مشاورت کا جشن طلائی اور اس کا پیغام

کل ہند مسلم مشاورت کے جشن طلائی کا انعقاد 31اگست، بروز پیر دہلی میں منعقد ہوا۔ملک بھر سے بڑی تعداد میں محبان ملک وملت کی تشریف آوری، دانشوران کرام کے پرمغز خطابات، بڑے ہجوم کے باوجودنظم وضبط اورقومی میڈیا پر خلاف معمول بھرپور کوریج ، غرض ہراعتبار سے یہ ایک کامیاب تقریب رہی۔ امید ہے کہ اس میں جو اہم نکات آئے ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر آئندہ کیلئے قابل عمل، جامع اور مفید منصوبہ بھی تیارہوگا اور اس جشن سے جو حوصلہ ملا ہے، اس کے نتائج بھی خوش کن ظاہرہوں گے۔امید کہ اس کی مکمل کاروائی دستاویز کی شکل میں دستیاب ہوگی۔یہاں ہم خصوصاً نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری کے کلیدی خطبہ اور چنددیگر اہم نکات کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔

جناب حامد انصاری کا کلیدی خطبہ ایک اہم پرمغز، حقیقت افروزدستاویز ہے جس کا پہلا اہم نکتہ یہ ہے کہ مشاورت کی معنویت آج بھی اسی طرح برقرار ہے جس طرح اس کے قیام کے وقت تھی۔ ہندستانی مسلم اقلیت کے حقوق ، تشخص اور وقار کا دفاع آج بھی اہم مسئلہ ہے۔ البتہ اس نصب العین میں ’بعض عناصر توسیع شدہ اور ترمیم شدہ ‘ ہیں۔نائب صدرنے اس توجہ دلائی کہ 18کروڑ کی مسلم آبادی جو ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہے،ا س میں بڑاتنوع ہے۔ اس میں ’لسانی، معاشی اور سماجی رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ ‘سماجی تنوع میں سیاسی سوچ اور تعلیم کیلئے فکرمندی کی سطح بھی شامل ہے۔ چنانچہ حکمت عملی بناتے ہوئے اس کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ مثلا اعلا معیاری تعلیمی اداروں کے قیام کی فکر جتنی یوپی، بہار اور دیگر شمالی ریاستوں میں کرنی ہوگی اتنی جنوب میں نہیں۔ وغیرہ۔

فاضل مقرر نے تحریک آزادی کے حوالہ سے نشاندہی کی کہ ان کی بدولت مسلمانان ہند میں عدم تحفظ کی کیفیت پیدا ہوئی۔ہم تحریک آزادی کو ہندستان میں انگریزوں کے غلبہ سے شمار کرتے ہیں۔ اسی دور سے مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جانے لگا۔ آزادی کی تحریک کے دوران جب مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کی تحریک چلی اور تان تقسیم وطن پرآن کر ٹوٹی تو یہ کیفیت مزید شدید ہوگئی اورمختلف عنوانوں سے اس کو اس کے بعد بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ جناب حامد انصاری کا تاثر ہے کہ ’اس صدمہ سے نبردآزما ہونے کا عمل غیر ہموار اور بیشتر کربناک رہا۔‘

ایک جملہ کا یہ تبصرہ غالباً ان سیاسی تدابیر کی طرف اشارہ ہے جن کی بدولت مداوائے مرض کے بجائے اس کے ردعمل سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں۔ اس عندیہ کی وضاحت اس بیان سے ہوتی ہے:’ امتیازی رویہ سے انکار اور یہ اصرار کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ، حقیقت کاانکار ہے۔‘ اور یہ کہ ’ اس امتیازی سلوک (تعصب) کے خلاف احتجاج بسا اوقات ان محرکات کو تقویت پہنچاتا ہے جن کی بدولت امتیازی رویہ روا رکھا جاتا ہے۔‘ چنانچہ وہ کہتے ہیں:’’ مسلمانوں کو درپیش اس مسئلہ کا حل ایسی حکمت عملی میں ہے جس سے پرانے زخم توبھریں لیکن کوئی نیا گھاؤ نہ لگے۔‘‘اور یہ کہ’ـ’حل تک پہنچاجاسکتا ہے بشرطیکہ اولا تسلیم کیا جائے کہ ہاں امتیازی رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔ یہ ہندستانی جمہوریت کا ایک مسئلہ ہے۔ اس کو قومی یک جہتی کے دائرہ کار میں لاکر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘

یہ وہ اہم نکتہ ہے جو ہمیں اپنی حکمت عملی اخذ کرتے وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ اپنی نادانی ، جذباتیت اور حقائق سے چشم پوشی نیز کم حوصلگی کی بدولت اکثریت سے محا ذ آرائی اور علیحدگی پسندی کی سیاست ہمیں خوب بھاتی ہے۔ اس سے اورتو کچھ حاصل نہیں ہوتا ، بس ہم ذہنی آسودگی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے گناہ گار عوام کم خواص زیادہ ہیں۔ چاہے وہ علماء ہوں، سیاست داں ہوں یا اخبارنویس،سبھی مسلکی اورفرقہ ورانہ جذبات کی بھٹی سلگاکراپنی روٹیاں سینکتے ہیں۔غور کیجئے اگر ہم خود اپنے اندرکی مسلکی اقلیتوں کو برداشت نہیں کرتے ، ان کو اﷲ کے گھروں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، تو غیروں سے کس منھ سے مطالبہ کریں کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرو؟

جناب حامدانصاری نے اس مرض کے مداوا کیلئے وہی نسخہ تجویز کیا ہے جس کا ہم ذکر تو کرتے ہیں، اپناتے نہیں۔ اپنے ہم وطنوں سے بامقصدروابط اور تبادلہ خیال۔ اور یہ کام کسی قسم کے احساس کمتری یا برتری میں مبتلا ہوئے بغیر ہونا چاہئے۔ جناب انصاری نے ایک الجزائری مفکر محمد ارکون کے حوالہ دیا جن کا خیال تھا کہ ہمیں ’جدیدیت کے عنصر تنقیدی فکر کو بروئے کارلاکر جدیدیت پر تنقید کرتے ہوئے خود جدیدیت کے فروغ میں شریک بننا چاہئے مگراس کے لئے اسلامی نمونہ کو سامنے رکھیں۔‘ اس بات کوسادہ لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ذہنوں کی تربیت تنقیدی ہونی چاہئے۔’ جب کہ ہماری روایت، خاموش رہو، اف نہ کرو، جو کچھ سنو ، سرتسلیم خم کردو‘ والی رہی ہے۔اس روایتی رویہ کا ایک منفی اثر ملت اسلامیہ پر یہ پڑا ہے کہ اس نے غوروفکر سے کنارہ کشی اختیارکرلی یہاں تک کہ آیات قرآنی وقدرت کی نشانیوں پر بھی غورکرنا چھوڑ دیا ۔ اسی لئے علم کی ترقی کا وہ دور جس میں ہم 16صدی تک جئے ، بند ہوگیا۔ ستم بالائے ستم اب تو یہ تک کہا جانے لگا ہے کہ قرآن کی بس تلاوت کرلیا کرو۔ اس کا ترجمہ بھی مت پڑھو۔ جو کچھ کتاب میں فلاں حضرت نے لکھ دیا وہ کافی ہے۔قرآن میں جا بجا مظاہر قدرت کا ذکر ہے ۔ اورترغیب دی گئی ہے کہ ان پر غورکرو۔ علم ترقی پذیر ہے مگرہم نے وہاں نقطہ لگادیا جہاں علم آٹھ سو سال قبل تھا۔ لائق مقرر نے آیت قرانی کے حوالہ سے کہا
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی،
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

مشاورت کیلئے انہوں نے اک سہ نکاتی لائحہ عمل کی تجویز کی۔حسب سابق اپنے مکمل قانونی، آئینی اور معاشی حقوق کے حصو ل کی جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔خوداعتمادی کے ساتھ خوداقدامی کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور یہ کام اپنے ہم وطنوں سے فاصلہ بڑھائے بغیر کیا جائے۔ کوئی بدگمانی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ تیسرانکتہ یہ کہ اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے دنیا کے تغیرپذیر حالات کے موافق فکروعمل کی تطبیق ۔

سچررپورٹ سمیت بعض سرکاری مطالعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ طے شدہ امر ہے مسلم اقلیت محرومیوں سے دوچار ہے۔ کنڈورپورٹ کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’مواقع میں تفریق محروم طبقات کی راہ کی رکاوٹ اور غالب گروہوں کے لئے معاون ہوتی ہے۔‘ اس صورت کا مداوا ہونا چاہئے۔

جملہ رپورٹوں کو پیش نظررکھا جائے تومسلم مسائل کو چار نکات میں سمویا جاسکتا ہے۔ تشخص اور تحفظ؛ تعلیم اوربااختیاری؛ ریاستی وسائل میں مساوی حصہ داری اور؛ پالیسی سازی میں جائز حصہ داری۔مودی سرکار کے اعلان شدہ پالیسی ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘کی تحسین کرتے ہوئے نائب صدر نے کہااس کیلئے جہاں ضروری ہو،اقلیت کو دوسری اقوام کے برابر لانے کیلئے مثبت اقدام اختیار کیا جائے تاکہ ترقی کی دوڑ میں سب برابرسے شریک ہوسکیں۔ ملت میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کیلئے سماجی ، سرکاری اورانفرادی اقدامات مطلوب ہیں۔ اکثر اخباروں نے ان کے خطاب کے اسی نکتہ کو خبرکا ابتدایہ بنایا ہے۔ اس مشور ہ پر بدترین ہندو فرقہ پرستوں کو فرقہ پرستی نظرآنے لگی ہے۔ مگر سرکار خاموش ہے۔

جناب سید شہاب الدین نے اپنے استقبالیہ خطبہ میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ تقسیم کے زخموں اوراس کے بعد پے درپے مسلم کش فسادات کی مارکے باجو د ’’ملت نے خود اپن بل بوطے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو شروع کردی۔ زندگی کے تمام شعبوں میں پیش رفت کی ہے۔ اس کی اقتصادی حالت قدرے بہتر ہوئی ہے، جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ حاجیوں کی تعداد پانچ گنا ہوگئی ہے جب کہ آبادی تین گنا بڑھی ہے۔ نوجوان سول سروسز اوردیگرباوقار پیشوں اورشعبوں میں آنے لگے ہیں۔‘‘

ــ’’اب ملت تعلیمی ادارے قائم کررہی ہے۔ نوجوانتعلیم اورٹکنالوجی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ سینکڑوں نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن اب ہم کسی سے یہ امیداورخواہش نہیں رکھتے کہ وہ ہمارے آنسو پونچھے۔ ہمارے ساتھ ملک کے سیکولر عوام اورانسانیت نواز طاقتیں ہیں جو مانتے ہیں کہ ہم ملک کے لئے مفید اور برابر کے شہری ہیں۔‘‘

جناب موسٰی رضا نے اپنے مخصوص انداز میں اعداد وشمار اوربھاری بھرکم کتابوں کے حوالوں سے کہا ہماری نمائندگی ہرشعبہ میں صرف تین فیصد ہے۔جب کہ یہ 14فیصد ہونی چاہئے۔ انہوں نے علماء کو متوجہ کیا وہ اپنے وعظ وخطبوں میں قوم کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اورعلم کی دنیا میں پھر اسی طرح جھنڈے گاڑنے کی ترغیب دیں جس طرح 16ویں صدی سے قبل تک ہوتا رہا۔ انہوں ایک انگریز مصنف جارج سارٹن کی کتابؒ سائنس کی تاریخ ‘‘(History of Science) کو حوالہ دیا جو چارضخیم جلدوں میں ہے اورجسکی دو جلدیں صرف مسلم سائنسدانوں اور حساب دانوں کے کارناموں پر مشتمل ہیں ۔ باقی دو میں دنیا جہان کی سائنسی تحقیقات کا احاطہ ہے۔فاضل مقرر نے ، جو خود مدراس میں تعلیمی مہم میں مصروف ہیں کہا کہ ہم میں مسابقتی جذبہ مفقود ہوگیا ہے۔ انہوں نے خوداپنا تجربہ بتایا کہ اس سال چار سو طلباء کو ریاستی سول سروس امتحان کی تیاری کرائی گئی اوران میں پچاس کا انتخاب ہوگیا۔ کسی قوم کی ترقی کا دار و مدار تعلیم پر ہے۔ تعلیم سے مراد کچھ چیزوں کو رٹ لینا نہیں بلکہ ایسی نظرپیدا کرنا ہے کہ آدمی درپیش حالات میں سے راہ نکالنے اورجدید مسائل کو حل کرنے کیلئے آمادہ و تیار پائے۔

ہم اکثراپنے مسائل کا حل سیاسی تدبیروں میں تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جناب منظوراحمد، سابق وی سی آگرہ یونیورسٹی نے یہ انکشاف کرکے چونکادیا کہ اس وقت مسلمانوں کے نام سے رجسٹرڈ سیاسی پارٹیاں تقریبا 300 ہیں۔ ان کی کارکردگی کیا ہے؟ اگرہرایک پارٹی لوک سبھا کی صرف ایک اور اسمبلی کی5 سیٹ بھی جیتنے کے اہل ہوتی توان کے 300ممبران لوک سبھا میں اورکل 29ریاستوں میں تقریباً900 ممبران اسمبلی ہوتے۔ ان پارٹیوں کا وجود ملت کے لئے غیرمفید ہے ۔ ان میں سے بیشتر الیکشن لڑتی ہیں جس کا مقصد فائدہ غیروں کو پہنچانا اوراپنی جیب بھرنا ہوتا ہے۔

اس موقع پر ایک تفصیلی منشوربھی جاری ہوا، جس کا لب لباب یہ ہے کہ مشاورت ملت کے مسائل کے حل کیلئے جمہوری طریقہ کار پر پابندرہے گی اورانصاف پسند برادران قوم و قائدین کے ساتھ رابطہ رکھے گی ۔ ملت میں خداشناسی، خود شناسی اورحوصلہ مندی کے ساتھ آگے بڑھنے کے جذبہ کو مہمیز کرتی رہیگی۔

یہ آغاز بہت خوب ہے۔ مگر مشاورت کو ابھی لمبا سفرطے کرنا ہوگا۔ اس کو خصوصاً غیرمسلم طبقوں کو ساتھ لینے پر جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس جلسہ میں صرف چند ہی غیرمسلم تشریف لائے اور وہ بھی خصوصی مدعو کی حیثیت سے۔ اس کا مطلب یہ ہے برادران وطن تک اس کا پیغام نہیں پہنچا۔ غالباً ایک رکاوٹ اس کے نام میں ’’مسلم ‘‘ کا لاحقہ بھی ہے۔ اس کو تمام اقوام کی مشاورتی باڈی (Consultative body of Deprived Sections)کی منزل تک پہنچنے کے لئے بیشک کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.