الیکشن ٢٠١٣ فرشتے ذمہ دار ہیں

پاکستانی قوم کو مبارک ہو کہ عدالتوں نے جوڈیشنل کمیشن نے ایسے فیصلے دئے ہیں .جن پر صرف آنسو بہانے کو جی کرتا ہے .یہاں حکومتیں وزیر مشیر اور سپیکر قومی اسمبلی حکم امتناعی پر چلتی ہیں .چور کبھی آسانی سے نہیں مانتا کہ میں نے چوری کی ہے .جب چھتر پریڈ ہوتی ہے یا چھترول ہوتی ہے تو ماں جاتا ہے .سوچنا اس بات پر ہے کہ ٢٠١٣ الیکشن کا کون ذمہدار تھا اور کس کو چھترول کا سامنا کرنا پڑا .سوال تو یہ ہے کہ جس کے گھر میں چوری ہوئی ہے وہ تو کہ رہا ہے کہ چوری ہوئی ہے .عدالت کہ رہی ہے کہ چور فلاں نہیں فلاں ہے .تو عدالت کی نظر میں جو چور تھا یا ہے تو اس کے لئے کیا حکم ہے .یہ سب کنفیوزن کے زمرے میں آتا ہے .قربان جاؤں جوڈیشنل کمیشن اور الیکشن کمیشن تم پر اور تمھاری کارکردگی پر .کہ تھیلوں میں ردی نکلی ہے .سیمنٹ کے تھیلے نکلے ہیں .٢٥٠٠٠ ہزار ووٹ تصدیق نہیں ہو سکے .فارم ١٤ اور فارم ١٥ موجود نہیں ہیں .افسروں کے دسخط غایب ہیں .مگر الیکشن میں دھاندلی کوئی نہیں ہے .بے ضابطگی ہے .ذمہدار کوئی نہیں ہے .تو اس کا مطلب ہے ذمہدار فرشتے ہیں .اب سوال یہ ہے کہ فرشتوں کو کون پکڑے گا .واہ واہ کیا بات ہے انصاف کی .عدالت کی .واہ واہ کیا بات ہے .میرے محسن تو ہی بتا کہ کس کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کروں .سارے شہر نے تو دستانے پہنے ہووے ہیں .یہ ہے پاکستان کا نظام .انصاف اور احتساب .جس کی وجہ ہم تباہ و برباد ہو رہے ہیں .معاشرہ برباد ہوا .جس کے ہاتھ میں ہے کمانڈ اینڈ کنٹرول .وہ ہے میرا حکمران .ہر برائی کی جڑھ..اسی لئے جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے کے بعد میں نے لکھا تھا کہ میں جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے سے متفق نہیں ہوں .کس کس کو خریدو گے میرے حکمران .مزید میں نے لکھا تھا کہ اگر کوئی بھی پاکستان میں اس دھاندلی میں شریک نہیں تھا تو تھیلوں کے اندر ردی ڈالنے والے عوام تھے یا میں تھا .تو براۓ مہربانی مجھے پارلیمنٹ کے سامنے پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ.تا کہ کوئی تو عبرت کا نشان بنے .ونہ پھر اگلے الیکشن میں بھی یہی ہو گا یا کوئی اور حربہ استمعال کر لیا جاۓ گا .کہاں ہے انصاف و قانون کی حکمران .کہاں ہے آئین و قانون کی حکمرانی .کہاں ہیں اخلاقیات . عدالتوں ججوں پر پریشیر بھی حکمران کی طرف سے ہوتا ہے میری طرف سے یا عوام کی طرف سے نہیں ہوتا .پاکستان میں ہر وقت ہر دور میں سپریم کورٹ نے اپنا اہم کردار ادا نہیں کیا .ہر وقت نظریہ ضرورت ہی دیکھنے کو ملا .یہ قوم کے ساتھ کیا مذاق ہے . نیچے والی عدالتیں اور ٹریبونل فیصلے کریں اور سپریم کورٹ اس فیصلے کو رد کرے یا حکم امتعنائی کی صورت میں قانون کے ساتھ کھیلے اور پھر دو دو یا تین تین سال حکم امتناعی کی چھتری میں چوروں ڈاکوؤں کو تحفظ فراہم کرے .مزید قوم کے ساتھ مذاق یہ ہے کہ ٦٥ سالوں کی تاریخ میں ہم قوم کو یہ نہیں بتا سکے کہ دھاندلی ہوتی کیا ہے اس کی تشریح کیا ہے .ہر عدالت بے ضابطگی بے ضابطگی لکھ کر چوروں کو تحفظ دے رہی ہے .تو پھر دھاندلی کس بلا کا نام ہے .بے ضابطگیاں کس کے لئے کی گیں اور کیوں .فایدہ کس نے اٹھایا .یہاں ٦٥ سالوں سے سب بغریتیاں ہو رہی ہیں اور دھاندلی کس کس طرح ہوتی اور کروائی جاتی ہے .سب کو علم ہے .کبھی اجنسیوں کی طرف سے لسٹ بنتی ہے کبھی عالمی طاقتوں کے کچھ مہرے ہوتے ہیں .کبھی این .آر .او .ہوتا ہے .کبھی ریٹرننگ اور پریزایڈنگ افسروں کی اور کبھی بیوروکریسی انتظامیہ کی بے غیرتیاں ہوتی ہیں .کبھی را الیکشن میں فنڈنگ کرتی ہے کبھی عالمی قوتیں .این .جی .اوز .کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرتی ہیں .مگر دھاندلی میں ملوث فرشتے کبھی منظر عام پر نہیں آے.مجھے موللانا ضیاء ڈکٹیٹر کا زمانہ یاد آ رہا ہے .کہ جس نے غیر جماعتی الیکشن کرواۓ .ریفرینڈم کروایا اور بعد میں پچاس پچاس لاکھ میمبروں کو دے کر خریدہ گیا جونیجو کے لئے .اور غیر جماعتی کو جماعتی بنایا .روٹ پرمٹ دے کر اور مراعات دے کر ایوب خان نے بھی یہی کام کیا .جناب مشرف صاحب نے بھی یہی کام کیا کہ جو کرپٹ چور ڈاکو لوٹا اس کے ساتھ مل گیا وہ پاک صاف .اور جو نہیں ملا وہ غداری.بغاوت .کے زمرے میں آیا اور چور ڈاکو ٹھہرایا گیا .یہ معیار ہے حکمران کی دھاندلی کا .ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے .سنتے چلیں .ہم گوجرانوالہ غلام دستگیر صاحب کے گھر میں تھے جہاں وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں صاحب تشریف فرما تھے .تو اس وقت کے .ایم .پی.اے.مہر محمد سلیم صاحب نے کہا کہ وزیر اعلی صاحب مسلم لیگ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے کہ گوجرانوالہ میں مسلم لیگ کو جتوانے کے لئے ڈپٹی کمشنر اختر علی مونگا نے ہم سے پچاس لاکھ رشوت لی ہے .تو وزیر اعلی نے اس مسلم لیگ کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ڈپٹی کمشنر کو فوری طور پر نوکری سے فارغ کر دیا .جو شاید کبھی بھال نہ ہو سکے .تو یہ ہے حکمرانوں کے نزدیک دھاندلی کا معیار .پاکستان کے ہر ہونے والے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور لگاتار ہوتی ہے .مگر قربان جاؤں اپنی عدالتوں پر ججوں پر اور سپریم کورٹ پر کہ اس کو کبھی کوئی دھاندلی نظر نہیں آئی .بس بڑی بڑی بے ضابطگیاں نظر آتی ہیں .جس کے لئے ہر کوئی بے بس ہے کہ بے ضابطگی کے لئے کوئی قانون نہیں ہے .کیا کریں کس کو پکڑیں .کسی راہ چلتے فقیر کو پکڑیں کہ وہ سڑک پر چلتے چلتے لوگوں کو بتا رہا تھا کہ فلاں سکول کے فلاں کمرے میں اور فلاں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ٹھپے لگ رہے ہیں .کیا کریں کس کس بد عنوانی بے غیرتی .نا انصافی پر آہو زاری کریں .قربان جاؤں حکمران کے مشیروں پر جنہوں نے منظم دھاندلی کا لفظ لکھ کر عمران خان کے شطرنج کے مہروں کو ایسے مات دی جیسے لارڈ ماونٹ بیٹن اور فرھنگی سرکار پاکستان کو کشمیر کے معاملہ پر مات دے گیا تھا .اور قربان جاؤں سپریم کورٹ پر جوڈیشنل کمیشن کے ججوں پر جنہوں نے یہ کہ کر بادشاہ سلامت کو خوش کر دیا کہ منظم نہیں بے منظم فرشتوں کی غلط حرکتوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے .دھاندلی نہیں ہوئی .جیسے یہ اللہ کی طرف سے مدد نہیں تھی .اللہ نے تو کافروں کے لشکر کو ختم کرنا تھا .سو اس نے ابابیل کو حکم دیا .اپنی چونچوں میں کنکریاں لے لو اور مار دو کافروں کے لشکر پر .اور جب پاکستان کی سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ چلا تو معزز جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد نہیں تھی .یہ تو بس غیبی طاقت تھی اور نصرت تھی مدد نہیں تھی .جیسے آجکل کہا جاتا ہے دھاندلی نہیں بے ضابطگی تھی ..یہ ایسے بھی ہے مثال کے طور پر کہ امیر کا بچہ سڑک پر پاخانہ کر رہا ہو تو وہ پیار سے مہذب طریقے سے اخلاقی طریقے سے گگاہ کر رہا ہوتا ہے اور یہی کام اگر غریب کا بچہ کر رہا ہو تو وہ گند پھیلا رہا ہوتا ہے .واہ میری انصاف دینے والی عدالتو .ایک سپریم کورٹ کا جج بغض معاویہ میں وزیر اعظم کو گھر بھیج دیتا ہے .دوسرا جج ایک پنجاب کی حکومت کو پانچ سال حکم امتعنائی پر چلا دیتا ہے .یہ ہیں پاکستان کی عدالتیں جو محب وطن کو پھانسی پر لٹکا دیتی ہیں اور غداروں کو آدھی آدھی راتوں میں عدالتیں لگا کر اندھیرے میں با عزت چھوڑ دیتی ہیں ..واہ میرے فرشتو .قربان جاؤ تم پر تمھارے فیصلوں پر .میں تو تمھارے فیصلوں سے مطمئن نہیں ہوں .یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ قاتل کو یہ کیہ کر چھوڑ دیں کہ آلہ قتل تو اس کے گھر سے برآمد ہوا ہے .ریوالور پر اس کی انگلیوں کے نشانات بھی ہیں .مگر قاتل کہ رہا ہے کہ گواہ لاؤ .اور گواہ ڈرتے ہیں کہ ہمارے بال بچوں کو مروا دے گا .اور حکومت گواہ کو تحفظ نہیں دے سکتی اس لئے قاتل کو با عزت بری کیا جاتا ہے .اس بنیاد پر کہ گواہ عدالت کو بتا چکا ہے کہ قاتل خطرناک ہے .اب فرشتوں کو بولو وہ گواہی بھی دیں.تحفظ بھی فراھم کریں اور تفتیش بھی کریں .کیونکہ انصاف دینا عدالتوں کا ججوں کا کام نہیں ہے .ججوں کا کام تو بادشاہ سلامت کی خوشنودی ہے .حکمران کی زبان سے نکلے ہووے الفاظوں جملوں کو فتوؤں کی صورت میں لاگو کرنا .چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا لگے .اگر اس ملک میں رہنا ہے تو اس ملک کے آئین و قانون کو سمجھنا ہو گا .ورنہ جنگل میں چلے جاؤ .جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے ...

Javed Iqbal Cheema
About the Author: Javed Iqbal Cheema Read More Articles by Javed Iqbal Cheema: 190 Articles with 147452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.