1965 ء کی جنگ 1948ء کے بعد
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی دوسری بڑی جنگ تھی۔1948ء کی جنگ
کا پس منظر بھی مسئلہ کشمیر تھا ۔اور 6ستمبر 1965ء کولڑی جانے والی جنگ کے
آغاز کا مقصد بھی مسئلہ کشمیر سے پاکستان کی توجہ ہٹانا تھا۔رات تین بجے کے
قریب ہندوستانی فوج نے پاکستان کی مشرقی سرحدوں سے لاہور کی طرف پیش قدمی
کرنا شروع کردی۔اس اچانک حملے کے لئے افواج پاکستان بالکل بھی تیار نہ
تھی۔اس لئے شروع میں ہندوستانی افواج کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا
اور وہ بدمست ہاتھی کی طرح آگے بڑھتے رہے۔ان کا خیال تھا کہ اس اچانک حملے
سے لاہور پر یقینا قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔ہندوستانی فوج کے جنرل
شرما نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ صبح کا ناشتہ ہم لاہور میں کرینگے۔لیکن
شائد دشمن کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ غیور اور بہادر فوج پاکستانی سرحد پر
چوکس و چکنا رہتی ہے۔انہیں دشمن کا منہ توڑجواب دینے کے لئے صرف چند منٹ
تیاری کے لئے درکار ہونگے۔اور پھر یہی ہوا اس وقت ہندوستانی افواج کا خواب
اچانک ٹوٹ گیا جب بی آر بی نہر سے آگے دشمن کو ایک انچ بھی بڑھنے کے لئے
اپنے سینکڑوں فوجی موت کے گھاٹ اتارنے پڑے۔اور وہ لاہور شہر کے اندر اخل
ہونے میں کامیاب نہ ہوسکے۔نہ صرف سرحدوں پر پاک فوج دشمن کا مقابلہ کررہی
تھی بلکہ ہمارے دیہاتی اور لاہور کے مضافات میں رہنے والے لوگوں کا فوری
ردعمل اس قدر دیدنی تھا۔کہ وہ ڈنڈے اور کلہاڑے لے کر دشمن کا مقابلہ کرنے
کے لئے سرحد کی طرف جانے لگے۔پاک فوج نے ان جوشیلے نوجوانوں اور بزرگوں کو
یہ سمجھا کر واپس بھیج دیا کہ ابھی پاک فوج کے شیر جوان آپ کی حفاظت کے لئے
سرحدوں پر موجود ہیں۔ابھی تم لوگ اپنے گھروں میں جا کر آرام کرو ہم ہیں
دشمن کے نا پاک عزائم خاک میں ملانے کے لئے اس کے باوجود زندہ دلان لاہور
کے لوگ سرحد پر پاک افواج کے لئے کھانا پہنچاتے اور زخمی سپاہئیوں کی مرہم
پٹی کرنے میں ان کی مدد کرتے رہے۔دشمن تو شائد یہ بھول بیٹھا تھا کہ جنگ تو
مسلمان کی سرشست میں شامل ہے اور اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہنستے مسکراتے لڑتے
ہوئے شہید ہونا یہ اپنے لئے اعزازاور اپنا مقصدحیات سمجھتے ہیں۔لاہور کی
عوام کی ایک اور دیدہ دلیری عجیب و غریب تھی۔وہ یہ کہ جب ان کی چھتوں کے
اوپر سے دشمن کے جہاز گزرتے تو وہ اپنی چھت سے ان کی طرف پتھر پھینکتے ۔اور
اگر کوئی پاک فوج کا جہاز دشمن کے جہاز کا پیچھا کررہا ہوتا تو تالیاں
بجاتے اور شور مچاتے ۔یہ عجیب قسم کا ماحول تھا اور لگتا تھا جیسے لاہور کا
بچہ بچہ اس جنگ میں ازخود شامل ہے۔نا صرف عام شہری بلکہ سول سوسائٹی کے لوگ
،فلاحی و رفاعی تنظمیں سول ڈیفنس اور میڈیا سے وابستہ عوام نے بھی پاک فوج
کا بھرپور ساتھ دیا۔میڈم نورجہاں کا یہ گیت آج بھی جب کانوں میں گونجھتا ہے
تو 1965ء کی جنگ کے واقعات یاد آنے لگتے ہیں۔،،اے پتر ہٹاں تے نئیں وک
دے،،اس جنگ کے بعد اس وقت کے صدر اور آرمی چیف ایوب خان نے میڈم نورجہاں کو
ملکہ ترنم کا خطاب دیا۔اور میڈم نورجہاں ملکہ ترنم نورجہاں ہوگئیں۔یہ جنگ
پاکستان کی مشرقی سرحد پر بڑی شدت سے لڑی جا رہی تھی۔اس سرحد پر واقع علامہ
محمد اقبال ؒکا شہر سیالکوٹ بھی ہے۔اور دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں کی
تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں۔کہ سب سے بڑی جنگ جو ٹینکوں سے لڑی
گئی وہ ،،چونڈھ،،کے محاذ پر لڑی گئی تھی۔جب دشمن نے سیالکوٹ کی طرف نظر بد
ڈالی تو اس نے اپنے سینکڑوں ٹینک چونڈھ کے محاذ پر پاکستانی سرحد کے اندر
داخل کردئیے۔شائد اس وقت تک پاکستانی عوام خودکش دھماکوں سے بے خبر تھی۔مگر
اس دور میں آسمان پر چمکتے سورج نے وہ نظارہ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہ
ہوا نہ سنا گیا تھا۔پاک فوج کے جوان اپنے جسموں پر بم باندھ کر دشمن کے
ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور پھر یوں ہوا کہ دشمن کے ٹینک ہواؤں میں اڑتے
ہوئے دیکھے گئے دشمن اپنے ٹینک چھوڑکرواپس بھاگ گیا اور بہت سے ٹینکوں پر
پاک فوج نے قبضہ کرلیا۔جوآج بھی ہمیں لاہور اور سیالکوٹ کے چوراہوں پر کھڑے
نظر آئیں گے۔یہ جنگ سات روز تک جاری رہی مگر ہندوستانی افواج بی آر بی نہر
سے اس طرف نہ آسکی۔پاک فوج کے بہت سے جوان اور آفیسرز شہید ہوگئے۔نہر کنارے
لاہور کے ایک گاؤں برکی کے مقام پر میجر عزیزبھٹی شہید بڑی بہادری سے 6دنوں
تک لڑتے رہے اور دشمن کے ناپاک قدموں کو روکے رکھا اور لڑتے لڑتے شہید
ہوگئے۔جنہیں بعد میں نشان حیدر کا اعزاز دیاگیا۔سات دن بعد یو این او کی
مداخلت سے جنگ روک دی گئی اور ہندوستانی ،پاکستانی افواج ایل او سی پر واپس
چلی گئیں۔یہ بے نتیجہ جنگ جو ہندوستان نے پاکستان پر اچانک مسلط کی تھی۔اس
نے دشمن کے دانت کھٹے کردئیے اور اسے دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جسے
وہ کمزور سمجھتا ہے اور نہتا سمجھ رہا تھا وہ کس قدر جری اور بہادر فوج ہے
اور نہ صرف فوج اور عوام کے جذبہ ء شہادت اور لازوال قربانیوں کی مثال بھی
اسے ہمیشہ یاد رہے گی۔کہ افواج پاکستان تنہا نہیں ہے بلکہ اس کی پیٹھ پیچھے
اس کے سچے مخلص اور وطن سے محبت کرنے والے عوام کی طاقت بھی موجود ہے۔
|