی
ہویدا تھی اس کے ساتھ ساتھ ملکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاپر اس بات کا برملا
اظہار ہوتا رہا کہ اس مرتبہ 14 اگست جشن آزادی کہیں زیادہ بھرپور انداز میں
منایاجارہا ہے۔ میں نے چند دوستوں اور لوگوں سے اس بابت دریافت کیا کہ
واقعی ایسا ہے اور اگر ایسا ہے تو اسکی کیا وجہ ہے تو اکثریت نے کہا کہ
ہاں2015 کا جشن آزادی تقریبا دوعشرے کے بعد اس انداز میں منایا جارہا ہے
اور اس کا تمام تر کریڈٹ افواج پاکستان اور جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے
آپریشن ضرب عضب ،کراچی میں ملک دشمن عناصر کے خلاف رینجرز کا آپریشن کلین
اپ اور اب اپیکس کمیٹی کے تحت نیشنل ایکشن پلان نے ملک کی کایا ہی پلٹ دی
ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کا دور دورہ ہوکہ بھتہ خوری کا عفریت، بوری بند لاشوں کا خوف ہو
کہ بم بلاسٹ اور خود کش دھماکوں کی بھرمار، ڈکیتی یا کہ قتل و غارت کا
طوفان بدتمیزی سب نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھانظام زندگی
مفلوج تھا کاروبار زندگی معطل تجارت پر جمود اور معیشت پر تنزلی کے بادل
چھائے ہوئے تھے حتی کہ سرکاری ملازم بھی مستقبل کے حوالے سے گومگو کی کیفیت
کا شکار تھے سب کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا تھاایسے میں جنرل راحیل
شریف تپتی دھوپ کے صحرا میں ہوا کے خوشگوارجھونکے کی مانند آئے اور جیسے ہی
آرمی کی کمان سنبھالی کہ تمام مذکورہ بالا مسائل نام نہاد جمہوریت کو چھیڑے
بغیر حل کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے۔عوام کا یقین و اعتماد پاک افواج پر مزید
گہرا اور پختہ ہوتا گیا جنرل راحیل شریف نے ملکی حالات کے پیش نظر اور عوام
کی بے بسی و لاچاری جبکہ حکمرانوں کی بے حسی نااہلی کو دیکھتے ہوئے کچھ سخت
اقدامات اٹھانے کی ٹھان لی اور ملک وقوم کے بہترین مفاد میں منزل مقصود کی
جانب رواں دواں ہوئے تو مسائل کے انبار بالخصوص عوام سے متعلق کم ہونا شروع
ہوگئے تو ملک دشمن عناصر اور قوتوں کو اس پر بڑی تکلیف ہوئی۔پیٹ میں مروڑ
اٹھنے لگے، جمہوریت کے جمبورے بے چینی سے پاسے(کروٹ) بدلنے لگے ،اٹھتے
بیٹھتے سوتے جاگتے ان کے دماغوں پر جنرل راحیل شریف اورافواج پاکستان کا
غلبہ ہوگیا دوسرے لفظوں میں انہیں فوج فوبیا ہوگیا ۔اب ان کی کوشش ہے کہ
کسی نہ کسی طرح اس ادارے کو بدنام کیاجائے ۔ اس میں آصف زرداری کی بھڑک
،خواجہ آصف کی چٹکی ،الطاف حسین کی اول فول، ایم کیو ایم کی ہرزہ
سرائی،حکومتی گماشتوں کی بطور پاکستانی ملک دشمن عناصر کا افواج پاکستان پر
وار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور اب سب سے تازہ ترین مثال
مشاہد اﷲ کی جانب سے کی گئی فضول اور لغو گفتگواور انٹرویوہے جو کہ بی بی
سی کو دیا گیا جس میں موصوف نے جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام سابق ڈی جی آئی
ایس آئی پر الزام لگایا کہ وہ دھرنے کے دووران میں حکومت پر قبضہ کرنا
چاہتے تھے اور اس کی آڈیوبھی موجود ہے جو کہ وزیر اعظم کو بھی سنائی گئی
وغیرہ وغیرہ
محترم قارئین ! اصل میں کچھ لوگوں کی سرشت میں یہ بات معیوب نہیں گردانی
جاتی کہ بدنام ہونگے تو کیا نام نہ ہوگاہم نے بس میڈیا میں ان(in) ہونا ہے
کوئی بھی فضول اور بے سروپا بات کرکے ہواجائے یا کو کوئی بھی الٹی اور غیر
اخلاقی حرکت کرکے۔14 اگست کے معاملات بالکل smooth اور خوش اسلوبی سے چل
رہے تھے اور موصوف کو یہی بات ہضم نہیں ہوئی اور ایک شرلی چھوڑ دی اور پھر
تاویلیں اور دلیلیں شروع کہ میں نے یوں کہا تھا اور یوں نہیں کہا میرا مطلب
تو یہ تھا ایسے تو میں نے نہیں کہا ۔ یہ اور اس قماش کے لوگوں کے پیٹ میں
درد شروع ہوجاتا ہے کہ اگر ملک میں کوئی عوامی فلاح وبہبود کا کام شروع ہو
جائے ۔خود کچھ کرنا نہیں دوسروں کے اچھے کام سے تکلیف میں مبتلا ہوکر اول
فول بکنا شروع کردیتے ہیں اور پھر پارلیمنٹ کی دھمکی بھی ساتھ دیتے ہیں
لیکن نہ جانے وہ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور ان سب کا وجود
عوام سے ہے عوامی طاقت ’ووٹ‘ سے یہ اس قابل ہوتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں
جاسکیں اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بھی راسخ ہوجانی چاہئے کہ پارلیمنٹ عوام
سے ہے اور عوام تن من دھن کے ساتھ افواج پاکستان کے ساتھ ہے لہذا اگر اپنا
وجود برقرار رکھنا چاہتے ہو تو عوامی امنگوں کی ترجمان اور پاسدار وطن و دل
و جان سے قبول کرنا ہوگا- |