وکٹ نہیں گرنی چاہئے!

گذشتہ دنوں راقم الحروف نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے ایک کالم بعنوان ’’زبر زیر خود لگالو‘‘ تحریر کیا جس میں کمیشن کی غیر مبہم اور غیرواضح رپورٹ کے حوالے سے ایک واقعہ تحریر کیا تھا مختصرا عرض کرتا ہوں کہ ایک فاتر العقل شخص کسی بھی جگہ کسی بھی اونچے مقام پر براجمان ہوکر اپنی خودساختہ تقریر شروع کردیتا اور جو منہ میں آتا بولے جاتا لوگ بھی جمع ہوجاتے تقریر کے اختتام پر کہتا کہ میری بات سمجھنے کیلئے زبرزیر خود لگالو۔ اب ایاز صادق سپیکر قومی اسمبلی کے حلقے این اے 122 کے حوالے سے الیکشن ٹریبونل نے زبر زیر لگاکر عوام کی عدالت میں پیش کردیا اور الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا جس کی وجہ سے سردار ایاز صادق کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔بقول عمران خان کے دو وکٹس وہ گراچکے ہیں تیسری وکٹ این اے 154 کی گرانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور صدیق بلوچ کے مابین الیکشن میں صدیق خان بلوچ پر جہانگیر خان ترین نے صدیق بلوچ پر دھاندلی اور ڈگری جعلی ہونے کا الزام عائد کیا جس کا فیصلہ ایک طویل سماعت کے بعدآج26 اگست بروز بدھ کو عدالت سنائے گی جس میں حالات و واقعات کے مطابق صدیق خان بلوچ کو نا اہل قرار دیئے جانے کے واضح امکانات کی طرف اشارے کئے جارہے ہیں ۔پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین بڑے پر امید ہیں کہ 122 کی طرح154 کی وکٹ بھی گرائیں گے رانا عارف مسلم لیک ن سے جعلی ڈگری کی بنا پر نااہل ہوچکے ہیں جبکہ خواجہ آصف کا حلقہ بھی نگاہ یار میں کھٹک رہا ہے

ٹریبونل کا فیصلہ آنے کے بعد بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں آیاکہ ماضی میں شہباز شریف کی وزارت اعلی اور حال میں خواجہ سعد رفیق کی وزارت ریلوے کی طرز پر عدالتی stay پرسپیکر شپ کو بھی چلایا جائے گااور قومی اسمبلی ایک متنازعہ سپیکر کے زیر نگرانی کام کریگے۔ دوم یہ کہ ٹریبونل کا سارا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈالا جارہا ہے اور ان کو اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہونے میں ناکام قرار دیا جارہا ہے اور مستعفی ہونے کی ڈیمانڈ بھی زور وشور سے کیجارہی ہے جبکہ کرے کوئی بھرے کوئی کے مصداق ایاز صادق کو نا اہل ہونا پڑا۔تو کیا الیکشن کمیشن کی مجرمانہ غفلت پر انہیں کوئی سزا مل سکے گی۔اور وہ لوگ ان کا تعلق پی پی پی سے ہوکہ پی ٹی آئی یاکہ ن لیگ سے اس سے متاثر ہوئے ہیں ان کے کیریئر پر داغ لگے ہیں کیا ان کا ازالہ ہوسکے گا ان کیا remedy مل سکے گی۔بقول عمران خان کے نادرا نے انگوٹھوں کی شناخت و تصدیق کیلئے کم وبیش26 لاکھ روپے طلب کئے ہم نے ادا کئے لیکن نادرا آج تک انگوٹھوں کی تصدیق نہ کراسکا ان روپوں کا سٹیٹس کیا ہوگا کیاوہ رقم انہیں واپس مل پائے گی۔اسی ضمن میں گذشتہ روز پنجاب الیکشن کمیشن کے ایک رکن جسٹس(ر) ریاض کیانی کا کہنا تھا کہ عمران خان بادشاہ آدمی ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہمار ا کام تو قانون سازی پالیسی اور لائحہ عمل مرتب کرنا ہے اصل کام تو آر اوزاور پریذائڈنگ آفیسر ز کا تھاکہ وہ الیکشن کو شفاف اور میرٹ پر کراتے۔اگر کیانی صاحب کی بات کو بڑاکیاجائے اور پی ٹی آئی کے شروع دن کے موقف کو بھی شامل کرلیا جائے کہ آر اوز اس دھاندلی اور بدنظمی میں اول تا آخر شریک ہیں تو کیا ان آراوز اور پریذائڈنگ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔کیا کوئی عدالت ان کو سزوار ڈکلیئر کریگی۔ یا کم ازکم جن حلقوں پر الیکشن کمیشن جوڈیشل کمیشن اور الیکشن ٹریبونل نے سوالیہ نشان لگادیئے ہیں ان حلقوں کے آراوز کو کٹہرے میں لایا جاسکے گاجنہوں نے نہ صرف اپنے فرائض سے غفلت برتی بلکہ ملک و قوم کا وقت اور پیسہ بھی برباد کرایا۔ پولنگ بیگز کا بغیر مہر کے ہونا ووٹوں کی پروچیوں کا بغیر نشان انگوٹھا ہونا ہزاروں ووٹوں کا غیر تصدیق شدہ ہونااضافی بیلٹس پیپرز کا استعمال کرایاجانا وغیرہ کے ذمہ داروں کا تعین کون کریگا اور کو ان کو اس غفلت پر سزا و جزا کا مستحق ٹھہرائے گا۔ویسے بھی عدلیہ ہمارے ملک کا ایک ’’مقدس ‘‘محکمہ ہے اس کے خلاف بات کرنے بلکہ سوچنے پر بھی پابندی عائد ہے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کیا مذکورہ بالا حقائق اور رپورٹس کے سامنے آنے کے بعداس مقدس محکمے اور اس سے متعلقہ افراد کے تقدس پر سوالیہ نشان نہیں لگے ججز بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں اور انسان بہرحال غلطی کے پتلے ہوتے ہیں

بہرجال محترم چیف جسٹس آف پاکستان خواد ایس خواجہ نے جس طرح اپنے عدالتی فرائض کے دوران اور منصب سے عہدہ برآ ہوئے ہوتے بہت سی مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر ماضی میں پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی جیسا کہ اردو کے نفاذ کا معاملہ،ملٹری کورٹس کا سلسلہ،ٹیکسٹ بکس میں غلطیوں کی بھرمار اور پروف ریڈنگ کے حوالے سے ایکشن غیر ضروری پروٹوکول کا نہ لینا۔ بلٹ پروف گاڑی کا نہ لینا وغیرہ۔ اسی طرح وہ عدلیہ کے تقدس اس کی تکریم و تعظیم اور وقار کے حوالے سے بھی کوئی ایسی روایات قائم کریں کہ یہ محکمہ اور اس سے متعلقہ افراد پر انگلیاں اٹھنا بند ہوجائیں اور لوگ صدق دل سے قاضی وقت کی تعظیم کریں نہ کہ طاقت اور خوف سے ڈر سے۔ المختصرپہلی دوسری تیسری چوتھی پانچویں وکٹس گرچکی ہیں اور گرنے والی ہیں تو ایک ایسا نظام وضع ہونا چاہئے کہ اس میدان میں جو شخص بھی کھیلنے کیلئے آئے تو اس کی وکٹ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ہی گرے وہ ایمانداری اور حقیقی عوامی طاقت سے منتخب ہوکر آئے تاکہ کسی بھی الزام کے تحت اسے پویلین نہ جانا پڑے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193080 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More