گجرات سے نیپال تک آگ اور خون کی ہولی

نیپال کو اگر ہندو راشٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو گجرات کو کم از کم ہندو راجیہ تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ویسے گجرات کوبجا طور پر ہندوتوا کی تجربہ گاہ بھی کہا جاتا ہے حالانکہ راجستھان کی اسمبلی میں بی جے پی کے ارکان کا تناسب گجرات سے زیادہ ہے ۔خیرکسی بھی تجربہ گاہ میں بننے والی ادویات کے بارے میں سائنسداں یہ نہیں جانتے کہ اس سے کون لوگ استفادہ کریں گے۔ جن تجربہ گاہوں میں زہر تیار کیا جاتا ہے اس کے متعلق بھی یقین کے ساتھ نہیں کہاجا سکتا کہ وہ کس کے خلاف استعمال ہوگا۔ اسلحہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کلاشنکوف روس کی ایجاد ہے مگر مجاہدین اسلام نےافغانستان اس کا بہترین استعمال روس کے خلاف کیا۔ ناٹو کااسلحہ چھین کر اس کے خلاف استعمال کئے جانے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ دنیا اس میں آنے والوں کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اس کے بنانے والے کی مرضی سے چلتی ہے ۔۱۳ سال قبل رونما ہونے والے گجرات فساد کے مندرجہ ذیل عوامل حالیہ انتشار کے پیچھے مختلف انداز میں کارفرما ہیں:
• عوام کا نفرت و عناد
• انتظامیہ کا امتیازی سلوک
• ریاستی حکومت کا سیاسی مفاد
• مرکزی حکومت کی چشم پوشی

نفرت و عناد:پٹیل سماج کےاندر دیگر پسماندہ ذاتوں کے تئیں بغض و عناد بہت پرانا ہے۔راہل گاندھی نے اپنے ردعمل میں یہی بات کہی ہے کہ موجودہ انتشار مودی جی کی نفرت انگیز سیاست کا یہ نتیجہ ہے۔ راہل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس موقع پر نہ تو پٹیل احتجاج کی مخالفت کرسکتے ہیں اور نہ حمایت۔ راہل یہ چاہتے ہیں کہ یہ آگ پھیلے اورمودی کے قلعہ کو خاکستر کرے لیکن وہ اس کی حمایت کرکے اپنے رائے دہندگان کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔ بی جے پی حکومت کی مانندکانگریس کے حامی بھی اس احتجاج کے مخالف ہیں یہی وجہ ہے کہ ایوان اسمبلی میں کانگریس کے رہنما شنکر سنگھ واگھیلا نےنفس مسئلہ پر کلام کرنے کے بجائے مظاہرین پر قابو پانے میں ریاستی حکومت کی ناکامی کو آڑے ہاتھوں لے کروزیراعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔

پٹیل سماج کو حبّ علی نےنہیں بلکہ بغض معاویہ نے بی جے پی کا حامی بنایا تھالیکن صرف ان کے بل بوتے پر حکومت سازی ممکن نہیں تھی اس لئے بی جے پی نے دیگر پسماندہ طبقات کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرکے انہیں اپنا ہمنوا بنا یا ۔فرقہ پرستی کی آگ نے عارضی طور پرذات پات کی تفریق کو مٹا دیا لیکن اب ایک بار پھر وہ بھڑک اٹھی ہے۔یہی وجہ ہے ابھی تک تشدد کی آنچ پر سیاسی روٹیاں سینکنے والی بی جے پی امن و امان کا راگ الاپنے لگی ہے۔ جب تک اس آگ سے مسلمانوں کے گھر جلتے تھے اور ان کے محل تعمیر ہوتے تھے تب تک تویہ لوگ اس ہندوتوا کا نور قرار دے رہے تھے اب جبکہ ان شعلوں کی زد میں ان کا اپنا قتدار آگیا ہے یہ فساد کے علمبردارامن کے پیغامبر بن گئے ہیں۔

اس صورتحال میں اگر پٹیل برادری بھی یادو سماج کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی منفردسیاسی جماعت بنا لے تو بی جے پی ، کانگریس اور اس نئی علاقائی جماعت کے ووٹ کا تناسب یکساں ہوجائیگا اور گجرات میں بی جے پی کے بلاشرکت غیرے اقتدارکا چراغ بجھ جائیگا۔ ساری سیاسی جماعتوں کو گجرات کے تجربے سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ نفرت وعناد ایک دودھاری تلوار ہے۔ اس کی آگ ہوا کے رخ میں تبدیلی کے سبب مختلف سمتوں میں پھیل سکتی ہے۔ گجرات کا مسلمان حیرت سے ان لوگوں کے گھروں کو جلتا دیکھ رہا ہے جو کل تک سرکاری تحفظ میں ان کے گھر جلاتے تھے ۔ قدرت کا انتقام شاید اسی کا نام ہے۔

انتظامیہ کا معاندانہ رویہ:فرقہ وارانہ فسادات عام طور پر سیاسی سرپرستی میں انتظامیہ یعنی پولس نااہلی کے سبب رونما ہوتے ہیں ۔بسا اوقات پولس فسادیوں کے شانہ بشانہ آگ اور خون کے اس کھیل میں شریک بھی ہوجاتی ہے۔ پولس کی بے اعتنائی کی وجہ اس میں شاملمسلمانوں سے نفرت کرنے والے کٹر ہندو عناصر ہوتے ہیں۔ چونکہ فوج مقامی پولس کے مقابلے غیر جانبدار ہوتی ہے اس لئے مسلمان کی تعیناتی کا مطالبہ کرتے ہیںاور یہ حقیقت بھی ہے کہ گوج کی آمد کے بعد اکثر حالات قابو میں آجاتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس جائزمطالبے کو یہ کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے کہ اس سے پولس فورس کا مورل ڈاؤن ہوجائیگا۔ اگر ایسا ہے تو اس بار گجرات میں ۳۰ ہزار پولس والوں کے ہوتے ہوئے فوج کو کیوں زحمت دی گئی اور فلیگ مارچ کیوں کیا گیا ؟ دیگر ریاستوں میں یہ تماشہ اس وقت کیا جاتا ہے جب چڑیا کھیت چگ چکی ہوتی ہے لیکن گجرات میں جہاں اس سےپہلےیہ کبھی نہیں ہوا تھا دوسرے ہی دن فوج تعینات کردی گئی۔

گجرات کے اندر گوج کی تعیناتی کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ پولس فورس میں پہلے بھی پٹیل کم تھے۔ حالیہ دنوں میں جو بھرتی ہوئی ہے اس میں ریزرویشن کے چلتے دیگر ذاتوں کے تناسب میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان لوگوں کے دلوں میں پٹیل سماج اور اس احتجاج کے خلاف نفرت ہے اس لئے جس قدر طاقت کا استعمال کرنے کیلئے کہا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ ہوا۔ پولس افسران نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس الزام کی تحقیق کا حکم دیا ہے۔شاہی باغ کے علاقے میں پولس کی جانب سے کی جانے والی توڑ پھوڑ کی ویڈیو بھی لوگوں نے ہندوستان ٹائمز کے حوالے کی ہے۔ گجرات کی تقدس مآب پولس (جس کے بدنام افسران ایک کے بعد ایک قتل وغارتگری کے سنگین الزامات سے بری ہو کر اپنے عہدوں پر فائز ہورہے ہیں) اب تحقیق و تفتیش کا نشانہ بنے گی۔ان کے خلاف کارروائی ہوگی بھی نہیں؟اور ہوگی بھی تو کیا ؟ یہ وقت ہی بتائے گا لیکن پٹیل سماج کی دلجوئی کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا اس لئے وہ مسلمان تو ہیں نہیں کہ بھول کر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے وہ تو معزز زعفرانی رائے دہندگان ہیں وزیراعلیٰ کے ذات بھائی بھی ہیں۔

پولس کارروائی کے بعد ہاردک پٹیل نے جو بیان دیا اسے پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ کسی شعلہ بیان مسلم رہنما کا خطاب ہو۔ اس نے کہا ہم تشدد نہیں چاہتے تھے مگر یہ سب پولس کے نوجوانوں کو پیٹنے کے سبب ہوا ہے۔ ہم پرامن تھے مگر پولس نے ہمارے ساتھ دہشت گردوں کا سا سلوک کیا ۔ ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہاردک نے یہ بھی کہاکہ پولس نے خواتین پر لاٹھیاں برسائیں انہوں نے رات ساڑھے گیارہ بجے ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں پیٹا۔ ہاردک پٹیل سے مسلمان یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کیا مودی جی کے آدرش گجرات میں یہ پہلی بار ہوا ہے؟ گجرات پولس کوتو یہی تعلیم دی گئی ہے کہ جو بھی حکومت کا دشمن ہے وہ دہشت گرد ہے ۔ پٹیل چونکہ اس بار حکومت کی مخالفت کررہے ہیں تو لامحالہ اس سلوک کے مستحق بن گئے ۔ اگر پٹیل سماج اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف اس معاندانہ رویہ کی مخالفت کرتا تو آج مسلمانوں کو اپنے ساتھ پاتا لیکن ہمارے ملک میں مظلومین ایک دوسرے کی حمایت نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی حلات زار پر بغلیں بجاتے ہیں ۔ شاید اسی لئے باری باری سےظلم کا شکار ہوتے ہیں ۔

ریاستی حکومت کا سیاسی مفاد:جی ایم ڈی سی گراؤنڈ پر تعینات تمام پولس کی معطلی کا مطالبہ کرنے بعد ہاردک پٹیل نے الزام لگایا کہ وہ اپنے سیاسی آقاوں کے اشارے پرتشدد میں ملوث ہوکر ہماری تحریک کو پٹری سے اتار رہی ہے۔ پولس ریاستی یا مرکزی حکومت کے اشارے پر ہمارے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ہاردک کے مطابق چونکہ گجرات کی حکومت کو اس بات کا خوف تھا کہ ہمارے تحریک ذرائع ابلاغ پر چھا جائیگی اس لئے انہوں ہمیں اکسا کر بدنام کرنے کیلئے یہ اقدام کیا لیکن میں گجرات کو پولس کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ایک بھی پٹیل کے بیٹے کو مارا پیٹا گیا تو اس کیلئے پولس اور ریاستی سرکار ذمہ دار ہوگی۔ہاردک نے کہاگاندھی ،پٹیل اور نہرو کے راستے پر چل کر بہت دیکھ لیالیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ جوریاستی وزیرا داخلہ اپنا گھر نہ بچا سکا وہ دوسروں کی کیا حفاظت کرے گا؟ یہ بہت اچھی منطق ہے کہ پہلے کسی کا گھر جلاو اور پھر اسی کو موردِ الزام ٹھہراو۔ اس سے پہلے یہی کھیل ریاستی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کھیلتی تھی کہ ان کے اوپر ہونے والے مظالم کا الزام انہیں کے سر منڈھ دیا جاتا تھااب یہ خود اس کے ساتھ ہورہا ہے ۔

بی جے پی کےمقامی رہنما بھی اب اپنی ریاستی حکومت کی اس حماقت پر نادم و شرمسارہیں۔ ان کے خیال میں اگر ہاردک پٹیل کو گرفتار کرنا ضروری بھی تھا تو اس میں اس قدر جلدی مچانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ یہ بات کسی بھی معمولی عقل کے انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس دن ہاردک کے ساتھ ۶۰ہزار لوگ تھے جو دودن بعد یقینا ً ۶ ہزار سے بھی کم ہوجاتے ۔ اس وقت اس کو حراست میں لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن یہ تو اسی وقت ممکن تھا جب آنندی بین ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اپنے رفقاء کے ساتھ مشورہ کرتیں لیکن وہ بیچاری بھی کیا کرے ؟ اس کےپاس اپنی کرسی بچانے کیلئےدہلی میں بیٹھے ہوئے پیر مغاں کی بے چوں چرا فرمانبرداری کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ اس سوال پر غور ہونا چاہئے کہ دہلی والوں نے ایسا حماقت خیز مشورہ کیوں دیا ؟

مرکزی حکومت کی چشم پوشی: یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ۱۳ سال قبل جب گجرات میں فساد ہوا تھا اس وقت بھی مرکز میں بی جے پی برسرِِ اقتدار تھی اور اس بار بھی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس وقت کا وزیراعلیٰ اب وزیر اعظم بن چکا ہے۔ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے فسادات کے بعد گجرات کا دورہ کیا تھا اور بھری مجلس میں وزیراعلیٰ نریندر مودی کو راج دھرم پالن کرنے کی تلقین کردی تھی۔ سنا ہے وہ مودی جی کو ہٹانے کی تیاری کرچکے تھے مگر مہاجن اور جیٹلی کے مشورے پر مودی نے ازخود استعفیٰ دے دیا اور وہمودی کے بجائے استعفیٰ کی مخالفت کرنے لگے۔ اڈوانی جی کی مداخلت نے مودی جی کی نیا پار لگادی ۔ اس بار مودی جی نے بھی حالات سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کے بگڑنے کا انتظار کیا اور دوسرے دن اپنے پیچھے پٹیل اور گاندھی کی تصویریں سجا کر دہلی میں بیٹھے بیٹھے ایک بیان نشر کردیا۔ احمدآباد آنے کی ہمت وہ نہیں جٹا پائے۔ ویسے یہ ان کا پہلا بیان ورنہ اپنے دور اقتدار میں یا اس سے قبل انہوں نے کبھی اس طرح کی صورتحال میں امن و شانتی کی تلقین نہیں کی۔

مرکزی حکومت کی جانب سے اس بار جس ناقص العقلی کا مظاہرہ ہوا اس کی وجہ جاننے کیلئے احتجاج والے دن وزیرداخلہ اور وزیراعظم کی مصروفیات پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔صبح ساڑھے دس بجے جب احمدآباد میں لاکھوں لوگ جمع ہوچکے تھے دہلی میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ چندرا بابو نائیڈو سے بات چیت کررہے تھے ۔ دوپہر ایک بجے ہاردک پٹیل مظاہرین کو بھگت سنگھ کے راستے کی تلقین کررہے تھے تو وزیراعظم نیپال کے وزیراعظم کوئرالا کے ساتھ وہاں کی صورتحال پر گفتگو کررہے تھے اور انہیں حالات کو قابو میں رکھنے کے گرُ سکھلا رہے تھے ۔ شام ساڑھے تین بجے پٹیل سماج کے لوگ ریاستی حکومت کے خلاف جارحانہ منصوبہ بندی کررہے تھے تو اس وقت دہلی میں راجناتھ سنگھ اپنے گھر پر پارٹی اور سنگھ رہنماوں کے ساتھ بہار کی انتخابی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ گجرات سے رابطہ تو کیا لیکن مظاہرے کا معمولی ذکر ہوا۔ اس بابت خفیہ ایجنسیوں نے جو معلوماتفراہم کی تھیں انہیں نظر انداز کیا گیا اور رات میں داخلہ سکریٹری سے رپورٹ طلب کرنے کے بعد۶۰۰۰ مرکزی حفاظتی دستہ اور فوج روانہ کی گئی لیکن اس وقت تک ۱۰۰ مقامات پر تشدد کے واقعات رونما ہوچکے تھے اور ۳۵۰۰ہزار کروڈ سے زیادہ کی املاک کا نقصان ہوچکا تھا۔

نیپال کی طرح گجرات کو ہندو راجیہ اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہاں کی برسرِ اقتدار جماعت نے پچھلے ۱۵ سالوں سےاپنی ریاست میں موجود سب سے بڑی اقلیت کے کسی آدمی کو وزیر بنانا تو درکنار اسمبلی الیکشن کا ٹکٹ دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اتفاق سے نیپال اورگجرات ایک ہی وقت میں تشدد کا شکار ہوئے۔ نیپال میں فی الحال دستور سازی کا عمل جاری ہے اور مختلف صوبوں کی تنظیم نو کی جارہی ہے۔ اس کے چلتے ہندوستان کی سرحد سے متصل میدانی علاقوں کے تھارو قبیلے کےلوگ اس بات کو لے کر خفا ہیں کہ کائیلالی اور کنچن پور ضلعوں کو تھاروہاٹ صوبے میں شامل نہیں کیا گیا۔ حکومت کے اس فیصلے خلاف وہاں کے لوگوں نے مظاہرہ کیا جس میں ۲۰ لوگ ہلاک ہوگئے اور ۱۰۰ سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔ ویسے تو یہ نیپال کا داخلی معاملہ ہے اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی جی کو اس پر بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

نیپال کے نائب وزیراعظم اور وزیرداخلہ بام دیو گوتم نے تشدد کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایوانِ پارلیمان میں یہ بیان دے دیا کہ تشدد کے ان واقعات میں غیرملکی لوگ ملوث ہیں ۔ان کے مطابق یہ غیر ملکی سازش کا حصہ ہیں ۔ اپنے دعویٰ کی دلیل میں بام دیو نے ہتھیار بند پولس ہیڈ کانسٹبل کے زندہ جلائے جانے اور ایس ایس پی کو بھالوں سے چھلنی کرنے کی وارداتوں کو مثال کے طور پر پیش کیا۔ یہ ایک قابل ذکر فرق ہے کہ گجرات کے برعکس جہاں ۸ مہلوکین میں سے صرف ایک پولس اہلکار ہے نیپال کے ۲۰ میں سے ۱۷مرنے والوں کا تعلق پولس کے دستے سے ہے۔ نیپال کے نائب وزیراعظم کا یہ بیان وزیراعظم مودی پر گراں گذرا اور وہ اپنی ریاست کو بھول کر پڑوسی ملک کی جانب متوجہ ہوگئے ۔ ذرائع کے مطابق مودی جی نے نیپالی رہنماوں کو اپنے داخلی مسائل میں ہندوستان کو بلاوجہ گھسیٹنے سے گریز کرنے کی تلقین کی۔ اس سے پہلےپاکستان کی حکومت ہندوستان پر مداخلت کےاور اپنے گھریلو مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے اس کو موردِ الزام ٹھہرانے کا الزام لگاتی رہی ہے اب وہی کچھ نیپالکے خلاف ہندوستان کررہا ہے۔

مودی جی نے نیپال کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعد وہاں پر مرنے والوں کیلئے تعزیت پیش کی لیکن گجرات کی صورتحال پرانہوں سے صرف امن کی تلقین پر اکتفاء کیا کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا اور نہ مہلوکین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اگر مظاہرین نہ سہی تو کم ازکم پولس والے کے بارے میں جھوٹے منھ دو بول کہہ دیتے۔ انہوں نے وزیراعظم کوئرالا سے کہا کہ ۵ یا ۱۰ لوگ کسی کمرے میں بیٹھ کر دستور سازی نہیں کرسکتے ۔ تمام متعلقہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو ہونی چاہئے تاکہ سیاسی اور سماجی استحکام بحال کیا جاسکے ۔ اگر یہی مشورہ مودی جی آنندی بین کو دیتے کہ ہاردک کو حراست میں لینے کے بجائے اس کے ساتھ گفت و شنید کرو یا اسے میرے پاس بھیجو میں اس سے بات کروں گا تاکہ سماجی خیر سگالی آئے تو یہ ہنگامہ کیوں ہوتا؟ دراصل دوسروں نصیحت کرنا جس قدر آسان ہے خود اس پر عمل کرنا خاصہ مشکل ہے۔ ہاردک پٹیل تو خیر بہت دور گجرات میں تحریک چلا رہا ہے نیپال کے وزیراعظم کو مل بیٹھ کر گفتگوکرنے کا پروچن دینے والے وزیراعظم کو ۱۵ جون سے احتجاج کرتے ہوئے تھک ہار کرغیر میعادی بھوک ہڑتال کرنے والے سابق فوجیوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کی توفیق بھی ابھی تک نہیں ہوئی ایسے میں بیچارہ ہاردک پٹیل کیا توقع کرسکتا ہے؟
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449313 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.