ہندوستان میں ہسپانیہ کی تاریخ دہرانے کی سعی
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
ہسپانیہ عالم اسلام کے
حسرتوں کی آماجگا ہے ۔ جب بھی عالم اسلام کی تاریخ کے سنہرے اوراق پلٹے
جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی روشن تاریخ کا تذکرہ ہوتا ہے ہسپانیہ کی آٹھ سوسالہ
تاریخ ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتی ہے ۔اور پھر اس کے آخری انجام کی
خوفناک تاریخ ہماری تمام مسرتوں کو غم وحسرت میں تبدیل کردیتی ہے ۔ خوشی کے
آنسو خون مین تبدیل ہوجاتے ہیں ۔اندلس کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والوں کے
رونگتے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ لمحے ذہن و دماغ میں ترو تازہ ہوجاتے ہیں جب
ایک نااہل اور عیش پرست حکمراں کے سبب غرناطہ پر مسلمانوں کا آٹھ سوسالہ
دور اقتدار ختم ہوگیا تھا ۔ 806 سالوں کے بعد قلعہ الحمراء کے سب سے اونچے
برج سے ہلالی پرچم اتار کر صلیب لٹکا دیا گیا تھا ۔ تمام عیسائی مقدس مریم
کے آگے سر بسجود ہوکر خوشیوں کے ترانے گارہے تھے اور مسلمان اپنے گھروں کا
دروازہ بندکرکے اپنے نااہل حکمرانوں کی عیش پرستی کے سبب اپنی بے بسی اور
بدنصیبی پر آہ و فغاں کررہے تھے ۔ فرنانڈیز نے اندلس پر قابض ہونے کے بعد
مسلمانوں پر ایک خوفناک قیامت بپا کردی تھی ۔ مسلمانوں کو تین اختیار دیا
گیا کہ مسلمان یاتو یہاں سے ہجرت کرجائیں ، عیسائی مذہب قبول کرلیں یا پھر
قتل ہونے کے لئے آمادہ رہیں ۔ جن مسلمانوں نے مراکش کی جانب ہجرت کو ترجیح
دی انہیں بھی راستے میں قتل کیا گیا ۔ ہجرت کرنے والوں میں بیشتر اسباب نہ
ہونے کی وجہ سے سمندر ی موجوں کی نذر ہوگئے ۔ جنہوں نے عیسائی مذہب اختیار
کرکے وہاں رہنے کو ترجیح دیا انہیں بھی منافق قراردے کر قتل کردیا گیا ۔
ابو عبد اﷲ، ان کے چچا سلطان الزغل اور حکومت کے جن افسران نے اپنے ضمیر کا
سوداکرکے فرنانڈیز کا ساتھ دیا تھا انہیں بھی اس ظالم نے یہ پیغام سنادیا
کہ آپ سے جو کام لینا تھا و ہ ہم لے چکے ہیں اب آپ کے لئے اس ملک میں کوئی
جگہ نہیں رہ گئی ہے ہم آپ پر اتنا رحم کرسکتے ہیں کہ آپ کو ہجرت کی اجازت
ہے ۔
یہ اس اندلس کے خوفناک انجام کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جہاں 92 ہجری۔711
عیسوی میں وہاں کی مظلوم عوام کی فریاد سن کر مراکش سے طارق بن زیاد نے قدم
رکھا تھا اور شاہ ہسپانیہ راڈرک کو ایک انقلاب آفریں اور عہدساز شکست سے
دوچارکرکے اندلس کو اسلام کی کرنوں سے منور کردیا تھا ۔ موسی بن نصیر نے ان
کا ساتھ دے کر اسلامی فتوحات کا سلسلہ فرانس تک پہچادیا ۔ موسم سرما کے
گذرجانے کے بعد ا سلام کے ان دوعظیم جرنیلوں کا منصوبہ اسلامی فتوحات کا
سلسلہ سوئز لینڈ ، ہنگری ، آسٹریا کے راستہ سے گذر کر قسطنطنیہ تک پہچانے
کا تھا ۔ لیکن دمشق میں خلیفہ کی تبدیلی سے ان عظیم جرنیلوں کی الوالعزمی
افسردگی میں تبدیل ہوگئی ۔ سلیمان بن عبدالملک کی اناپرستی اور کوتاہ نظری
نے ایک طرف یورپ اور دوسری طرف جنوبی ایشا کو اولین عہدمیں اسلام کی شعاؤں
سے محروم کردیا ۔ فاتح اندلس طارق بن زیاد ،موسی بن نصیر اور دوسری طرف
فاتح سندھ محمد بن قاسم کو مہم سے واپس بلاکر قید کی کالی کوٹھریوں میں ڈال
کر مسلمانوں کے روشن مستقبل کو تاریکی میں تبدیل کردیا ۔پچاس سالوں بعد
اموی خاندان کے آخری چراغ عبد الرحمن الداخل نے اندلس پہچ کر یہاں کی بکھری
ہوئی مسلم سطلنت کے شیرازہ کو جمع کیا ۔ اس کے نوک وپل کو سنوارا ۔ اپنی
کرشماتی شخصیت اور بے مثل قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت مسلمانوں کو متحد کیا
، ایک مضبوط اور عظیم سلطنت کی داغ بیل ڈالی ، تحقیق و ریسرچ کا کام شروع
کیا ۔ فوجوں کو باضابطہ طور پر تنخواہ دینا کا نظام شروع ہوا ،سماجی انصاف
اور عدل و دادرسی نے کمزور طبقوں میں زندگی کی حرارت بھر دی ،اندلس میں
مدرسے ، کتب خانہ اور ریسرچ ادارے قائم ہوئے ،عرب اور مشرقی ممالک سے بیج
پودے منگواکر نئی فصلوں ، پھلوں اور پھولوں سے اندلس کی سرزمین کو روشناس
کرایا گیا ،یوں دیکھتے ہی دیکھتے اندلس ساری دنیا کی توجہ کا مرکزبن گیا ،تاجروں
، طالب علموں سیاحوں کا پسندیدہ ملک بن گیا ، عبد ا لرحمن الداخل نے اپنے
32 سالہ دوراقتدار میں جس حکومت کی داغ بیل ڈالی تھی اس کا اثر تقریبا آٹھ
صدی تک برقرار رہا ، ان آٹھ سو سالوں میں اندلس کو مختلف مرتبہ تاریخ کے
نازک دور سے گزنا پڑا ، حکمرانوں کی عیش پرستی ، جاہ طلبی اور آپسی انتشار
کے سبب بارہا عیسائیوں نے اندلس کو چھیننے کی کوششیں کی لیکن کبھی مراکش سے
کوئی یوسف بن تاشقین ان کی مدد کو پہچا تو کبھی خود وہاں کی غیور عوام نے
دشمنوں کی سازش کو ناکام بنایا ۔ لیکن رفتہ رفتہ مسلم سطلنت ختم ہوتی گئی ،
قرطبہ ، اشبلیہ جیسے کئی اہم صوبے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے اور نویں
صدی ہجری میں ہمیشہ کے لئے وہاں سے مسلمانوں کا چراغ گل ہوگیا ۔ ابوالحسن
جیسے جری اور بے باک حکمراں کے عیاش پرست اور لالچی بیٹے ابو عبداﷲ نے
مسلمانوں کی آخری جائے پناہ غرناطہ پر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کرکے قبضہ
کرلیا اور پھر چندسالوں بعد897/1492 میں غرناطہ کی چابھی بھی فرنانڈیز کو
گلدستہ کی شکل میں پیش کرکے عالم اسلام کی آٹھ سو سالہ روشن تاریخ کو ہمیشہ
کے لئے ماضی کا کربناک واقعہ بنادیا ۔
اندلس پر فتح کے بعد عیسائیوں کو نئی توانائی ملی ، ان کے پژ مردہ حوصلوں
میں جان آگئی ۔ امریکہ کی بازیافت کے بعد انہیں اپنی منزل مقصود ملتی ہوئی
نظر آئی اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت مسلمانوں کا گھیر اؤ شروع کردیا ،ایک
طرف سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کی سازش رچی گئی، فلسطین کو واپس لینے کے
لئے خانماں برباد یہودیوں کو وہاں بسانے کی ترکیب عمل میں لائی گئی ۔دوسری
طرف ہندوستان میں ان لوگوں نے اندلس کی تاریخ دہرانے کی منصوبہ بندی کردی ،
لیکن یہاں کے دور رس علماء نے مسلم حکومت کے خاتمہ کے باوجود بھی انگریزوں
کو ان کے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور اندلس کی تاریخ سے سبق لے کر
یہاں مدارس کا کچھ ایسا جال بچھایا کہ مسلمانوں کا ایمان محفوظ و سلامت رہا
۔ انگریزوں کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہچانے اور ہندوستان میں اندلس کی
تاریخ دہرانے کی کوششوں میں عیسائی مشنری تو کامیاب نہیں ہوسکی لیکن یہاں
کے کٹر ہندو شدت پسندوں نے اس پر عمل در آمد شروع کردیا ، 1925 میں آرایس
ایس قائم کرکے مسلمانوں کو بالکلیہ ان کے مذہب سے دور کرنے اور سیاسی جاہ
ومرتبت سے محروم رکھنے کی ایک نئی تدبیر اختیارکی گئی ۔ طویل جدوجہد کے بعد
آخر یہ لوگ بھی کامیاب ہوگئے ۔ اور 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں اکثریت کے
ساتھ حکومت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرہوگیا ۔کہنے والے کہ سکتے ہیں کہ
بی جے پی کی حکومت تو اس سے پہلے بھی تھی لیکن ایسا نہیں ہے دونوں میں فرق
ہے وہ خالص بھاجپا کی حکومت تھی اور یہ آرایس ایس کی ہے ۔
لوک سبھا میں اکثریت کے بعد اب آر ایس ایس کی پوری کوشش راجیہ سبھا میں
اکثریت حاصل کرنے پر مبذول ہے ۔عام انتخابات کے بعدہوئے چار صوبوں میں ملی
کامیابی سے اس سمت میں بھی وہ آگے بڑھ چکی ہے اور ایک بڑی کامیابی کے لئے
بہار میں قتح کا علم لہرانا چاہتی ہے ۔ جس کے بعد ان کی اگلی منزل یوپی ہے
۔راجیہ سبھا میں اکثریت کے بعد یقینی طور پر قانون میں تبدیلی کا پورا موقع
ملے گا اور ہندو راشٹر کے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہچانے کا راستہ مکمل
طور پر صاف ہوجائے گا ۔پھر آگے کیا ہوگا اس کے اشارے ابھی سے مل چکے ہیں ۔
قدیم عدالتی نظام کی تبدیلی ، مجرموں کی رہائی ، مسلمانوں کے ساتھ امتیاز،
تعلیم کا بھگوا کرن، یوگا اور دیگر خالص ہندو عقائد کو ملک کے کلچر کا حصہ
بنانا ، مسلمانوں کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی ، مسلم فرمارواؤں کی تاریخ
کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان کے آثار کو مٹانے کی کوششیں اسی سلسلے کی ایک کڑی
ہے ۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بابری مسجد کے سلسلے میں صاف طور پر کہ بھی
چکے ہیں کہ راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے سبب ابھی ہم اس پر کوئی فیصلہ
نہیں لے سکتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ بہار اسمبلی الیکشن میں جیت کے بعد موجودہ برسراقتدار پارٹی
راجیہ سبھا میں اکثریت ثابت کرنے قریب ہوجائے گی جس کے بعد قانون کی تبدیلی
کا اسے کلی طو ر پر اختیا ر ہوگا اور ملک کے جمہوری رہتے ہوئے بھی بہت کچھ
اس طرح بدل جائے گا جس کا مسلمانوں نے کبھی اداراک بھی نہیں کیا ہوگا ۔اب
یہ فیصلہ یہاں کی مسلم قیادت اور دانشوران کو کرنا ہے کہ و کیا چاہتے ہیں
اور اس طوفان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے گا ۔ دین دستو ر بچاؤ تحریک کا
آغاز کرکے ، مسلم ووٹوں کی بنیاد پر انتخابی مہم چھیڑ کر ، ہندومسلم کی
سیاست کو فروغ دے کر ، مسلمانوں کو اشتعال انگیزی میں مبتلا کرکے یاکسی اور
طریقہ کو اپنا کر ۔
ویسے اندلس کی تاریخ ہم سے یہ کہ رہی ہے کہ جو قوم ایمان وعمل ، صالح نظم و
ضبط ، محنت و مشقت ، امانت و دیانت ، حکمت و مصلحت اوراتحاد و اتفاق سے
مالامال ہوتی ہے وہ زمانہ کو مسخر کرلیتی ہے اور جو ان سے محروم ہوجاتی ہے
زمانے کے ہاتھوں فنا ہوجاتی ہے وقت انہیں صفحہ ہستی سے کچھ اس طرح مٹادیتا
ہے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا ۔ |
|