شریفے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔۔۔ !
(ajmal malik, faisalabad )
یوم آزادی پر جب ملک بھر میں
جگہ جگہ اور دنیا بھر میں وہاں وہاں۔۔جہاں پاکستانی آباد ہیں۔سبز ہلالی
پرچم سر بلند ہو رہا تھا تب فیصل آباد میں ن لیگ کے دو رہنما ایک دوسرے کے
خلاف علم بغاوت بلند کر رہے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ فیصل آباد میں مسلم لیگ ن سالہا سال سے سابق ایم این اے
چوہدری شیر علی اور وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے مابین دو دھڑوں میں
تقسیم ہے۔۔دو لخت جماعت ۔۔۔ ایک طرف بھٹو اور دوسری طرف عوامی لیگ کے شیخ
مجیب الرحمن والی تقسیم۔۔اُدھر تم اور اِدھر ہم والی تقسیم۔۔۔ اقتدار کے
بجائے چوہدراہٹ کی لڑائی۔۔ ضلع پر راج کرنے کی خواہش۔۔۔ پہلے چوہدری شیر
علی کی گفتگو
’’رانا ثنا اللہ 20 افراد کے قتل میں ملوث ہیں لیکن کوئی آواز نہیں اٹھا
رہا۔اپوزیشن بھی ساری بک گئی، میڈیا بھی بک گیا۔میڈیا والے بتائیں۔۔وہ کتنے
میں بکے۔۔؟ رانا ثنا اللہ نے 20 گھر اجاڑے۔۔وزیر اعلی پنجاب بھی ایکشن نہیں
لے رہے۔
میاں صاحب خیال کرو 12 اکتوبر(نواز حکومت کے خاتمے کا دن) آنے والی ہے۔۔یہ
نہ ہو کہ رانا ثنا اللہ کی وجہ سے وہ دن دوبارہ دیکھنا پڑے۔
آرمی چیف ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔۔۔فیصل آباد
میں بھی آپریشن کریں۔۔
میرے پاس سابق سی پی او سہیل تاجک کا موبائل پیغام محفوظ ہے۔ 20 افراد کے
قتل میں رانا ثنا اللہ کے ملوث ہونے والا میسج‘‘
چوہدری شیر علی کے خطاب کاجواب 14 اگست کو رانا ثنا اللہ نے فیصل آباد میں
ہی دیا اور کہا کہ۔۔
’’ان الزامات کے پیچھے ایک ہی مقصد ہے شیر علی اپنے بیٹے کو بلدیاتی الیکشن
میں سٹی مئیر بنوانا چاہتے ہیں۔۔اگر میں حمایت کردوں تو اُن کے نزدیک مجھ
سے اچھا انسان کوئی نہیں ہوگا۔۔
وہ پارٹی کے سینئر رہنما ہیں۔۔میں نے ہمیشہ بڑا بھائی سمجھا ہے۔۔لیکن ان کی
دماغی صحت ٹھیک نہیں۔۔وہ ایسی باتیں اکثر کرتے رہتے ہیں۔یہ جلسوں کی باتیں
ہوتی ہیں لیکن میں یہ الزامات قیادت کے سامنے رکھوں گا۔۔‘‘
واقفان حال جانتے ہیں کہ چوہدری شیرعلی۔۔میاں نواز شریف کے۔۔اور رانا ثنا
اللہ۔۔میاں شہباز شریف کے حمایت یافتہ ہیں۔۔یہ خام خیالی سچ مان لی جائے تو
فیصل آباد کی طرح۔۔۔مسلم لیگ ن۔۔ بڑے میاں اور چھوٹے میاں میں بھی برابر
تقسیم ہے۔
چوہدری شیر علی پرانے مسلم لیگی ہیں۔کئی بار ایم این اے رہے اور میونسپل
مئیر بھی۔۔لیکن شریف خاندان سے ان کا رشتہ۔۔مسلم لیگ سے وابستگی نہیں
بلکہ۔۔وہ شریف خاندان کی فرزندی (داماد)میں ہیں۔۔
شریفوں سے یاد آیا کہ شریفہ نام کا ایک جنگلی پھل بھی ہوتا ہے۔ہلکا
سبز۔توانائی سے بھرپور۔مغز انتہائی میٹھا۔۔لیکن تاثیر گرم۔۔ اسے سیتا پھل
بھی کہتے ہیں۔دل اور دماغ کے لئے طاقت افزا۔ ہضم دیر سے ہوتا ہے۔تھوڑا
اپھارہ کرتا ہے۔ہیضہ اور پیچش کے لئے مفید۔
لیکن ابھی یہ بحث باقی ہے کہ 20 قتلوں کا الزام ہے کیا۔۔؟
ہوا یوں کہ فیصل آباد کے ایک پولیس انسپکٹر فرخ وحید نے ٹارگٹ کلنگ کا
گینگ بنا رکھا تھا۔۔نوید کمانڈو اس گینگ میں شُوٹر تھا۔۔20 ہزار روپے
ماہانہ تنخواہ پر۔۔جس کا کام تھا صرف جان لینا۔۔وہی جان جس کی قیمت کروڑوں
روپے بھی نہیں ہو سکتی۔وہ 20 ہزار تنخواہ پر خریدی جا رہی تھی۔۔
سال رواں کے ابتدائی ایام کی بات ہے۔جب گھنٹہ گھر کے قریب مسلم لیگی رہنما
علی اصغر عرف بھولا گجر کو قتل کردیا گیا۔ مقتول۔رانا ثنا اللہ کے قریبی
دوست تھے۔۔کیس کی گُتھیاں سُلجھیں تو ٹارگٹ کلر نوید سامنا کھڑا تھا۔۔
اجرتی قاتل کے خوفناک انکشافات پر مشتمل۔۔اقبال جرم پولیس کے پاس موجود ہے۔
ملزم نے جن اہم قتلوں کا اعتراف کیا ان میں خُرمی باجوہ، شوکت جٹ، کاکا
فقیریا، شہزاد باجوہ، بشارت پھلی، رانا ذیشان عرف شانی، خالد سکھ، ساجد
بسرا، سرفراز خان،حاجی عمران اور عامر حبیب وغیرہ شامل ہیں۔۔
ٹارگٹ کلنگ کی کہانی شروع تو جانے کب ہوئی لیکن ختم بھولا گجر کے قتل کے
ساتھ ہوئی ۔
چوہدری شیر علی نے انہی 20 قتلوں کا تذکرہ کیا۔۔۔ اور اضافہ کیا کہ شُوٹر
میرے بیٹے عابد شیر علی،2 ایم پی اے میاں طاہر جمیل اور ملک نواز اور لیگی
رہنما عرفان منان کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا۔۔۔
شیرعلی اور رانا ثنا اللہ کی سالہا سال سے جاری سرد جنگ اب لفظی گولا باری
میں بدل چکی ہے ۔۔
یہ گولہ باری اگرچے منہ زبانی ہے لیکن باتیں خاصی بارودی ہیں۔۔انا کی تسکین
کے لئے دونوں رہنماووں نے کارکنوں کو بھی بانٹ رکھا ہے۔۔
شیر علی نے تو مجھے بھی ٹارگٹ کر لیا ہے۔۔وہ کہتے ہیں’’میڈیا سارا بک گیا
ہے۔!‘‘
جھنگ بازار میں رات کو جائیں تو ٹھیلوں پر سبزیاں بیماریوں کی طرح لیٹی
ہوتی ہیں۔۔جن پرچھینٹے بھی مارے جائیں تو بھی ہوش میں نہیں آتیں۔۔اُن نیم
مُردوں کا خریدار کوئی نہیں ہوتا۔۔میں بطور نیم صحافی ریڑھی پر پڑی وہ تازہ
سبزی ہوں۔۔جو صبح صبح ہی بک جاتی ہیں۔۔شیر علی کے الزام کی طرح۔۔احترام
ملحوظ رہے تو ۔۔میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ’’ اُن کی دماغی صحت خراب ہے‘‘
جھنگ بازار میں کئی ادھ موئی سبزیاں بے مول پڑی رہ جاتی ہیں۔حالانکہ وہ
بکنے آتی ہیں۔لیکن خریداروں کا حوصلہ نہیں پڑتا۔
میڈیا کتنا بکا ۔۔۔؟ہر ایک نے اپنا احتساب کرناہے۔۔میں خود احتسابی سے گذر
چکا ہوں۔۔
احتساب کے لئے میں پلی بارگیننگ کا قائل بھی نہیں۔۔صرف رگڑا اور
ریکوری۔۔چینلز اور اخبارات نے شیر علی کی الزامات بھری خبریں چلا کر اپنے
داغ دھو دئیے ہیں۔۔حالانکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔۔
وہ داغ خواہ پرویز مشرف کے دور میں چوہدری شیر علی پر ہی لگے
ہوں۔۔کرپشن،گرفتاری،احتساب اور پلی بارگینگ کے داغ یا پھر رانا ثنا اللہ پر
لگے ہوں ہائی وے میں اربوں روپے کے ٹھیکے۔۔بغیر ٹینڈرز کے دینے کے داغ۔۔
مجھے رانا ثنا اللہ کے موقف پر بھی اعتراض ہے کہ شیر علی اپنے بیٹے کو سٹی
مئیر بنوانا چاہتے ہیں۔۔
حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں اور لوگ بھی کہ اگر شیر علی ایسا چاہتے ہیں تو
ایسا ہی ہو گا۔۔!
چوہدری شیر علی نے الزام کے دوران سابق سی پی او سہیل تاجک کے ایس ایم ایس
کا تذکرہ بھی کیا۔۔۔
اسی موبائل میسج کے بارے۔۔۔میں نے بھی سہیل حبیب تاجک سے فون پر بات کی۔۔۔؟
انہوں نے کیا جواب دیا ۔۔۔ یہ تذکرہ تب ہوگا۔۔جب نوید کمانڈو کے عدالت میں
زیر سماعت کیس کا فیصلہ آ جائے گا۔
مجموعی طور پر 13 اور 14 اگست کو ہونے والی تقرریں۔۔شریفے کی تاثیر جیسی
تھیں۔۔ گرما گرم۔۔!
بہت سے کارکنوں کے دل و دماغ کو تقویت ملی۔۔اور کچھ کو اپھارہ ہو گیا۔۔
شریفے اگرچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔۔لیکن شریفے کی سیاسی خوبی یہ ہے کہ وہ
برساتی پھل ہے۔۔اور آج کل موسم برسات ہے۔۔2013 سے یہاں شریفوں کی حکومت
ہے۔۔۔چاہے شریفے کی تاثیر گرم ہے۔۔اپھارہ ختم نہ ہوا تو 12 اکتوبر بھی
نزدیک ہی ہے۔۔ اکتوبر سیاسی گھٹن کا مہینہ ہے۔جب شہر سائیں سائیں کرتے
ہیں۔۔اب شریفوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہر سال 12 اکتوبر کو ہمیشہ حبس
رہےگی۔۔
اب یہ فیصلہ۔۔فیصل آباد کے باخبر سیاسی حلقوں نے کرنا ہے کہ
شریفے کی وجہ سے تقویت کسے ملی اور مروڑ کسےاٹھے۔۔؟
وگرنہ پھلوں کی ایک قسم چیکو بھی ہے۔۔اس کی تاثیر۔۔ایک غیر سیاسی موضوع
ہے۔۔
چیکو کے بارے میں اس سہہ حرفی سے زیادہ فی الحال۔۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔
کھا کے چیکو۔۔! |
|