14اگست کا سوال ...سیف وسبو…شفقت نذیر
(شفقت نذیر, Stoke-on-trent UK)
قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنے
آپ سے سوال پوچھتی ہیں۔ کیا کھویا؟ کیا پایا؟ کہاں غلطی کی اور کہاں سبق
سیکھا؟ سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لئے تیراکی میں مہارت ضروری نہیں،
کبھی کبھی اس بحرِ بے کراں میں بے دھڑک چھلانگ لگا دینی چاہئے۔ فکر و احساس
کے بے شمار خزانے اس کی تہہ سے برآمد ہوتے ہیں۔ ہر سال 14اگست آتی ہے اور
یوم آزادی کو پوری قوم شاندار طریقے سے مناتی ہے، خوشیاں چارسو دکھائی
دیتی ہیں، سبز ہلالی پرچم اپنی بہار دکھاتے ہیں، تقاریر بھی ہوتی ہیں۔ اس
دن کی مناسبت سے 1947ء کے واقعات اورقربانیوں کا ذکر ہوتا ہے، لٹنے کی
داستانیں زبان زدعام ہوتی ہیں اور پھر یہ دن بھی شام میں ڈھل جاتا ہے۔ برقی
قمقموں اور چراغاں کے بعد 14گست 15اگست کے ندھیرے میں بدل جاتی ہے…! لیکن
آج تک قوم نے اپنے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ یہ آزادی جو ہم نے بے
بہا قربانیوں اور اپنے قائد کی رہنمائی سے حاصل کی تھی کیا ہم صحیح معنوں
میں اس کے ثمر سے بہرمند ہوسکے ہیں؟ کیا ہم اپنے ملک کو قائداعظم کا
پاکستان بنا سکے ہیں؟ اس بات کو کچھ دیر کیلئے بھول جائیں کہ بعد میں آنے
والے لیڈروں یا طالع آزماؤں نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا؟ بحیثیت قوم کیا
ہم نے اپنے فرائض منصبی ادا کئے؟ کیا پاکستان کے عوام اس شعور کا مظاہرہ
کرسکے جو ایک زندہ اور پائندہ قوم کا خاصہ ہوتا ہے۔ سب کچھ کرپٹ سیاستدانوں
اور ساری ذمہ داری طالع آزماؤں پر ڈال کر کیا پوری قوم بری الذمہ ہوجاتی
ہے؟ ہر ایک اگر اپنی اپنی ذمہ داری کا حساب کرنا شروع کرے تو زیادہ ذمہ
داری عوام پر آتی ہے ہم اپنے حکمران خود منتخب کرتے ہیں، انہیں ووٹ دے کر
ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور اگر دھاندلی کی بات کی جائے تو دھاندلی بھی ہم
ہی کرتے ہیں۔ یہ کون ٹھپے لگا رہا ہوتا ہے، امیدوار خود آکر ٹھپے نہیں
لگاتا۔ یہ پولیس، یہ سرکاری ملازم، یہ سرکاری عہدے دار یہ سب کون ہیں؟
افسوس ہمارے اندر صرف 14اگست والے دن ہی قومیت ابھر کر آتی ہے اس کے بعد
سال کے 364دن ہم ’’نیشنل ازم‘‘سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ رشوت لینے والوں کو
گناہگار اور رشوت دینے والوں کو مجبور تصور کرنے والا معاشرہ کبھی بھی
متوازن اور انصاف پسند نہیں ہوسکتا۔ ہم رشوت لینے والوں کو ان کا حق سمجھ
کر رشوت دیتے ہیں اور خود کو مجبور کہہ کر الزام زمانے پر لاد دیتے ہیں
لیکن یہ کبھی سوچا ہے کہ اس کلچر کو فروغ دینے میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے اور
کیا کبھی اس کرپشن کلچر کے خلاف کوئی متفقہ آواز اٹھی ہے؟ خود کو کمزور
کہہ کر جان تو چھڑائی جا سکتی ہے لیکن کوئی بھی قوم کبھی کمزور نہیں ہوتی،
بشرطیکہ اس کی سوچ، فکر اور عمل بحیثیت قوم کے ہو۔ آج ہم قصور کے سکینڈل
کا رونا رو رہے ہیں۔ معاف کیجئے گا پاکستان کا ہر شہر قصور سے بھی بڑے بڑے
سکینڈل دبائے ہوئے ہے یہ تو میڈیا کی نظر میں آگیا ورنہ تویہ فعل پاکستان
میں ایک رواج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں حصول پاکستان کا مقصد ایک فلاحی ریاست کا قیام
تھا جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ کرتی۔ لیکن
قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان آج کا پاکستان نہیں ہوسکتا۔ ہاں اسے
جاگیرداروں، صنعت کاروں، وڈیروں، سیاست دانوں طالع آزماؤں اور بیورو
کریٹس کا پاکستان تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ غریبوں کا پاکستان ہرگز نہیں
ہے جو گزشتہ 65برسوں سے انہیں طبقات کی سازشوں کا شکار ہے اور ان کی
حکمرانی کے لئے بطور ایندھن استعمال ہو رہے ہیں۔ وسائل اور مسائل کی اس
مدوجذز میں وسائل پر قابض یہ طبقات عوام کو مسائل کے گھن چکر میں خود ڈالتے
ہیں جبکہ سارے استثنیٰ، این آر و اور قانون انہیں قابضین کے لئے بنائے
جاتے ہیں۔ ہر قسم کی مراعات، نوکر چاکر، گاڑیاں، دولت، بنگلے، اس مخصوص
طبقے کا حق بن چکے ہیں اور اس کے لئے جائز و ناجائز، حلال اور حرام کی کوئی
قید نہیں جبکہ عوام کے لئے ٹیکسوں کی بھرمار، لوڈ شیڈنگ کا عذاب، عدم تحفظ
کی سولی اور مہنگائی کا جن مقدر بنا دیا گیا ہے۔ جب تک عوام ایک قوم نہیں
بنتی اور اپنے حق کے لئے نہیں لڑتی، اپنے حکمران دیکھ بھال کرمنتخب نہیں
کرتی یہ اور ایسی بہت سی 14اگست آتی رہیں گی اور یوں ہی ایک دن کی آزادی
ہماری یہ قوم مناتی رہے گی لیکن اس چکر دیو سے کبھی بھی نہیں نکل پائے گی۔
ہم کب تک سیاست دانوں اور غلط لیڈر شپ کا الاپ الاپتے رہیں گے اور یہ کہتے
رہیں گے کہ ہمارے ہاں قابل لیڈر شپ پیدا ہونا بند ہوگئی ہے۔ بہترین لیڈر ہر
دور میں موجود ہوتے ہیں لیکن یہ ہم ہی ہیں جو انہیں بہترین تو کہتے ہیں
لیکن جب ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو ہم اپنے دوستوں، اپنی برادریوں والوں
کو تاک تاک کر ووٹ دیتے ہیں۔ اہل و نااہل کے سوالات اٹھنے ہی نہیں دیتے۔
چوہدری، راجے، وڈیرے، پیر سائیں۔ قائداعظم نے کہا تھا ’’پاکستان میں نے اور
میرے سیکرٹری کے ٹائپ رائٹر نے بنایا تھا…‘‘ وہ سیکرٹری جناب کے ایچ خورشید
تھے۔ آزاد کشمیر کے عوام نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا؟ آج بھی آزاد کشمیر
کےعوام کے نزدیک بہترین، مخلص، دیانت دار باصلاحیت لیڈر کے ایچ خورشید ہی
ہیں اور اس وقت بھی تھے جب انہیں ووٹ دینے کا وقت آیا لیکن خورشید صاحب
یہاں ہار گئے تھے کیونکہ لوگوں نے ووٹ اپنی برادریوں کو دیئے اور بدقسمتی
سے کے ایچ خورشید کی آزاد کشمیر میں کوئی برادری نہیں تھی اور یہی کچھ
پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ 14اگست آتی ہے اور گزر جاتی ہے لیکن ہم اپنے
آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھتے۔ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنے آپ سے
سوال پوچھتی ہیں۔ کیا کھویا؟ کیا پایا؟ کہاں غلطی کی اور کیا سبق سیکھا؟
سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لئے تیراکی میں مہارت ضروری نہیں کبھی
کبھی اس بحرِ بے کراں میں بے دھڑک چھلانگ لگا دینی چاہئے۔ فکر و احساس کے
بے شمار خزانے اس کی تہہ سے برآمد ہوتے ہیں:
شہر آسیب میں صرف آنکھیں ہی نہیں کافی
اُلٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا |
|