پاکستان کا ایک عظیم وکیل
(RAJA GHAZANFAR ALI KHAN ADOWALIYA, RAWALPINDI)
عبدالحفیط پیر زادہ کی یاد میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ایک عظیم وکیل ّعبدالحفیظ پیر زادہ کا یکم ستمبر ٢٠١٥ کو لندن
کے ہسپتال میں اچانک انتقال ہو گیا ہے انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ مجھے ان
کے انتقال کا بے حد دکھ ہوا ہے کیونکہ وہ نہایت ہی خوش اخلاق ، ملنسار اور
نیک انسان تھے ان میں تکبر بالکل نہیں تھا یہی ان کی مقبولیت کا سب سے بڑا
راز تھا مین ان دنوں میں ١٩٧١ تا ١٩٧٨ تک واپڈا سکھر میں تعینات تھا اور
میں رائل روڈ کے ایک مکان نازل بلڈنگ میں رہتا تھا میرے مکان کے سامنے سکھر
تھرمل اسٹیشن تھا اور دریا سندھ تھا میرے مکان سے ایک سو کے فاصلے پر
پاکستان کے عظیم اور ذہین ترین وکیل عبدالحفیظ کا سادہ سا مکان تھا-
عبدالحفیظ ُیر زادہ صاھب جب بھی اسلام آباد سے سکھر آتے تھے تو میری ان سے
ملاقات ہو جاتی جب مین صبح کے وقت دفتر جایا کرتا تھا تو ان کے والد
بزرگوار عبدالستار پیر زادہ سابق وزیر اعلٰی سندھ اپنے مکان سے بایر صبح کی
چہل قدمی کر رہے ہوتے تھے جب میں ان کو سلام کرتا تھا تو وہ بہت ہی خوش
ہوتے تھے حقیقت یہ ہے کہ ان کی فیملی کے تمام افراد بہت ہی اچھے تھے ان کے
کزن عبدالحلیم پیر زادہ بھی نہایت ہی خوش اخلاق تھے ان سے بھی کبھی کبھار
ملاقات ہو جاتی تھی ان دنو ں سیر خورشید شاہ ممبر قومی اسمبلی اور لیڈر حزب
اختلاف بھی میرے ساتھ واپڈا میں کام کرتے تھے میں ١٠٧٨ میں حیدرآباد ٹراسفر
ہو گیا اور ١٩٨٣ میں واپڈا اسلام آباد میں ٹرانسفر ہو گیا اور ٢٠٠٢میں
واپڈا سے ریٹائرد ہو گیا مگر اس کے بعد میری کسی سے بھی میری ملاقات نہ ہو
سکی کیونکہ میں دمے اور دل ،دمے،شوگر،کمر کی تکلیف کی بیماری میں مبتلا ہو
گیا مگر انشاللہ خورشید صاھب سے میری کسی وقت ملاقات ہو جائے گی وہ جب بھی
الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں مجھے ان کے کامیاب ہونے کی بے حد خوشی ہوتی ہے
کیونکہ وہ ایک نہایت ہی مخلص سچے دوست ہیں اور سکھر میں ہم کرکٹ بھی کھیلتے
رہے ہیں پیرزادہ کی فیملی سے انہوں نے میرا تعارف کروایا تھا اور پیر زادہ
کی فیملی میرے محلے کے لوگون کا بے حد خیال کرتی تھی ١٩٧٧ کے الیکشن میں
نازل بلڈنگ سیم آنے کی وجہ سے اچانک گر گئی اور اس کے چاروں مکان گر گئے
تھے مگر خدا کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مجھے دفتر میں اظلاع
ملی کہ نازل بلڈنگ گر گئی ہے میں فورا موقع پر پہنچ گیا تا کہ اپنا سامان
ملبے سے نکال سکوں اس واقعے کی اطلاع اسلام آباد پہنچ گئی عبدالحفیط پیر
زادہ نے فوری طور پر ڈپتی کمشنر سکھر کو فون کیا کہ سامان کو ملبے سے نکانے
کا بندوبست کیا جائے کسی کا سامان چوری نہ ہونے پائے اور متاثرین کے لیے
کھانے پینے اور متبادل رہائش کا بندوبست کیا جائے سکھر کی انتظامیہ نے فورا
امدادی کام کیا اور دوسری جگہ کرایے کے مکانات کا بندوبست کیا یہ عبدالحفیظ
پیر زادہ کی ایک بہت اچھی خوبی تھی کہ وہ دوسروں کی تکلیف کا بے حد احساس
کرتے تھے اور اسلام آباد سے باقاعدہ فون کرکے اپنے پڑوسیوں کی خیر خریت
دریافت کیا کرتے تھے حالانکہ وہ بھٹو صا حب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے
تھے اور روزانہ بیس گھنٹے کافی مصروف رہتے تھے کیونکہ ان کے پاس ایجوکیشن،
قانون امور خزانہ اور امور رابطہ کے بیک وقت آٹھ دس قلمدان تھے لہذا عوامی
حکومت کے لیے وہ بھٹو صاحب کے حکم سے مختلف قسم کی پالیسیاں تیار کرتے تھے
اور دن رات کافی کام کرتے تھے ان کو مارچھ ١٠٧٢ مین پاکستان کا نیا آہین
بنانے کا کام سونپا گیا اور انہون نےپاکستان کا ایک بہترین دستور تیار کرنے
کا ا عزاز حاصل اور یہ پاکستان کا ایک واحد جمہوری طرز کا آہین ہے جو گذشتہ
٤٢ سال سے نافذ ہے اور آٹھ سال بعد ٢٠٢٣ میں اس آہین کی گولڈن جوبلی ہونے
والی ہے اگر چہ اس آہین سے پہلے ١٩٥٦ اور ١٩٦٢ کے دو آہین تیار ہوئے تھے
مگع وہ چند خامیون کی وجہ سے کامیاب نہ سکے مگر موجودہ آہین سب سیاسی
پاعٹیون کا ایک متفقہ آہین ہے جو اگست ١٩٧٣ میں نافذ ہوا تھا اور اس آہین
پر سب ممبران قومی اسمبلی کے دستخط ہیں-
عبدالحفیظ پیر زادہ ١٩٤١ میں سکھر کی ایک معروف سیاسی شخصیت عبدالستار
پیرزادہ کے ہان پیدا ہوئے انہون نے کراچی ینیورستی سے ایم اے سیاسیات، ایل
ایل بی اور ایم ایل ایل کے امتحانات امتیازی نمبروں کت ساتھ پاس کیے اور
لینکولن ان لندن سے بیریسٹر ایت لائ کی ڈگری حاصل کی اور کراچی مین وکالت
شروع کی ١٩٥٨ میں کراچی میں اپنا ایک لا اسوسی ایٹس چمبرز قائم کیا اور
سپریم کورٹ کے وکیل بنے وہ سپریم کورٹ کے ایک سینیر وکیل تھے پاکستان کا
دستور بنانے کے مصنف بھی ہین اور جب ٣٠ نومبر ١٩٦٧ کو نئی سیاسی پارٹی پی
پی پی بنی تھی تو اس کے پہلے تیس بانیون مین عبدالحفیظ پیرزادہ بھی شامل
تھے ہ بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں بھٹو صاحب ان کو
ہر وقت اپنے قریب رکھتے تھے اور عبدالحفیظ کے صلاح مشورے سے ملک کے لیے
بہترین پالیسیا ں تیار کرتے تھے عبدالحفیط پیر زادہ ١٩٧١ اور ١٩٧٧ کے
الیکشن مین دو دفعہ ممبر قومی اسمنلی بنے تھے انہون نے بھٹو ساحب کا مقدمہ
بھی لڑا تھا جب سپریم کورّ نے بھٹو کو سزائے موٹ سنائی تو انہوں نے دوبارہ
سپریم کورٹ میں اپیل کی اور دفعہ سیکشن ٤٥ کے تحت بھٹو کی سزا ئے موٹ کو
عمر قید مین تبدیل کروانے کے لیے ٢٤ مارچھ ١٩٧٩ کو جنرل ضیا الحق سے ملاقات
کی مگر ضیا الحق نے کہا کہ درخواست گم ہو گئی ہے اس پر بھٹو صاحب نے
عبدالحفیظ پیر زادہ کو مشورہ دیا کہ اب وہ دوبارہ اپیل نہ کرے وہ سزائے موت
کو قبل کر لیں گے۔
بھٹو کو پھانسی لگنے کے بعد انہون نے احجاتی جلوس نکالا اس کے بعد ان کو
ملک بدر کر دیا گیا مگر یکم اکتوبر ١٩٨٢ کو پاکستان آئے ت انہن نے انسانی
حقوق کو بحال کروانے کا جلوس نکالا مگر ان کو گرفتار کر لیا گیا بعد میں وہ
پی پی پی کے لیے کام کرتے رہے مگر اپنا تمام وقت کالت کرنے پر وقف کر دیا
اپریل ٢٠١٥ میں عمران خان نے ان کو اپنا وکیل مقرر کر دیا مگر بعد میں اپنی
بیماری کا لاج کروانے کے لیے لندن چلے گئے اور اپنے خالق حقیقی سے ملے -
خداوند تعالٰی ان کو جنت الفردس میں جگہ دے اور ان کے تمام اہل خانہ کو صبر
کی نعمت عطا فرمائے میں پاکستان کے اس نیک سیرت ، عظیم اور ذہین ترین وکیل
ک بے حد خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور میں پاکستان کے تمام سیاست دانوں اور
ممبران قومی اسمبلی کو نصیحت کروں گا کہ وہ عبدالحفیظ پیر زادہ کا بہترین
اکلاقی کردار اپنانے کی کوشش کرین اس ملک کے عوام کی نیک نیتی کے ساتھ سچے
دل سے عوامی خدمت کریں اوت اس اسلامی ملک پاکستان کی تمام قبیح برائیون
،جرائم،بد عنوانی ، غنڈہ گردی کی سیاست ، دہشت گردی وگیرہ وغیرہ کا مکمل
خاتمہ کریں اور اس ملک کے عوام کے جائز مسائل حل کروا کر، ان کو فوری اور
سستا انصاف فراہم کروا کراس ملک مین انسانیت اور شرافت کا ماحول قائم کریں
اور اس ملک کو ترقی دے کر ایک اچھا نام پیدا کرین کیونکہ عبدالحفیط پیر
زادہ نے پاکستان کے لیے جو بہترین دسروع بنایا تھا وہ ایک نیک مقصد کے تحت
بنایا تھا اور نہوں نے ایک اچھی عملی زندگی میں خوش اخلاقی حب الوطنی،
ایمانداری کا ثبوت بھی دیا تھا وہ بد عنوان سیاسی لیدر نہیں تھے کیونکہ وہ
سپریم کورٹ کے ایک مہنگے ترین وکیل تھے اور اپنی محنت سے ان کو سالانہ باہ
کڑور روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی تھی جس کا انکشاف انہون نے ٢٧ مئی ٢٠٠٧ کو
جیو کے پروگرام مین کیا تھا مین پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں کو یہ مشورہ
دون گا کہ عفدالحفیظ کے بنائے ہوئے دستور کواس کی ١٩٧٣ کی اصلی حالت میں
برقرار رکھا جائے اور اس مین ضرورت سے زیاہ جو ترامیم ہو چکی ہیں ان کو ختم
کیا جائے کیونکہ عبدالحفیظ پیر زادہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ ایک
بہترین طریقہ کار ہے مجھے امید ہے کہ عبدالحفیظ پیر زادہ کی بہترین خدمات
کو فراموش نہیں کیا جائے گا اور اس عطیم شخصیت کا انتقال ہونے کے بعد بھی
اس کا بے حد احترام کیا جائے گا اور ان کی خدمات کو سراہا جائے گا۔
مضمون نگار
راجہ غضنفر علی خان آدووالیہ
ایم اے سیاسیات
اخباری مضمون نگار
مکان نمبر-٥ ، اسٹریٹ نمبر۔ ١٠، اقبال ٹائون، راولپنڈی
|
|