میارو(مارخور)
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
قدرت کے اس کارخانے میں چرندو پرند اور
دوسرے بے شمار مخلوق کا وجود ہے۔لیکن کچھ چرند اور پرند ایسے ہوتے ہیں جو
کسی خاص نسبت سے مشہور ہوتے ہیں اور وہ ایک نشان یا پہچان بن جاتے ہیں ۔آج
میں جس چرند کی نسبت سے لکھنے لگا ہوں اسے بھی ایک خا ص درجہ حاصل ہے اس کے
اندر بے شمار خوبیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس چرند کے بارے میں جس کا مسکن مشکل
ترین پہاڑ اور دشوار گزار چوٹیاں ہیں جسے شکار کرنا مشکل ترین سمجھا جاتا
ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اٹھارہ سو اننانوے میں جب گلگت لیوی کا قیام
عمل میں لایا جا رہا تھا تو ان کے لوگو یعنی نشان کے منتخب کرنے میں اس
چرند کی عادات و اطوار کے پیش نظر ہی برطانوی حکومت نے گلگت لیوی کا لوگو
نشان مارخور رکھا۔ مار خور کو شینا زبان میں میارو کہا جاتا ہے جو گلگت
سکاوٹس کی پہچان بنا ۔یوں تو یہ جانور بھارت،افغانستان،ازبکستان۔تاجکستان
اور کشمیر میں پایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں جب بھی اس جانور کا نام لیا
جاتا ہے تو ذہن میں گلگت بلتستان کے علاقے گھوم جاتے ہیں ۔ گلگت بلتستان کو
اگر میارو(مارخور) کی آمجگاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس جانور کی تین
اقسام ہیں ایک کشمیری۔ دوم کابلی اور سوم بخارانی مارخور۔شاید اس کی اقسام
کو علاقائی نسبت سے تقسیم کیا گیا ہو لیکن یہ کہلاتا میارو (مارخور ) ہی ہے۔
مارخور کے علاوہ گلگت بلتستان میں دو اور پہاڑی چرند جنہیں روز اور مارکو
پولو شیپ کہا جاتا ہے بھی پائے جاتے ہیں ان کا تذکرہ ضمنی طور پر کر رہا
ہوں یہ دونوں جانور میارو( مارخور)کے زمرے میں نہیں آتے لیکن اپنی خوبیوں
کی بنا پر مشہور ہیں ۔ ۔گلگت بلتستان میں میارو(مارخور) کی دو اقسام کا
زیادہ چرچا ہے ۔ان میں سے ایک قسم کا نام بُم میارو اور دوسری قسم کا نام
کِل میارو ہے۔دونوں میں فرق اتنا ہے کہ ایک کے سینگ ترچھے اور اس کے باہر
کی طرف گھٹلیاں جیسی ابھری ہوئی ہوتی ہیں اور ان گھٹلیوں ہی کی مدد سے اس
جانور کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے جتنے ابھرے ہوئے حصے ہونگے اتنی ہی
اس جانور کی عمر ہوگی۔جبکہ بُم میارو کے سینگ بلدار اور چپٹے سینگ ہوتے ہیں
۔ تاریخی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مارخور کا لفظ پہلی بار انیسویں صدی
عیسوی میں استعمال ہوا۔فارسی کا یہ لفظ جس کے معانی سانپ کھانے والا جانور
کے ہیں ۔ اور اس کے سانپ کھانے والی بات میں کہاں تک صداقت ہے اس بارے
مختلف آرا ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ گوشت کھانے والا جانور نہیں اس کے
متعلق گوشت کھانے کا قصہ یوں مشہور ہوا کہ جب یہ جانور جُگالی کرتا ہے تو
اس کے منہ سے ایک خاص قسم کی جھاگ نکلتی ہے اور زمین پر گرنے کے بعد سخت
ہوجاتی ہے اور اسے سانپ کے کاٹے کے علاج میں استعمال میں لایا جاتا ہے۔
شاید اس کی وجہ یہی ہو۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں ایک روایتی طریقہ یہ
بھی ہے کہ جب کسی کے گھر میں سانپ کی موجودگی کا علم ہو اور وہ سانپ تلاش
بسیار کے بعد بھی نظر نہ آئے تو اس وقت میارو( مارخور) کے سینگ جلا کر اس
کی دھونی دی جاتی ہے اس کے پیچھے منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب سانپ مار
خور کے سینگ جلنے کی بُو سونگھتا ہے تو وہ اس جگہے سے دور نکل جاتا ہے ۔۔مارخور
کے سینگ مختلف دوائیوں میں بھی استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔راقم کو جب بھی
مارخور کے گوشت سے لطف اٹھانے کا یعنی کھانے کا موقع ملتا ہے تو مرحوم والد
صاحب کی یاد بڑی ستاتی ہے ۔کیونکہ راقم کے والد کا شمار اچھے شکاریوں میں
ہوتا تھا۔وہ اکثر اپنے شکار کے قصے مجھے سنایا کرتے تھے۔گلگت سے ملحقہ ایک
جگہ ہے نائکوئی وہاں پر مارخور ہوا کرتے تھے آج کے دور میں اس جگہ کوے بڑی
مشکل سے دیکھے جاسکتے ہیں۔والد محترم اکثر اس جگہ سویرے نکل جاتے تھےاور
گھنٹہ بعد ایک عدد مارخور کا شکار کر کے واپس آتے تھے، اسی طرح مرحوم والد
محترم جب وہ سکردو بلتستان میں بطور تحصلدار تعنیات تھے اور میں چوتھی کلاس
کا طالب علم ہوا کرتا تھا تو والد صاحب مرحوم سکردو میں بھی مار خور کا
شکار بڑی آسانی کے ساتھ کھیلتے تھے۔ حالانکہ اس کے شکار کو مشکل ترین تصور
کیا جاتا ہے اس کی وجہ یا تو میرے والد صاحب کی مہارت ہو سکتی تھی یا ان
دنوں اس جانور کی بہتات کے علاوہ اور بات نہیں ہو سکتی ۔اب اس دور میں یہ
جانور نایاب اور ناپید ہوا ہے۔اب اس جانور کا شکار جوئے شیر لانے کے مترادف
ہے اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں ۔لیکن ظاہری طور پرہر ایک پاس اسلحہ
کی موجودیگی اور جدید مشینری اور سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والا
بھاری بارود زیادہ نمایاں ہیں ۔ایک محاورہ مشہور ہے کہ ہاتھی مر کر بھی سوا
لاکھ کا اگر میں یہ کہوں کہ مار خور مر کر بھی سوا کروڑ کا تو آپ شاید
پریشان نہیں تو حیران ضرور ہونگے اور مجھے نہ جانے کیا سمجھنے لگینگے لیکن
یقین جانئے کہ مارخور کے سینگ اور اس کی خال کی ڈیکوریشن اور شکار کے لئے
اندرون اور بیرون ملک کے شوقین حضرات لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے لئے ہمہ وقت
اور ہر دم تیار رہتے ہیں ۔پاکستان نے تو اس جانور کو اپنا قومی جانور تسلیم
کیا ہے لیکن عملی طور پر جب اس کا جائزہ لیا جائے تو ابھی تک اس قومی جانور
کی افزائش نسل اور اس کو اپنا زر مبادلہ کمانے کا ذریعہ بنانے کی طرف صحیح
معنوں میں کوئی نمایاں اقدام نظر نہیں آرہا۔گلگت بلتستان میں اس کی ۲۲
چراگاہیں ہیں اور ان چراگاہوں کا انتظام گلگت بلتستان محکمہ جنگلات و تحفظ
جنگلی حیات کے ذمہ ہے۔نلتر میں ایک مارخور گھر ہوا کرتا تھا جہاں مارخور
پالے جاتے تھے اور ماضی میں جو لوگ نلتر جاتے تھے وہ ان مارخوروں کو اپنے
ہاتھوں خوراک بھی کھلایا کرتے تھے اور راقم کو بھی ایسا موقع کئی بار ملا ۔اس
کے علاوہ گلگت سکاوٹس کے بینڈ باجے کے ساتھ ایک سدھا یا ہوا مارخور مارچ
پاسٹ کے وقت اکثر بینڈ کے ساتھ ہی چلا کرتا تھا۔لیکن نہ اب وہ نلتر کا
مارخور گھر موجود ہے اور نہ ہی کوئی مارخور اس سے متعلق آج تک کوئی
معلومات پبلک نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی کسی نے اس بارے سوچا ہے کہ یہ مارخور
اس وقت کس آفیسر کے ہتے چڑھے اور نلتر کا مارخور گھر کس وجہ سے بند کر دیا
گیا ۔۔ وللہ علم بالصواب۔مارخور کا قد پینسٹھ سنٹی میٹر سے ایک سو پندرہ
میٹر تک ۔لمبائی ایک سو بتیس سے ایک سو چھیاسی سنٹی میٹر جبکہ وزن بتیس تا
ایک سو دس کلوگرام تک ہوتا ہےْنر مارخور کے سینگ ایک سو ساٹھ سنٹی میٹر
جبکہ مادہ کے سینگ پچیس سنٹی میٹر تک نکلتے ہیں ۔اس جانور کا مسکن اونچے
پہاڑ چھ سو سے چار ہزار میٹر میں ہوتا ہے۔یہ جانور صبح سویرے اور سہ پہر کو
چرنے کے لئے چل پڑتے ہیں موسم گرما میں یہ جانور گھاس چرتے ہیں اور موسم
سرما میں درختوں کے پتے ان کا خوراک ہوتی ہے۔اس جانور کی افزائش نسل حمل سے
ہوتی ہے اور حمل کا دورانیہ ایک سو پینتس سے ایک سو ستر دنوں کا ہوتا
ہے۔حمل سے ایک یا دو میمنے کبھی کبھار تین ممینے بھی پیدا ہوتے ہیں ۔ ۔یہ
جانور ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں ۔ ایک ریوڑ میں نو تک مارخور ہوتے ہیں ۔اس
میں مادہ مارخور اور بچے شامل ہیں ۔نر مارخور ریوڑ سے الگ رہنا پسند کرتا
ہے۔اس جانور کی آواز بکری سے ملتی جُلتی ہے ۔گلگت بلتستان میں آج بھی
میارو (مارخور) کو بڑی اہمیت حاصل ہے آپ کا جب بھی گلگت آنا ہوا تو اس
جانور کو زندہ دیکھنے کے لئے شائد آپ کو بڑے جتن کرنے پڑیں لیکن آپ شہدا
کی یاد گار چنار باغ ،خومر چوک اور اتحاد چو ک گلگت میں تعمیر یادگارمناروں
کے سروں پر بنے ہوئے مار خور کی شہبیوں کو دیکھ کر اپنی تسلی اور اس مقامی
اور قومی جانور کی تاریخی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
|
|