ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات میں بہتری آنے کی امیدیں
بھارت کے جارحانہ اور ہٹ دھرم رویے کی نذر ہو گئی ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتوں
کے درمیان بہت سے متنازعہ امور کا حل نکالنے کے لیے ہونے والے مذاکرات سے
راہ فرار اختیار کر کے بھارت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ خطے کو پرامن نہیں
دیکھنا چاہتا، بلکہ وہ یہاں امن سے زیادہ بدامنی کا خواہاں ہے۔ بھارت نے
مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنے سے معذرت کر لی، جو سراسر
ایک لغو حرکت ہے، جب کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے بغیر بھارت سے
مذاکرات بے سود ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے
اور نہ ہی پاکستان اب بھارت سے مذاکرات کی درخواست کرے گا۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ
مسئلہ کشمیر ہے، لیکن بھارت اس معاملے کو مسئلہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان اہم مسئلہ ہے،
لیکن اس کے باوجود بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے کشمیر کو فریق
ماننے سے انکار کرتے ہوئے مذاکرات کی میز کو ہی الٹ دیا ہے۔ اس سے ثابت
ہوتا ہے کہ بھارت نے ایک مرتبہ پھر ضد، انانیت اور غرور و تکبر کا مظاہرہ
کرتے ہوئے پاکستان سے بات چیت کے اہم موقعے کو ضایع کر دیا ہے اور دوطرفہ
مسائل کے حل کے لیے امید کی جو کرن ظاہر ہوئی تھی۔ وہ بھارتی حکمرانوں کی
غیر سنجیدگی اور عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر گزشتہ 68 سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازعہ چلا آ
رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں ملکوں نے جنگیں لڑیں اور مذاکرات کی
میز پر بھی اسے حل کرنے کی کوششیں کیں، لیکن مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا۔ اگر یہ
مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کر لیا جاتا تو اس خطے میں ایک مدت پہلے امن قائم
ہو چکا ہوتا، لیکن بھارت کی ضد کی وجہ سے یہ مسئلہ مسلسل طوالت اختیار کیے
جا رہا ہے۔
بھارت کی شروع دن سے یہی پالیسی رہی ہے کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت ہر ایشو پر مذاکرات کا عندیہ
دیتا ہے، مگر جب مذاکرات کا وقت قریب آتا ہے تو وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے
سے مذاکرات کی میز خود ہی پلٹ دیتا ہے اور اپنا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے
حالات کو مزید کشیدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ اس کی شاطرانہ سوچ کا
شاخسانہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل
کر کے اچھے ہمسائے کی طرح تعلقات کو بڑھانے کی بات کی ہے، مگر بھارت نے بغل
میں چھری اور منہ پہ رام رام کی پالیسی اپنائی۔ ماضی شاہد ہے کہ پاکستان کی
خطے میں قیام امن کی کوششوں کے جواب میں بھارت نے نہ صرف پاکستان، بلکہ
عالمی برادری کی کوششوں کو بھی یکسر نظر انداز کر کے ہمیشہ مذاکرات سے فرار
اختیار کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کو موقع دینے کی کوشش کی ہے، لیکن
اپنی شاطرانہ و جارحانہ جبلت سے مجبور بھارت نے ہمیشہ بدامنی کو فروغ دیا
ہے۔
کشمیر کے عوام تمام مصائب برداشت کر کے بھی اپنے حق کے لیے جدوجہد کرتے آ
رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی ان کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ دنیا کا کوئی ملک
ایسا نہیں جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت نہ کرتا ہو، لیکن اس کے
باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں خود بھارتی
وزیر اعظم جواہر لال نہرو لے کر گئے تھے۔ جس پر کشمیریوں کو حق خودارادیت
کے لیے اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی، اس پر بھارت نے بھی دستخط کیے،
لیکن بھارت نے ہمیشہ اس قرارداد پر عمل سے کنی کترائی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا
حل عالمی ادارے نے تجویز کیا تھا، اس پر اقوام متحدہ ہی کو عمل کرانا
چاہیے، لیکن اقوام متحدہ دہرا معیار اپنائے ہوئے ہے۔ طویل عرصے کے بعد بھی
کشمیر کے معاملے کو الجھایا ہوا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی
متفقہ قرارداد پر عملدرآمد ہی نہیں کرایا جا رہا۔ 1948ءسے لے کر اب تک
بھارت کو دو ٹوک انداز میں اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق رائے دہی دینے کا
نہیں کہا، حالانکہ اخلاقی طور پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کا فرض بنتا ہے
کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے انفرادی طور پر بھرپور
کوششیں کریں اور ایسے فیصلے و اقدامات کیے جائیں، جس سے اقوام متحدہ کی
قراردادوں پر مکمل عملدرآمد یقینی بن سکے۔ بصورت دیگر بھارت کا غیر سنجیدہ
اور جارحانہ رویہ پورے خطے کے امن کو برباد کر سکتا ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ پاک بھارت مسائل کے حل میں اس وقت کلیدی کردار
عالمی اداروں اور بین الاقوامی طاقتوں کا ہے۔ اگر دنیا کے ترقی یافتہ اور
طاقتور سمجھے جانے والے ممالک دونوں حریف ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے
بیٹھنے پر قائل کریں اور بوقت ضرورت اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لائیں تو
کوئی وجہ نہیں کہ باہمی معاملات کا کوئی پائیدار حل برآمد نہ ہو سکے۔ جنوبی
ایشیا میں امن کے قیام کے لیے پاکستان نے ہمیشہ سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور
کبھی بھی بھارت کی طرف سے آنے والے پتھر کا جواب اینٹ سے نہیں دیا۔ دونوں
ملکوں کے رویوں میں موجود واضح تضاد سے دنیا کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور
معلوم ہو جانا چاہیے کہ کون اعتدال پسندی سے کام لے رہا ہے اور کون شرپسندی
پھیلانا چاہتا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے
نہیں جانے دیا۔ بھارت کسی صورت بھی پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتا۔
بھارت کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کبھی ترقی نہ کر پائے، اسی
وجہ سے آئے روز بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف شور و واویلا کیا جاتا
ہے۔ کبھی پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو کبھی ملکی
ترقی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جاتی ہیں۔ کبھی سرحدی خلاف ورزیاں کی جاتی
ہیں تو کبھی بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردانہ
کاروائیاں کروا کر ملک کو کمزور کیا جاتا ہے۔ کہیں پاکستان کے حصے کے پانی
کا حق سلب کیا جاتا ہے تو کہیں بے انتہا پانی چھوڑ کر پاکستان کے زرعی
علاقوں کو ڈبو دیا جاتا ہے۔ یوں تو بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را“
ایک عرصے سے پاکستان میں جارحانہ کارروائیوں میں ملوث ہے، لیکن پاک چائنہ
اکنامک کوریڈور پر عملدرآمد کے بعد بھارت نے یہ طے کر لیا تھا کہ پاکستان
کو اندرونی و بیرونی محاذ پر ٹف ٹائم دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کبھی
کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ کر کے اور کبھی پاکستان کے اندر سنگین وارداتیں
کر کے عدم استحکام کی کوشش کر رہا ہے اور اب مذاکرات کو سبوتاژ کر کے
پاکستان پر دباو ¿ بڑھانا چاہتا ہے۔
بھارت کے جارحانہ اور امن دشمن رویے کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
وہ مزید کشیدگی بڑھانے کا خواہاں ہے اور بارڈر پر سیز فائر معاہدے کی مسلسل
خلاف ورزی سے جنگی ماحول پیدا کر کے پاک فوج کا رد عمل جانچنا چاہتا ہے۔
اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ممکنہ پاک بھارت ایٹمی تصادم کے
نتائج ہرگز محدود نہیں رہیں گے، بلکہ دنیا کے پر امن سمجھے جانے والے علاقے
بھی براہ راست متاثر ہوں گے۔ اس بنا پر عالمی طاقتوں کو فرسودہ حکمت عملی
کو ترک کرتے ہوئے وقت کی نزاکتوں کا ادراک اور بھارت کو پاکستان کے ساتھ
معطل مذاکرات کی بحالی پر آمادہ کرنا ہو گا۔ |