حمید گُل پاکستان اور اسلام کا ایک نڈرسپاہی

تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی جنہوں نے اپنی تاریخ آپ بنائی ہو۔ریٹا ٹئرڈ لیفٹننٹ جنرل حمید گُل پاکستان کی تایریخ کا ایک ایسا چکمتا ستاراہیں جنہیں ناچاہتے ہوئے بھی اس ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت لاکھ مخالفتوں کے باوجود بھی فراموش نہ کر سکے گی۔جو اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کا خواب دیکھا کرتے تھے وہ حقیقی معنوں میں اقبال کے شاہین کی عملی تعبیر تھے۔جنرل حمید گُل نے 1956 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور فوج کے مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی 1987میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔وہ نظریہ ِپاکستان اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بڑے حامی تھے۔وہ نظریہ ِپاکستان کے دفاع میں سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے۔یہ ہی وجہ تھی کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع کے سلسلے میں ہر حد عبور کرنے کو تیار رہتے تھے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان سے اُنہیں انتہا درجے کا عشق تھا۔ان کا یہ بھی غیر متزلزل یقین تھا کہ پاکستان عالمِ اسلام کی قیادت کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔حمید گُل کی شہرت کو قومی پیمانے پر بامِ عروج پرعسکری مشق ضربِ مومن نے پہنچا دیا تھا۔ان مشقوں کے روح رواں لیفٹننٹ جنرل حمید گل ہی تھے گو کہ اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ تھے۔ جنرل گُل کی سپاہیانہ صلاحیتوں اور عسکری دانشمندی اوران کی فوجی حکمتِ عملی نے دنیا کو محوِحیرت کر دیا تھا۔وہ عسکری دنیا کا ایک اہم نام تھے۔جس کو تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔

بیرونی دنیا ُ گُل کی رائے کو بہت اہمیت دیتی تھی۔انکا کہا ہوا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا۔دنیا کے اعلیٰ پیمانے کے صحافی ان کا انٹرویو کرنا اپنے لئے ایک اعجاز تصور کرتے تھے۔جنرل حمید گُل دنیائے اسلام کی عسکری قوت اور اسلام کا ایسا نڈر سپاہی تھا کہ جس کی مثال بڑی مشکل سی تلاشی جا سکے ی۔حمید گُل محض گفتار کا ہی نہیں کردار کا بھی غازی تھا۔اپنے ناقدین کے سخت ترین جملے سُن کر بھی خوش دلی سے ان کا مدلل جواب بغیر اپنے اوپر جذباتی کیفیت طاری کئے دے دینا ان کی اہم خوبیوں میں شامل تھا۔اکثر ان کے ناقدین ان پر عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا لزام لگاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلُم امہ کے اندر دو عشرے قبل جذبہ جہاد کا شعلہ بھڑکانے والا جری سپاہی حمید گُل ہی تھا۔اس دوران بیرونی ایجنسیوں پر نظر رکھنے کی ذمہ داری جن اداروں پر تھی کیا انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کیا؟وہ مجاہدین جو کل تک اسلام کے سپاہی تھے آج مسلمانوں کے گلے کاٹنے والے کیونکر بن گئے؟یہ ہمارے اداروں کی نااہلی ہی تو تھی کہ وہ دشمنوں کے آلہء کا ر بن کر ہمارے ہی خلاف بغاوت پر آمادہ ہوگئیاور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ہم نے جب اپنے دوست نما دشمنوں کی قدم بوسی شروع کی تو ان لوگوں نے بھی ہمیں کفر کی قوتوں کے ایجنٹ سے زیادہ کچھ نہ سمجھا اور ہماری بر بادی کے درپے ہو گئے۔اور پھر پاکستان دشمنی کے ایسے عفریت نے جنم لے لیا جس کو کنٹرول کرنا ہمارے لئے مشکل ترہو گیا۔

ایک زمانہ تھا کہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حمید گُل کے پرویز مشرف سے تعلقات مثالی تھے۔مگر جب مسلمانوں کے خلاف مغرب کے تیور سے پرویز مشرف خوفذدہ ہوئے تو انہوں نے مشرف کا ساتھ دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔اور اب وہ پرویز مشرف کے بڑے ناقدین میں شامل ہو گئے تھے۔عدلیہ بحالی کی تحریک میں حمید گل ہمیں سڑکوں پر بھی احتجاج کرتے نظر آئے۔حمید گل اسلام کے ایسے سپاہی کا نام تھا جو دنیا کے کسی بھی فورم پر اسلام اور پاکستان کا دفاع بغیر کسی لگی لپٹی کے کرنے پر آمادہ رہتا تھا۔وہ میڈیا پر اسلام اور پاکستان کے دفاع پر بات کرتے ہوئے بڑے سے بڑی دلیل کو کو رد کر کے اپنے مخالفین کو لاجواب کرنے کا بھی خوب ملکہ رکھتے تھے۔وہ سر بلندیء وطن کے لئے ساری زندگی مصروفِ عمل رہے۔وہ ہمیشہ امریکہ، اسرائیل اور ہمارے ازلی دشمن ہندوستان کی پالیسیوں پر مدلل تنقید کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔مسلم امہ پر ڈھائے جانے والے مظالم پر وہ کبھی خاموش نہیں رہے۔کشمیر کے مسلمانوں پر ہندو مطالم پر دنیا اور اقوام متحدہ کی بے حسی کو دیکھ کر پریشان ہوجایا کرتے تھے۔میانمار(برما) بوسنیا اور افغانستان کی صورتِ حال سے ہمیشہ کبیدہ خاطر رہے۔جس وقت انہوں نے آئی ایس آئی کا چارج سنبھالا تو جہاد افغانستان اپنے عروج پر تھا۔اس وقت تک کسی کو یہ وہم و گمان تک بھی نہ تھا کہ پاک فوج افغانستان میں ہونے والے جہاد کو اس مقام تک لے جائے گی کہ جہاں سے روس جیسی سُپر طاقت کی فوجیں پسپا ہو کر افغانستان کو خالی کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔نوے کی دہائی میں حمید گل کی شخصیت دیو مالائی روپ دھار چکی تھی۔جن کی پذیرائی تمام دنیا اور خاص طور پراسلامی دنیا میں کی جا رہی تھی۔

ضیاء الحق کے آخری دور میں سول حکومت دوست اور دشمنوں کی چالوں کو نہ سمجھ سکیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو جنیوا معاہدے کے سنہرے جال میں پھنسنا پڑ گیا۔اور پاکستان کو افغانستان کی خانہ جنگی میں مبتلا کر اکر اسے مشکلات کی دلدل میں پھنسادیا گیا۔اس دوران حمید گل پاکستان کی مضبوطی کی کوششوں میں سر گرداں رہے تھے۔1987سے 1989کے دوسال کے دوران پر لوگوں کا کچھ زیادہ ہی اعتراض رہا ہے۔17اگست 1988کو جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے وقت وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔اس حادثے پر انہوں نے اپنی انٹیلی جنس ناکامی کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ۔وہ اس حادثے کو ہمیشہ بین الاقوامی سازش قرار دیتے تھے۔جب 1992میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف مرزا اسلم بیگ کی ریٹائر منٹ پر بجائے جنرل حمید گل کے آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کو بنا دیا تواس کے نتیجے میں جنرل حمید گل نے ریٹائرمنٹ لے لی۔بے نظیر ان سے شاکی رہیں مگر نواز شریف بھی اس دور میں جنرل حمید گل کو شائد پسند نہ کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ آرمی چیف نہ بن سکے۔

جنرل حمید گل کی نظر بین الاقوامی امور پر شاہین کی سی تھی۔ بین الاقومی امور کا ہر پہلو وہ اپنی نظر میں رکھتے تھے۔پاکستان میں چند محدود سوچ رکھنے ولے لوگوں کا خیال آج بھی راسخ ہے کہ 9/11 القاعدہ کی کوششوں کا شاخسانہ تھا جس کے نتیجے میں اسامہ بن لادن امریکیوں سے خوفذدہ ہو کر ایبٹ آباد میں آچھپے تھے۔مگر حمید گل کہتے تھے کہ یہ تمام مفروضے حقیقت سے بعید تھے۔اسامہ بن لادن کبھی ایبٹ آباد میں رکے ہی نہیں تھے۔جس وقت تحریکِ طالبان شروع ہوئی تو حمید گل کو ریٹائر ہوئے پانچ سال گذر چکے تھے۔اس وقت وہ طالبان کے حامی نہ تھے۔ ان کی قربت گلبدین حکمت یار اور ربانی سے تھی۔اس وقت امریکہ اور بے نظیر طالبان کے بھر پور حمائتی تھے۔کہا جاتا ہے کہ مفتی نظام دین شامزئی اور مولانا سمیع الحق نے حمید گل اور طالبان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پید کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھاجس کے بعد وہ طالبان کے زبردست حمائتی بن گئے۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاد افغانستان میں ان کے کردار پر امریکی لابی ان کی شدید مخالف ہو چکی تھی۔ کیونکہ ان کی شہرت طالبان کے حامی کے طور پر ہو چکی تھی۔ مگر اپنے ایک حالیہ ا نٹر ویو میں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ طالبان کے بعض گروپ اب ہندوستان کی ایجنسی را کے لئے کا م کر رہے ہیں۔

ریٹائرڈ لیفٹننت جنرل حمید گل جیسے مجاہد کی اچانک دوسرے جہاں میں منتقلی نے ملک کے اسلامی اور پاکستان سے محبت رکھنے والے اذہان کو نہایت شدید دھچکا پہنچایا اور وہ تمام لوگ جو اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے خواب دیکھتے ہیں،ان کو نوحہ کنان کر کے اپنا سفرِ آخرت سکون کے ساتھ طے کر لیا۔ 14اگست 2015کو وہ اپنے آخری جشن ِآزادی بڑے ولولے کے ساتھ منا کر اور وزیر اعظم کے ظہرانے میں شرکت کر کے اپنی بیٹی کی سالگرہ منانے مری پہنچے تو زندگی نے ساتھ چھوڑنے کا الارم دیدیا ۔وہ اپنے خاندان کو بیٹی کی سالگرا کی خوشیوں کی تیاریوں میں ہی برین ہیمرج کے نتیجے میں چھوڑکراپنے خالق حقیقی سے جا ملے خا غریقِ رحمت کرے!

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213064 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.