بھارت کو دو ٹوک جواب

ایم کیو ایم کاوفد اسلام آباد پہنچ چکا ہے اور اس نے وزیراعظم سے ملاقات بھی کرلی ہے ۔وزیراعظم نے واضح کردیا ہے کہ کراچی آپریشن کسی سیاسی جماعت کیخلاف نہیں مجرموں کیخلاف کیاجارہا ہے ۔متحدہ کے جائز تحفظات کو دور کیا جائیگا ۔لہذا ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر اپنا کردار ادا کرے ۔وزیراعظم کی خواہش ہے کہ جمہوریت کسی نہ کسی صورت رواں دواں رہے اور اس کے راستے میں حائل ہونیوالی تمام رکاوٹوں کو دور کیاجائے ۔اس سے قبل بھی اس راہ میں رکاوٹیں آڑے آئیں ۔لیکن وزیراعظم کے بروقت فیصلے نے جس طرح کہ انہوں نے مشاہد اللہ سے فی الفوراستعفیٰ لیا نے مسائل کو حل کیا اور تاحال ڈیموکریسی اپنی لائن پر رواں دواں ہے ۔ایم کیوایم کی جانب سے بھی واپسی کے گرین سگنل ملتے جارہے ہیں۔دوسری جانب رشید گوڈیل جو حملے میں شدید زخمی ہوگئے تھے اب وہ زندگی کی جانب واپس آرہے ہیں ۔اسی کو کہتے ہیں مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے ۔جسے خدا رکھے اسے کون چکھے ۔اب جب انہیں ہوش آرہا ہے تو یقینی طور پر وہ اپنا کوئی نہ کوئی بیان بھی ریکارڈ کرائیں گے ۔آمدہ خبروں کے مطابق انہوں نے بیان ریکارڈ کرایا ہے اس میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اسلام آباد میں جو بات کہی تھی شاید میں ستمبر کا سورج نہ دیکھ سکوں وہ ازراہ مذاق کے طورپر کی تھی ۔بہرحال اسی لیے بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ بڑی بات نہ کہو،بڑا نوالہ کھالو ،بعض اوقات زبان فال قرآن فال ہوجاتا ہے ۔لہذا کبھی بھی زبان سے ایسی بات نہیں نکالنا چاہیے جس کا نقصان ہو اور شاید وہ گھڑی اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کی گھڑی ہو ۔یہاں پر راقم کو ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ کسی شخص نے سنا کہ چوبیس گھنٹے میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جو کہ قبولیت کی ہوتی ہے سو وہ ایک اینٹ رکھ کر سامنے بیٹھ گیا اور دعا کرنے لگا کہ اے اللہ تعالیٰ اسے سونے کا بنا دے ۔دن رات وہ دعا کرتا رہا آخرکار تنگ آگیا شاید وہ ہی گھڑی قبولیت کی تھی اس نے کہا کہ اے اللہ تعالیٰ اسے سونے کا نہیں تو مٹی کا ہی بنا دے بس وہ لمحہ قبول ہوا اور وہ اینٹ مٹی کی بن گئی ۔اس شخص نے سر پکڑ لیا مگر اب کیا حوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔بولنے سے پہلے سوچنا بہت ضروری ہے ۔پہلے تولو اور پھر بولو۔مگر ہماری ملکی سیاست کا انداز ہی نرالا ہے یہ خوب بولتے ہیں بغیر سوچے سمجھے ۔چاہے بعد میں کچھ بھی بھگتنا پڑے ۔مگر زبان کی چاشنی کا ایک اپنا ہی مزہ ہے ۔شاید ان کی سائنس میں اس کو ہی جمہوریت کہتے ہوں مگر دراصل یہ جمہوریت کی نفی جمہوریت کا مطلب اورمقصد ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے نہ کہ ایک دوسرے کیخلاف کیچڑ اچھالنا ہے ۔تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے تنقید برائے تعمیر ہونی چاہیے ۔اگرکسی نے برداشت کا سبق سیکھنا ہے تو وہ وزیراعظم سے سیکھے کہ انہوں نے کیسے کیسے مشکل وقت میںبرداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔دھرنے ہوں یا قومی اسمبلی کے اندرتقاریر ہوں ،یا سڑکوں پر جلسے جلوس ہوں،استعفے ہوں یا کوئی اورتحاریک پیش کی جائیں ۔انہوں نے اس خوش اسلوبی سے معاملات چلائے کہ اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے بلا روک ٹوک جمہوریت بلکہ وزیراعظم کے حق میں مشترکہ اجلاس کے دوران خوب دھواں دار تقریر کی یہ اس دورکی بات ہے جب تحریک انصاف کا دھرنا عروج پر تھا اورآخر جمہوریت بچ گئی ۔اب پھر استعفوں کا بخار ایم کیو ایم کے سر پر سوار ہے ۔لیکن انکی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ آتے جاتے رہتے ہیں سو اب بھی یہی امید کی جارہی ہے کہ وہ ایوانوں میں واپس آجائیں گے لیکن وزیراعظم نے ایک چیز بالکل کلیئر کردی ہے کراچی کا آپریشن کسی صورت میں نہیں روکا جائے گا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران بھارت کوبھی دوٹوک الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ اس کی سرحدی خلاف ورزیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائیگا ۔اب اگر بھارت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تو نوشتہ دیوار پڑھ لے ۔امریکہ اوریورپ کے میڈیا نے بھی واضح کردیا ہے کہ اگردونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو اس میں بھارت کازیادہ نقصان ہوگا۔ہندو چونکہ بنیادی طور پر ایک گیڈر کی مانند ہے اور وہ مسلمان خصوصی طور پر پاکستان سے اتنا خوفزدہ ہے کہ اس کی راتوں کی نیندیں تک حرام ہیں ۔مودی کیخلاف تو اس کی اپنی جماعتیں کانگریس اورکمیونسٹ پارٹی تک ہوگئی ہیں وہاں کا میڈیا بھی کہہ رہا ہے کہ مودی کی پالیسیاں اصل میں بھارت کی بربادی کا سامان ہیں ۔بھارت اندر کی شکست وریخت کی وجہ سے سرحدی خلاف ورزیاں کررہا ہے ۔خالصتان کی تحریک زوروں پر ہے اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ نام نہاد جمہوریت نواز ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا ۔کشمیریوں کی آواز کو بہت زیادہ دیر تک دبایانہیں جاسکتا ۔پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کو پیغام دیدیا ہے کہ کشمیر پاکستان کا ہے ،کشمیریوں اورپاکستانیوں کے دل ایک دھڑکتے ہیں وہ یک قالب دو جان ہیں ۔انہیں کوئی جدا نہیں کرسکتا اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے بات چیت ہوسکتی ہے جس تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جارہا ہے اس اقدام نے مودی کی راتوں کی نیندیں حرام اور دن کا سکون تباہ کردیا ہے مگر اب آزادی کی منزل بہت دور نہیں ۔
UZAIR AHMED KHAN
About the Author: UZAIR AHMED KHAN Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.