١٨ مارچ ایک تاریخی دن جس روز
ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا یہ دن اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے
اور اس اعتبار سے ایک تاریخی دن ہے کہ اس دن سندھ کے شہری علاقوں میں ایک
عوامی نمائندہ جماعت قائم ہوئی جو پڑھے لکھے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے
نوجوانوں پر مشتمل تھی ان نوجوانوں کا ایک ہی مقصد تھا عوام کی خدمت۔ اور
ان نوجوانوں کی قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں تھی کہ جسے لوگ الطاف حسین
کے نام سے جانتے ہیں۔ الطاف حسین ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک ارادے کا نام ہے
جہد مسلسل کا نام ہے۔ جو حق کی راہ میں کسی بھی طاقت کے سامنے جھکنے سے
انکاری رہا اور جس کے قول و فعل اور جس کے عظم و ارادے نے بڑے بڑے بت زمیں
بوس کردیے۔
اصل مسائل کی جڑ سیاسی ناخواندگی ہے۔ قوم کی اکثریت یعنی ٩٨ فیصدی عوام کو
سیاسی شعور، سیاسی تربیت دی ہی نہیں گئی، اور دی بھی کیسے جاتی انہیں تو
روٹی کپڑا مکان اور پھر شادی بیاہ کے مسائل نے ہی اس قابل نہیں چھوڑا جو وہ
سیاسی شعور اور علم و آگہی جیسی عیاشیوں میں پڑتے۔ ان کو اپنے حقوق و فرائض
سے کبھی آگاہ ہونے ہی نہیں دیا گیا اور ہمیشہ یہ باور کرایا گیا کہ تم سب
کمی کمین اور رعایا ہو اور تمہارے مالک اور تمہارے آقا وہ دو فیصد طبقہ ہے
جس میں یا تو جاگیردار، وڈیرہ، صنعت کار یا ایسی سوچ رکھنے والے ہیں۔
ملک کے باشعور عوام (جو کسی وڈیرہ، جاگیردار اور ایسے ہی کسی فیوڈل لارڈز
کے زیر اثر نہیں) اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مملکت خدادا پاکستان کے سارے
وسائل جس دو فیصدی طبقے کے پاس ہیں ملک کے مسائل اسی دو فیصدی طبقے ہی کی
وجہ سے ہیں۔ یعنی ٢ فیصدی فیوڈل طبقہ سارے وسائل پر قابض اور سارے مسائل کا
ذمہ وار ہے۔ اور ٩٨ فیصدی عوام وہ بے چارے کچھ بولتے بھی تو کیسے کہ ان کو
تو اس بات کا بھی حق نہیں تھا کہ وہ سوچ بھی سکیں چنانچہ بولنا تو بہت دور
کی بات تھی۔
کیا بیشتر ہوشمند پاکستانی اس بات سے آگاہ نہیں کہ خراب حالات سے ان پر کیا
اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ بخوبی
سمجھتے ہیں مگر شان بے نیازی یا بے چارگی سے بس کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں
کہ کہ بھائی جو بھی ہوا کرے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہم کیا کرسکتے ہیں ! ارے
بھائی اور کیا باہر سے آکر کوئی کرے گا، ہم کیوں نہیں کرسکتے؟
پھر لوگ جان چھڑانے والے انداز سے کہہ دیتے ہیں کہ سیاست اور ملک کو مسائل
کی دلدل سے نکالنا ہم مڈل کلاس والوں کا کام نہیں ہمارے پاس اختیارات نہیں
ہیں۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔
بس کرو سوچنا شروع کرو بھائیوں کہ سارے مسائل کا حل شروع ہی یہاں سے ہوتا
ہے کہ ہم یہ سوچ پیدا کرلیں کہ کیا ہوا جو ہم مڈل کلاس سے ہیں اور ہمارے
پاس اختیارات نہیں ہیں ، تو نا ہوا کریں ہمارے پاس فہم و فراست تو ہے! قوم
کا درد تو ہے ! مسائل سے آگہی تو ہے ! اور مسائل کا حل ہمارے کھلے دل و
دماغ میں موجود ہے ! اور ہم چونکہ ٩٨ فیصدی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسلیے
ہم سمجھتے ہیں کہ ٩٨ فیصدی عوام کے اصل مسائل اور پریشانیاں کیا ہیں ۔ ارے
بھائی ہم ہی تو دراصل سمجھتے ہیں اپنے جیسے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے
لوگوں کے ان حقیقی مسائل کو کہ جن کو یہ اشرافیہ یہ مراعت یافتہ ٢ فیصدی
طبقہ نہیں سمجھتا، سمجھ بھی کیسے سکتا ہے یہ وسائل پر قابض طبقہ کہ جس طبقے
کے افراد کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ اگر نلوں میں پانی ندارد ہو اور گھروں
میں بجلی نہ آتی ہو تو کیسے دن گزارا جاتا ہے۔ جس طبقے کو یہ معلوم نہ ہو
کہ کمانے والا ایک ہو اور کھانے والے چار ہوں تو وسائل کے تحت مسائل کیسے
حل کیے جاتے ہیں۔ جس طبقے کے بھولپن کا یہ حال ہو کہ جب انہیں یہ پتہ چلے
کہ عوام کو روٹی میسر نہیں ہے تو وہ کمال معصومیت سے دریافت کرتے ہوں کہ
اگر روٹی نہیں ملتی تو لوگ کیک کیوں نہیں کھالیتے؟ ۔ تو ایسے طبقے پر تکیہ
کرنا کہ وہ ٩٨ فیصدی عوام کے مسائل کو سمجھتا ہوگا اور ان مسائل کو حل کرنے
کی سعی کرے گا کیا یہ حقیقت پسندی کہلائے گی یا بے وقوفی۔
سیاست دانوں نے سیاست میں شمولیت یعنی انتخابات میں ہونے والے اخراجات کو
اس قدر بڑھاوا دیا ہے اور عام شہری کو یہ باور کرانے کی مکمل کوشش کی ہے کہ
سیاست کرنا مڈل کلاس والوں کا کام نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مڈل کلاس والے
اچھوت ہیں کہ ان پر صرف براہمن یا اونچی زات والے فیوڈل ہی حکومت کریں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک بڑے بڑے فیوڈلز، جاگیرداروں، سرمایہ داروں،
وڈیروں اور خوانین نے ملک میں حکومتیں قائم کرکے مملکت عزیز میں کونسی دودھ
اور شہد کی نہریں بہادیں ہیں کہ لوگ سوچیں کہ ٢ فیصدی طبقہ ہی ملک کے سیاہ
و سپید کا مالک ہے۔ کس نے صحیح معنوں میں مملکت پاکستان کو مسائل کے گرداب
سے نکالنے کی کوشش کی۔
ہاں کوششیں دیکھنی ہیں تو ٢ فیصدی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر اس خاندان کی
مالی حیثیت پر نظر دوڑائیں جنہوں نے ملک کی سیاست میں حصہ لیا بلکہ صحیح
کہا جائے تو ملک کی سیاست سے حصہ لیا اور جن کے مربعوں کی تعداد ٥٠ تھی ان
کے مربعوں کی تعداد اب ٥٠٠ سے تجاوز کرگئی ہے۔ جن کے پاس ایک گھر رہنے کا
تھا اب ان کے پاس ہر بڑے شہر میں ایک ایک گھر یا بنگلہ موجود ہے جن کے اپنے
پاس بمشکل ایک گاڑی ہوتی تھی اب ان کے ہر ہر بچے کے پاس جدید سے جدید
گاڑیاں ہیں جو خود تو ملک میں جیسے تیسے پڑھ سکے مگر ان کے بچے ملک ملک میں
پڑھ رہے ہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان ابن سیاستدان جب کچھ
نہ کرسکے تو تم مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کیا کرلو گے۔ یہی تو سوچنے کی
بات ہے کہ جب وہ سیاستدان ابن سیاستدان کچھ نہ کرسکے جبھی تو ہمیں کچھ
کردکھانے کا موقع ملا ہے اور ہمیں کرنا ہے۔
پاکستان میں حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر صرف ایک ہی جماعت یقین محکم
رکھتی ہے اور وہ ہے متحدہ قومی موومنٹ کہ جس کے لیڈران اور کارکنان سب کے
سب متوسط یعنی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جس کے منتخب رہنماؤں کو سب جانتے
ہیں کہ ان کا ماضی اور حال کیسا ہے۔ |