بھارت نے دہشت گردی کی تمام حدیں پار کردیں، سیاسی و مذہبی رہنما
(عابد محمود عزام, karachi)
ایک عرصے سے بھارت نے پاکستان کی
سرحدوں پر جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں آئے روز سرحد
پر رہائش پذیر پاکستانی بھارتی فائرنگ اور گولا باری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
جمعہ کے روز تو بھارتی فورسز نے تمام حدود پار کرتے ہوئے بچوں اور خواتین
سمیت 9 افراد کو شہید اور لگ بھگ 50 کو زخمی کردیا ہے۔ پاکستان نے بھارتی
ہائی کمشنر کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا۔ اس سے پہلے بھی متعدد بار بھارتی
ہائی کمشنر کو طلب کیا جاچکا ہے، لیکن ابھی تک کوئی اثر نہیں ہوا اور
بھارتی جارحیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت کی جانب سے سرحد پر
ہونے والی بھارتی جارحیت کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ورکنگ
باونڈری کا معائنہ کیا اور کہا کہ بھارت نے غیر ذمے داری اور دہشت گردی کی
ہر حد پار کر لی ہے۔ سرحدی خلاف ورزیوں اور ملک میں دہشت گردی کے پیچھے
بھارتی مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ذرایع کے مطابق بھارتی فوج نے 15 جون سے
لے کر اب تک 140 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی ہے اور اب تک پاکستانی
علاقوں میں 25 افراد شہید اور 107 زخمی ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے سرحد پر
بھارتی جارحیت کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا ہے اور وزیراعظم میاں نواز
شریف نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت کو
خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت خوش فہمی میں نہ رہے، جنگ کی صورت میں
بھارت کو بھارتی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے فوجی
مبصرین نے بھی سیالکوٹ ورکنگ باﺅنڈری کا دورہ کرکے بلااشتعال بھارتی فائرنگ
اور گولا باری سے شہریوں کے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا، جب کہ ان کی
جانب سے پہلے بھی بھارتی اشتعال انگیزیوں کا نوٹس لے کر یو این انسانی حقوق
کمیٹی کو آگاہ کیا جاچکا ہے، جب کہ امریکی صدر اوباما سمیت مؤثر عالمی
قیادتیں بھارتی جارحانہ کارروائیوں سے عالمی امن کو خطرہ محسوس کرکے بھارت
کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے وارننگ دے چکی ہیں۔
کچھ عرصے سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی مودی سرکار پاکستان دشمنی پر
مبنی اپنے ایجنڈے کے مطابق پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کیے
بیٹھی ہے اور وہ آئے روز کی بلااشتعال کارروائیوں سے پاکستان کی سیکورٹی
فورسز کو اشتعال دلاکر ان کی جوابی کارروائی کے بہانے باقاعدہ جنگ کا آغاز
کرنا چاہتی ہے۔ جمعہ کے روز ننگی بھارتی جارحیت تو پاکستان کی سا لمیت کے
خلاف اس کے عزائم کی کھلی چغلی کھا رہی ہے۔ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن
اور ورکنگ باﺅنڈری پر جو کچھ ہورہا ہے، اگر اس سلسلے کو بند نہ کیا گیا تو
اس خطے میں کسی نئی جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کے وزیراعظم
نریندر مودی کا لب و لہجہ ہمیشہ تلخ اور سخت رہا ہے۔ جب کہ بھارتی جارحیت
کے جواب میں پاکستان کا ردعمل صبر و تحمل پر مبنی چلا آ رہا ہے۔ پاکستان نے
بھارتی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے جو ایک مہذب اور مناسب طریقہ کار
ہے، لیکن مودی سرکار دنیا کو خاطر میں لائے بغیر خوامخواہ کی جنگ مسلط کرنا
چاہتی ہے اور اسے یہ احساس بھی نہیں کہ یہ جنگ روایتی نہیں، بلکہ ایٹمی
ہوگی، جو بالآخر پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے۔ دفاعی تجزیہ کار
یہی کہہ رہے ہیں مودی کا جنگی جنون خطے کے امن کو برباد کرکے رکھ سکتا ہے
اور اس سے پورا خطہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا، خود بھارت کو بہت
نقصان ہوگا۔ کئی روز سے سرحد پر جاری بھارتی جارحیت کے حوالے سے روزنامہ
”اسلام“ نے مختلف مذہبی و سیاسی رہنماﺅں سے بات چیت کی ہے، جو قارئین کی
نذر کی جاتی ہے۔
حافظ حسین احمد(سیکرٹری اطلاعات، جمعیت علمائے اسلام)
مودی انٹرنیشنل دہشت گرد ہے۔ اس کی دہشت گردی کی وجہ سے ہی اس پر امریکا
میں داخلے پر پابندی عاید کی گئی تھی اور آج وہ بھارت کا وزیراعظم بنا ہوا
ہے۔ اس کو ایک خاص مقصد کے لیے بھارت کا وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد
پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس کے لیے وہ پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا
ہے۔ بھارت کے انتہا پسند حلقوں میں اسے کافی مقبولیت حاصل ہے۔ بھارت کے
تمام انتہا پسند پاکستان کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، اس لیے بھارت
پاکستان کی ترقی کو روکنے کے لیے کبھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کرواتا ہے
اور کبھی سرحدوں پر جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستان
کا موقف مضبوط ہے اور کشمیری عوام بھی پاکستان کے موقف سے مطمئن ہیں۔ جبکہ
ہمارے موجودہ حکمرانوں کی سمجھ نہیں آتی۔ بھارت تو ہمارے ملک میں دہشت گردی
کرواتا ہے جب کہ ہمارے حکمران اس کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ میاں صاحب
مودی کے ساتھ لوہے کا کاروبار کرنے کے ارادے کے ساتھ بھارت گئے تھے۔ حافظ
حسین احمد کا کہنا تھا کہ بھارت چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ
ہوجائے۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا ماحول بنا ہوا ہے اور
اگر جنگ نہیں چھڑتی تو یہ معجزہ ہی ہوگا۔ ان حالات میں حکومت کو اپنی ذمے
داری ادا کرنی چاہیے۔ جنرل راحیل شریف ڈٹ کر بیان دے رہے ہیں۔ یہی بیان
دینا وزیراعظم کی ذمے داری بنتی تھی، لیکن ان کی طرف سے ایسے بیانات نہیں
آرہے جیسے جنرل صاحب دے رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو بھارتی جارحیت کا جواب
حکمت سے دینا چاہیے۔ حکمت میں سب کچھ آجاتا ہے۔ جس رویے کی ضرورت ہو اسی
رویے سے جواب دیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری
خارجہ پالیسی اور قیادت بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ حکومت کی جانب سے واضح حکمت
عملی سامنے نہیں آئی اسی لیے آرمی چیف کو بیان دینا پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا
کہ ملک میں ”را“ دہشت گردی کررہی ہے، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ”را“ کے
ایجنٹوں کو ”راہ“ کون دے رہا ہے۔ وہ خود تو یہاں آکر کام نہیں کررہے۔
یقیناً ان کو یہاں موجود لوگ ہی ”راہ“ دے رہے ہیں۔ لہٰذا ”ر‘ا‘ کے ایجنٹوں
کو ”راہ“ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو اور ان کو کیفر کردار تک
پہنچایا جائے۔ قوم کے سامنے ان کو بے نقاب کیا جائے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ
ایک طرف تو بھارت کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کی بات کی جاتی ہے جب کہ
دوسری جانب نواز شریف ان کے ساتھ کبھی بسوں کی بات کرتے ہیں، اور کبھی پیاز
اور کبھی تجارت کی بات کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی باتیں کی
جاتیں ہیں، دونوں متضاد باتیں ہیں۔ نواز شریف کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر
خدانخواستہ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو جس ملک کا جتنا حجم ہوگا،
نقصان بھی اسی اعتبار سے ہوگا۔
لیاقت بلوچ( جنرل سیکرٹری، جماعت اسلامی)
بھارت پاکستان میں مسلسل ہر طرح کی جارحیت کا ارتکاب کرکے بے گناہ شہریوں
کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے، جو سراسر دہشت گردی ہے۔ بھارت ایک عرصے سے
پاکستان کے اندر اور سرحدوں پر دہشت گردی میں ملوث ہے، اس کے باوجود حکومت
پاکستان کی طرف سے ہمیشہ کمزور موقف اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کمزور موقف کی
وجہ سے ہی بھارت کو شیطانی کھیل کھیلنے کی ہمت ہوتی ہے۔ بھارت ایک طرف
پاکستان کی سرحدوں پر رہائشی علاقوں پر جارحیت کررہا ہے۔ دوسری جانب اس نے
کشمیر میں اپنی آزادی کا مطالبہ کرنے والے کمزور اور نہتے کشمیریوں پر
مظالم کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ کشمیری عوام پوری جرا ¿ت کے ساتھ اپنے
آزادی کے مطالبے پر قائم و دائم ہیں۔ وہ کسی صورت بھارت کی بالادستی قبول
نہیں کریں گے۔ جب کہ بھارت وہاں ہر طرح کا ناروا سلوک کرکے ان کو دبانا
چاہتا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ قومی سطح پر مؤثر خارجہ حکمت
عملی اپنائی جائے اور کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ اور پوری دنیا کے
سامنے واضح کیا جائے اور بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب
کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ
کا کہنا تھا کہ بھارت ملک کے اندر اور سرحدوں پر ہر طرح کی دہشت گردی کررہا
ہے۔ ملک کے اندر بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ تنظیم ”را“ کا نیٹ ورک موجود
ہے، جس کے ذریعے پورے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں اور
پاکستان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، کیوں کہ بھارت کو یہ گوارا نہیں کہ
پاکستان ترقی کرے اور یہاں امن قائم ہو۔ پاکستان حکومت ہر سطح پر بھارت کی
جارحیت کا جواب دے۔ اس کے لیے سیاسی اور اس کے علاوہ ہر ذریعہ استعمال کیا
جائے۔ قوم کو جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار کیا جائے اور پوری قوم اور
حکومت بھارتی جارحیت کے سامنے ڈٹ جائے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا
کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی وزیر خارجہ ہے ہی نہیں اور
نہ ہی حکومت کی خارجہ پالیسی واضح ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بھارتی جارحیت کے
خلاف قدم اٹھائے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ سیاسی سطح پر بھی کوئی واضح
حکمت عملی اپنائے۔ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے
اور نہ ہی وہ آج پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے ملک میں
دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اب جبکہ ملک میں”را“ کے دہشت گردوں کے خلاف
کارروائی ہوئی ہے تو بھارت تلملا رہا ہے۔
مولانا احمد لدھیانوی(سربراہ، اہل سنت والجماعت)
بھارت کی جانب سے مسلسل جارحیت بڑھ رہی ہے، لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک
کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت نے سیالکوٹ
ورکنگ باﺅنڈری پر دہشت گردی کا ارتکاب کرکے 8 شہریوں کو شہید کردیا ہے
،لیکن وہاں حکومت کا کوئی نمائندہ تک نہیں گیا۔ آرمی چیف نے خود وہاں کا
دورہ کیا ہے۔ وہاں جانا جہاں آرمی چیف کی ذمے داری تھی، وہیں حکومت کی بھی
ذمے داری بنتی تھی، لیکن حکومت تو بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے چکر میں
رہتی ہے۔ حکومت کبھی تجارت کے نام پر بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھاتی ہے اور
کبھی بسوں کے نام پر تعلقات بڑھاتی ہے۔ حالانکہ مودی حکومت پاکستان کے خلاف
جارحیت کا ارتکاب کررہی ہے۔ موودی پاکستان کو کبھی پھلتا پھولتا نہیں
دیکھنا چاہتا، اس لیے اس نے جارحیت مسلط کی ہوئی ہے۔ مودی کے خطرناک عزائم
دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ مودی کی طرف سے کوئی بڑا اٹیک بھی ہوسکتا ہے۔ ان
حالات میں چاہیے کہ فوج، حکومت اور پوری قوم ایک صفحے پر جمع ہوجائیں۔ پوری
قوم تو پہلے سے ہی بھارت دشمنی کے خلاف ایک ہے۔ حکومت کو بھی اسی طرح سخت
جواب دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی جارحیت کے خلاف سخت موقف اپنانا
چاہیے اور سخت سے سخت جواب دیا جائے۔ کیوں کہ اب تو بھارت نے حد ہی پار
کردی ہے۔ سیالکوٹ میں جو واقعہ ہوا ہے، ایسا تو جنگوں کے دوران ہی ہوتا ہے۔
گویا بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان
میں بھارت کی خفیہ کی بدنام تنظیم ”را“ کے ایجنٹ دہشت گردی میں ملوث ہیں،
ان کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے اور ان جماعتوں پر بھی کڑی نگاہ رکھنی
چاہیے۔ بھارت کے ساتھ جن کے تعلقات کی باتیں میڈیا میں آتی رہی ہیں، ان کو
نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان حالات میں پاکستان کو مضبوط خارجہ پالیسی
اپنانی چاہیے، کیوں کہ خارجہ پالیسی کی کمزوری کی وجہ سے ہی کبھی مذاکرات
سے انکاری ہوجاتا ہے اور کبھی سخت جواب دیتی ہے۔ اس کی طرف سے ہر بار سخت
جواب آتا ہے، جب کہ پاکستان کی طرف سے ایسا نہیں ہے۔
طلال چودھری (رہنما، مسلم لیگ(ن)
نریندر مودی بھارت میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف جارحیت
کا ارتکاب کررہا ہے۔ بھارت کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ اب بھی فوج اور قوم
بھارت کا منہ توڑ جواب دے رہی ہے اور دیتی رہے گی ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف
نے کہا ہے کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے۔طلال چودھری کا کہنا تھا کہ
پاکستان میں بھارت کے ایجنٹ موجود ہیں۔ ”را“ کے دہشت گرد ملک میں دہشت
گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں، جس کے مکمل شواہد موجود ہیں۔ ان شواہد کو
اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف واضح
موقف ہے۔ گھٹنوں کے بل جینے سے پاﺅں پر کھڑے ہوکر مرنا بہتر ہے۔ ہم بھارت
سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ ہم نے جو واضح موقف اپنایا ہے، اسی پر
قائم رہیں گے۔ ہم معاملات نرمی سے سلجھانا چاہتے ہیں لیکن بھارت جارحیت کا
ارتکاب کررہا ہے۔ اس کا حل کئی طرح سے نکل سکتا ہے، لیکن اگر وہ جارحیت سے
باز نہ آیا تو ہمیں بھی ایسا کرنا پڑے گا۔ جیسا وہ کرے گا ردعمل بھی ویسا
ہی ہوگا۔ بھارت نے اپنے عیب چھپانے کی بہت کوشش کی، لیکن ملک بھر سے اس کے
ایجنٹ پکڑے گئے ہیں اور اس کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔
زاہد خان( رہنما، عوامی نیشنل پارٹی)
بھارت نے ایک عرصے سے پاکستان کی سرحدوں پر جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا
ہے، جس سے کئی پاکستانی شہید بھی ہوچکے ہیں۔ یہ تشدد پسندانہ روایہ کسی بھی
ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ یہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔ ہم تو عدم تشدد کے
پیروکار لوگ ہیں۔ ہمارا تو نظریہ یہ ہے کہ لڑائی جھگڑے اور تشدد سے مسائل
حل نہیں ہوا کرتے، بلکہ مسائل تو میز پر بیٹھ کر حل ہوتے ہیں اور بات چیت
کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالنا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے آج بات چیت کی
بجائے گولی سے جواب دیا جاتا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے
ہیں، لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوتے، یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ مسائل اسی
وقت حل ہوں گے جب نیک نیتی کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جائے گی۔ بھارت کو
بھی چاہیے کہ جارحیت کا سلسلہ روک کر میز پر آکر بات کرے۔ خطے کے مفاد میں
یہی ہے اور یہی عوام اور دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، لیکن بھارت نے
مذاکرات سے ہی انکار کردیا ہے۔ اس کو سوچنا چاہیے کہ تشدد پسندانہ رویے سے
مسائل بڑھیں گے، دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ ایک طرف بھارت کی جانب سے
سرحدی خلاف ورزی جاری ہے، جب کہ دوسری جانب ”را“ کے ایجنٹ ملک میں اپنی
کارروائیاں کررہے ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ نہ ہی یہ مسئلے کا حل ہے۔
دونوں ملکوں کو مل بیٹھ کر مسئلے کا حل میز پر تلاش کرنا چاہیے۔ |
|