’آگ کا دریا‘ کی خالق قرۃ العین حیدر ۔افسانہ وناول نگاری کی بادشاہ

(21اگست2015 کو قرۃ العین حیدرکو جدا ہوئے آٹھ برس بیت چکے ہیں)
اردو افسانہ و ناول نگاری کی بادشاہ قرۃ العین حیدر ایک ایسی عبقری لکھاری تھیں کہ جب بھی ذکر افسانے یا ناول کا ہوگا یا پھر 21اگست آئے گی توان کو پڑھنے والے انہیں یاد کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ناول کی دنیا میں ’آگ کا دریا‘ ایک ایساشہکار کارنامہ ہے کہ جسے تحریر کیے برسوں سال بیت گئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کل ہی کی بات ہے۔ اردو کی یہ مایۂ ناز ادیبہ 21اگست2007کو ہمیشہ ہمیشہ کے ملک عدم کوچ کرگئیں لیکن وہ اپنی خوبصورت تحریروں میں آج بھی ہمارے درمیان موجودہے۔ انہوں نے افسانوں، ناولوں اور کہانیوں کا ایسا بے بہا خزانہ ، لفظوں کی کہکشاں، حسین جملوں کی بے مثال قَمَر پَیکَر چھوڑی ہے کہ جس کی مثال اردو ناول و افسانہ کی تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔ قرۃ العین حیدر معروف اردو کے پہلے افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی ہیں۔ افسانہ نگاری انہیں اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی لیکن وہ صرف افسانہ نگار ہی نہ تھیں بلکہ ناول نگار اس پائے کی کہ آج تک ’آگ کا دریا‘ اورـ’ آخر شب کے ہمسفر‘ کا مقابل کا ناول سامنے نہ آسکا۔ ان کا ناول ’آگ کادریا‘ اور ’آخر شب کے ہمسفر‘ کواردو ادب کی شاہکار تخلیق گردانہ جاتا ہے۔ اس پر انہیں بھارتی حکومت کی جانب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

عالمی شہرت یافتہ یہ ادیبہ قرۃ العین حیدر 20 جنوری1927میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں، وہیں پلی بڑھی، تعلیم حاصل کی۔ خاندان اردو ادب کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو افسانے کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا انتقال 21اگست 2007کو دہلی کے نذدیک ایک اسپتال نوئیڈا(Noida) میں ہوا، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے قبرستان میں مدفن ہوئیں۔ قرۃ العین حیدر ان ادیبوں میں سے تھیں کہ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت1947میں پاکستان ہجری کی کچھ ہی عرصہ بعد وہ لندن چلی گئیں اور وہاں سے ان کی سوچ نے شاید حالات کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان آنے کے بجائے واپس اپنے وطن ہندوستان چلی جائیں، جہاں پر ان کے آباؤ اجداد کی قبریں تھیں، ان کی یادیں تھیں اور وہ1960میں لندن سے واپس دہلی سدھار گئیں۔ ’تھی خاک جہاں کی پہنچ وہی پروہ‘، دراصل ان کا وجود
ہندوستان کی مٹی سے بنا تھا اسے اپنے مقام پر واپس پہنچنا تھا، حالات اور واقعات تو ذریعہ بن جاتے ہیں ۔

قرۃ العین حیدر نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا ، ہندوستان کے اخبار Imprintاور Illustrated Weekly Indiaسے وابستہ رہیں ساتھ ہی کہانیاں بھی لکھتی رہیں ۔ صحافی کی حیثیت سے تو وہ مشہور نہ ہوئیں البتہ کہانی نویس ، افسانہ نگار اور پھر ناول نگاری نے انہیں اس وقت بامِ عروج پر پہنچا دیا جب ان کا ناول’آگ کا دریا‘1959میں لاہور سے پہلی مرتبہ شائع ہوا۔اس کے بعد ان کے افسانوں اور ناولوں کی لائن لگ گئی۔ کیونکہ وہ ہندوستان کی سرزمین میں پلی بڑھی تھیں، ان کا خاندان عرصہ دراز سے ہندوستان کی مٹی سے وابستہ تھا، ان کے والد تو اردو کے پہلے افسانہ نگار تھے ہی ان کی والدہ ’نذر زہرہ‘بھی لکھاری تھیں۔ انہوں نے بھی کہانیا لکھیں۔ انہوں نے شروع میں بنتِ نذر الباقر کے نام سے اس کے بعد نذر سجاد حیدر(1894-1967)کے نام سے کہانیاں لکھیں۔باپ افسانہ نگار ،ماں کہانی نویس تو بیٹی بھلا کیسے پیچھے رہ سکتی تھی۔ ایسی صورت میں قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کرداروں کا غلبا ہونا قدرتی عمل تھا۔ چنانچہ ان کے اس عمل کو بعض ناقدین نے تنقید کا نشانہ بنا یا بقول زاہدہ حنا ’’قرۃ العین حیدرکے بارے میں یہ فتویٰ بھی دے دیا گیا تھا کہ وہ خان بہادروں اور رائے بہادروں کے خوش باش لڑکوں اور لڑکیوں کی کہانی لکھتی ہیں، زبان ان کی انگریزی زدہ ہے اور ان کے کرداروں کا تعلق ہماری مٹی سے نہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت ، تاریخی سماجی حقائق کے ادراک پر بھی مٹھی بھر راکھ ڈالی گئی ‘‘۔ ادیب ، دانشور اور لکھاری کسی بھی قسم کی چار دیواری سے آزاد ہوتا ہے ، اس کی سوچ کا تعلق تمام طرح کے حدود و قیود سے ماورا ہوتا ہے، وہ سیاسی، نسلی، علاقائی ،لسانی اور تعصب کی پابندیوں اور گروہ بندیوں میں جکڑا ہوا نہیں ہوتا اس کی سوچ، خیالات و فکر ان تمام چیزوں سے جدا ہوتی ہے۔ لہٰذا لکھاری خواہ کسی زبان کا ہو، کسی ملک سے اس کاتعلق ہو وہ صرف اور صرف لکھاری ہوتا ہے ۔ جو کچھ وہ سوچتا ہے ، سمجھتا ہے، محسوس کرتا ہے، خاص طور پر اپنے ارد گرد کے ماحول سے، اپنے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر، اب برقی میڈیا پر دکھائے جانے والے گفت و شنید کے مکالموں سے جو کچھ وہ اخذ کرتا ہے اپنی تحریروں میں اپنی سوچ شامل کر کے اس کا اظہار کردیتا ہے۔ چنانچہ قرۃ العین حیدر جو ’’عینی آپا‘‘ کے نام سے بھی معروف تھیں کی تحریروں کو اسی تناظر میں لینا چاہیے۔ ادیب خواہ پاکستان کا ہو، ہندوستان کا ہویا کسی اور ملک سے اس کا تعلق ہو وہ ادیب اور لکھاری ہی ہوتاہے اس کی سو چ تخلیقی کے سواکچھ اور نہیں ہوتی۔ عینی آپا ادیبوں ، دانشوروں اور لکھاریوں کے لیے صرف ادیب تھیں، لکھاری تھیں، افسانہ نگار تھیں، ناول نگارتھیں اور کہانی نویس ۔

عینی آپا کی تحریروں کی پذیرائی تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہوچکی تھی۔ انہیں 1967میں ان کی کتاب ’پت جھڑ کی آواز‘ پر Sahitya Academi Awardسے نوازا گیا، 1989میں ان کے ناول ’آخر شب کے ہمسفر‘ پرہندوستان کے سب سے باوقار ادبی اعزاز’گیان پیٹہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہندوستان کی حکومت نے انہیں 1985میں ’پدم شری‘ ایوارڈ دیا ، 2005میں ’پدم بھوشن جیسے اعلیٰ ایوار سے نوازا گیا۔ ادبی اداروں اور انجمنوں کی جانب سے انہیں بے شمار اعزازات اور انعامات سے نوازا جاتا رہا۔ اعزازات یقینا کسی بھی شخص کی محنت کو سرائنے کا ایک معقول طریقہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی مستحق کو یہ ضرور ملنے چاہیے۔ اصل میں حقیقی اعزاز جو عینی آپا کو حاصل ہے وہ یہ کہ وہ جو تحریری سرمایا موجودہ اور آئندہ نسل کے لیے چھوڑ گئیں ہیں جس سے لوگ طویل عرصہ تک استفادہ کرتے رہیں گے اور کر رہے ہیں ، یہ ان کا سب سے بڑا اور عظیم اعزاز ہے۔ ان کا یہ اعزاز کیا کم ہے کہ لوگ انہیں آج بھی اسی محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھ رہے ہیں ، یاد کررہے ہیں۔

قرۃ العین حیدر نے لندن سے واپس ہندوستان جاکر صحافت کے شعبہ کو اپنے لیے ذریعہ معاش کا ذریعہ بنا یا لیکن ان کااصل مقصد تو ادب تخلیق کرنا تھا ۔ اخبارات سے وابستگی تو پیٹ کی مزدوری اورروٹی روزی کے لیے تھی۔ انہوں نے کہانیاں لکھیں، اپنے والد اور والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ افسانے کی جانب آئیں اور پھر ناول نگاری ان کا اوڑھنا بچھونا ٹہرا۔ انہوں نے بے شمار کتابوں کے ترجمے بھی کیے۔ان کے والد کو اردو کے پہلے افسانہ نگار اور عینی آپا کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اردو ادب کو ایک نیا اسلوم اورا چھوتی شناخت دی۔ ان کی تصانیف میں ’میرے بھی صنم خانے1949 ‘، ’صفینہ غم1952 ‘، ’پت جھڑ کی آواز 1965‘، ’روشنی کی رفتار 1982‘،’چائے کے باغ1965‘، ’آگ کا دریا1959 ‘ ، ’پکچر گیلری‘،چاندنی بیگم‘۔ ’آخرشب کے ہمسفر‘، ’مرے بھی صنم خانے ‘، ’ سفینہ غم دل‘، ’کارجہاں دراز ہے‘کے علاوہ دلبر، اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجیو، سیتا ہرن، گردش رنگِ چمن ، آوارہ گردشامل ہیں۔

قرۃ العین حیدر استاد بھی تھیں ،کیلی فورنیہ یونیورسٹی میں مہمان مقررہ رہیں، شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی جہاں پر ان کے والد رجسٹرار رہے تھے Visiting Professor بھی رہیں، بعد میں تاحیات پروفیسر کے مرتبہ پر فائز ہوئیں۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہیں ، انجمن ترقی اردو پاکستان نے ان کی شخصیت پر ایک کتاب ’’قرۃالعین حیدر :اردو فکشن کے تناظر میں‘‘ شائع کی، انجمن ترقی اردو پاکستان کے جریدے مہنامہ’قومی زبان‘ نے ان پر خاص نمبر شائع کیا۔ انہوں نے تو افسانہ، ناول اور کہانی کے حوالے سے اس قدر مواد تخلیق کیا ہے کہ ہمارا مورخ برسوں ان کو اپنا موضوع بناتا رہے گا، محقق ان کے تخلیق کردہ مواد پر تحقیق کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ لکھاری ان کی شخصیت اور کارناموں پر قلم چلاتے رہیں گے۔ ان پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں، رسالوں نے خاص نمبر شائع کیے ہیں، مضامین لکھے جاچکے ہیں اور لکھے جارہے ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے ایک جگہ لکھا
’’جس قسم کے ناول میں لکھتی ہوں ‘ کے لیے تو ریسرچ ظاہر ہے کہ بہت ضروری ہے، علاوہ آرٹ ، ہسٹری ، آرکیالوجی اور موسیقی سے میری گہری دلچسپی اس چھان پھٹک میں معاون ثابت ہوتی ہے، یہ کون سی انوکھی بات ہے‘۔پتہ چلتا ہے کہ قرۃ العین حیدر صرف افسانہ نگار، کہانی نویس اور ناول نگار ہی نہ تھیں بلکہ وہ ایک استاد بھی تھیں، صحافی بھی، انہیں موسیقی ، آرٹ ، تاریخ اور آرکیالوجی سے بھی لگاؤ تھا۔ یہی نہیں بلکہ ناول نگار اور افسانہ نگار تو اپنے ماحول اور اردگرد کے ماحول کا مطالعہ باریک بینی سے کرتا ہے وہیں سے وہ مختلف کردار وں سے واقف ہوتا ہے جن کو اپنی کہانی، افسانے اور ناول میں خوبصور انداز سے پیش کرتا ہے۔قرۃ العین حیدر نے بھی یہی کیا ہے۔ ان کے کردار آسمانوں میں نہیں رہتے بلکہ یہیں ہمارے آپ کے درمیان گھومتے پھرتے اور اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں فرق یہ ہے کہ ہم انہیں نظر انداز کردیتے ہیں جب قرۃ العین حیدر نے انہیں اپنے ناولوں، افسانوں اور کہانیوں میں بناسنوار کر پیش کر دیا ہے ۔ قرۃ العین حیدر کو اس دنیا سے جدا ہوئے آٹھ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کی یاد پڑھنے والوں کے دلوں میں آج بھی روشن اور تابندہ ہے اور یہ یاد ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔ (25اگست2005)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437661 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More