کشمیر تنازعہ کی تاریخ

پاکستان و بھارت کے دوران پچھلے باسٹھ سالوں سے درد سر بنا ہوا ہے۔ پاک بھارت فوجیں تنازعہ کشمیر کی وجہ سے تین بار ٹکرا چکی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کشمیر کے قضیے نے برصغیر کو جوہری جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں آج کشمیریوں کو انکی خواہش کے مطابق حق خود ارادیت تفویض کرسکتا ہے؟ کیا جہادی تنظمیں دوبارہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کو ناکوں چنے چبوا کر ازادی کشمیر کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ان سوالات کا جوابات تلاش کرنے کے لئے ہمیں ماضی کے بند دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔

کشمیر پاکستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ کشمیر کی سرحدیں ایک طرف پاکستان جبکہ دوسری طرف چین و بھارت کے ساتھ ملتی ہیں۔ بانی قوم حضرت قائد اعظم نے کشمیر کی جغرافیائی صورتحال کی روشنی میں کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا۔ وادی کشمیر کے دیدہ زیب حسن، قدرتی مناظر بکھیرنے والے سرسبز و شاداب پہاڑوں و مستیوں کا سرور برسانے والے موسموں کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ کشمیر کی آبادی کا ستر فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

تقسیم ہند کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سالاری میں برصغیر پر قابض استعماری حکومت کے کل پرزوں نے جس چارٹر کو بنیاد بنا کر بٹوارے کے رہنما اصول بنائے تھے کی رو سے تمام ریاستوں کو پاکستان و بھارت کے ساتھ کھل الحاق کرنے کا اختیار دیا تھا۔ کشمیریوں کی اکثریت الحاق پاکستان کا نعرہ لگا چکی تھی مگر کشمیری راجہ ہری سنگھ نے انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے کشمیری قوم کی دلی امنگوں کا خون کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ27 اکتوبر1947 کو اتحاد کرلیا۔

بھارتی حکومت کے سیکریٹری وی پی مینن نے اسی روز جموں میں الحاق کی قرارداد پر کشمیری راجہ کے دستخط کروائے۔ کشمیری خطے پر تحقیق کرنے والے کئی محقیقین نے کشمیر و بھارت کے الحاق کی تاریخ24 اکتوبر بیان کی ہے۔ کشمیر و بھارت کے الحاق کے فوری بعد 27 اکتوبر1947 کو بھارتی افواج نے کشمیری مہاراجے کی درخواست کو بنیاد بنا کر جموں و سری نگر پر ہلہ بول دیا۔ بھارتی افواج کی آمد پر قائد اعظم غصے سے کانپنے لگے اور پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے تسلط سے بازیاب کروائیں تو گریسی نے قائد کے حکم کو یکسر مسترد کردیا۔ بھارتی قبضے کے رد عمل میں کشمیری نوجوانوں، قبائلی پٹھانوں نے بھارت کے خلاف آواز حق بلند کی اور بھارتی فوجیوں و حریت پسندوں کے درمیان خوب معرکہ آرائی ہوئی۔

بھارت نے17 جنوری1948 کو اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست دائر کردی۔ بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ مجاہدین کے روپ میں پاکستانی فوجی کشمیر میں لڑ رہے ہیں۔ بھارت نے سلامتی کونسل کو گارنٹی دی کہ بھارت کشمیریوں کو انکے حق خود ارادیت سے ضرور ہمکنار کریگا۔ بھارتی یقین دہانی کے بعد سکیورٹی کونسل نے پاکستان و بھارت سے جنگ بندی کی اپیل کردی۔25 جنوری1948 میں کشمیر کمیشن کا تقرر کیا گیا۔4 فروری1948 میں سیکیورٹی کونسل نے فیصلہ دیا کہ کشمیری مسئلے کا حل استصواب رائے سے کرایا جائے گا۔

21 فروری1948 میں سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درامد کروانے کے لئے کمیشن قائم کیا جو رائے شماری کے منصفانہ انعقاد کے لئے پاکستان و بھارت کی معاونت کے لئے بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رائے شماری کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے۔13اگست1948 کو یو این او نے پاک بھارت کو چار دنوں کے اندر جنگ بندی کا آڈر دیا تاہم جنگ بندی کی قرارداد پر یکم جنوری1949 کو عمل کیا گیا۔5 جنوری1949 کو سلامتی کونسل نے کہا کہ استصواب رائے ہی کشمیری جھگڑے کا انصاف پسندانہ حل ہے کیونکہ فرد واحد یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کو لاکھوں کشمیریوں کی آرا کو دھتکارنے کا کوئی حق نہیں۔ سلامتی کونسل نے ایک طرف جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کروانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کردئیے تو دوسری طرف استصواب رائے کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔

25 جنوری2009 کو پاک بھارت کے درمیان جنگ بندی لائن کا تعین کردیا تاکہ بھارتی و پاکستانی فوجی جنگ بندی لائن سے پیچھے ہٹ جائیں۔ جون1953 محمد علی بوگرا اور پنڈت نہرو کے درمیان ہونے والی کراچی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں استصواب رائے پر اتفاق کیا گیا۔ اپریل1954 میں وزرائے اعظموں کی ملاقات میں یہ طے پایا کہ دونوں ملک اپنے تنازعات گفت و شنید سے طے کریں گے مگر سچ تو یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں بھارت نے نہ صرف یواین او کی منظورہ کردہ قراردادوں کو ردی کے کاغذوں کا درجہ دیا بلکہ بھارت رائے شماری کے معاہدے سے پھر گیا اور بھارتی قیادت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ دیا۔ پاکستان کے پاس کشمیر کی آزادی کے کئی گولڈن چانس میسر آئے مگر ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔

1962 کی چین بھارت جنگ میں پاکستان جموں و سری نگر کو فتح کرنے کے قابل تھا مگر مغرب کی ضمانت پر پاکستانی قیادت ہاتھ پر ہاتھ ملتی رہ گئی۔ بھارت نے ایک طرف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے صوبہ بنا دیا تو دوسری جانب بھارتی فورسز نے حریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ لاطینی امریکہ کے لازوال حریت پسند رہنما جی گویرا نے کہا تھا کہ انصاف کا حصول صرف مسلح جدوجہد سے ممکن ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی عدم دلچسپی و عالمی بے حسی کے کارن ازادی کشمیر کے لئے جی گویرا کے فارمولے کو اپنا لیا۔

90 کی دہائی میں تحریک آزادی کشمیر کا گراف آسمانوں کو چھو رہا تھا جبکہ بھارتی فورسز کے سپیشل گروپسز نے تحریک کو پایہ زنجیر کرنے کے لئے قوت کا بے رحمانہ استعمال کررہی تھیں۔ پورے پاکستان سے جنگجو سری نگر پہنچنے لگے جہاں انہوں نے جہادی تنظیوں کے ساتھ سربکف ہونے کا عہد کیا۔ گلستانٍ تحریک آزادی کو نوے ہزار سے زائد کشمیری جوانوں نے اپنے خون جگر سے سیراب کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق بارہ ہزار کشمیری ابھی تک لاپتہ ہیں جبکہ جیلوں میں بند کشمیری جوانوں کی تعداد سات ہزار ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا بدل گئی۔ ماضی کے مجاہدین و ہیروز پل بھر میں انتہا پسند بن گئے۔ بھارتی کشمیر میں چلنے والی تمام تحریکوں کی مالی و اخلاقی امداد کا فریضہ پاکستان کے زمے تھا جسے مشرف نے بند کردیا۔ دور مشرف میں تحریک آزادی کشمیر کو زبردست جھٹکا لگا کیونکہ ملک بھر میں شدت پسند جماعتوں و عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ ان کے دفاتر بند کردئیے گئے۔ پاکستانی فورسز نے مقبوضہ کشمیر جانے والے تمام درانداز راستوں کو بند کردیا۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مشرف دور میں پاکستان کی کشمیر پالیسی میں تحیر انگیز تبدیلی لائی گئی۔ جبکہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان حالا ت مزید کشیدہ ہو گئے کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملا ت کھٹائی میں پڑ گئے دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ جنگ چھڑ جانے کے امکانات بڑھ گئے۔ دونوں ممالک کے درمیان ان حملوں کی تحقیقات کا نیا ایشو پیدا ہو گیا۔ جون 2009 میں دوبارہ پاکستان اور بھارت نے جامع مذاکرات کی بحالی کے لیے سفارتی رابطے شروع کر دئے ۔29ستمبر 2009 کو چین نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو پرامن اور دوستانہ ماحول میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا چاہئے اور چین اس سلسلے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے26 نومبر2009ء برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ملکر مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی تیسرے ملک کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔

22جنوری2010 کو امریکہ نے ایک بار پھر پاکستانی خواہش کہ مسئلہ کشمیر پر امریکہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ صرف اور صرف پاکستان اور بھارت کی لیڈر شپ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے گائیڈ کرسکتا ہے۔ گزشتہ روز ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے وائٹ ہاﺅس کے ترجمان مائیک ہیمبر نے کہا کہ ہم یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی اس میں ہمارا کوئی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر کوئی ثالثی کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس بات کا خواہشمند ہے۔ جبکہ یہ کام پاکستان اور بھارت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس تاریخی مسئلے کا متفقہ طور پر کوئی حل ڈھونڈھ کر نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دونوں ملکوں کی لیڈر شپ کو صرف اور صرف گائیڈ کرسکتا ہے جبکہ بہتر حل دونوں ممالک کے لیڈرز آپس میں بیٹھ کر نکالیں۔

25فروری2010 کو ہندوستان اور پاکستان 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملوں کے بعد پہلی مرتبہ اپنے ہی ملکوں کی سرزمین پر اعلیٰ سطح پر مذاکرات کیے گئے مذاکرات کے آغاز سے ایک روز قبل دونوں ممالک نے متنازعہ علاقے کشمیر میں فائرنگ کی وجہ سے ایک دوسرے پر شدید الزام تراشی کی ہے۔ ہندوستانی سرحدی گارڈز نے الزام لگایا کہ بدھ کے روز پاکستان سے ان پر شدید فائرنگ کی گئی۔ پاکستان نے الزام کی تردید کی ہے۔ یہ الزامات اس وقت سامنے آ رہے ہیں جب پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر مذاکرات کے لیے دہلی پہنچے ۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90642 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.