بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(24اگست قبضے کے بائیس سال مکمل ہونے پر خصوصی تحریر)
ڈھائی سوسے زائد ممالک پرمشتمل اس کرہ ارض پر’’عالمی برادری‘‘ سے مراد صرف
امریکہ اور برطانیہ ہیں۔اور’’عالمی برادری‘‘اس بات پر متفق ہے کہ
دنیابھرمیں مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ان کاہر طرح سے استحصال کیاجائے۔پوری
دنیامیں مشرق سے مغرب تک مسلمان اس ’’عالمی برادری‘‘کی چکی میں بری طرح پس
کر اقوام متحدہ کے نام نہادانسانی حقوق کاشکارہورہے ہیں۔افریقہ،مشرق وسطی
اورایشائے کوچک سمیت خودیورپی ممالک کے اندرسیکولر حکومتوں کی ناک کے نیچے
جہاں دنیابھرکے تمام طبقات و مذاہب و اقوام کو مکمل تحفظ حاصل ہے وہاں
زورزبردستی سے یابصورت دیگرقانون سازی سے مسلمانوں کو بری طرح دبائے رکھنے
کی پالیسی پر عمل درآمدہوتاہے۔اکیسویں صدی کی دہلیزپرچکاچوندروشنیوں میں
علوم معارف سے بھری دنیاؤں میں صرف مسلمان اقوام ہی سیکولرازم کے بدترین
مظالم کاشکارہیں ۔ ’’عالمی برادری‘‘نے بڑی چابکدستی سے دنیا کی آنکھوں میں
دھول جھونک کراقوام متحدہ کی قراردادوں کوکلیۃ مسلمانوں کے خلاف استعمال
کرنے کاایک طویل سلسلہ شروع کررکھاہے جس کے ذریعے امت مسلمہ کے علاقوں پر
فوج کشی کے ذریعے کشت و خون کو مباح سمجھ لیاجاتاہے اور کشتوں کے پشتے
لگاکر نسلوں اور فصلوں کی تباہی انسانوں کامقدر بنادی جاتی ہے۔
کچھ اسی طرح کاکھیل مشرق بعید کی مسلمان ریاست ’’آذربائیجان ‘‘کے علاقے
’’فضولی‘‘پرکھیلاجارہاہے۔اس علاقے کا نام آذربائیجان کی مقامی زبان
’’آذری‘‘کے مشہور شاعر’’ محمدبن سلیمان فضولی(1494-1556)‘‘کے نام پر
رکھاگیا۔یہ بزرگ ہستی عربی،فارسی اور آذری زبان کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ
وقت کے بہت بڑے دانشور،محقق ،علم نجوم اور علم ہندسہ کے ماہر اور متعدد
ترکی کتب کے مصنف بھی تھے۔’’فضولی‘‘کاعلاقہ آذربائیجان کے غرب نصف میں واقع
ہے ۔اس کا صدر مقام بھی ’’فضولی‘‘نامی قصبے سے پہچاناجاتاہے۔کم و بیش
1400مربع کلومیٹررقبے پر محیط یہ علاقہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد نفوس انسانی پر
مشتمل ہے۔اس آبادی کی اکثریت کاجرم یہ ہے کہ وہ کلمہ گوہیں اسی لیے ’’عالمی
برادری ‘‘کی مجرمانہ غفلت کاشکارہیں۔1988ء میں آذربائیجان نے اس علاقے کے
مکینوں کے تحفظ آزادی کے لیے آرمینیا سے جنگ مول لی۔یہ جنگ کسی نہ کسی
نتیجہ پر ضرورپہنچ جاتی اگر یورپ کی فسادی تنظیمیں صلح جوئیوں کالبادہ اوڑھ
کر درمیان میں نہ آتیں۔ ان کے بارے میں قرآن مجید نے صدیوں پہلے کہ دیاتھا
کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا
اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴿۲:۱۱﴾ اَلآَ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ
وَ لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ﴿۲:۱۲﴾ ترجمہ:’’جب ان سے کہاجاتاہے کہ زمین میں
فسادبرپانہ کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں ،خبرداریہی اصل
میں فسادی لوگ ہیں لیکن انہیں اس کا شعور ہی نہیں ہے‘‘۔ان صلح جوفسادی
تنظیموں نے اپنا مکروہ اداکرنے میں پانچ سال لگادیے تاکہ مسلمان جنگ کی اس
بھٹی میں بری طرح جلتے رہیں۔آخری اور فیصلہ کن کردار ماسکونے اداکیااور
1993کے آخر میں ایک گرم جنگ ختم کرکے توسرد جنگ کاتنورسلگادیاگیاتاکہ
مسلمانوں کے وسائل اس میں ایندھن کے طورپر کام آتے رہیں۔اقوام متحدہ نے
’’عالمی برادری‘‘کے ہتھیارکے طورپر فضولی پر آرمینیاکے ناجائزقبضے کو
قراردادنمبر874کے تحت تسلیم کرلیا۔یہ تمام اقدامات اس حدیث نبویﷺکی تشریح
ہیں جس میں کہاگیاہے کہ’’الکفر ملت واحدۃ‘‘کہ کل کفار ایک ہی ملت ہیں۔
’’فضولی‘‘کاضلع آذربائیجان کے خوشحال ترین علاقوں میں سے ایک تھا۔1959میں
محمدبن سلیمان فضولی کی چارسوویں برسی کے موقع پر اس کا یہ نام
تجویزکیاگیاتھا ۔زرعی پیداوار کے اعتبارسے اسے ریاست کے سب سے بڑے ضلعے
کامقام حاصل تھا۔صنعتی اور تجارتی لحاظ سے بھی اس ضلعے کو آذربائیجان میں
مرکزی حیثیت حاصل تھی۔فضولی میں ستر کتب خانے،بیس ثقافتی مراکز،تیرہ اسپتال
دو عجائب گھر،کھیلوں کے اسٹیڈیمزاور کتنی کی سرکاری و نجی تعمیرات
تھیں۔1968میں کھدائی کے دوران دریافت ہونے والی صدیوں قدیم نوادرات بھی اسی
ضلعے کے ایک عجائب گھرکی زینت تھیں۔ہزاروں مربع میل کے وسیع و عریض علاقوں
میں لائم اسٹون کے قیمتی میدان ہیں ۔سینکڑوں سالہ قدیم درختوں کے جنگلات
اور زیرزمین میٹھے پانی کے بھرے ہوئے ذخیرے اس سرزمین کے سینے میں دفن
ہیں۔ان سب کے علاوہ صدیوں قدیم مساجداور مسلماں کا چھوڑاہواورثہ اس سرزمین
کے سینے پر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کاامین تھا۔فضولی جیسی خوبصورت سرزمین کے
کلمہ گو باسیوں پرپر 1988میں آرمینیانے فوج کشی شروع کردی جس کے نتیجے میں
ہزارہالوگ مارے گئے یا ملک بدرہوئے یاگرفتارہوکر دشن کے قیدخانون میں سڑتے
رہے یاپھر آج تک معذوری و محتاجی کی زندگی گزاررہے ہیں۔آرمینیاکی افواج نے
سڑکوں کے کنارے لگے خوبصورت درختوں کو کاٹ کر اور سرسبزوشاداب فصلوں کو
نذرآتش کر کے توفضولی کے حسن کو گہنادیا۔اور23اگست1993کو اس خوبصورت علاقے
پر اپنا تسلط مضبوط کرکے ناجائز قبضہ جمالیا۔اس قبضے کے کچھ ہی عرصہ
بعدآرمینیانے ’’جبریلی‘‘نامی قصبے پر بھی فوج کشی کی اور اس پر بھی اپنے
پنجے گاڑ دیے اور حسب معمول’’عالمی برادری‘‘اقوام متحدہ نے اس زورآوری کو
بھی تسلیم کرلیا۔
بنی اسرائیل جب غلامی سے آزادہوئے تو انبیاء کی قیادت کے باوجودانہوں نے
لڑنے سے اور جنگ کرنے سے انکار کردیا۔دورغلامی کا یہ بہت بڑانقصان ہوتاہے
کہ قوموں میں جذبہ حریت دم توڑ جاتاہے اور وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتیں۔امت
مسلمہ پر کم و بیش تین سوسالوں تک غلامی رہی اور آذربائیجان پر اس عرصہ
غلامی میں سترسال کامزید اضافہ اس پر مستزاد ہے۔غلامی کے یہ اثرات کل امت
مسلمہ میں دیکھے گئے ان کی افواج نے ہزیمت اٹھائی۔اس آسمان نے وہ وقت بھی
دیکھا کہ مسلمان حکمرانوں کے حرم کی تعداد ان کے رسالوں سے کئی گنا زیادہ
تھی۔ایسا کیوں نہ ہوا کہ آذربائیجان کی مسلمان افواج نے آرمینیا کی افواج
کو ناکوں چنے چبوادیے ہوں؟؟؟دورغلامی کے اثرات شکست و ریخت کے عوامل کو
اپنے ساتھ لاتے ہیں اورقوموں میں اتحادویگانگت جیسے ناقابل تسخیرعناصرکو
تعمیرہونے میں ایک وقت درکار ہوتاہے۔ابھی بھی وقت نہیں گزرا،جب تک امت
مسلمہ اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط نہیں کرتی اس کی بقا ہمیشہ خطرے میں ہی رہے
گی۔دشمن کبھی نہیں چاہے گاکہ ہم مضبوط ترہوجائیں کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق
ہو جائے۔ہمیں تعلیم،روزگار،معاشی ترقی،معیارزندگی میں بڑھوتری اور آزادی
نسواں جیسے کتنے ہی دلفریب نعروں کے ذریعے اپنے دفاع سے غافل رکھنے کی کوشش
کی جارہی ہے اور دشمن کو ہماری صفوں میں سے ہی ایسے متعدد افراد بھی میسر
ہیں جن کے منہ میں دشمن کی زبان بولتی ہے۔ لیکن ہمارے نبی محسن انسانیتﷺنے
پیٹ پرپتھرباندھ کراپنے دفاع کو مضبوط کیاتھا،حجرہ مبارک میں راشن نہیں تھا
لیکن نو تلواریں دیوار کے ساتھ آویزاں تھیں،یہی سنت ہے اور یہی فطرت ہے
اوراسی میں ہی مسلمانوں کی بقا ہے۔
مشرق و مغرب میں ’’فضولی‘‘جیسے تجربات کے بعد اب مسلمان ملکوں کی قیادت کو
یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں،عالمی انسانی حقوق کی
تنظیموں کے خوبصورت نعرے اورجمہوریت کے دلفریب جال صرف مسلمانوں کو ہی
شکارکرنے کے لیے بچھائے گئے ہیں۔عثمانی ترک امیرالبحر’’خیرالدین
باربروسہ‘‘کاقول ہے کہ جس کا سمندروں پرقبضہ ہوگادنیاپر اسی کی حکومت
ہوگی۔مزاکرات،صلح نامے ،معاہدات،تعلقات باہمی کی یادداشتوں پردستخط
اورعالمی و مقامی جمہوری وپارلیمانی اداروں میں ہونے والی لمبی لمبی
تقریروں اور ان کے نتیجے میں اخباروں و نشریاتی اداروں میں واردہونے والے
بیانات ،یہ سب دکھانے کے دانت ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی ایک ہی حقیقت ہے اور
اس کا نام ’’طاقت ‘‘ہے،دنیامیں بلامبالغہ ہزارہا زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن
صرف طاقت کی زبان سب قومیں سمجھتی ہیں۔آج اگرآذربائیجان طاقت کی زبان میں
بات کرے تو اگلے ہی لمحے فضولی اور جبریلی سمیت تمام مقبوضہ علاقوں سے دشمن
افواج ایسے غائب ہوں گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔سارے پورپ کی کرنسی ایک ہو
سکتی ہے تو سب مسلمان ممالک کی ایک کرنسی کیوں نہیں ہو سکتی؟؟سارے یورپ کی
خارجہ و دفاعی پالیسی ایک ہو سکتی ہے تومسلمان ایک ہی چھتری کے نیچے کیوں
جمع نہیں ہوسکتے؟؟اور اگر ساری کفارمسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوکر لڑ سکتے
ہیں تو آخر مسلمان ان کے خلاف کیوں نہیں اتحادکرسکتے؟؟۔غلامی سے آزادی کے
بعد غلاموں سے آزادی کامرحلہ ابھی باقی ہے۔بہت جلد امت مسلمہ کی ایک جست ہی
ان غلاموں کو ان کے آقاؤں کے پاس پہنچایاچاہتی ہے اور مشرق سے ابرنے والے
سورج کی لالی سے افق روشن ہوا چاہتا ہے،انشاء اﷲ تعالی۔ |