پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30اگست کو
لا پتا افراد ( یا جبری خفیہ حراست میں لیے جانے والے) افراد کا عالمی دن
منایا جاتا ہے ۔اس دن کو عام طور پر لاپتا افراد کے لواحقین کو ٹی وی شوز
میں بلایا جاتا ہے ۔ان سے ہمدردی کی جاتی ہے ۔اخبارات و رسائل میں مضامین
لکھے جاتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے اعلی عہدے داروں کی طرف سے پیغامات
نشر کیے جاتے ہیں ۔ان کے یہ پیغامات جن میں لاپتا افراد کے لواحقین سے
ہمدردی ہوتی ہے۔ اخبارات کی زینت بھی بنتے ہیں ،ایسا ہر سال ہوتا ہے اور اس
کے بعد لاپتا افراد اور ان کے بے بس ،مجبور لواحقین کو ایک سال کے لیے بھول
جاتے ہیں ۔لیکن وہ جن کے باپ،بھائی ،خاوند لاپتا ہو جائیں وہ کہاں بھولتے
ہیں ۔ان کی تو آنکھوں میں اپنوں کی صورت بسی ہوتی ہے جو ان کو کسی پل چین
نہیں لینے دیتی ۔کہتے ہیں کہ کوئی اپنا مر جائے تو صبر آ جاتا ہے لیکن گم
ہو جائے تو صبر نہیں آتا ،لمحہ بہ لمحہ دل بھر آتا ہے ان کی یاد میں ،ہر
وقت ان کا انتظار رہتا ہے ۔اس کرب کو وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کا اپنا
کوئی بچھڑ جائے ۔گم ہو جائے ،لاپتا ہو جائے ۔
یہ دن پہلی بار لاطینی امریکا کے ملک کو سٹاریکا میں خفیہ حراست کے خلاف
کام کرنے والی ایک تنظیم کی جانب سے 1981ء میں منایا گیا۔ جس کے بعد ہر سال
30اگست کو یہ دن منایا جاتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ سیاست دانوں نے اس معاملے پر سوائے بیان بازی کے اور کچھ
نہیں کیا۔ایک بیان دینے کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں ۔سوال یہ
بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا شہریوں کے جان و مال اور املاک کے تحفظ کی ذمہ داری
حکومت وقت کی نہیں؟ بلوچستان کے مختلف اضلاع سے 9000 سے زائد افراد لاپتا
ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد غلط بتائی گئی ہے ۔اس میں کوئی
سچائی نہیں ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے علاوہ سندھ اور خیبر پختوانخواہ،اور
پنجاب سے بھی درجنوں افرد لاپتا ہیں ۔دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماضی
کی نسبت موجودہ حکومت میں یہ صورتحال اب خاصی بہتر ہو چکی ہے ۔
اس بات کی تصدیق ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے بیان میں کی کہ
جبری گمشدگیوں میں کمی آئی ہے۔ ایک عدالتی کمیشن بنایا گیا ہے جو اپنا کام
کر رہا ہے ۔گاہے بگاہے لواحقین کے احتجاج بھی جاری ہیں ۔
احتجاج کرنے والوں میں ماما قدیر کا نام خاص طور پر اس وقت بین الاقوامی
سطح پر منظر عام پر آیا جب انھوں نے لاپتا افراد کے لواحقین کے ہمراہ کوئٹہ
سے اسلام آباد تک کا دو ہزار کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ پیدل طے کیا۔اسی طرح
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تحریک کی روح رواں آمنہ مسعود جنجوعہ
بھی ہیں جن کو کئی بار تشدد نشانہ بنایا گیا ہے،انھیں سڑک پر گھسیٹا گیا ۔
پاکستان میں سب سے زیادہ بلوچستان سے افراد کو غائب کیا گیا ہے ۔لا پتہ ا
فراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیم وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز نے
حکمران ،عدلیہ ،سیاسی و مذہبی جماعتوں کی بے حسی سے مجبور ہو کر کراچی سے
اسلام آباد تک لانگ مارچ بھی کیا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔جنرل ( ر)
پرویز مشرف کے دور سے لوگوں کو لاپتہ کیے جانے کا شروع ہونے والا یہ سلسلہ
پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بھی جاری رہا اور اب حکومت کی تبدیلی کے
باوجود جاری ہے ۔
کتنے افسوس کی بات ہے لوگ اپنے ہی ملک میں ’’اغوا‘‘ہو جائیں "لاپتا" ہو
جائیں ۔عوام کس کے پاس جائیں؟ ۔جب ان کی حکومت ہی ان کو تحفظ نہ دے سکے؟
۔پھر عدالتیں کس لیے ہیں ؟وہاں مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا ؟۔کسی شخص کو
محض الزامات کی بنیاد پر اٹھاکر غائب کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ جنگل کا
قانون اور کسے کہتے ہیں ؟۔
اگر لاپتا افراد اگر کسی جرم میں ملوث ہیں، مجرم ہیں۔ تو اسے قانون کے
حوالے کیا جائے۔ ماورائے قانون ان کو غائب کر دینا ،ان کی لاشوں کا ملنا
،اس پر احتجاج کرنے والوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟
۔ان لاپتا افراد کے لواحقین ایک عرصے سے تحریک چلا رہے ہیں ۔اس کے علاوہ
عدالتوں میں بھی اپنا مقدمات لڑ رہے ہیں ۔اس سے صرف یہ ہوا کہ اب تک چند
افراد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ حکومت کی حراست میں ہیں کیونکہ وہ
دہشت گردی میں مطلوب تھے ۔لواحقین کا کہنا ہے کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے
اگر ثابت ہو جائے تو ان کو سزا دی جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس پر شک
ہو اسے اٹھا لیا جائے اور پھر غائب کر دیا جائے ۔گھر والوں کو علم ہی نا ہو
کہ ان کو زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا ۔ |