کتاب چہرہ‘‘ پر خادم اعلیٰ کی رونمائی"
(سیف و سُبو۔۔۔۔۔۔ شفقت نذیر, Stoke-on-trent UK)
ایک ڈرامے کا یہ فقرہ کہ جس سسٹم
میں سب چلتا ہے پھر وہ سسٹم ہی نہیں چلتا میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ نہ
جانے کیوں بار بار یہ فقرہ میرے دماغ کے دروازے پر ایسے دستک دے رہا تھا
جیسے کوئی قرض خواہ بے دریغ دروازے کو بجاتا ہے۔ میری یہ کیفیت اس وقت سے
ہے جب سے میں نے جنگ لندن کے کالم نگار سبط حسن گیلانی صاحب کی آبائی زمین
پر قبضے کی خبر پڑھی ہے۔ اگرچہ اس خبر کے بعد کچھ حرکت ہوئی ہے۔ اس بات کا
حکومتی اداروں کی طرف سے نوٹس لیا گیا ہے لیکن یہ کتنا دیرپا ہوتا ہے یہ
وقت ہی بتائے گا۔ ملک کے اندر حالت یہ ہے کہ لینڈ مافیا اس قدر طاقت ور
ہوچکا ہے کہ عام آدمی سے لیکر اہم شخصیات تک اس کی دسترس سے نہیں بچ پاتے۔
حکومتیں بھی اس سلسلے میں بے بس دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ان کے مفادات بھی
قبضہ گروپوں اور لینڈ مافیا سے وابستہ ہوتے ہیں۔ مجھے میرے ایک دوست نے
لینڈ مافیا کی طاقت کے حوالے سے اپنے خاندان کے ساتھ پیش ہوا ایک قصہ سنایا
کہ لاہور میں ایک جدید علاقے میں ان کی کوٹھی تھی جس پر ایک قبضہ گروپ نے
قبضہ کرلیا اور وہ کسی طور پر اس قبضے سے دستبردار نہیں ہورہے تھے۔ پولیس
اور مقامی انتظامیہ کی مدد بھی کچھ نہیں کرسکی آخر کار ہم نے فوج میں ایک
اعلیٰ عہدے پر فائز اپنے ایک رشتہ دار سے اس حوالے سے مدد طلب کی جنہوں نے
اس قبضہ گروپ کے لیڈروں کو اپنےدفتر میں طلب کرکے کوٹھی خالی کرنے کا حکم
دیا۔ آگے سے انہوں نے جو جواب دیا وہ بڑا ہی حیران کن تھا انہوں نے کہا کہ
آپ ہم سے اس کوٹھی کی دگنی قیمت لے لیں لیکن ہمیں اسے خالی کرنے کا نہ
کہیں کیونکہ اس سے ہماری ساکھ پر حرف آئے گا۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ ہمیں اس
کوٹھی کی دگنی قیمت مل رہی تھی اس لئے ہم نے لے لی اور وہ کوٹھی ان ہی کے
پاس رہی۔ اس واقعہ سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ قبضہ مافیا کسی قیمت
پر بھی اپنی ’’ساکھ‘‘ پر بٹا نہیں لگنے دیتی اگر بہت زیادہ طاقت ور لوگوں
سے اس کا واسطہ پڑے تو وہ اس طرح ڈیل کرلیتے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ
میں انہوں نے کی۔ تارکین وطن تو بے چارے کس کھیت کی مولی ہیں۔ گزشتہ کچھ
عرصہ سے چند ایسے ادارے ضرور بنائے گئے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
وہ تارکین وطن کے معاملات اور مسائل کے حل کے لئے مدد اور تعاون فراہم کرنے
کی غرض سے قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن ان کی کارکردگی افادیت اور حیثیت کا تعین
ابھی تک پوشیدہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چند لوگوں کو ان کی خدمات کے عوض
نوازنے کے لئے ایسے نمائشی اداروں کا وجود قائم تو کیا گیا ہے لیکن سوائے
نوٹس لینے یا پھر نوٹس کروانے کے علاوہ ان کی کارکردگی کسی حوالے سے سامنے
نہیں آئی ایک آدھ کیس جوکہ میڈیا کی طرف سے ’’ہائی لائٹ‘‘ ہوگیا اس پر تو
کچھ کارروائی ڈال دی جاتی ہے لیکن عام آدمی کی رسائی بھی ان اداروں یا پھر
ان کے کارپروازوں تک تک ممکن نہیں، شاید میں غلط ہوں لیکن بظاہر تو یہی
تاثر ابھرتا ہے کہ اوورسیز کی جائیدادوں پر قبضے جیسے مسائل کے حل کے لیے
قائم یہ ادارے نمائشی ہیں۔
گزشتہ دنوں یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف
سوشل میڈیا پر آکر لوگوں کے سوالات کا جواب دیں گے ایک آس سی پیدا ہوچلی
تھی کہ عام لوگوں کی ان تک رسائی ممکن ہوسکے گی اور وہ واقعی عوام کے مسائل
حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اسی لئے وقت نکال کر ’’کتاب چہرہ‘‘ پر آرہے
ہیں اور براہ راست لوگوں کے سوالات لیکر ان کے جواب دیں گے لیکن جب
وزیراعلیٰ پنجاب کی رونمائی ہوئی تو شدید مایوسی ہوئی یہ درست ہے کہ لوگوں
کی طرف سے بہت سے سوالات پوچھے گئے تھے لیکن جن سوالات کا جواب دینے کے لئے
انہوں نے انتخاب کیا وہ بہت ہی سطحی سے تھے۔ اصل مسائل پر مبنی سوالات کو
وہ بالکل ہی گول کرگئے۔ ’’خادم اعلیٰ‘‘ نے گزشتہ اتوار کی رات کو اپنے
45منٹ کی وڈیو میں جو پہلا سوال چنا وہ گجر خان کی پولیس کے کچھ ملازمین سے
متعلق تھا جوکہ بغیر ڈیوٹی دیئے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ باقی سوالات چاول
کی قیمت میں اضافے، سیالکوٹ میں صنعتی آلودگی، ڈیرہ غازی خان میں بعض
سکولوں کی خطرناک حالت اور ایک سوال زراعت سے متعلق تھا۔پنجاب حکومت اور
انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو درپیش حقیقی مسائل و مشکلات کے حوالے
سے پوچھے جانے والے کسی سوال کا انہوں نے جواب نہیں دیا۔ان سے پوچھے جانے
والے کئی سوالات لینڈ مافیا سے متعلق تھے کہ جس نے سیاسی آشیرباد، پولیس
اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے نہ صرف نجی املاک پر قبضے جمائے ہوئے ہیں بلکہ
پنجاب حکومت کی اپنی زمینوں اور پارکوں پر بھی قابض ہیں۔ شاید انہیں اپنی
وال پر یہ سوالات نظر ہی نہیں آتے۔
پڑھنے والوں کا قحط ہے ورنہ
گرتے آنسو کتاب ہوتے ہیں
ایسا ہی ایک سوال معروف کشمیری صحافی اطہر مسعود وانی نے ان سے کیا اور ایک
ایسے پبلک پارک کی طرف ان کی توجہ دلائی کہ جس پر ایک عرصہ سے لینڈ مافیا
قابض ہے۔ سٹلائٹ ٹائون ایف بلاک راولپنڈی کا چنار پارک جسے وہاں کے رہائشی
اپنے صحن کی طرح استعمال کرتے تھے ناجائز طور پر قابض مسلح افراد کچے کمرے
بنا کر اس پارک میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنے سوال کے ساتھ کمشنر راولپنڈی
اور ڈی سی او کی تحریری رپورٹ بھی لگائی تھی لیکن یہ سوال بھی ان دوسرے
سوالات کی طرح توجہ حاصل نہیں کرسکا چونکہ لینڈ مافیا سے متعلق تھے چونکہ
میرا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اس لیے میں نے بھی اسی سوال کی تائید میں
خادم اعلیٰ سے سوال کیا تھا لیکن مجھے بھی کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ بات
پھر نظام کی آجاتی ہے ’’جس سسٹم میں سب چلتا ہے پھر وہ سسٹم ہی نہیں
چلتا‘‘ یہ ایک ڈرامے کا ہی تو ڈائیلاگ ہے۔ اور ہر طرف ڈرامہ ہی تو ہورہا
ہے۔ ہم غریب عوام کو تو زندہ رہنے کے لئے یا پھر مرنے کے لئے دونوں صورتوں
میں زہر ہی چاہئے کیونکہ
زہر مرنے کے لئے تھوڑا سا۔۔۔!
اور جینے کے لئے بہت سا پینا پڑتا ہے
|
|