اردو اصطلاحات ومحاورات

مولانا فضل الرحمن کی جمعیت نے حالیہ دنوں ایک شایانِ شان ’اسلامی تہذیب کانفرنس‘ بڑے دھوم دھام سے منعقد کی،وہ اس سے کچھ لوگوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کو اجاگر کیا جائے گا،تہذیب،تمدن اور ثقافت کا تعلق زبان سے ہے،اسی لئے ان کی کوششوں سے موجودہ حکومت نے اردو زبان کے نفاذکا بیڑا اٹھا یا ہے،نصف صدی سے بھی زیادہ مدت کے بعدوزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے احکامات بھی آگئے ہیں اورمختلف وزارتوں وسفارتوں میں تعمیل حکم بھی جاری ہے،لیکن ہماری ستم ظریفی دیکھئے کہ قوم کے اس اجماعی مطالبے اور اجتماعی خواہش کی طرف پیش قدمی کومیڈیا میں مختلف مواقع پر ہدفِ تنقید وتنقیص بنایا جارہا ہے،لسانیات میں محاوروں، کہاوتوں، اعلام،اصطلاحات،ضرب الامثال،تشبیہات،استعاروں اور کنایوں کے لطائف وقواعد سے بجا طورپر خبر نہ رکھنے والے یہاں عجیب وغریب مثالیں دے کر اس اہم مسئلے کی تخفیف کررہے ہیں، ایسے حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ یہاں مذکورہ نگارشات کے ساتھ ساتھ لسانیات کے موضوع کو کچھ وقت دے کر اسے سمجھا جائے اور پھراس پر عالمانہ وماہرانہ لب ولہجے میں تعمیری گفتگو کی جائے، تو شاید یہ ہم سب اور ملک وملت کے حق میں بہت بہتر ہوگا۔آیئے ہم اس پُر لطف موضوع پر آ پ کو لئے چلتے ہیں۔
’’محاورہ عربی زبان کا لفظ ہے اس میں"محور" شامل ہے جس کے معنی ہیں مرکزی نقطہ ٔفکر و عمل۔ جس کے گرد دائرے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ زبان کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے یعنی وہ دائرہ جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے گرد پھیلی ہوئی بہت ساری حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ہمارے محاورات ہمارے مُشاہدوں اور طرح طرح کے تجربوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں کہیں عام معاشرتی انداز فلسفیانہ اور کہیں شاعرانہ انداز سے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں گاہ گاہ پیشہ وارانہ انداز بھی شامل رہتا ہے۔ اور طبقہ وارانہ بھی اس میں ہمارے قدیم الفاظ بھی محفوظ ہیں اور قدیم روز مرّہ بھی یہ عمومی زبان اور عام لب و لہجہ سے قریب ہوتا ہے اور ایک حد تک اِس میں تخیل اور تجربہ کا اور تجزیہ کا آمیزہ بھی پایا جاتا ہے۔

"زبان" کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کو دخل ہوتا ہے۔ ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے، اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے، اور وہیں سے اُس سوچ یا اُس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں۔ اور پھر اُن میں سے کچھ فقرہ اور جملے محاورات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اور ایک طرح سے محاورہ کی اِس حیثیت پر ہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب تک یہ تو ہوتا رہا کہ محاورہ کی صحتِ استعمال پر زور دیا گیا۔ اُس کی نوکِ پلک دُرست رکھی گئی۔ اور اِس طرح کی کتابیں بھی بعد کے زمانے میں تحریر ہوئیں کہ محاورے کے معنی یہ ہیں اور اِس کا استعمال یہ ہے۔ یہ کام تدریسی نقطہ نظر کی سطح پر ہوا۔ یا پھر زبان کے ایک بڑے حصّے کو محفوظ کرنے کی غرض سے اسے انجام دیا گیا۔ چرنجی لال کی لغت مخزن المحاورات اسی کا ایک اہم نمونہ ہے اور قابلِ تعریف کام ہے۔ جس کو اب ایک طویل عرصہ گزرنے پر ایک یادگار عملی کام قرار دیا جا سکتا ہے۔

مگر اِس ضمن میں محاورے پراس پہلو سے غور و فکر نہیں کیا گیا کہ اُس نے ہماری زبان و بیان، تہذیبی رویوں اور معاشرتی تقاضوں سے کس طرح کے رشتہ پیدا کئے۔ اُن کو زبان و ادب اور معاشرت کا آئینہ دار بنایا۔ جب کہ محاورات کے سلسلے میں یہی سب سے اہم پہلو تھا اس لئے کہ زبان اور ادب کا ایک"اٹوٹ" اور"گہرا رشتہ" تہذیب سے ہوتا ہے۔ اور تہذیبی رشتہ وہ ہوتا ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ اُن کے لئے روشنی اور رہنمائی کے طور پر کام آتا ہے۔

تہذیبی مطالعہ ایک الگ سلسلہ ٔفکر و نظر ہے اور اخذِ نتائج کے لئے ایک جُداگانہ زاویہ نگاہ ہے۔ کیونکہ اس پہلو (Angle) سے محاورے پر ہنوز کوئی کام نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ الفاظ و صویتات ہوں یا پھر لغت و قواعد کے دائرہ میں آنے والی کچھ خاص اور اہم باتیں ہوں، اُن کو کلیتاً عصری تہذیب اور دواری دائرہ ہائے فکر و عمل سے آزاد نہیں کر سکتے۔ نیز بولی کو سامنے رکھ سکتے ہیں کہ شہری زبان کے ساتھ قصبہ و دیہات کی زبان میں بھی فرق آیا ہے۔ اور ایک زبان نے دوسری زبان کو متاثر بھی کیا ہے اور اِس نے تاثر بھی قبول کیا ہے۔

زبان میں محاورہ کی حیثیت بنیادی کلمہ کی بھی ہے اور زبان کو سجانے اور سنوارنے والے عنصر کی بھی اس لئے کہ عام طور پر اہلِ زبان محاورہ کے معنی یہ لیتے ہیں کہ ان کی زبان کا جو اصل ڈول اور کینڈا ہے یعنی Basic structure جس کے لیے پروفیسر مسعود حسن خاں نے ڈول اور کینڈا کا لفظ استعمال کیا ہے، جو اہلِ زبان کی لبوں پر آتا رہتا ہے۔ اور جسے نسلوں کے دور بہ دور استعمال نے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسی کو صحیح اور دُرست سمجھا جائے۔ اہلِ دہلی اپنی زبان کے لئے محاورۂ بحث خالص استعمال کرتے تھے۔ اور اس محاورہ بحث کو ہم میر کے اس بیان کی روشنی میں زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ میرے کلام کے لئے یا محاورۂ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں یعنی جو زبان صحیح اور فصیح دہلی والے بولتے ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا اُس کے آس پاس اس کو سُنا جا سکتا ہے۔ وہی میرے کلام کی کسوٹی ہے۔
ہم ذوق کی زندگی میں ایک واقعہ پڑھتے ہیں کہ کوئی شخص لکھنؤ یا کسی دوسرے شہر سے آیا اور پوچھا کہ یہ محاورہ کس طرح استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے بتلایا۔ مگر پوچھنے والے کو ان کے جواب سے اطمینان نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی سند کیا ہے۔ ذوق ان کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر لے گئے۔ انہوں نے جب لوگوں کو وہ محاورہ بولتے دیکھا تو اس بات کو مان گئے اور اس طرح معلوم ہو گیا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں کس معنی میں محاورہ کے لئے سندِ اعتبار تھیں۔ میر انشاء اللہ خاں نے اپنی تصنیف دریائے لطافت میں جو زبان و قواعد کے مسئلہ پر اُن کی مشہور تالیف ہے، اُن محلوں کی نشاندہی کی ہے جہاں کی زبان اُس زمانہ میں زیادہ صحیح اور فصیح خیال کی جاتی تھی شہر دہلی فصیل بند تھا اور شہر سے باہر کی بستیاں اپنے بولنے والوں کے اعتبار سے اگرچہ زبان اور محاورہ میں اس وقت اصلاح و اضافہ کے عمل میں ایک گوناگوں Contribution کرتی تھیں لیکن اُن کی زبان محاورہ اور روزمرّہ پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ اِس کا اظہار دہلی والوں نے اکثر کیا ہے۔

میر امن نے باغ و بہار کے دیباچہ میں اِس کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ اپنی سات پشتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیں قرار پا سکتے کہیں نہ کہیں اُن سے چُوک ہو جائے گی ،اور وہی صحیح بولے گا جس کی"آنول نال" دہلی میں گڑی ہو گی اِس سے دہلی والوں کی اپنی زبان کے معاملہ میں ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ محاورے سے مراد انگریزی میں Proverb بھی ہے اور زبان و بیان کی اپنی ادائے محاورہ کے دو معنی ہیں ایک محاورہ با معنی Proverb اور دوسرا محاورہ زبان و بیان کا سلیقہ طریقہ اور لفظوں کی Setting بھی۔

اس کے مقابلہ میں لکھنؤ والے اپنی زبان پر اور اپنے شہر کے روزمرہ اور محاورے کو سند سمجھتے تھے رجب علی بیگ سرور نے ’فسانہ عجائب ‘میں میر امن کے چیلنج یا دعوے کا جواب دیا اور یہ کہا کہ لکھنؤ کی شہریت یہ ہے کہ باہر سے کوئی کیسا ہی گھامڑ اور کندۂ نا تراش آتا ہے بے وقوف جاہل اور نامہذب ہو اور ہفتوں مہینوں میں ڈھل ڈھلا کر اہلِ زبان کی طرح ہو جاتا ہے یہ گویا میرا من کے مقابلہ میں دوسرا معیار پیش کیا جاتا ہے ۔

ہماری زبان میں ایک رجحان تو یہ رہا ہے اور ایک پُر قوت رجحان کے طور پر رہا کہ شہری زبان کو اور شرفاء کے محاورات کو ترجیح دی جائے اور اسی کو سندِ اعتبار خیال کیا جائے اور اِس کی کسوٹی محاورۂ اہلِ دہلی قرار پایا۔

اس سلسلہ میں ایک اور رجحان رہا جو رفتہ رفتہ پُر قوت ہوتا چلا گیا کہ زبان کو پھیلا یا جائے اور دوسری زبانوں اور علوم و فنون کے ذریعہ اس میں اضافہ کیا جائے، کہ زبان سکڑ کر اور ٹھٹھر کر نہ رہ جائے ،شہری سطح پر امتیاز پسندی آ جاتی ہے تو وہ لوگ اپنی تہذیب کو زیادہ بہتر اور شائستہ سمجھتے ہیں۔ اور اپنے لب و لہجہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور امتیازات کو قائم رکھتے ہیں۔ لکھنؤ اور دہلی نے یہی کیا۔ اس کے مقابلہ میں لاہور کلکتہ اور حیدر آباد کا کردار دوسرا رہا۔ شاید اس لئے کہ وہ اپنی مرکزیت کو زیادہ اہم خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اُس پر زور نہیں دیتے تھے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے گئے، انہوں نے اضافہ سنئے اور نئی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ زمانہ بھی بدل گیا تھا نئے حالات نئے خیالات اور نئے سوالات پیدا ہو گئے تھے۔

محاورہ کی ایک جہت ادبی ہے اور ایک معاشرتی۔ یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تو اُن کی مراد صرف Proverb سے نہیں ہوتی، بلکہ اُس روز مرّہ سے ہوتی ہے۔ جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینیس (Genius) چھُپا رہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے محاورہ پر بہت زور دیتے تھے۔ اب وہ صُورت تو نہیں رہی مگر محاورے کی ادبی اور تہذیبی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا جائے، یہ مسئلہ اب بھی اہم بلکہ یہ کہئے کہ غیر معمولی طور پر اہم ہے اس لئے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور پرداخت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور زبان کے استعمال کی پہلو داریوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو اپنے محاورہ کی کسوٹی قرار دیتے تھے۔ اُس کی اپنی لِسانی ادبی تاریخی اور معاشرتی پہلو داریاں ہیں۔ جن کو اِن خاص علاقوں میں بولے جانے والی زبان اور اندازِ بیان نے اپنے ساتھ خصوصی طور پر رکھا ہے اور اس طرح کئی صدیوں کے چلن نے اسے سندِ اعتبار عطا کی ہے۔ زبان اور بیان کی روایتی صورتوں کو الفاظ کلمات اور جملوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے۔ اس میں روایت بھی شامل ہوتی ہے اور بولنے والوں کا اپنا ترجیحی رو یہ بھی۔ کہ وہ کس بات کو کس طرح کہتے اور سمجھتے ہیں۔ محاورہ میں آنے والے الفاظ تین پانچ کرنا یا نو دو گیارہ ہونا تین تیرہ بارہ باٹ یہ ایک طرح سے محاورے بھی ہیں اور جملے کی وہ لفظی اور ترکیبی ساخت بھی جو اپنا ایک خاص Setting کا اندازہ رکھتی ہے۔

اِن دو جہتوں کے ماسوا محاورہ کے مطالعہ کی ایک اور بڑی جہت ہے جس پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی گئی یہ جہت محاورہ کے تہذیبی مطالعہ کی ہے اور اُس کے ذہنی زمانی انفرادی اور اجتماعی رشتوں کو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اس تعلق کو اُس وقت تک پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک اُن تمام نفسیاتی سماجیاتی اور شخصی رشتوں کو ذہن میں نہ رکھا جائے جو محاورہ کو جنم دیتے ہیں۔ اور لفظوں کا رشتہ معنی اور معنی کا رشتہ معنویت یعنی ہمارے سماجیاتی پس منظر اور تاریخی و تہذیبی ماحول سے جوڑتے ہیں یہ مطالعہ بے حد اہمیت رکھتا ہے اور اُس کے ذریعہ ہم زبان اُس کی تہذیبی ساخت اور سماجیاتی پرداخت کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔

عام طور پر ہمارے ادیبوں، نقادوں اور لِسانیاتی ماہروں نے اِس پہلو کو نظرانداز کیا اور اِس کی معنویت پر نظر نہیں گئی۔ اِس کے لئے ہم ایک سے زیادہ محاوراتی صورتوں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں‘‘۔
(اردو محاورہات کاتہذیبی مطالعہ۔از ڈاکٹر عشرت ہاشمی، مع تغییر واضافات)
’’کسی بھی زبان کا منظوم ادب ہو یا نثری اسالیب، محاورہ ادب کی ان دونوں شاخوں میں بڑی اہمیت رکھتا ہے-
لسانیات اور ادبیات کے باب میں محاورہ کی ہمہ گیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی زبان سے اس کے محاورات الگ کرلیے جائیں تو جو کچھ باقی بچے گا وہ شاید ایک بے روح جسم کے علاوہ اور کچھ نہ ہو- محاورہ اپنی ہیئت ترکیبی اور معنوی گہرائی کے اعتبار سے زبان کی ایک خوبصورت فنی پیداوار ہوتا ہے- عام طور پر محاورہ تشبیہ، استعارہ اور کنایہ جیسی اصناف بلاغت کے حسین امتزاج سے تشکیل پاتا ہے اور عوام و خواص کا بے تکلف اور برجستہ استعمال اس کی فصاحت، بلاغت، ہمہ گیریت اور مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کردیتا ہے-

ڈاکٹر یونس اگا سکو کے بقول اردو میں محاورہ ’’ الفاظ کے ایسے مجموعہ کو کہتے ہیں جس سے لغوی معنی کی بجائے ایک قرار یافتہ معنی نکلتے ہوں- محاورہ میں عموماً علامت مصدر ’’ نا‘‘ لگتی ہے جیسے آب آب ہونا، دل ٹوٹنا، خوشی سے پھولے نہ سمانا- محاورہ جب جملے میں استعمال ہوتا ہے تو علامت مصدر ’’ نا‘‘ کی بجائے فعل کی وہ صورت آتی ہے جو گرامر کے اعتبار سے موزوں ہوتی ہے جیسے دل ٹوٹ گیا- دل ٹوٹ جاتے ہیں، دل ٹوٹ جائے گا وغیرہ‘‘ ( اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو ص:۴۵)۔

جدید عربی میں محاورہ کو ’’ التعبیر الاصطلاحی‘‘(Idiomatic Expression) کہتے ہیں-اس کے علاوہ بعض لوگوں نے اس کے لیے’’التعبیر الأدبی‘‘ یا ’’ العبارۃ الماثورہ‘‘ یا ’’ القول السائر‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں- عربی میں ’’ التعبیر الاصطلاحی‘‘ کا مفہوم اردو میں محاورہ کے مفہوم سے تھوڑا وسیع ہے- اردو میں ہم محاورہ، روز مرہ اور اصطلاح تین قسمیں کرتے ہیں اور ان تینوں کے درمیان لفظی و معنوی اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے مگر عربی میں التعبیر الاصطلاحی اپنے وسیع تر مفہوم میں ان تینوں کو شامل ہے مثلاً، ’’مگر مچھ کے آنسو‘‘ اردو میں محاورہ نہیں بلکہ اصطلاح کے تحت درج کیا جائے گا، مگر عربی میں ’’ دموع التمساح‘‘ التعبیر الاصطلاحی کہلائے گا-

یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر محاورہ اور کہاوت یا التعبیر الاصطلاحی اور ضرب المثل کے درمیان خلط ملط کردیا جاتا ہے- یہ غلطی ایسی ’’ عامۃ الورود‘‘ ہے کہ عوام تو عوام بہت سے خواص بھی اس کا شکار ہوگئے ہیں- مثال کے طورپر پروفیسر محمد حسن کی کتاب ’’ ہندوستانی محاورے‘‘ میں آدھے سے زیادہ ضرب الامثال یا با لفاظ دیگر کہاوتیں درج کردی گئی ہیں- اسی طرح منشی چرنجی لال دہلوی نے ’’ مخزن المحاورات‘‘ کے نام سے جو ذخیرہ جمع کیا ہے اس میں کثرت سے امثال روز مرہ اور اصطلاحات کو شامل کرلیا ہے- منیر لکھنوی کی مشہور لغت ’’ محاورات نسواں‘‘ میں ایک بھی محاورہ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ ضرب الامثال اور کہاوتوں کا مجموعہ ہے-

پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی نے اپنی مشہور کتاب ’’ کیفیہ‘‘ میں دسواں باب محاورہ کے لیے خاص کیا ہے مگر اس میں بھی ۳۰؍ سے زائد کہاوتیں درج کردی ہیں- در اصل یہ خلط مبحث محاورہ اور مثل کی متفقہ جامع و مانع تعریف وضع نہ کیے جانے کا شاخسانہ ہے- مثال کے طور پر ’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ کے مصنف نے اصطلاح کی جو تعریف کی ہے اس کو کسی حد تک محاورہ کی تعریف تو کہا جاسکتا ہے مگر ان کی بیان کردہ محاورہ کی تعریف در اصل نہ محاورہ پر صادق آتی ہے نہ ضرب المثل پر- محاورہ کی تعریف میں انہوں نے یہ جملہ لکھ کر مسئلہ کو اور پیچیدہ کردیا کہ ’’عین مستورات کی زبان کو محاورہ کہتے ہیں‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ محاورہ کی مثال میں مصنف نے میر کا یہ شعر نقل کیا ہے:
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب ان کی زلف کے اسیر ہوئے

اس میں غالباً ’’زلفوں کا اسیر ہونا‘‘ کو تو محاورہ کہا جاسکتا ہے مگر یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ یہ’’ عین مستورات کی زبان‘‘ کیونکر قرار پایا-

محاورہ اور ضرب المثل کی متضاد تعریفوں اور غیر متعین حدود اربعہ ہی کا نتیجہ ہے کہ جن مخصوص تراکیب کو فیروز اللغات میں محاورہ قرار دیا گیا ہے ان تراکیب کو فرہنگ آصفیہ میں صرف ’’ مصدر‘‘ کہا گیا ہے- اور صاحب فرہنگ نے جن تراکیب کو محاورہ لکھا ہے وہ فیروز اللغات میں ضرب المثل کے تحت درج ہیں-

اسی قسم کا خلط مبحث عربی میں نظر آتا ہے- مثلاً ابن عمر السدوسی کا رسالہ ’’ کتاب الا مثال‘‘ در اصل محاورات یا بالفاظ دیگر التعبیر الاصطلاحی کا مجموعہ ہے- ابن سلمہ نے ’’ الفاخر‘‘ میں محاورات اور امثال کو آپس میں گڈ مڈ کردیا ہے- البتہ الشعابی نے ’’ فقہ اللغۃ‘‘ میں محاورات کو امثال سے الگ رکھتے ہوئے ان کو ’’ فصل فی الا ستعارہ‘‘ کے تحت درج کیا ہے- ان متقدمین کا دفاع کرتے ہوئے ڈاکٹر کریم حسام الدین نے لکھا ہے کہ در اصل اس وقت زبان اور اس کے قواعد و ضوابط اپنے ارتقائی مراحل میں تھے- اور اصطلاحات کی تعریفات یا ان کے مفاہیم کے حدود اربعہ متعین نہیں ہوئے تھے اس لیے اس وقت مثل اپنے وسیع مفہوم کے تحت محاورات کو بھی شامل تھی- یہ دفاعی دلیل کسی حد تک قابل قبول ہے مگر آخر ان متاخرین یا معاصرین کے بارے میں کیا تاویل کی جائے گی جو مثل اور محاورہ میں اصطلاحی طور پر فرق متعین ہونے کے باوجود دونوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کیے ہوئے ہیں- مثلاً سلیمان فیاض کی ’’ معجم الماثورات اللغویہ والتعابیر الادبیۃ‘‘ میں ۹۰ فیصد امثال ہیں اور ’’ التعابیر الادبیۃ‘‘ براے نام ہی ہیں- دور حاضر کے ممتاز ادیب و ناقد اور ماہر ادبیات ڈاکٹر شوقی ضیف نے اپنی کتاب ’’ الفن ومذاھبہ فی النثر العربی‘‘ میں محاورات یا بالفاظ دیگر ’’التعبیر الاصطلاحی‘‘ کو’’ مثل‘‘ ہی کے تحت رکھا ہے، مزید الجھاؤ اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے مات حتف انفہ اور حمی الوطیس جیسے محاوروں کو کل الصید فی جوف الفرا جیسی مثل کی صف میں کھڑا کردیا (ص:۷۵)۔

المنجد میں بھی بے شمار محاورات کو مثل کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے-دراصل محاورہ اور مثل میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مثل ہمیشہ جوں کی توں استعمال کی جاتی ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی- مثلاً اردو کی کہاوت ہے ’’ کھسیانا بلی کھمبا نوچے‘‘ اب ایسا نہیں ہے کہ آپ اس کو مرد کے لیے استعمال کریں تو ’’کھسیا نا بلا‘‘ کردیں- اسی طرح عربی کی مثل ہے’’ بلغ السیل الزبیٰ‘‘،یہ ہمیشہ اسی طرح استعمال ہوگی، اس میں تبدیلی کر کے لم یبلغ یا سوف یبلغ وغیرہ نہیں کہا جاسکتا- اس کے بر خلاف محاورے میں تذکیر و تانیت واحد و جمع اور ماضی و حال و مستقبل کے اعتبار سے حسب ضرورت اور حسب موقع صیغہ میں تبدیلی کی جاتی ہے، مثلاً شرم سے پانی پانی ہوگیا، ہوگئے، ہوگئی، ہوجاؤگے وغیرہ، اسی طرح عربی میں بھی شمر عن ساعد الجد شمرت، شمروا، لم یشمر وغیرہ-

ایک فرق یہ بھی ہے کہ محاورہ عبارت کا جزٔبن کر اس میں جذب ہوجاتا ہے مگر مثل یا کہاوت عبارت میں اپنی الگ شناخت رکھتی ہے- مثلاً ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا یا پھر ’’لا عطر بعد العروس‘‘یہ عبارت میں الگ سے پہچان لیے جائیں گے-

اردو یا عربی امثال کا ایک بڑا ذخیرہ وہ ہے جس کو ہم ’’ شعری ضرب الامثال‘‘ کہتے ہیں- امثال کی یہ قسم یا تو کسی شعر کا ایک مصرعہ ہوتی ہے جو اپنی برجستگی اور کثرت استعمال کے سبب مثل کے درجہ کو پہونچ جاتی ہے- یا پھر اتفاقیہ طور پر کوئی مثل کسی عروضی وزن پر ہوتی ہے- اردو کی مثل ہے…ع … ’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘، اسی طرح عربی کی مثل ہے ’’ ما ھٰکذا یا سعد تُورَد الابل‘‘ مگر محاورہ ابتدائً فاعلاتن فاعلن کی بھول بھولیوں میں کبھی قید نہیں ہوتا بلکہ اس کو حسب ضرورت شعر میں استعمال کیا جاتا ہے-

محاورہ خواہ کسی زبان کا ہو اس سے ہمیشہ حقیقی معنی کی بجائے مجازی معنی مراد ہوتا ہے، اہل زبان تو اپنے محاورات کے مجازی معنی خوب سمجھتے ہیں، مگر غیر زبان والے کو ان کا معنی سمجھنا دشوار ہوتا ہے، یہ معنی تو کبھی سیاق و سباق سے سمجھ میں آجاتا ہے اور بعض وقت سیاق و سباق بھی اس مجازی معنی کے فہم میں غیر معاون ثابت ہوتے ہیں- اردو کے محاورے میں ہم کہتے ہیں ’’ اس کا دل باغ باغ ہوگیا‘‘ اس کا معنی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فرحت و انبساط میں مبالغہ کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی ’’ وہ بہت خوش ہوا‘‘ اگر آپ اس کا عربی میں لفظی ترجمہ کردیں تو یہ ہوگا کہ’’ اصبح قلبہ حدیقۃً حدیقۃً‘‘ ظاہر ہے کہ عربی کا بڑے سے بڑا ادیب بھی اس کا معنی سمجھنے سے قاصر رہے گا- اسی طرح عربی کا محاورہ ہے ’’ مات حتف انفہ‘‘ اہل زبان اس کا مجازی معنی سمجھتے ہیں، یعنی ’’ بغیر کسی ظاہری سبب یا مرض کے اس کا انتقال ہوگیا‘‘ لیکن اگر اس کا لفظی ترجمہ کردیں، تو یہ ہوگا کہ ’’ وہ اپنی ناک کی موت مرگیا‘‘ ،یہ اردو میں بالکل بے معنی ہے-

ہاں کچھ محاورے ایسے ہیں جو دونوں زبانوں میں مشترک ہیں- ایسے محاوروں کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی- کسی ایسے عربی محاورہ کا لفظی ترجمہ اگر ہم لغت میں دیکھیں تو فوراً ہمارا ذہن اس کے مجازی معنی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے- کیونکہ بعینہ انہی الفاظ میں وہ مخصوص مجازی معنی ہماری زبان میں موجود ہے- مثلاً عربی کا محاورہ ہے ’’اقتلعہ من جذورہ‘‘ اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ ’’ اس کو جڑسے اکھاڑ پھینکا‘‘ بالکل یہی اردو کا محاورہ بھی ہے، لہٰذا ہم فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ عربی کے اس محاورہ کا مجازی معنی یہ ہوا کہ ’’اس کا صفایا کردیا‘‘، اسی طرح اردو کا ایک محاورہ ہے ’’ ہاتھ مانگنا‘‘ اس کا مجازی معنی ہے کہ کسی سے رشتہ کی بات کرنا یا شادی کا پیغام دینا- اس کا لفظی ترجمہ اگر عربی میں کردیا جائے،تو یہ ہوگا ’’أن یطلب یدھا‘‘یہ عربی کا محاورہ بھی ہے اور اسی معنی میں مستعمل ہے جس میں اردو میں مستعمل ہے لہٰذا کسی عربی کو اس کا معنی سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی-

کچھ محاورے ایسے ہیں جو بعینہ تو نہیں لیکن تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ دونوں زبانوں میں ہیں- مثال کے طور پر اردو کا محاورہ ہے ’’الٹی چھری سے ذبح کردیا‘‘ اس کا مطلب ہے بہت اذیت اور تکلیف پہنچائی- اسی معنی میں عربی کا محاورہ ہے ’’ ذبحہ بغیر سکین‘‘ یعنی بغیر چھری کے ذبح کردیا- اسی طرح اردو کا محاورہ ہے ’’ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا‘‘ اس کا مطلب ہے کسی کی کمزوری پکڑلی یا معاملہ کے سب سے اہم پہلو کی گرفت کی- اسی معنی میں عربی کا محاورہ ہے ’’وضع اصبعہ علی الجرح ‘‘یعنی زخم پر انگلی رکھ دی-
کچھ محاورے ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی تاریخی پس منظر ہوتا- یہ محاورے کسی واقعہ یا حادثے کے بطن سے جنم لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اصل واقعہ فراموش ہوجاتا ہے مگر محاورہ سکہ رائج الوقت کی طرح باز ار ادب میں چلتا ہے- ہم میں سے کون نہیں کہتا کہ ’’میں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے‘‘ یعنی اس کو کرنے کا پختہ ارادہ اور عزم کرلیا ہے یا اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے، مگر کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ در اصل اس محاورہ کے پس منظر میں ایک راجپوتانہ رسم ہے- جب کسی سردار یا راجہ کو کوئی اہم کام یا مہم درپیش ہوتی تھی تو وہ دربار میں ایک تخت پر ایک تلوار، شربت کا پیالہ اور ایک پان کا بیڑا رکھوادیا کرتا تھا اور پھر مصاحبین اور خواص سے اس اہم کام کا ذکر کرتا تھا- ان میں سے کوئی سورما آگے بڑھ کر تلوار کمر سے باندھتا تھا، شربت پیتا تھا اور پان کا بیڑا اٹھاکر منھ میں رکھ لیا کرتا تھا- گویا اس نےمہم کو سر کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے ،چنانچہ یہ محاورہ بن گیا، اسی طرح عربی کے بہت سے محاورے اپنے پیچھے کوئی تاریخی واقعہ یا تہذیبی و سماجی پس منظر رکھتے ہیں، مثلاً ایک محاورہ ہے ’’ رفع عقیرتہ‘‘ اس کا پس منظر یہ ہے کہ عرب کے ایک شخص کی ٹانگ کٹ گئی- اس نے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ اٹھاکر چیخنا چلانا شروع کردیا ،چونکہ کٹے ہوئے عضو کو ’’عقیر ۃ‘‘ کہتے ہیں لہٰذا چیخنے چلانے اور شور مچانے کے لیے یہ محاورہ بن گیا- (لسان العرب مادۃ عقر)۔

رفع عقیرتہ یعنی اس نے اپنی کٹی ہوئی ٹانگ اٹھالی بالفاظ دیگر اس نے شور مچایا اب مجاز در مجاز کی چوٹ کھاتا ہوا یہ محاورہ جدید عربی میں اس طرح استعمال ہوتا ہے ’’ رفع عقیرتہ ضد فلان‘‘ یعنی فلاں کے خلاف آواز اٹھائی-

جب تک کسی زبان کے محاورات پر گہری نظر نہ ہو ،اس وقت تک اس زبان میں اچھی انشا پردازی نہیں کی جاسکتی- اور اگر آپ ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کررہے ہیں ،تو محاوروں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے- ایسی صورت میں ضروری ہے کہ آپ دونوں زبانوں کے محاورات سے بخوبی واقف ہوں تاکہ محاورہ کا ترجمہ محاورہ میں کیا جاے- اسی کو ’’ با محاورہ ترجمہ‘‘ کہتے ہیں، اگر آپ محاورہ کا لفظی ترجمہ کردیں گے تو یا تو وہ بے معنی ہوجائے گا یا کم ازکم غیر فصیح ہوگا- سواے ان محاورات کے جو لفظ و معنی میں یکسانیت کے ساتھ دونوں زبانوں میں ہیں مگر ایسے محاورے کم ہی ہیں - یہ ایسا نازک مقام ہے کہ یہاں اچھے اچھوں کی قابلیت غوطہ کھا جاتی ہے- ہمارے یہاں آج بھی ’’ ذھب ابو حنیفۃ الی کذا‘‘ کا ترجمہ ’’ ابو حنیفہ اس طرف گئے ہیں‘‘ کیا جاتا ہے- یہ ترجمہ نہ صرف یہ کہ غیر فصیح ہے بلکہ اردو محاورہ کے اعتبار سے بھی غلط ہے دراصل سلیس اور با محاورہ ترجمہ کرنا بھی ایک فن ہے جو محض زبان کے قواعد رٹ لینے اور مفردات کو حفظ کرلینے سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے ذوق سلیم اور ادبی شعور بھی ضروری ہے- شاید اسی ذوق سلیم اور ادبی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں اگر ’’ فقد قال زید‘‘ کا ترجمہ ’’ پس تحقیق کہ کہا زید نے‘‘ نہ کیا جائے تو بعض ’’کافیہ بردوش‘‘ قسم کے علامہ چیں بجبیں ہوجاتے ہیں - اس قسم کے ترجمے درسگاہوں میں اگر نحو و صرف کی کتابوں میں دی گئی مثالوں تک محدود رہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اسی قسم کے نحوی و صرفی ترجمے عام مذہبی، ادبی اور تاریخی کتابوں میں روا رکھے جاتے ہیں، ان کو دیکھ کر سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’ شعر مرا بمدرسہ کہ برد‘‘ یہ تو عربی سے اردو ترجمہ کی بات تھی اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو سے عربی ترجمے اپنے جلو میں کیسے کیسے ادبی جواہر پارے اور محاوراتی شاہکار رکھتے ہوں گے-
ایک بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ عام طور پر عربی سے اردو یا اردو سے عربی لغات میں محاورات بہت کم شامل کیے گئے ہیں، اورجو ہیں بھی ان کے یا تو لفظی معنی درج کردئیے گئے ہیں یا پھر اپنی طرف سے کوئی ایسی تعبیر گڑھ دی گئی ہے جس سے اہل زبان نا آشنا ہیں-

اب تک کوئی ایسی کتاب بھی دیکھنے میں نہیں آئی جس میں عربی محاورات کو یکجا کر کے اردو میں ان کا متبادل محاورہ دیا گیا ہو- پاکستان سے شائع شدہ ایک دو کتابیں ضرور نظر سے گذریں مگر ان میں یا تو محاورات کے نام پر ضرب الامثال جمع کردی گئی ہیں یا پھر تعبیرات کے نام پر عرب کے مستند ادبا کی کتابوں سے شگفتہ اور عمدہ جملے یکجا کردئیے گئے ہیں-

جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا کہ با محاورہ ترجمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو دونوں زبانوں کے محاورات سے واقفیت ہو، مثال کے طور پر اگر عربی میں یہ ہو کہ ’’ضرب عصفورین بحجر‘‘ تو اس کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ اس نے ایک پتھر سے دو چڑیا ں ماریں بلکہ یہ ہوگا کہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے- اسی طرح اگر یہ ہو کہ ’’جعل الحبۃ قبۃ‘‘ تو اس کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ اس نے دانے کا گنبد بنادیا بلکہ یہ ہوگا کہ اس نے رائی کا پہاڑ بنادیا- اسی طرح اگر اردو میں یہ ہو کہ اس نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی تو اس کا ترجمہ عربی میں یہ نہیں ہوگا کہ ’’ضرب علی رجلہ بالفأس‘‘ بلکہ یہ ہوگا کہ ’’ بحث عن حتفہ بظلفہ‘‘ یعنی اس نے اپنے ہاتھ اپنی قبر کھود دی۔۔۔۔‘‘

(عربی اور اردو محاورات کا تقابلی جائزہ - علامہ اُسید الحق بدایونی ۔جامِ نور، جولائی ۲۰۰۴ مع تغییر واضافات)

بہرحال اس موضوع پر بھاری بھرکم کام کی شدید ضرورت ہے،البتہ اسلامی تہذیب وتمدن اور لسانیات کے عروج وزوال پر کافی دسترس رکھنے والے ماہرین کی نگرانی میں اس تحقیق کو آگے بڑھایا جائے،پھر کہیں جاکر لوگوں کو اردو کی تنفیذ کے حوالے سے سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877999 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More