حرام گوشت کی فروخت....ملک بھر میں کریک ڈاﺅن کی ضرورت!
(عابد محمود عزام, karachi)
ملک کے مختلف شہروں میں
حرام اور مردہ جانوروں کے گوشت کی فروخت کی خبریں ایک عرصے سے میڈیا پر
آرہی ہیں۔ گدھوں اور کتوں کا گوشت نہ صرف چھوٹے پسماندہ علاقوں بلکہ کئی
مشہور ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں سپلائی کی خبریں بھی میڈیا کے ذریعے منکشف
ہوتی رہی ہیں، جس نے عوام کی طبیعت مکدر اور باہر کے کھانے کو مشکوک بنا
دیا ہے۔ انسانیت کے دشمن عناصر صرف اپنی جیبیں بھرنے کے لیے عوام کو حرام،
مردہ اور مضر صحت گوشت کھلا رہے ہیں۔ کتے، گدھے، مردار جانوروں کے گوشت کی
اطلات متعدد بار ملکی میڈیا پر آئی ہیں، لیکن ذمہ داروں کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں کی جاسکی۔ گزشتہ دنوں اس سے بھی بڑھ کر اس خبر نے شہریوں کو
چکرا کر رکھ دیا کہ راولپنڈی سے مال گاڑی کے ذریعے6 من خنزیر کا گوشت لاہور
پہنچایا گیا، اگرچہ اس خبر کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی، لیکن اس سے عوام
میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ ذرایع کے مطابق لاہور جیسے بڑے شہر میںقریبی
مضافات سے آنے والا 90فیصد گوشت ایسا ہوتا ہے، جس میں مردہ بھینسوں، گائیوں،
گھوڑوں اور گدھوں تک کا گوشت شامل ہوتا ہے، جبکہ دیگر شہروں میں بھی
صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بیمار، مردار اور حرام جانوروں کا گوشت
فروخت کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں، کیونکہ یہ گوشت جہاں اسلامی نقطہ نظر
سے حرام ہے، وہیں طبی ماہرین نے حرام جانوروں کے گوشت کو انسانی صحت کے لیے
انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق حرام جانوروں اور مردہ
جانوروں کے گوشت سے انتہائی مہلک امراض جنم لینے کا امکان نوے فیصد بڑھ
جاتا ہے، جس میں کینسر، کالا یرقان، خواتین میں حمل ضایع ہونے کے خطرناک
امراض سمیت دیگر کئی جان لیوا امراض کا خدشہ ہوتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کئی دنوں سے عوام کو حرام اور مضر صحت گوشت کھلانے والے
مافیا کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ انسانیت دشمن
مافیا انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے سے باز نہیں آرہا اور کارروائیوں کے
نتیجے میں روز منوں کے حساب سے حرام گوشت پکڑا جارہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی
اور محکمہ لائیو سٹاک نے مختلف شہروں میں کریک ڈاﺅن کرتے ہوئے جانوروں کا 4
ہزار کلوگرام سے زاید مضر صحت گوشت برآمد کر کے 21 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
جبکہ اسی سلسلے میں حرام گوشت پر قابو پانے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای
سی سی) نے گدھے کی کھال اور ہڈےاں برآمد کر نے پر پابندی عاید کر دی ہے،
کیونکہ گدھے کی کھال کو سپلائی کرنے کی آڑ میں گدھے کا گوشت عوام کو فروخت
کیا جاتا تھا۔ ای سی سی نے حکم دیا کہ کھال کی برآمد پر تاحکم ثانی پابندی
عاید کی جائے، جبکہ کھال کے علاوہ فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے
قوانین بنائے جائیں۔ مضر صحت گوشت فروخت کرنے والوں کے خلاف ڈائریکٹر
آپریشنز پنجاب فوڈ اتھارٹی عائشہ ممتاز کافی سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔
ڈائریکٹر آپریشنز پنجاب فوڈ اتھارٹی اب تک مختلف مقامات پر سات ہزار سے
زیادہ چھاپے مار چکی ہیں، جن میں سے اکثریت کو جرمانہ کیا یا سیل کردیا گیا
ہے۔ کئی لوگوں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی
کیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ 2011-2012 میں حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے میں فوڈ کے معیار
کو بہتر بنانے کے لیے ایک احسن قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام
عمل میں لایا گیا، جس کا مقصد صوبے میں کھانے پینے کی غیر معیاری اشیا کا
سد باب کرنا تھا، لیکن فوڈ اتھارٹی نے اس بارے کوئی خاص اقدام نہیں کیا،
بلکہ ہمیشہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کیا۔ نہ ہی اس بارے کوئی سخت قوانین
بنائے گا اور نہ موجود قوانین پر عمل درآمد کیا گیا۔ ایک بااختیار ادارہونے
کے باوجود کبھی ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
حال ہی میں صوبائی حکومت نے پنجاب ترمیمی آرڈیننس 2015 متعارف کیا، جس کے
تحت ریستورانوں کے معیار کے مطابق درجہ بندی کی جائے گی اور غیر معیاری
خوراک کی فروخت پر کڑی سزائیں ہیں۔ گزشتہ تین ماہ سے اس حوالے سے کافی
اقدامات کیے جارہے ہیں۔ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی نے شہریوں کو مہیا کیے جانے
والی اشیا خورو نوش کی جانچ پڑتال، ہوٹلوں، ریستوراٹوں، مختلف آئس کریم ،
کافی شاپس اور دیگر مقامات پر تیار ہو کر فروخت ہونے والی اشیا کی تیاری
اور معیار کا جائزہ لے کر مضر اشیا کی ضبطگی، مقدمات کے اندراج، گرفتاریوں،
جرمانے اور ایسے مقامات کو سیل کرنے کی کارروائی کی ہے۔ تین سال قبل بننے
والے اس ادارے کی کارروائیوں کے بعد شہریوں پر بہت سے ایسے حقائق آشکار
ہوئے ہیں جن کے بارے میں خرابی کا سوچنا بھی محال تھا۔ فوڈ اتھارٹی نے اپنی
کارروائی کے دوران تمام درجوں کی اشیا خورو نوش کا معائنہ کیا اور ہر جگہ
پر صورت حال غیر تسلی بخش تھی۔ فوڈ اتھارٹی نے پنجاب کے مختلف شہروں میں
فروخت ہونے والے گوشت کو چیک کیا تو حقائق خوفناک تھے۔ کئی جگہ پر مردہ
جانوروں کا اور کئی جگہ پر گدھے، گھوڑے اور کتے کا گوشت ملا، حتیٰ کہ بدھ
کے روز لاہور میں ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچنے والے گوشت کو چیک کیا گیا تو
اس کے بارے میں شبہ ہوا کہ یہ کسی حلال جانور نہیں، بلکہ سور کا گوشت ہے۔
جس پر اس گوشت کے نمونے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھجوا دیے گئے۔ اس گوشت کو لے
جاتے ہوئے ایک شخص کو پکڑا جا چکا ہے۔ راولپنڈی سے گوشت بھیجنے والے شخص کا
بھی علم ہو چکا، مگر جس شخص نے یہ گوشت منگوایا تھا، وہ ابھی تک سامنے نہیں
آیا۔ نہ ہی اسے فوڈ اتھارٹی یا پولیس تلاش کر سکی ہے۔ اشیا خورو نوش میں
ملاوٹ اور غیر صحت طریقے سے تیاری کی جو رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں، اس نے ہر
فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ جو کچھ کھا رہا ہے، اس میں کتنے
فیصد درست اور کس قدر مضر صحت اشیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر روز ہزاروں
من مضر صحت گوشت پکڑا جا رہا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں سے حالات
میں بہتری کی توقع ہے، تاہم فوڈ اتھارٹی پنجاب میں تو اس سلسلے میں کام کر
رہی ہے، مگر دیگر صوبوں میں عوام کو کیا کھلایا جا رہا ہے، اس بارے میں کچھ
نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ملک بھر میں ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائیاں
کی جائیں جو عوام کو حرام کھلا رہے ہیں۔ اس حوالے سے مضر صحت، ملاوٹ شدہ
اشیا یا مردہ جانور کی فروخت کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کے لیے
مناسب قانون اور سزائیں بھی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ایسے جرائم کرنے والوں
کو سزا بھی نہیں ملتی اور ملزم ضمانت کرا کر رہائی کے بعد دوبارہ یہی دھندا
شروع کر دیتے ہیں۔ 1963ءکے جس قانون کے تحت کارروائی کی جاتی ہے، اس میں
تین ماہ قید اور معمولی جرمانے کی سزا ہے، لیکن اب پنجاب حکومت نے مضرصحت
گوشت اور اشیائے خورونوش فروخت کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کی ہے، نئے
قانون کو منظوری کے لیے قائمہ کمیٹی کے پاس بھجوا دیا گیا ہے۔ قانون کے تحت
مضرصحت گوشت اور اشیائے خورونوش فروخت کرنے والے کو عمر قید کے ساتھ 30لاکھ
روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔
پنجاب اتھارٹی کی بھرپور کارروائیوں کے بعد اس کے اقدامات کو کافی سراہا
جارہا ہے اور تمام شہروں میں اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، لیکن ذرایع کے
مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث پنجاب فوڈ اتھارٹی
فیصل آباد کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا۔ سپلائی چین کے نظام کو بہتر
بنانے، کھانے پینے کی اشیا کے معیار کو چیک کرنے اور مضر صحت خوراک تیا ر
کرنے والی فوڈ فیکٹریوں کو ریگولیٹ کرنے کے مقاصد کے لیے فیصل آباد میں فوڈ
اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، جو فنڈز کی عدم فراہمی کے سبب 3 سال بعد
بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا، جس کے نتیجے میں فیصل آباد میں جعلی، غیر
معیاری اور مضر صحت اشیا کی تیاری و اس کی فروخت کا کاروبار اپنے عروج پر
ہے۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بعد فیصل آباد،
گوجرانوالہ، راولپنڈی اور ملتان میں فوڈ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تھا،
جس کے لیے 90 ملین روپے مختص کیے گئے، جس میں سے صرف فیصل آباد کے لیے 35
ملین روپے رکھے گئے، تاہم پنجاب حکومت کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فوڈ
اتھارٹی کو دوسرے شہروں تک قابل عمل بنانے کے لیے ضروری فنڈز کے اجرا کی
منظوری نہ دی جا سکی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مضر صحت گوشت فروخت کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں،
جن کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔ حکومت چاروں صوبوں میں اس حوالے سے
سخت قانون بنائے۔ اس جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا جائے اور اس کی سماعت
ایک ماہ میں مکمل کر کے مجرموں کو سزا دی جائے، تا کہ کوئی گروہ یا فرد
عوام کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ حکومت فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں کے بعد فوری
قانون سازی کر کے ان مقدمات کی سماعت کے لیے الگ عدالتیں قائم کر کے ملزموں
کو سزائیں دے، تا کہ ایسا جرم کرنے والا سو بار سوچے کہ یہ جرم کر کے وہ
سزا سے بچ نہیں پائے گا۔ مختلف دکانوں پر فروخت ہونے والے گوشت کی چیکنگ کا
کوئی معیار اور طریقہ کار ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ چیکنگ کرنے والے
سرکاری عملے کے احتساب کا بھی میکنزم ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ
فوڈ کے افسروں اور اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض قانون کے مطابق ضرور
ادا کریں۔ چند روپوں کی خاطر انسانی صحت اور ایمان سے کھیلنے والے بھیڑیے
کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو حرام اشیا فروخت کرنے والوں کے
خلاف سخت قوانین اور کارروائیاں ملک میں بڑھتے ہوئے ان واقعات کو لگام دینے
کا باعث بنیں گی، نیز جو حلال گوشت بھی عوام کو سپلائی کیا جاتا ہے، اس کی
فراہمی میں بھی احتیاط نہیں برتی جاتی۔ گوشت کو کھلی گاڑیوں میں لاد کر
عوام تک پہنچایا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ صحت و ایمان ہمارے
قیمتی اثاثے ہیں، جن کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے، نیز حکومت وقت کو بھی اس
سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال و
حرام چیزوں کا امتیاز ریاست کا وصف ہونا چاہیے، تاکہ عوام بلاخوف و خطر
خریداری اور باہر کھانا کھا سکیں۔ اسلامی مملکت میں اپنے عوام کو حلال اشیا
کی فراہمی حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ |
|