چیک پوسٹ پر حملہ ....افغان کٹھ پتلی انتظامیہ ملوث ہے؟

ان دنوں جہاں ایک طرف بھارت مسلسل سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتے پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، وہیں دوسری جانب افغانستان سے بھی پاکستان مخالف قوتوں نے اپنے پشت پناہ دوست بھارت کی راہوں پر چلتے ہوئے پاک سرحد پر حملہ کیا ہے۔ اتوار کے روز خیبر ایجنسی میں افغان دہشت گردوں نے افغانستان سے پاک افغان سرحد سے ملحقہ اخوند والا میں 8 ہزار فٹ اونچائی پر واقع سیکورٹی چوکی پرراکٹ فائر کیا، جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 4 جوان شہید، جبکہ 4 زخمی ہوگئے۔ واقعے کے بعد سیکورٹی فورسز نے بھر پور جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے گروہ کا خاتمہ کردیا، تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ مسلح شدت پسندوں کی تعداد کتنی تھی اور ان کا تعلق کس تنظیم سے ہے۔ ذرایع کے مطابق پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر جانان موسیٰ زئی کو دفتر خارجہ میں طلب کر نے کے بعد سرحد کے پار سے ہونے والے مارٹر حملوں میں پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور افغان سفیر سے کہا گیا کہ وہ اپنی حکومت پر زور دیں کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کروائے اور اس کے نتائج سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرے۔ اس قسم کے واقعات مسلسل کوششوں کے نتیجے میں مثبت سمت میں بڑھنے والے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے لیے نیک شگون نہیں۔ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور افغانستان کے ساتھ مل کر اس مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے کو تیار ہے، لیکن پاکستانی فوج پر حملوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ افغان سفیر نے کہا وہ متعلقہ حکام تک یہ پیغام پہنچا دیں گے، تاکہ وہ ان کو دیکھ لیں۔ انہوں نے پاکستانی فوج کے جوانوں کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا۔ ملک کی تمام سےاسی جماعتوں نے خےبر اےجنسی مےں افغان دہشت گروں کے حملے مےں 4 فوجی جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مےں پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔ خطے میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان کو اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینی چاہیے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

افغانستان کے علاقوں سے پاکستانی سرحدی مقامات بالخصوص باجوڑ ایجنسی، مہمند، چترال اور دیر کے اضلاع میں پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔ تاہم خیبر ایجنسی میں سرحد پار سے حملوں کے واقعات اس سے پہلے کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات تو وقتاً فوقتاً دیے جاتے ہی رہے ہیں، جبکہ متعدد بار افغان فوج کی جانب سے پاک سرحد پر حملے بھی کیے گئے ہیں اور دہشت گردوں نے بھی کئی بار افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے کیے ہیں۔ گزشتہ روز پاک سرحد پر ہونے والے حملے کی ذمے داری افغان حکومت پر عاید ہوتی ہے، کیونکہ حملہ چاہے جس نے بھی کیا ہو، لیکن اس کو روکنا اور پاکستان کی سرحد پر حملہ کر کے چار جوانوں کو شہید کرنے والے دہشتگردوں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرنا افغان حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن اگر افغانستان کی حکومت یہ کام نہیں کرسکتی تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے یا جان بوجھ کر روکنا نہیں چاہتی۔ حالانکہ ماضی میں دونوں ملک اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر کاربند ہوں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور ایک ملک کے دشمن کو دوسرے ملک کا دشمن سمجھا جائے گا۔ کچھ روز قبل پاکستان نے کارروائی کر کے دہشتگردوں سے افغان فوجی کی جان بھی بچائی تھی، جبکہ افغان حکومت کا رویہ مختلف ہے۔ مبصرین کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سرحد پر ہونے والے حملوں میں کٹھ پتلی افغان حکومت ملوث ہے، کیونکہ افغان حکومت کا پشت پناہ دوست بھارت ان دنوں تمام معاہدوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلسل سرحدی خلاف ورزی کررہا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان نہ صرف بھارت کے زیر اثر ہے، بلکہ بھارت کے زیر کنٹرول ہے۔ بھارت پر ان دنوں جنگی جنون سوار ہے، اسی جنون میں مبتلا ہوکر وہ پاکستان کے اندر اور سرحدوں پر بزدلانہ حملے کر رہا ہے، تاکہ پاکستان پریشانی کا شکار ہوجائے۔ افغانستان، بھارت کو چونکہ اپنا بڑا بھائی خیال کرتا ہے، اس لیے اپنے بڑے بھائی کا ساتھ بھی ہمیشہ دیتا ہے، ماضی میں بھی جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ ہوئے ہیں، اسی وقت افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف حملے کیے گئے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملوں کا مقصدایک طرف پاکستان سے اپنی دشمنی کا اظہار کرنا ہے، جبکہ دوسری طرف بھارت کا ساتھ دیتے ہوئے جنگی ماحول پیدا کر کے پاکستان کو دباﺅ میں لانا ہے۔

اس بات کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنا کافی حد تک اثر و رسوخ رکھتا ہے اور افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ افغانستان کے موقع پر افغانستان کی قیادت نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ بھارت یہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ افغانستان میں بڑھتا ہوا بھارتی عمل دخل اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی اور سرحدوں پر منظم حملے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے ہیں۔ پاکستان دشمنی کے لیے افغانستان کا استعمال بھارت کی پرانی پالیسی اور تاریخ کا تاریک باب ہے۔ واضح رہے کہ اشرف غنی افغانستان کے صدر ہیں۔ ان کے صدر بننے سے پاک افغان بہتر تعلقات کی امید پیدا ہوئی تھی، مگر اشرف غنی بھی کرزئی کی طرح نہ صرف پاکستان مخالف اقدامات کر رہے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ وہ بھارت کی طرح پاکستان دشمن اقدامات کر رہے ہیں۔ افغان صدر کے پاکستان دشمنی پر مبنی اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھارت کے ایما پر سب کچھ کر رہے ہیں۔ جون 2014 میں اشرف غنی نے صدارتی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی تھی۔ انہیں اپنے مدمقابل عبداللہ عبداللہ کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ووٹ ملے تھے۔ اس کے باوجود عبداللہ عبداللہ نے شکست تسلیم کرنے کی بجائے علم بغاوت بلند کرنے کی باتیں شروع کر دی تھیں۔ ان حالات میں اشرف غنی کو امریکا کے تعاون سے سیاسی مصالحت کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ کو اقتدار میں شریک کرنا پڑا تھا۔ شکست کے باوجود انہیں چیف ایگزیکٹو یا حکومت کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ اس طرح افغانستان داخلی انتشار اور خانہ جنگی سے محفوظ ہو سکا تھا۔ تاہم اس سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں اشرف غنی کی پوزیشن کمزور ہو گئی اور اہم حکومتی اداروں پر ان کا کنٹرول نہیں رہا۔ عبداللہ عبداللہ کی پشت پناہی بھارت کر رہا ہے۔ اشرف غنی چونکہ ایک مجبور صدر ہیں، جو اپنا اقتدار بچانے اور ان عناصر کو مطمئن کرنے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اور اندرونی سیاسی دباﺅ کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک تجربہ کار سیاستدان اور عالمی سفارتکاری میں طویل خدمات کی وجہ سے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت محض اس لیے اسلام آباد کی امداد کی طالب ہے، کیونکہ افغانستان کی سیکورٹی فورسز امریکا اور مغرب کی کثیر امداد اور عملی تربیت کے باوجود اپنے ہی ملک میں شورش کرنے والے عناصر کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اشرف غنی طویل عرصہ تک عالمی مالیاتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں اور معاشی ترقی اور اس کے ثمرات سے آگاہ ہیں۔ انہیں چاہیے کہ بھارت کے اشاروں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان مخالف اقدامات کرنے کی بجائے اپنے ملک کی حالت سنواریں اور بھارت سمیت ان عناصر کا آلہ کار نہ بنیں جو پاکستان کے خلاف اقدامات پراکسا کر افغانستان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ افغانستان کے لیے یہی بہتر ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.