دو پاکستانی دوستوں کی گفتگو
١٩٨٠ میں
پہلا دوست : یار یہ بجلی کب جاتی ہے۔
دوسرا دوست : پتہ نہیں یار۔ میرے خیال میں تو سال میں ایک دو دفعہ ہی جاتی
ہے۔ آندھی طوفان کے موسم میں
گفتگو ١٩٩٠ میں
پہلا دوست : یار یہ بجلی کیوں چلی گئی
دوسرا دوست : معلوم نہیں لگتا ہے ٹرانسفارمر تبدیل کیا جارہا ہے۔
گفتگو ٢٠٠٩ میں
پہلا دوست : یار یہ بجلی کب آئے گی
دوسرا دوست : تجھے پتہ نہیں کہ جب میرے علاقے کی جائے گی تو تمہارے علاقے
کی آئے گی اور جب میرے علاقے میں آئے گی تو تمہارے علاقے میں جائے گی۔
گفتگو ٢٠٢٠ میں
پہلا دوست : یار بجلی آجائے گی آج؟
دوسرا دوست : ابے یار تجھے بھی یاد نہیں رہتا بھائی آج فیصل آباد میں بجلی
ہے، لاہور میں کل آئے گی، پرسوں کراچی کی باری ہے ایک ایک دن کا کوٹہ ہے ہر
شہر کا۔
گفتگو ٢٠٣٠ میں
پہلا دوست : یار سنا ہے پچھلے زمانوں میں بجلی وجلی ہوا کرتی تھی تھی
دوسرا دوست : ابے یار سوجا مچھر دانی میں یہ بجلی وجلی کچھ نہیں ہوتی یہ سب
تیرا وہم ہے۔
جئے جمہوریت اور شہدائے جمہوریت !
قانون اندھا ہوتا ہے کیا قانون دان بھی ؟
مہنگائی سب کے لیے انصاف کے ساتھ کیوں نہیں؟
اختیار سب کے لیے سوائے عوام کے |