لال بھجکڑکی حکومت میں ایک شخص نے قتل کردیا۔ جج نے اسے
موت کی سزاسنائی ۔جب جلادقاتل کوپھانسی دینے لگاتو پتہ چلاکہ قاتل کی گردن
بہت پتلی ہے اورپھانسیکا پھندا بہت کھلا ۔سبھی پریشان کہ اِس کاکیا حل
نکالاجائے ۔چاروناچارطے ہواکہ سارامسٔلہ بادشاہ سلامت کے گوش گزارکیا
جائے۔جب بادشاہ سلامت (لال بھجکڑ) کے سامنے مسٔلہ رکھاگیاتو اُس نے مسکراتے
ہوئے کہا’’اتنی معمولی سی بات کے لیے میرے پاس آنے کی کیاضرورت تھی، کوئی
موٹی گردن والا ایسا بندہ تلاش کرو جس کی گردن میں پھانسی کاپھندا’’فِٹ‘‘
بیٹھتاہواور اُس کوپھانسی دے دو۔ کچھ ایسی ہی واردات ہمارے مشاہداﷲ خاں کے
ساتھ بھی ہوگئی ۔وہ بطوروزیر باتدبیر غیرملکی دَورے پرتھے کہ اُن کے ساتھ ’ہَتھ‘‘
ہوگیااورنہ صرف یہ کہ ’’ممدوح‘‘نے اُنہیں پَرے جھٹک دیابلکہ وزارت بھی
گئی۔دروغ بَرگردنِ راوی وہ اداسیوں کے جَلومیں ایوانِ وزیرِاعظم سے نکلے
اور ’’وہ جارہا ہے اپنی وفاکا لُٹاہوا ‘‘گنگناتے سیاسی اندھیروں میں گُم
ہوگئے۔سچی بات ہے کہ ہمیں مشاہداﷲ خاں کے ساتھ ہونے والی اِس ’’واردات‘‘پر
دلی دُکھ ہواکیونکہ ’’مجرم‘‘ کوئی اورتھا لیکن پھندا موٹی گردن والے مشاہداﷲ
خاں کی گردن میں فِٹ ہوگیا۔
یہ بجاکہ شایدپاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ چشمِ فلک نے یہ
دیکھاکہ سیاسی وعسکری قیادت کے مابین افہام وتفہیم کایہ عالم کہ جیسے ’’میں
تے ماہی اِنج مِل گئے ،جنویں ٹِچ بٹناں دی جوڑی‘‘۔ قائدین ہر قومی وبین
الاقوامی مسٔلے پرہم آہنگ ۔اِن حالات میں مشاہداﷲ خاں کو پنڈورابکس کھولنے
کی ضرورت نہیں تھی ۔سوال مگریہ کہ ’’پنڈورابکس‘‘کھولنے والاکون؟ کیامشاہداﷲ
خاں یا کوئی اور؟۔ کیایہ حقیقت نہیں کہ دھرنوں کے ایام میں محترم جنرل
احمدشجاع پاشااور محترم جنرل ظہیرالاسلام کے بارے میں ایسی افواہیں زباں
زدِعام تھیں؟۔سوال یہ بھی ہے کہ ایسی غلط فہمیاں پیدا کرنے والا تھا کون؟۔
یقیناََ وہی جوتواتر کے ساتھ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کے دعوے کرتارہا ،وہ
تھے ہمارے محترم عمران خاں صاحب۔ یہ سوال توخاں صاحب سے پوچھاجانا چاہیے کہ
وہ ’’امپائر‘‘ کون تھاجس کی انگلی کھڑی ہونے کی نوید وہ سونامیوں کو دیتے
رہے ۔محترم جاویدہاشمی نے تحریکِ انصاف کی صدارت چھوڑنے کے بعداپنے پہلے
انٹرویومیں ہی یہ رازفاش کردیاکہ وہ امپائرکون تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ
کپتان صاحب ہرمیٹنگ میں کہتے تھے کہ ’’وہ ‘‘ہمارے ساتھ ہیں(ہاشمی صاحب نے
دونوں کندھوں پرہاتھ لگاکر یہ واضح اشارہ دیاکہ بقول عمران خاں فوجی جرنیل
اُن کی پشت پرہیں)۔ مشاہداﷲ خاں نے جو کہا، وہی کچھ توپی ٹی آئی کے
بریگیڈیئر (ر) سائمن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا۔بریگیڈیئرصاحب کے دعوے
کے مطابق جنرل ظہیرالاسلام کامطمعٔ نظروزیرِاعظم اورآرمی چیف کے مابین غلط
فہمیاں پیدا کرکے اُن کوآپس میں لڑوانا اورپھر دونوں کی چھٹی کرواکے
خودحکومت پرقبضہ کرناتھا۔مشاہداﷲ خاں نے بھی تویہی کچھ کہاپھراگر
بریگیڈئیرسائمن (جو سابقہ فوجی ہیں)کے خلاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں توکیا
مشاہداﷲ خاں کے خلاف صرف اِس لیے کہ وہ ’’سویلین‘‘ہیں؟۔
مسٔلہ اگرایک وفاقی وزیرکے مُنہ سے نکلے ہوئے غیرذمہ دارانہ الفاظ کاتھاتو
اِس معاملے میں بھی مشاہداﷲ خاں مجرم نہیں ٹھہرتے کیونکہ کھلے ڈُلے
وزیرِدفاع خواجہ آصف صاحب نے توایک نہیں دو، دوبار جنرل احمدشجاع پاشا اور
جنرل ظہیرالاسلام کوموردِالزام ٹھہرایالیکن اُن کے خلاف تادیبی کاررائی
توایک طرف ، ایوانِ وزیرِاعظم کی طرف سے اُن کے بیان کی تردیدبھی نہیں آئی۔
یہ بھی طشت ازبام کہ میاں شہباز شریف اور چودھری نثاراحمد نے متعدد
باراعلیٰ عسکری حکام کو جنرل ظہیرالاسلام کے دھرنوں میں اداکیے جانے والے
کردارکے بارے میں آگاہ کیااورمیاں شہبازشریف صاحب نے تو دھرنوں کی پشت
پرکارفرماہاتھ کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کامطالبہ بھی
کیالیکن شور اٹھانہ ہا ہاکار مچی ۔مشاہداﷲ خاں نے بی بی سی کو دیئے گئے
پورے انٹرویومیں کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خودموقع پرموجودتھے یااُن کے
پاس مکمل ثبوت ہیں۔اُنہوں نے تو اپنے انٹرویوکی بنیادہی ’’سُنی سنائی
‘‘باتوں پر رکھی اوراِس کابَرملا اقراربھی کیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ
انٹرویوزکو ’’ایڈٹ‘‘کرکے معانی ومفاہیم کویکسرتبدیل کیاجا سکتاہے لیکن اِس
کے باوجودبھی اگرپورے انٹرویومیں کچھ قابلِ گرفت ہے تووہی جس کاخواجہ آصف
صاحب پہلے ہی برملااظہار کرچکے تھے ۔اصل بات یہ ہے کہ ’’پھندہ‘‘صرف مشاہداﷲ
خاں کے گلے میں ہی فَٹ بیٹھتاتھا، باقی سب تو’’تگڑے‘‘تھے ۔۔۔ بہت تگڑے۔
ایوانِ وزیرِاعظم کی طرف سے مشاہداﷲ خاں کے بیان کی فوری تردیداور افراتفری
میں لیے گئے استعفے کی بناپر سیاسی وعسکری قیادت میں پیدا ہونے والی غلط
فہمیاں دَم توڑگئیں اوروہ جواِس بیان پربغلیں بجا رہے تھے کہ اب تماشا
’’ہووے ای ہووے‘‘ ، اُن کی اُمیدوں پر اَوس پڑگئی ۔الیکٹرانک میڈیاپر بیٹھے
اینکر ،ایکرنیاں اور تجزیہ نگاربھی ’’ٹھنڈے ٹھار‘‘ ہوگئے اوراُن کے پاس
چائے کی پیالی پر طوفان اٹھانے کو ’’کَکھ‘‘ باقی نہ بچا ۔اِس سے پہلے تویہ
عالم تھاکہ چیونٹیوں کے بھی پَرنکل آئے اورہر کہ ومہ نے افلاطونی تجزیوں کی
آڑھت سجالی ۔تحریکِ انصاف نے دوقدم آگے بڑھ کے سارے معاملات کی تحقیقات
کامطالبہ کردیا۔ شاید اُس نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے سبق نہیں سیکھا۔ کہے
دیتے ہیں کہ اگرحکمرانوں نے (عقلمندی کاثبوت دیتے ہوئے)کوئی تحقیقاتی کمیٹی
تشکیل دے ڈالی توپھر سونامیے اورسونامیاں گلی گلی یہ گاتے پھریں گے کہ ’’جو
بچا تھاوہ لُٹانے کے لیے آئے ہیں‘‘۔اُنہیں یہ یادرکھنا ہوگا کہ جس تواترسے
یہ خبریں یاافواہیں پھیلتی رہیں اورتاحال پھیل رہی ہیں، اگر اُن میں دَس
فیصد سچائی بھی ہوئی توتحریکِ انصاف کے پلّے کچھ باقی نہیں بچے گا ۔ |