تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو یہ بات
واضح ہو جاتی ہے کہ ملک و قوم کی حالت کو سنوارنے میں حکمراں نے کیسے اپنے
کردار ادا کئے۔وزرا کے کیا خوب عوام دوست رویے تھے۔عوامی خادم ہونے کی اعلی
مثالیں، ملکی مفاد کی ذاتی مفاد پر ترجیح ،جذبہ حب الوطنی ،غم گسار ی کے
جذبے سے سرشاری اور ملکی وقار کا تحفظ ہی اصل فریضہ ہوا کرتا تھا۔پاکستان
ہجرت کر کے آنے والوں کے بے شمار مسائل کے حل کے لئے وسائل پیدا کرنا کس
قدر گھمبیر مسئلہ تھا۔مگر خلوصِ نیت سے ایسی حکمت ِ عملی تیار کی گئی جو
مشکل میں آسانی کے آثار کو نمایاں کر گئی۔ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے میں جس
طرح اس وقت کے لوگوں نے اپنے گھر بار ،مال مویشی،جمع پونجی اور پیاروں کی
جانیں تک قربان کیں ،ان لازوال قربانیوں کی مثالیں نہیں ملتیں۔ ایک آزاد
وطن کی قدرو قیمت پہچاننے اور اسے سر آنکھوں پر رکھنے میں وہ لوگ سب سے
بازی لے گئے۔اور پھر جس طرح ان کی زندگیوں کو نارمل سطح پر لانے کے لئے ہر
سمت سے اقدامات کئے جانے لگے وہ اس دور کے حکام کی دیانت داری کی منہ بولتی
تصویر ہے۔قائد نے فرمایا،''ان تباہ حال مہاجرین کو دوبارہ سے پاؤں پر کھڑا
کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ملک میں صنعت و حرفت کو فروغ دیا جائے۔اس سے روزگار
کے نئے وسیلے فراہم ہوں گے۔''انھوں نے ہر جانب نگاہ رکھی اور جدوجہد
کی۔وزرا کو جو دفاتر مہیا کئے گئے وہ چند کمروں پر مشتمل اور بالکل ویران
تھے۔ وہاں ٹوٹی ہوئی کرسیوں ،میزوں اور ایک یا دو الماریوں کے سوا کچھ
سامان نہ تھا۔کچھ نے تو اپنے گھروں سے کرسیاں منگوائیں،ضروری دفتری سامان
بازار سے خرید لائے۔ببول کے کانٹوں سے پنوں اور ساحل سے جمع کئے گئے پتھروں
سے پیپر ویٹ کا کام لیا گیا۔دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب کی اور یوں
کام کا آغاز کر دیا گیا۔
ہمارے قائد کے طورطریقوں اور اصولوں میں وطن و قوم کی ترقی و خوش حالی کا
راز پنہاں ہے۔ دوسری طرف وزرا بھی قائد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ماضی کے
بلیک اینڈ وائٹ مناظر کو کیا عمدہ تحفے دے گئے۔ہمارے عظیم قائد نے قوم کے
پیسے کو اسی کی ملکیت سمجھا۔کابینہ کا اجلاس تھا،اے ڈی سی نے قائد اعظم سے
پوچھا :سر چائے سرو کی جائے یا کافی؟ قائد نے سخت لہجے میں فرمایا ''کہ کیا
یہ لوگ اپنے اپنے گھروں سے چائے یا کافی پی کر نہیں آئیں گے۔جس وزیر نے
چائے یا کافی پینی ہو گھر سے پی کر آئے یا گھر جا کر پئے ۔قوم کا پیسہ قوم
کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں ''۔اس حکم کے بعد سے جب تک قائد برسرِاقتدار
رہے تب تک کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی سرو کیا جاتا رہا۔ایک بار یوں
ہوا کہ گورنر جنرل ہاؤس کے لئے کچھ سامان منگوایا گیا۔جب ہمارے قائد نے
تفصیلات طلب فرمائیں تو کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح اور قائد ِ اعظم کے
ذاتی استعمال کے لئے بھی تھیں ۔آپ نے احکامات صادر فرمائے ''کہ میرے سامان
کی ادائیگی میرے اکاؤنٹ سے ہو گی اور فاطمہ کی چیزوں کی ادائیگی فاطمہ کے
اکاؤنٹ سے ہو گی۔باقی ادائیگی گورنر جنرل کے اکاؤنٹ سے کی جائے اور آئندہ
سامان خریدتے ہوئے احتیاط برتی جائے۔'' ہمارے قائد اگرچہ پینٹ شرٹ اورٹائی
کوٹ پہنا کرتے تھے مگر پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ایک دن بھی یہ لباس زیب
تن نہیں کیا بلکہ روایتی شیروانی کو اپنا لباس بنایا ۔جو کلچر کی عکاس
تھی۔بیرون ملک دوروں کے دوران اس دور کے ورزا کا لباس شیروانی و شلوار ہوا
کرتا تھا۔ وہ لباس پاکستانی کلچرو اقدار کی شناخت تھا۔ اس دور کے وزیروں نے
کبھی بھی ملکی جاگیر کو ذاتی جاگیر میں شامل نہیں کیا۔اور اپنی بیگمات اور
بچوں کو بھی ایسی کسی فرمائش پر جھاڑ پلا دی۔چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے
نوکروں کا سہارا نہ لیابلکہ خود سے ہاتھ پیر ہلا لئے۔تب کے دور میں وزرا
کرپشن کے لفظ سے ناواقف تھے۔پیسوں کی خوردبرد نہ ہوا کرتی تھی۔ہر شعبے میں
ملکی بحالی اور ترقی کے لئے قدم اٹھانے پر زور دیا گیا ۔ایک سابق وزیر
اطلاعات و پارلیمانی امور نے تو فلم سازوں تک تو نصیحت کی کہ وہ فلمیں حب
الوطنی کے موضوعات پر بنایا کریں ۔ان تاریخ ساز فیصلوں اورپالیسیوں نے ہی
تو پاکستان کو سنبھلنے اور کھڑا ہونے میں مدد دی۔ہمارے قائد اور ان کے
ساتھی وزرا نے اس وطن میں پھیلی تاریکی کو اپنی شب و روز کی ان تھک محنت سے
روشن کیا ،امید کی شمعیں جلائیں ،دیانت داری سے قوم کا پیسہ قوم کی بحالی
کے لئے وقف کیا ۔وطن کے ساتھ پیار کرنا اور نبھانا تو صرف وہی جانتے تھے۔۔!
قائد کے ہر ہر فرمان میں ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کام
کی باتیں،نفع اور ترقی کے ثمر واضح ہیں۔نوجوان ہوں یا بڑے ،غریب طبقہ ہو یا
پر آسائش زندگی گزارنے والے وزرا ،سب کے لئے مفید اور علم و تجربے سے
بھرپور اقوال موجود ہیں۔انھوں نے فرمایا،''مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ
پاکستان کا طرز ِ حکومت کیا ہو گا؟پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا
میں کون ہوتا ہوں ۔مسلمانوں کا طرز ِ حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن
کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا''۔حکومت کے سب سے اہم فرض کے
بارے میں بھی بتایا ''کہ حکومت کا پہلا فریضہ امن و امان برقرار رکھنا
ہے۔تاکہ مملکت کی جانب سے عوام کو ان کے املاک،زندگی اور مذہبی اعتقادات کے
تحفظ کی پوری پوری ضمانت حاصل ہو''۔ان میں حکومت کے لئے رہنمائی بھی ہے اور
اس کے اہم فراض کی نشاندہی بھی۔
مگر افسوس کہ قائد کی تصاویر کو توہر اداروں میں خوبصورت سا فریم کروا کر
دیواروں پر لگا دیا گیا ہے مگر ان کی باتوں ،نصیحتو ں اور اقوال کو نظر
انداز کر دیا گیا ہے۔اسمبلیوں میں مچھلی منڈی لگی ہے۔ایک دوسرے کو بات کرنے
تک کی اجازت نہیں ۔دوسرے کی راہ میں روڑے اٹکانا تو ہر جماعت کا پسندیدہ
مشغلہ بن چکا ہے۔کوئی کسی سے راضی نہیں ۔اسپیکر کہ جسے دیگر اراکین سے کسی
بنا پر فوقیت دے کر اس اونچی کرسی پر براجمان کیا گیا ہے ،کی بات تک سننا
گوارا نہیں ۔معذرت کے ساتھ لیکن وزرا انتہائی ڈھٹائی،بدتمیزی اور بد تہذیبی
کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔آپس کی گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تو بہت
ہی افسوف ناک ہے۔ٹیلی ویژن پر یہ سب دیکھتے ہوئے ایک جاہل ہو یا تعلیم
یافتہ ،دونوں ہی سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں ۔
اب ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ ان نسل در نسل ملنے والی نوازشات کو ان سے واپس
لے لیا جائے۔ اعلی تعلیم یافتہ افراد کو مواقع دے کر اسمبلیوں میں بٹھا کر
نئی روشیں قائم کرنے کے لئے راہیں ہموار کی جائیں۔کیونکہ متعلقہ حکام کم
تعلیم و تہذیب رکھتے ہیں ۔ٹھنڈے گھروں سے لے ٹھنڈی گاڑیوں اور پھر وسیع و
پر تعیش ایوانوں میں بیٹھ کر بھی نہ مطمئن رہتے ہیں اور نہ ہی رہنے دیتے
ہیں ۔ان گرم دماغوں کا علاج اب ضروری ہو گیا ہے۔ کرپشن کے ڈھیروں قصے،عوامی
فلاح کے لئے مختص کی گئی اراضیوں پر ناجائز قبضے،بے ایمانی کا عروج،ذاتی
مفاد کے پجاری،سہولیات سے بھرپورپر آسائش حیات،اسمبلیوں میں بے معنی بحث و
مباحثہ،اجلاسوں کے دوران ہزاروں لاکھوں کے من پسند پکوان،منرل واٹر کی
بوتلوں کے انبار، قیمتی وقت کا ضیاع،اہم فیصلوں کی راہ میں حائل کی جانے
والی بے جارکاوٹیں۔۔آہ! کیا ہی ماضی کے متضاد عجب حال ہے۔
قوانین کی پاسداری کو ہر حال میں یقینی بنانا اب انتہائی ضروری ہو گیا
ہے۔اس معاملے میں کراچی کے حالات سے متعلق رینجرز کی کامیابیاں اور روز مرہ
کے معمولات میں بہتری ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔یہ کیسے ممکن ہوا ؟اس وقت جب
اہم فیصلے کئے گئے۔ملکی مسائل میں کمی لانے کے لئے ان کی طرف نگاہ کی
گئی،جائزے لئے گئے اور کارروائیاں کی گئیں۔جب افواجِ پاکستان کی جانب سے
وطنِ عزیز کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کوہزاروں دہشت گردوں کوموت کے گھاٹ
اتار کراپنی بہادری و دلیری کا پیغام دیا گیا۔اب حکمرانوں کو جلد مزید اہم
اقدامات کرنے ہوں گے جس سے جڑ پکڑتے مسئلوں کو اکھاڑنے کی طرف سب متوجہ ہو
سکیں ۔اسمبلیوں میں اخلاقیات کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے سخت اصول
بنائے جائیں ۔اجلاسوں میں اپنے فرائض اور اہم کاموں کی ادائیگی پر فوکس کیا
جائے نہ کہ بے جا دعوتوں کا فرمائشی پروگرام چلایا جائے۔جن گھمبیر معاملات
کو ہمارے قائد نے اس زمانے میں اپنی بہترین حکمتِ عملی سے سلجھایا تھا ،ان
سے سبق سیکھ کر اور ان اصولوں کو اپنا کر ہمارے حکمراں بھی خوشحالی لا سکتے
ہیں ۔سب مل کر ان کے ساتھ چلیں اور ملکی تقدیر کو بدلنے میں اپنا کردار ادا
کر کے پاکستان کو اس کی اگلی سالگرہ پر بہتری حالات کا تحفہ دیں ۔ |